علاقے کے علماء کے بزرگ، جناب ماموستا ملا محمد بہاء الدین کی موجودگی کی وجہ سے ہم خُرمال کے آس پاس کے طالب علم، علماء کے ساتھ ہر ہفتے خاص طور پر منگل کے دن، خُرمال جایا کرتے تھے۔ ہمارا سہ رگہ ت سے (خُرمال) جانا ایک طرح کی تفریح بھی تھا اور ہم وہاں بڑے بڑے علماء سے آشنا بھی ہوتے تھے۔
میں نے حاجی غلام حسین منصوری کی نیسان گاڑی کو پہچان لیا۔ وہ آمل کی سپاہ کی سپلائز میں بہت تعاون کرتے تھے۔ جب ان کی باری آئی تو انہیں غصہ آنے لگا؛ کیونکہ سپاہ اور بسیج والے انہیں پہچانتے تھے اور تلاشی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے خریداری کے بلز اور کاغذات کے ساتھ سپاہ کا کارڈ بھی ان کے حوالے کردیا۔ ابھی تک انہیں معلوم یہ نہیں تھا کہ یہ لوگ ’جنگلی‘(کمیونسٹ سربداران) ہیں۔
باغ میں ایک ہولناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ قریب رات کے گیارہ بجے سے زیادہ کا وقت تھا کہ جب گارڈ نے ہمارے لیے دروازہ کھولا اور کہا جلدی سے تصویریں وغیرہ کھینچ لو اور چلے جاؤ
ان کا ماننا تھا کہ تم لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ اور تم لوگوں کی بے عزتی، میری بے عزتی ہے، اور شاگرد کی توہین، استاد کی توہین ہے اور ناقابل برداشت ہے۔ وہ اس قدر غصے میں تھے کہ انہوں نے ہماری امید کے برخلاف ایک غیر حکیمانہ مشورہ دیا اور کہا: ’’یا تم لوگ سردار حسن کی پٹائی کرو گے یا میں اس گاؤں کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔‘‘
اس زمانے میں ابھی تک لوگ ساواک کے نام سے ڈرتے تھے لیکن اس سب کے باوجود، ہم نے پیدل مارچ میں جانے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا اور ہم نے پرنسپل کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ اسکول کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے پرنسپل بچوں کو جانے کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئیں
لیکن مجھے دوسروں کی مدد کی ضرورت تھی۔ اسی زمانے میں آیت اللہ شاہرودی نے ’نیشنل پرائمری اسکول‘ قائم کیا تھا اور ایرانی، افغانی، پاکستانی اور دوسرے فارسی زبان طالب علموں کے بچے اس اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے
حسین بیگ صاحب قبیلے کے سردار اور جوانرود کے مشہور بیگ زادوں میں سے تھے کہ جنہوں نے ایران کے شہنشاہی(بادشاہی) نظام کی مخالفت کی وجہ سے جوانرود کو چھوڑ کر عراق ہجرت کرکے، وہاں پناہ لے لی تھی
میں اپنے خیالوں میں تھا کہ میں نے دیکھا کہ اچانک جزیرہ میں ہلچل مچ گئی۔ ہر طرف سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں اور اس کے بعد فوجی، جزیرے میں پھیل گئے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی۔ وہ کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ سرکنڈوں کو ادھر ادھر ہٹا رہے تھے، ہر جگہ چھان رہے تھے اور ہر طرف جا رہے تھے۔
اپنی جائے پیدائش سے چار ماہ کی دوری کے بعد میں نے اپنی والدہ کو ایک خط لکھا اور آخر میں حسب معمول دستخط کردیے: ’’ آپ کا بیٹا قادر ۔ درزیان‘‘ میری والدہ، خط کو پڑھوانے کے لیے نوریاب گاؤں کے ایک مولانا صاحب کے پاس لے گئی تھیں۔ انہوں نے خط پڑھا اور کہا: ’’دایہ سلمہ، آپ کے بیٹے کے خط میں ایک جملہ آیا ہے جو تھوڑا پریشان کن ہے۔‘‘
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ لوگوں کے تجربات کے مطالعے کا عمومی لگاو اور آج کل کے حالات سے گزشتہ واقعات کے تعلق سے آگاہی کی خواہش اور انفرادی اور اجتماعی شناخت کا اہمیت حاصل کرلینا، اسی طرح سے زبانی تاریخ کی ایک تحقیقاتی ذریعے کی حیثیت سے محفوظ رکھے گا۔
میں نے حاجی غلام حسین منصوری کی نیسان گاڑی کو پہچان لیا۔ وہ آمل کی سپاہ کی سپلائز میں بہت تعاون کرتے تھے۔ جب ان کی باری آئی تو انہیں غصہ آنے لگا؛ کیونکہ سپاہ اور بسیج والے انہیں پہچانتے تھے اور تلاشی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے خریداری کے بلز اور کاغذات کے ساتھ سپاہ کا کارڈ بھی ان کے حوالے کردیا۔ ابھی تک انہیں معلوم یہ نہیں تھا کہ یہ لوگ ’جنگلی‘(کمیونسٹ سربداران) ہیں۔
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔