میں نے ان سے عرض کیا: ’’جناب ماموستا پہلے بات تو یہ ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نہ میں شاہ ہوں اور نہ جناب عالی بادشاہ۔ حقیر ہرگز آپ کے لیے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرسکتا۔ میں آپ کا طالب علم ہوں اور مہمان بھی۔ اگر آپ مجھ سے ناراض ہیں تو میں کل ہی گاؤں چھوڑ کر جانے کو تیار ہوں۔‘‘
کہیں کہیں مساجد کی شوریٰ کو سیکیورٹی کے لئے آئے جوانوں سے مشکلات اور اختلاف رائے ہوتا تھا۔ انہیں مسجد میں میٹنگز کرکے ان مشکلات کو حل کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ضروری ہوجاتا تھا کہ وہ مرکزی کمیٹی کے پاس واپس جائیں اور مشورہ کرکے آیت اللہ مہدوی کنی سے رائے لیں یا انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ لوگ خود فیصلہ لیں۔ حقیر بھی اپنی پہلی باضابطہ سرگرمی کے لحاظ سے مرکزی کمیٹی میں نگرانی کے شعبے میں تھا۔
پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ مجھے بغیر بتائے اتنی رات تک گھر سے باہر رہا ہو۔۔۔ رات کے قریب ڈھائی بجے تھے کہ آخرکار دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا تو میری جان نکل گئی۔ میں نے دیکھا کہ پولیس موبائل، گویا جلتے پر تیل چھڑک دیا ہو میں مزید پریشان ہوگئی۔
’افتا‘ کے امتحان میں مختلف مضامین تھے؛ صرف، نحو، منطق، بلاغت، اصول، تفسیر اور فلکیات۔ اکثر مضامین کے لیے ضروری تھا کہ میں اس علم کے ماہر بزرگ علماء سے رجوع کروں۔ اس امتحان کی تیاری کے لیے میں نے دو سال تک بڑی مشقتیں اٹھائیں؛
انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے ساتھیوں نے غیرملکی مشیروں پر حملے کے لیے بہتر جگہوں کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے مجھ سے ان جگہوں کا جائزہ لینے کو کہا۔ اس طرح ہم نے اگلی راتوں میں خوانسالار جیسی جگہوں کا جائزہ لیا۔
ہم مجبور تھے، اس وجہ سے کہ کہیں ہم سے شناختی کارڈ نہ مانگ لیا جائے، ہم گاڑی میں نہ بیٹھ کر پیدل ہی دیوانہ پل گاؤں کے لیے روانہ ہوگئے، جو دربندی خان کے جنوب میں 500 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ جب ہم پل پر پہنچے تو وہاں صرف ایک پولیس اہلکار ہی تعینات تھا۔ اس نے ہمیں دیکھا اور کہنے لگا: ’’آپ لوگ گاڑی سے کیوں نہیں جارہے؟‘‘
کچھ طلباء کے ہاتھوں، کوروش سینما گھر کو نذر آتش کیے جانے کا واقعہ بھی انہی دنوں رونما ہونے واقعات میں شامل تھا اور یہ واقعہ پہلوی حکومت کے خلاف تحریکوں کو تیز کرنے میں اس حد تک مؤثر ثابت ہوا کہ شہریوں میں جنوری 1979(بھمن 1357) کے دوران فیروز آباد میں ساواک کی عمارتوں، پولیس ہیڈکوارٹر اور گورنر ہاؤس پر حملہ کرنے کی جرأت آگئی اور انہوں نے انقلاب کی فتح سے پہلے ہی ان جگہوں کو قبضے میں لے لیا۔
ملا مجید، بہت بوڑھے اور ضعیف تھے اور بہت کم ہی اپنے گھر سے باہر آتے تھے۔ ان کا گھر ملاویسی مسجد کے سامنے سنندج کے ایک بدنام محلے کے پاس تھا۔ پہلوی حکومت نے بری خواتین کو وہاں جمع کردیا تھا اور اس محلے میں وہ جسم فروشی کرتی تھیں
نیوز انٹرویو عام طور پر واقعے کے نزدیک وقت میں انجام دیا جاتا ہے۔ عجلت کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ انٹرویور کو وقت کی قلت ہو اور وہ خبر کی ترجیح اور اہمیت کی بنا پر سوالات پوچھے لیکن زبانی تاریخ کے انٹرویو میں، وقت کی قلت بہت کم ہی ہوتی ہے اور یہ انٹرویوز، راوی سے درست اور جامع شواہد ریکارڈ کرنے کی خاطر، لیے جاتے ہیں
کانی میران(گاؤں)
چھ ماہ بعد، یعنی سن 1972(1351) کے موسم خزاں کے آخر میں، میں دورود گاؤں کو چھوڑ کر کانی میران گاؤں چلا گیا اور ماموستا ملا علی سعادتی افشاری کی خدمت میں علم منطق کی عبد اللہ یزدی کی کتاب ’موجّھات‘ کے باقی حصے کی پڑھائی شروع کردی۔ مجھ سے کم سطح کے تین چار طالب علم میرے ساتھ تھے اور بہت کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے الگ ہوں۔ البتہ اس بار کانی میران، سن 1968(1347) کے کانی میران سے بہت مختلف تھا اور تعلیم، لوگوں کے احترام اور رہنے کی
جنگ کے ابتدائی مہینوں کے دوران دشمن کی شدید گولہ باری اور لڑائی والے صوبوں کے طبی مراکز کی محدودیتوں کے باعث زخیموں کی طبی امداد بہت دشوار تھی۔ سپاہ کے میڈیکل یونٹ میں بھی اس کے حالیہ قیام کی وجہ سے ابھی تک مؤثر خدمات کی صلاحیت اور گنجائش موجود نہیں تھی۔
ایک دن میں تجسس سے انہیں ایک کونے میں لے گیا اور جتنی مجھے عربی آتی تھی اس میں، میں نے ان کہا: ’’لبنان، مشرق وسطیٰ کی دلہن مانا جاتا ہے۔ کیا آپ کا دماغ خراب ہے جو آپ اس گاؤں میں آگئے ہیں کہ جہاں کسی بھی قسم کی حفظان صحت اور فلاحی سہولیات میسر نہیں ہیں۔‘‘
کہیں کہیں مساجد کی شوریٰ کو سیکیورٹی کے لئے آئے جوانوں سے مشکلات اور اختلاف رائے ہوتا تھا۔ انہیں مسجد میں میٹنگز کرکے ان مشکلات کو حل کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ضروری ہوجاتا تھا کہ وہ مرکزی کمیٹی کے پاس واپس جائیں اور مشورہ کرکے آیت اللہ مہدوی کنی سے رائے لیں یا انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ لوگ خود فیصلہ لیں۔ حقیر بھی اپنی پہلی باضابطہ سرگرمی کے لحاظ سے مرکزی کمیٹی میں نگرانی کے شعبے میں تھا۔
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔