زبانی تاریخ کی مقامی تحریر اور مقامی زبانی تاریخ میں تألیف پر توجہ کی اہمیت کا تعلق، مقامی معلومات کی نوعیت، اس کی ساخت اور زبانی تاریخ کی معلومات کی نوعیت سے ہے؛ در حقیقت وہ معلومات جو لکھی نہیں جاسکتی اور وہ احساسات جنہیں الفاظ کے سانچے میں ڈھالا نہیں جاسکتا۔
جب میں پاوہ لوٹا تو میرے وہی طالب علمی کے زمانے کے دوست زبردستی لازمی ملٹری سروس کے لیے گئے ہوئے تھے یا لازمی ملٹری سروس سے لوٹ آئے تھے یا ان کی لازمی ملٹری سروس ختم ہونے والے تھی۔ ان جوان مولاناؤں کی لازمی ملٹری سروس ختم ہونے اور ان کے واپس آنے سے ہمیں ایک سنہری موقع ملا اور سات جوان مولاناؤں کے ساتھ ہم نے ’مدرسۂ قرآن‘ کے نام سے ایک ثقافتی مرکز کی بنیاد رکھی
زبانی تاریخ کے موضوعی ماحصل کی تألیف میں، موضوعات کی درجہ بندی اور جمع شدہ معلومات کی نوعیت کی وجہ سے ڈیٹا کو مستند بنایا جاسکتا ہے، جبکہ دوسری قسم کے ڈیٹا میں زیادہ تر معلومات دوسرے اور تیسرے واسطے سے اکٹھا کی گئی ہے اور اس مواد کو مستند نہیں بنایا جاسکتا کہ جسے مقامی یاد نگاری کہا جاسکے۔
اگر انٹریو، غیر فعال یا خاموش ہو تو کام کا نتیجہ صرف یادوں کو حاصل کرنے تک ہی محدود ہوگا۔ جب راوی، واحد متکلم ہو اور انٹرویوور فعال کردار ادا نہ کرے تو وہ ’’یادیں لینے والا‘‘ ہوگا نہ کہ ’’زبانی تاریخ کا محقق‘‘؛ چاہے یادوں کو تفصیلات کے ساتھ ہی کیوں نہ بیان کیا گیا ہو
سالوں پہلے سے ہی اس علاقے کے اکثر رہائشیوں نے سرحدی اور قبائلی زندگی کے تقاضے کی وجہ سے اپنی حفاظت کے لیے کسی نہ کسی قسم کے اسلحے کا انتظام کر رکھا تھا۔ کچھ کے پاس ہینڈ گنز تھیں اور کچھ کے پاس شکاری بندوقیں اور گزشتہ سالوں کے دوران کئی بار مختلف طریقوں سے انہوں نے اپنا اسلحہ جمع کرادیا تھا یا اسے رکھنے کا لائسنس حاصل کرلیا تھا
تاریخِ شفاہی میں سوالات محض استفہامی نوعیت کے نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات وہ استنباطی یا استدلالی بھی ہوتے ہیں۔ یعنی انٹرویو کرنے والا، انٹرویو دینے والے سے مزید وضاحت، تشریح اور اپنے دلائل پیش کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے "آئل سٹی" کے مسئلے کو ہر ممکن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے تجزیے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ "اگر ہم نے ابھی تک "نفت شھر" یعنی "آئل سٹی" کو برقرار رکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسرے خطوں میں اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا.
صرف عشرہ فجر کے ایام ہی وہ ایام ہوتے تھے جب ذہین اور نکمے طلاب کی کیفیت ایک جیسی ہوتی تھی۔ سب بے تاب اور منتظر نظر آتے تھے۔ بیت سیاح اسکول میں، اگرچہ طلبہ کی تعداد زیادہ تھی،لیکن ہمارا کام شب و روز جاری رہتا تھا۔
قصہ دراصل یہ تھا کہ ساواک کے زیر شکنجہ رہ کر علی کی شہادت واقع ہو چکی تھی لیکن ان کے اہل خانہ کو یہ بتایا گیا کہ چونکہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا اس لیے ان کو جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔ شہید علی جہان آرا تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے طالب علم تھے
مجھے گرفتار کر کے اسی افسر کے پاس لے گئے اور اس کے حکم پر مجھ پر تشدد کیا۔ وہ مجھے لٹا کر میری ٹانگوں پر کوڑے برساتے اور پھر اس لیے کہ میری ٹانگوں پر سوجن نہ آئے، مجھے بھاگنے کو کہتے؛ زمین بھی ریتلی تھی، میں ٹانگوں کے اس درد کے ساتھ بہت مشکل سے بھاگ پاتا،
نوریاب واپسی اور والدہ کی تمنا کا پورا ہونا
اکتوبر 1976 کے آغاز میں، میں عارضی طور پر نوریاب میں ٹھہر گیا۔ سب سے پہلے، میرے دماغ میں دو چیزیں چل رہی تھیں دو انتخاب؛ خدمت(ملازمت) کی جگہ اور زوجہ کا انتخاب۔ پہلے انتخاب میں، میں تردد کا شکار تھا کہ اپنے آبائی گاؤں نوریاب میں ہی رک جاؤں اور نماز جماعت اور نماز جمعہ پڑھا کر لوگوں اور اپنے گاؤں والوں کی خدمت کروں یا کسی دوسری جگہ چلا جاؤں۔
نوریاب میں کوئی مستقل، امام مسجد نہیں تھا۔ جناب خلیفہ محمد
وہ ایسی صورت حال پیدا کر دیتے کہ یہ جوان جو نئے نئے جیل میں آئے ہوتے تھے وہ ان کے قابو میں اور زیر تسلط آ جاتے۔ لیکن اگر ان جوانوں کو ہم سے رابطہ کرنے کا موقع مل جاتا تو وہ وقتاً فوقتاً رابطہ کرنے اور بعض مسائل پر ہم سے ہماری رائے جاننے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے
مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے "آئل سٹی" کے مسئلے کو ہر ممکن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے تجزیے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ "اگر ہم نے ابھی تک "نفت شھر" یعنی "آئل سٹی" کو برقرار رکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسرے خطوں میں اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا.
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔