جنگ کی کہانی، امریکہ میں رہنے والے ایک ایرانی پروفیسر کی زبانی

یہ کہانی محمد کی ہے ، میرے بہترین دوستوں میں سے ایک کی، جو ایران عراق جنگ کے دوران مارا گیا۔مجھے اور محمد کو ایرانی فوج میں خدمات سر انجام دینے کیلئے، فوجی سروسز بھیجا گیا لیکن دونوں کی ڈیوٹیاں الگ الگ یونٹس اور محاذوں پر تھیں ہر ایک یا ڈیڑھ ماہ کے بعد آٹھ سے دس دنوں کی چھٹی ہوتی جس میں گھر جاتے ، شاور صاف ستھرا بیڈ، گردوغبار سے دوری اور سب سے بڑھ کر گولیوں، میزائلوں اور دستی بموں کی آوازوں سے دور یہ لمحات، بہت قیمتی ہوا کرتے تھے مگر جمعرات کا دن اس لحاظ سے دکھ والا ہوتا تھا کہ اس دن جنگ میں شہید ہونے والوں کے جنازے عمومی تدفین کے لئے لائے جاتے تھے۔

ورلڈ کنفیڈریشن کے سابق سیکریٹری، فریدون اعلم کی یادیں

سن 1967 کی گرمیوں کی بات ہے، میں کنفیڈریشن کا سیکریٹری تھا کہ محمد رضا شاہ ،جرمنی کے صدر کی، سرکاری دعوت پر جرمنی آیا،اس زمانے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں، مجھ سمیت، زندہ یاد رحمت خسروی، چنگیز پہلوان، حسن ماسالی، بہمن نیرومند شامل تھے۔

سید مرتضیٰ نبوی اور محل کی یادیں

ہمارا جیل میں ایک نیٹ ورک یا تنظیم تھی اور ظاہر سی بات ہے دوسو،تین سو لوگ تھے بغیر کسی نظم وضبط اور تنظیم کے کام نہیں کرسکتے تھے لہذا ہم نے خفیہ طور پر ایک کمیٹی بنائی ہوئی تھی ہر دن ایک نمائندہ انتخاب کرتے جو باقی کاموں کی تقسیم بندی کرتا،ساتھ ہی یہ بھی بتاتا چلوں کی جیل میں مل کر کام کرنا،میرے پسندیدہ اور یادگار لمحوں میں سے ہے،جیسے جس دن ہماری باری ہوتی تو صبح جلدی اٹھ کر قہوہ بنانا،دسترخوان لگانا،سبکو بلانا پھر برتن دھونا پھر دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے انتظامات میں سارا دن اتنا مصروف گزرتا کہ پتہ ہی نہ چلتا۔

17شہریور کی یادیں

شاہ کا تختہ الٹ گیا اور قصہ تمام ہوگیا،بالآخر ریلی ختم ہوئی اور میں انہی گاڑیوں میں سے ایک پر سوار ہوکر روانہ ہوا، نعرے لگ رہے تھے کہ کل صبح 8بجے ژالہ چوک باب تازہ میں شہداء چوک پر جمع ہوں گے سب نعرے لگاتے اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے۔

کی کہانی، امریکہ میں رہنے والے ایک ایرانی پروفیسر کی زبانی

ایرانی فوجیوں کی کہانی، در اصل، جنگ کی تاریخ کے ابتدائی اجزاء میں سے ہے وہ ابتدائی اجزاء جو اس جنگ کی اصل حقیقت ہیں مگر یہ جنگ ان کے نقطہ نظر سے بیان ہی نہیں ہوئی

۱۷ شہریور ۱۳۵۷ کے عینی شاہدوں سے گفتگو، اکبر براتی

جب گولی چلانےکا پہلا حکم صادر ہوا۔۔۔۔

اس سے پہلےکہ میں اپنی یادداشت بیان کروں ،آپ کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ ۱۷شہریور کے واقعہ میں امریکہ کا ہاتھ ہونا مکمل طور پر واضح اور روشن ہے۔اس وقت تک ایران میں ۴۵ ہزار امریکی مشیر موجود تھے جو ایرانی فوج کو اپنے اشاروں پر چلارہے تھے۔

کیا قدیم زمانہ تھا۔۔۔۔

سلام کی تعلیمات زندگی میں فضول خرچی کو حرام کہا گیا ہے، اس دور کے لوگ بھی، جو کم آمدنی کی بنا پر تنگدست تھے، فضول خرچی کے بارے میں بہت محتاط رہتے تھے اور جہاں تک ممکن ہوتا اسراف اور فضول خرچی سے پرھیز کرتے۔

سیاسی قیدیوں کی یادوں میں عید نوروز

عید میں کچھ ہفتے باقی تھے عمومی جلسے میں نوروز کے جشن پر بحث چھڑی ہوئی تھی اور جیل میں نوروز کی رسموں کے اجراء کی مخالفت پر۔ بعض لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمیں ثقافتی جشن کی حمایت نہیں کرنی چاہئے ہے۔ بعض لوگ کہتے کہ یہ رسم جمشید شاہ نے شروع کی ہے اور یہ جشن شہنشاہوں کا ہے۔

ایک "روشن" کی تاریک موت ۔۔۔

آپ پولینڈ میں چار سال رہیں اور وہیں پر" لشک وژنیاک" جو کہ انجینئرنگ کا طالب علم تھا، ملاقات ہوئی اور پھر وہیں پولینڈ میں شادی کرلی اس کے بعد اعلی تعلیم حاصل کرنے مغربی برلن میں سکونت اختیار کر لی

باقر کاظمی کی زندگی کی یادداشتیں

سید باقر کاظمی ایران کی مشہور شخصیتوں میں سے ہے جس کا تعلق احمد شاہ کے دور سے ڈاکٹر مصدق کے وزارت عظمیٰ کے دور تک ہے، وہ پہلوی اول کے زمانہ مین ایران کے وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے ہر سال کے لحاظ سے اپنی یادوں کو تحریر کیا ہے۔
...
30
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔