میں بھی ہاتھ اوپر اٹھائے اس جوان کی طرف بڑھا۔ اس جوان نے ہم سب کو پرسکون رہنے اشارہ کیا اور فارسی میں کہا کہ " تم سب امان میں ہو اور اسلام کی پناہ میں ہو۔"
اس سپاہی کی موت نے ہمارے لیے ہدایت کے راستے کھول دیئے۔ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہمیں کامیابی یا شہادت نصیب کرے اور زمین پر کمزور طبقے کو رہائی ملے جیسا کہ اللہ کا یہ وعدہ بھی ہے۔
وہ صدام کا حامی تھا اور گفتگو کے دوران بہت نازیبا الفاظ ایرانی حکام اور امام خمینی حفظہ اللہ کی توہین کر رہا تھا۔ وہ یہ بات منوانا چاہ رہا تھا کہ ایران نے اس جنگ آغاز کیا اور اسے اس جارحیت کا جواب ملنا چاہیے۔
وہ ہمیں گاڑی میں سوار کرکے مشترکہ کمیٹی کی جیل میں لے گئے۔ اس وقت سڑکوں پر سناٹا طاری تھا۔ فوجی حکومت نے سڑکوں پر یوں دھاک بٹھا رکھی تھی جیسے شہر میں کوئی نہ ہو۔
اپنے لشکر مین اسلحے اور لڑنے والوں کی بہتات کے باوجود بہت جلد ہمارا مورال گر گیا۔ زخمیوں کی تعداد میری سوچ سے زیادہ ہو گئی۔ اتنی تیاری کے باوجود پندرہ دنوں میں ہم دو کلومیٹر سے زیادہ پیش قدمی نہ کر پائے تھے
جنگ کے اوائل میں سوسنگرد کے کئی دیہات آفیسر طالع دودی نے قبضے میں لے لئے۔ ایک دیہات کا کافی حصہ کھنڈر بن چکا تھا اور جو گھر بچ گئے تھے وہاں زیادہ تر بوڑھے مرد و خواتین تھے جو کثیر العیال تھے اور ان گھروں میں جوان نہ تھے
سردیوں کے دن تھے اور گھمسان کا رن تھا۔ آپ کی جانب سے ایک ایک شدید جوابی کارروائی ہونی تھی جسے ہم نے ناکام بنا دیا۔ لیکن اس مختصر معرکے میں ہمارے اچھے خاصے جوان مارے گئے
فوج نے اہواز میں مارشل لاء کا اعلان کر دیا تھا اور ٹینک سڑکوں پر آ گئے تھے۔ دہشت پیدا کرنے کی خاطر وہ سڑک کے کنارے کھڑی گاڑیوں پر ٹینک چڑھا کر انہیں کاغذ کی کچل رہے تھے
سامنے سے بلند و بالا قد و قامت کے چند سپاہی اپنی جانب آتے ہوئے دیکھے۔ انہوں نے ہمارے دونوں ٹینکوں کو فورا تباہ کیا اور ہمیں قیدی بنا لیا۔ اب قریب سے انکو دیکھا تو وہ اٹھارہ بیس سال کے پھرتیلے جوان تھے
17 مارچ 1982 کو ایک بہت بڑے حملے کا ہمیں حکم دیا گیا جس کامقصد یہ تھا کہ سرحد کے اس پار "دریاےکرخہ" کے ساتھ "شوش" کے علاقے میں آپ کی فوج پر مسلسل حملے کرتے ہوئے عقب نشینی پر مجبور کریں
وہ ہمیں گاڑی میں سوار کرکے مشترکہ کمیٹی کی جیل میں لے گئے۔ اس وقت سڑکوں پر سناٹا طاری تھا۔ فوجی حکومت نے سڑکوں پر یوں دھاک بٹھا رکھی تھی جیسے شہر میں کوئی نہ ہو۔
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔