میں اپنی یادوں سے پیچھے نہیں ہٹونگا

ایک جگہ لکھا کہ بیژن جلالی مجھ سے ۱۰ سال بڑا تھا اور دوسری جگہ کہ شاپور بنیاد ۱۰ سال مجھ سے چھوٹا تھا اور دونوں چل بسے اور میں نے لکھا کہ اگر ملک الموت باری باری پھرتا تو بیژن کے بعد میری باری تھی نہ کہ شاپور کی اور یہاں لکھ رہا ہوں کہ ھوشنگ گلشیری میرے ھمسن و سال تھے وہ بھی چلے گئے اور اگر مدت زمان کا حساب کتاب ہوتا، مجھے بھی اسکے مرنے کے ساتھ اس جہان سے کوچ کرجانا تھا۔

سیاسی قیدی اور عید نوروز

پہلوی دور میں قیدی کمترین امکانات کے ساتھ بہار کی آمد کا جشن مناتے تاکہ بتاسکیں کہ موسم سرما کا اختتام ہوچکا ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد خاص شرائط میں پیش آنے والے ان قیدیوں کے مختلف گروہوں کے قصے و واقعات قلمبند کیے گئے جو اس دور کے تلخ و شیریں ایام کی یادگار ہیں۔

زبانی روایت کا مطالعہ؛ خدو سردار، سرکشی سے حکمرانی تک

کتاب فرمانروای جنگ و موسیقی کو پڑھنے والے کے ذہن میں سب سے اہم سوال جو آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا مصنف نے اس کتا ب میں اس علاقہ کی شناخت کے عناصر کو بیان ہے؟

مبارز و مدافع انقلاب ایران حجت الاسلام غلام رضا اسدی کی زندگی کےمختصرواقعات

آیت اللہ خامنہ ای کو اسی جیل میں لایا گیا، ایک افسر جو سید اور شیخ میں فرق نہیں کرسکتا تھا، آقا کی داڑہی مونڈنے کہ بعد ان سے کہتا ہے " شیخ صاحب، کیسا ہے اب؟!"۔ انھوں نے آیینے میں دیکھا اور اس سے جواب دیتے ہوئے کہا:" بہت ہی خوبصورت اور حسین لگ ہو گیا ہوں، خیر اب تمہارا مقصد کیا ہے؟ یہ داڑہی تو دوبارہ نکل آئے گی" ۔

امیرانی اور ان کا میگزین "خواندنی ھا"

خواندنی ہا رسالہ کہ جس کی اشاعت تقریبا چالیس سال پر محیط تھی اس کا پہلا ایڈیشن رضا شاہ کہ آخری دور میں شایع ہوا اور آخری ایڈیشن انقلاب اسلامی کے آخری سالوں یعنی ۱۳۵۸ شمسی میں شایع ہوا۔

ایک تصویر کی کہانی

کتاب کی جلد کے لئے کس طرح تصویر کا انتخاب کیا گیا

مجھے خیال آیا کہ ان کی تصویر اسی ناک سے دو حصوں میں تقسیم کردوں اور آدھی تصویر سرورق پر اور آدھی پشت پر چھپواؤں تاکہ ناک کی اصل بناوٹ دیکھنے والے پر گراں نہ گزرے اور پھر یہی میں نے کیا

آیت اللہ یحیی انصاری شیرازی

یہ استاد کی سادہ زیستی اور فروتنی تھی جو بزرگی اور ضعیفی کے باوجود ہماری میزبانی کو قبول کیا، اور اس سادگی نے ہمیں اپنی پرخلوص محبت کے حصار میں لے لیا۔

اصحاب جمعرات

اگر گلشیری کی ادبی زندگی میں دقت کریں تو ہم کئی پر تلاطم موجوں کا ملاحظہ کریں گے جو ابھی تک ہمارے پاس آچکی ہیں اور ہم سے بھی گزر جائیں گی۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ اس مقالہ کا عنوان یہ ہو: گلشیری، ایک موثر لکھاری۔

صادق طباطبائی

یادوں کو بیان کرنے والا شخص

ڈاکٹر سید محمد صادق سلطانی طباطبایی بروجردی کہ جنکو سب صادق طباطبائی کے نام سے جانتے تھے۔ رواں ماہ، سرطان( کینسر) کے خلاف ایک قابل ستائش مزاحمتی جنگ لڑ تے ھوئے، دار فانی سے کوچ کر کے، اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان لوگوں کے لئے،جو کہ تاریخ شفاہی پر کام کر رھے ھیں، صادق طباطبائی ھمیشہ ایک گرانقدر سرمایہ رھے، کیونکہ ان کے پاس، انقلاب اسلامی سے مربوط، بہت سے موضوعات پر، بہت ساری باتیں، مشاھدات اور یادداشتیں موجود تھیں۔ خاندانی حسب و نسب، جرمنی کی...

انقلاب کی تا ریخ نگاری کا ایک نیا باب

انقلاب اسلامی کےثقافتی محاذ کی زبانی تاریخ

ہائی اسکول کی تاریخ لکھنا یعنی اپنی ذات میں ایک لشکر، کی تاریخ لکھنا انقلاب اسلامی کےثقافتی محاذ کی تاریخ شفاھی، انقلاب کی تاریخ نگاری کا ایک نیا باب ہے۔
...
31
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔