روکشاپ

زبانی تاریخ سے آشنائی – 10

متن کے ابواب

ترجمہ: محب رضا

2024-5-5


متن کے ابواب

ابواب کی دستہ بندی اور انکی تعداد کا تعین کرنے کے بعد،اس بنیاد پر انٹرویو کے متن کو، جو کامل ہوتا ہے، حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے اور ہر حصہ اپنے متعلقہ باب میں قرار پاتا ہے ۔ یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاس کتاب کے ابواب کی تعداد  کے مطابق خالی ڈبے ہیں ، جنہیں مطلوبہ متن سے بھرا جائے گا۔ یہ تدوین کا اہم ترین حصہ ہے اوراس کام کو دقت سے انجام دینا لازم ہے تاکہ ہر موضوع اپنی جگہ پر قرار بھی پائے اور دوسری طرف کچھ رہ بھی نا جائے ۔

سوالات کو متن میں رکھیں یا حذف کردیں

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انٹرویو کے دوران راوی سے پوچھے گئے سوالات  کو تدوین شدہ متن میں رکھنا چاہیے یا حذف کر دینا چاہیے؟

فی زمانہ، دونوں قسم کی کتابیں  ،  جن میں سوالات اور جوابات ہوتے ہیں  اورجن میں صرف راوی کی  گفتگو ہوتی ہے ، موجود ہیں ۔ لہذاٰ دونوں طریقے ممکن ہیں۔

آجکل معمولاً متن  کو سوالات ہٹا کر مرتب کیا  جاتا ہے،لیکن اگر ہم خالص تاریخ چاہتے ہوں تو ہمارے پاس اس کے علاوہ چارہ نہیں کہ سوالات کو  شامل رکھیں کیونکہ سوال غیر مکتوب تاریخ کا حصہ ہیں اور انہیں حذف کرنے سے کام ناقص رہ جاتاہے،مگر اگر ہم قارئین کو مدنظر قرار دیں اورچاہیں کہ  متن زیادہ روان اورسلیس ہو اور قاری اسے آسانی سے پڑھ کر اس سے بہتر ارتباط قائم کرسکے تو ہمیں انٹرویو کے سوالات کو حذف کرنا ہوگا۔

بالآخریہ فیصلہ، تدوین کرنے والے )ایڈیٹر( پر منحصر ہے کہ انٹرویو کے سوالات متن میں شامل ہونے چاہیں یا نہیں ۔مثال کے طور پر،دفاع مقدس  کی اقدار کو محفوظ اور نشر کرنے والے ادارے نے تقریباً ۳۰۰  جلد  کتابوں کا ایک دورہ ، سوالات اور جوابات کے ساتھ  شائع کیا۔ اور اب ایک ذریعے کے مطابق وہ  متعدد کتابیں  بغیر سوالات کے شائع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ، پس  ہردو طریقے قابل انجام ہیں ۔

ذاتی تجربہ

اس سے قطع نظر کہ شائع کرنے والے، کتاب کو  سوالات کے ساتھ چاہتے ہیں یا ان کے بغیر، اگر آپ کے پاس انتخاب کرنے کا اختیار ہو تو  مشورہ یہ ہے کہ آپ پہلی دو یا تین بار ،کتاب کو بغیر سوال و جواب کےمرتب کریں ۔ گذشتہ تجربے کے مطابق، جب سوالات کو  حذف کرکے متن کو سلیس انداز میں  اکٹھا لکھا جاتا ہے تو تدوین کا کام آسان ہو جاتا ہے  اوردوسری طرف کام کے نقائص کم نظر آتے ہیں ۔

تجربہ بتاتا ہے کہ وہ افراد جنہوں نے اپنے پہلے کاموں میں تدوین کے دوران انٹرویو کے سوالات کو حذف کیا   ،انہوں نے  زیادہ  جلدی رشدکیا اور دوسری طرف  قارئین نے بھی ان کے کام کے ساتھ بیشتر ارتباط قائم کیا۔اس بات کوبھی  ذہن میں رکھیں کہ یونیورسٹیوں میں ان کتابوں کو زیادہ قبول کیا جاتا ہے جن کی تدوین میں سوال اور جواب دونوں شامل ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح ، ان کی نظرمیں یہ کام زیادہ اصولی، علمی  اورمہارت کے ہمراہ  ہو جاتا ہے ۔لیکن عام قاری ایسی کتاب کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ جسے پڑھنا آسان ہو۔

 


oral-history.ir


 
صارفین کی تعداد: 105


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
کتاب"در کمین گل سرخ" سے اقتباس

شہید علی صیاد شیرازی کی داستان

اُن لوگوں کی ان کے برتاؤ کے مطابق طبقہ بندی کی تھی۔ پہلے اور دوسرے کمانڈر کے احساسات ہم آہنگ نظر آئے جس سے محسوس ہورہا تھا کہ ان کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے دو افراد سے الگ الگ بات کرنی چاہئے تھی تاکہ نفسیاتی اعتبار سے کوئی تداخل پیدا نہ ہو۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔