دہشتگرد تنظیم کوملہ

۱۳ فروری کو مھاباد کی بیرکوں پر ڈیموکریٹ پارٹی کے قبضے کے بعد، ۵ مارچ ۱۹۷۹ کو ایک بیانیہ جاری کرتے ہوئے ایرانی عوام کو اس کامیابی کی مبارکباد دی گئی۔ کوملہ نے کردستان کی خودمختاری کے ساتھ ساتھ، مغربی آذربائیجان، ایلام اور کرمانشاہ کی جدائی کا بھی مطالبہ کردیا اور مختلف علاقون میں محاذ آرائی کے بعد سقز شہر پر تسلط حاصل کرنے کے بعد اپنی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا۔

تبریز فوجی بیرکس کا سقوط

محمد زادہ اور بنابی نے جا کر آیت اللہ قاضی کی تحریر بید آبادی کو دکھائی جو اسوقت تبریز کے بیرکس کا کمانڈر تھا اور کہا کہ یہ بیرکس فی الحال امام خمینی رح کے نمائندے کے زیر نظر کام کرے گا اور بیدآبدی کو بغیر کسی مزاحمت کے نہتا کرکے آیت اللہ قاضی کے گھر لے آئے۔ بیدآبادی آیت اللہ قاضی کے گھر میں نہایت محترمانہ انداز سے قید کیا جاچکا تھا اور یہ خبر کہیں بھی نہیں پھیلی تھی۔ ظہر کے بعد عوام کو خبر ملی کہ تبریز کی فوجی بیرکس بھی سقوط کرگئی ہیں۔

مجاہدین خلق سے امام خمینی رح کی بے اعتنائی

جب ہم امام خمینی رح کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا کہ مجاہدین خلق سے متعلق تین چار کتابچے انکے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات شروع کرتا امام خمینی رح نے ان میں سے ایک کتابچہ اٹھایا اور فرمانے لگے مثلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی اخلاقیات کو مارکسسٹ اقتصادی نطرئیے سے مخلوط کردیا جائے؟

امام خُمینی کی رہائی کے بعد قم واپسی

جو  چیز میرے لئے جالب تھی کہ بہت سے پُراخلاص لوگ ایسے بھی تھے جووضو کر رہے تھے۔ ہمیں کچھ ہوش  نہیں تھا، بس امام خُمینی کی زیارت کرنے کے شوق میں یخچال قاضی میں انکے گھر کی جانب دوڑے جارہے تھے

اسلام کا  دفاع ہم سب کی ذمہ داری ہے

علمائے نجف کے نام امام خُمینی کا خط

درحال حاضرہمارا سامنا ایک ایسے سسٹم سے ہے جو ایک ایک کرکے دین اسلام کے احکام کو تبدیل کررہاہے۔  وہ اپنے بیان میں اسکا صراحت کے ساتھ اعلان کرچکا ہے مرد اور عورت کو مساوی حقوق دیئے جائیں اس عنوان سے انھوں نے اسلام کے بنیادی و ضروری احکام تک پائمال کردئیے ہیں

شیعہ قوم فلسطین کے قابضوں سے متنفر ہے

امام خُمینی نے فروری ۱۹٦۴میں ایک بیانیے کے ذریعے سے فلسطین کے قابضوں کے تسلط اورپہلوی حکومت کے توسط سے بہت سے کاموں میں ان کی دخل اندازی اور ملک کی اقتصادیات پر قبضے کو افسوسناک ٹھرایا۔  بیانیہ کچھ یوں تھا۔

۱۵ خرداد(۵جون) کے نوٹس کی اشاعت

میں نے متن لیا اور دس ہزار چھاپ دئیے اور اپنے پیسے لے کر پمفلیٹ دے دئیے۔  اس کے پیسے ۳۲علمائے کرام نے مل کر ادا کئے تھے

محرم میں فیضیہ کی روایت

جب بننے کا عمل تمام ہوا تو میں نے ان دونوں میں ایک سے کہ جسکا نام جلیل تھا،  بات کی کہ اور کہا کہ اس کے لئے پتھر کی  ایک تختی تراشو اور اس پر لکھو کہ یہ کام امام خُمینی کی مرجعیت کے زمانے میں ہوا ہے

شہید عراقی سے غیر متوقع ملاقات

میری جیب میں بہترین قسم کاتھامیں نےگھبراتےہوئےاسےباہرنکالااوراضطراب کےساتھ کہا:  "حضرت آیت اللہ !اگرممکن ہےتونمازکےوقت یہ عطرآپ کےساتھ رہے!

قصہ عظیم الشان مظاہروں کا

ہم نے ایسے ہی چلتے چلتے ٹرکوں کو دیکھا جو مسلح جتھوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دو روز قبل ہی کہا گیا تھا کہ حکمران جمعرات کو فائرنگ اور حملہ کے لئے تیار ہے۔ ہم نے ان دھمکیوں کی پرواہ نہیں کی تھی۔ خواتین نے، ان بہادر بہنوں نے اس دن معرکہ سر کیا تھا
...
11
...
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔