ہوں نے بھائی سے کہا کہ کپڑے پہن کر آجائے۔ جب انہوں نے پوچھا کہ کہاں اور کس لئے لے کر جارہے ہیں تو ان کے سوال کے جواب میں کہا سیکیورٹی ایجنسی نے آپ کو بلایا ہےآپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔ میرے بھائی نے دوبارہ سوال کیا کہ کس لئے لے کر جارہے ہیں تو جواب دیا گیا کہ وہاں پہنچ کر آپ کو تفصیل سے بتائیں گے۔
یہ اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز اور منحصر بہ فرد واقعہ تھا۔ ظاہرا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ پہلی مرتبہ مغیر کسی منصوبہ بندی کے امام خمینی رح کے نام پر ایسا رد عمل دیکھنے کو ملے گا۔
انہیں مشکلات کی وجہ سے سن ۱۹۷۸ میں پورے ملک میں سینسر کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ محمد بلوری جو اس زمانے کے معروف صحافی ہیں لکھتے ہیں کہ ۱۹۷۸ کے ایک دن تقریبا ساڑھے نو بجے صبح دو فوجی افسر آفس میں داخل ہوئے۔ اپنے تعارف کروائے بغیر وہ چیف ایڈیٹر کے دفتر میں گھس گئے
ہندوستان میں گذارے ہوئے آخری سالوں میں ہمیں کئی ایک تلخ تجربات ہوئے جیسے جنگ بندی کی قرارداد اور اس پر امام خمینی کا ناخوش ہونا، خود امام خمینی کی رحلت اور ۱۳۶۹ میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تعینات ایرانی سفیر شہید گنجی کی لاہور میں شہادت۔
مال برداری کے دن ہمارے پاس کوئی اچھا سامان لے جانے کو نہ تھا یہاں تک کہ ایک کارآمد فریج تک نہ تھا ۔ وہ احباب جو سامان ڈھونے آئے تھے وہ بھی حیران تھے کہ ہم کیسے یہاں رہ لئے وہ کہتے تھے کہ ہم تو ایک دن بھی اس کھنڈر میں نہ رہ سکیں میں نے مسکرا کر کہا: -مگر ہم چار سال یہاں رہے ہیں۔
میں نے اٹیچی اٹھا کر کمرے کے بیچوں بیچ رکھ دی۔ ہر سال گرمیوں کے آخر میں ہم سب ایک ساتھ ایران جایا کرتے تھے۔ بچے مارے خوشی کے اچھلتے کودتے اپنے کھلونے اٹیچی میں بھر رہے تھے۔ علی نے وعدہ کیا تھا کہ رات کو بچوں کو کچھ خریداری کے لئے باہر لے جائے گا اس خوشی میں ان کو قرار نہ تھا۔
میرے بھائی آسٹریا میں رہتے ہیں۔ وہیں مقیم ہیں اور گھر بار بھی وہیں ہے۔ پچھلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں ایران آئے تھے۔ ان کا طرز تفکر مجھ سے بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا: " میں دعوت نامہ بھیجوں گا تم اپنے بچوں کو ایک ایک کرکے میرے پاس بھیجو اور مجھ سے ڈاکٹرز اور انجینئرز واپس لے لو۔"
خرم شہر! تو اب آزادی کا پیام بر ہے، تاریخ تیرے نام کو بڑے تقدس کے ساتھ لکھے گی اور آئندہ آنے والی نسلیں اسے پڑھ کر ایمان اور شجاعت کا درس لیں گی۔ خرم شہر! ہم تیری طرف آئیں گے ، قدس کی جانب ہمارے رستے کھول دے۔
شاہ اسکوائر پر پہنچنے سے پہلے شہرداری کی بلڈنگ کے پاس عوام کو روک لیا۔ میں خود فائر بریگیڈ کی گاڑی کے پاس پہنچا تاکہ اسکے اوپر چڑھ کر تقریر کرسکوں۔ جیسے ہی گاڑی پر چڑھنے لگا، شہرداری کے ڈائریکٹر نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی، میں نے اس کے سینے پر مکا مار کر اپنے آپ سے دور کیا۔
میں زیر لب ذکر پڑھ رہا تھا تاکہ پل عبور کرکے اپنے مسافروں کو صحیح سالم پہنچا سکوں۔ اس طرف دیکھا اسی گاڑی میں آگ لگی ہوئی تھی۔ شاید کوئی راکٹ آکر لگا تھا۔ لوگ جل گئے تھے اور انکے لے کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگر میں رکتا تو میری جان کو بھی خطرہ تھا۔
ب وہ متوجہ ہوئے کہ میں بھی وہیں موجود ہوں تو مجھے آواز دے کر بلایا اور کہا نزدیک آؤ میں تمہیں کچھ کہنا چاہتا ہوں، میں اپنے کان انکے ہونٹوں کے پاس لے گئی تو بولے: بیگم روئی تو نہیں نا؟ میں نے جواب دیا: نہیں میں کیوں روؤں گی؟ کہنے لگے: میرا دل چاہتا ہے کہ تم حضرت زینب س کی طرح صابر بنو اور استقامت دکھاؤ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں۔
۱۹۸۱ میں شہید محمد بروجردی نے محمد ابراہیم ہمت کو پاوہ کی سپاہ کا کمانڈر مقرر کردیا اور شہید ناصر کاظمی کو سپاہ کردستان کا کمانڈر بنا کر سنندج بھیج دیا گیا۔ جہاں شہید کاظمی نے شہداء بٹالین کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر شہداء ڈویژن میں تبدیل ہوگئی ۔
ہندوستان میں گذارے ہوئے آخری سالوں میں ہمیں کئی ایک تلخ تجربات ہوئے جیسے جنگ بندی کی قرارداد اور اس پر امام خمینی کا ناخوش ہونا، خود امام خمینی کی رحلت اور ۱۳۶۹ میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تعینات ایرانی سفیر شہید گنجی کی لاہور میں شہادت۔
ہوں نے بھائی سے کہا کہ کپڑے پہن کر آجائے۔ جب انہوں نے پوچھا کہ کہاں اور کس لئے لے کر جارہے ہیں تو ان کے سوال کے جواب میں کہا سیکیورٹی ایجنسی نے آپ کو بلایا ہےآپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔ میرے بھائی نے دوبارہ سوال کیا کہ کس لئے لے کر جارہے ہیں تو جواب دیا گیا کہ وہاں پہنچ کر آپ کو تفصیل سے بتائیں گے۔
ایک پولیس والے نے پستول کے بٹ سے میرے سر پر مارا ۔ مجھے احساس ہوا کہ جیسے یہ لوگ حقیقت میں مجھے مارنا چاہتے ہیں ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا اب جب مارنا ہی چاہتے ہیں تو کیوں نہ میں ہی انہیں ماروں۔ ہمیں ان سے لڑنا چاہئے۔ میرے سر اور چہرے سے خون بہہ رہا تھا اور میں نے اسی حالت میں اٹھ کر ان دو تین سپاہیوں کا مارا۔
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۷ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۲ نومبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۷ دسمبر کو منعقد ہوگا۔"
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۹ واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۴ جنوری ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں علی دانش منفرد، ابراہیم اعتصام اور حجت الاسلام و المسلمین محمد جمشیدی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کیلئے جدوجہد کرنے والے سالوں اور عراقی حکومت میں اسیری کے دوران اپنے واقعات کو بیان کیا۔
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔