ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 46 واں حصہ
خانہ فرہنگ پر حملے کے لئے یہ دہشت گرد گاڑیوں کو بارات کی طرح سجا سنوار کر مگر اصل میں اسلحہ سے بھر کر لائے تھے۔ ان ہی گاڑیوں میں سے ایک میں RPG بھی نصب تھی اگر علی ہاتھ نہ آتا تو ان ارادہ تھا کہ پورے خانہ فرہنگ کو بھون کر رکھ دیںملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 45 واں حصہ
انہی دنوں بہت سے پاکستانی باشندوں کو خانہ فرہنگ سے رابطے رکھنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ علی بیٹھ گیا اور اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا آج سے پہلے میں نے کبھی علی کو اس قدر پریشان نہیں دیکھا تھا۔ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح،44 واں حصہ
خوشی کے مارے میرے پاوں زمین پر نہ تھے ۔ میں سمجھتی تھی کہ یہ سب علی کی شب و روز کی محنتوں کا نتیجہ تھا۔ اگلی رات علی کو رپورٹ بنا کر ارسال کرنی تھی اور اس کو اس کے لئے میری مدد درکار تھی رات تقریباً دو بجے دفتر سے آکر اس نے چند اردو تحریروں کے ترجمے کا تقاضہ کیا۔ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 43 واں حصہ
میں بھی عجیب قسم کے احساسات کا تجربہ کررہی تھی دن میں کئی مرتبہ مجھے امام خمینی کا یہ جملہ یاد آ جاتا۔-ہمیں مارڈالو۔۔ ہماریقوم اور زیادہ بیدار اور پہلے سے زیادہ زندہ قوم بن جائے گی۔ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 42 واں حصہ
علی جب اپنی مصروفیات کے درمیان میں دن کے وقت میں گھر آتا یا شام ڈھلے واپس آ کر ان کے ساتھ کھیل کود کرتا تو جیسے بچوں کو دونوں عالم کی خوشیاں نصیب ہو جاتیں۔بعض اوقات علی اپنے اس کام سے اپنی تھکن اور پریشانی کو مٹایا کرتا تھا۔ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح 41 واں حصہ
ہمارے گلے سے کب لقمہ اترتا تھا سب نے اپنی اپنی رکابی سے تھوڑا تھوڑا کھانا نکال کر ایک آدمی کا کھانا مہیا کیا اور یوں ہم سے نے افطار کیا۔ یہ پہلی اور آخری بار تھا کہ میں نے افطار صرف اپنے گھر کے لئے تیار کیا ہو۔ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 40 واں حصہ
ایک پاکستانی ملازم جو مالی اعتبار سے فقیر تھا اور علی اس پر بہت توجہ دیا کرتا تھااور ہمیشہ اس کی خالی جیب کے بارےمیں فکر مند رہتا تھا۔ اس کا حل علی نے یہ نکالا کہ اسکا رابطہ انگلستان میں مقیم اپنے ایک دوست سے کرا دیا اور یہ شخص ملتان میں دوائیں درآمد کرنے لگا اس طرح علی نے ملتان کے لوگوں کی بھی مدد کی تاکہ ان کو ضروری ادویات دوسرے شہروں سے منگوانی نہ پڑیںملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، انتالیسواں حصہ
انہوں نے اسکول اور بچوں کی پڑھائی کا پوچھا تو میں نے اطمینان اور رضامندی کا اظہار کیا یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگئے اور مسکراتے ہوئے ہمیں دعائیں دینے لگے۔ملاقات کے اختتام پر انہوں نے ہمیں در نجف کی دو انگوٹھیاں دیں ایک میرے لئے ایک علی کے لئےملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، اڑتیسواں حصہ
موسم انتہائی گرم تھا میں نے الگنی سے چادریں اور کپڑے اتارے۔ عید ، گھر کی صفائی ستھرائی کے بغیر ہمارے لئے بے معنی تھی۔ در دیوار سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی عید کی خوشبوملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، سینتیسواں حصہ
حبیب گاڑی چلا رہا تھا علی اس کے ساتھ آگے سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا میں اور بچے پچھلی سیٹ پر۔ میرا دل مہدی کے لئے پریشان تھا کیونکہ وہ ملتان میں اکیلا تھا۔ جب میں نے صحرائی راستوں کا مشاہدہ کیا تو جان گئی کہ علی نے کس وجہ سے ہمیں تنہا سفر نہیں کرنے دیا۔5
...
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
بتول برہان اشکوری کی یادیں قسط 2
’’میں محمد جواد کے اخلاق و عادات کو بخوبی جانتی تھی۔ میں بہت اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ اتنی جلدی گھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یعنی جب تک سارے قیدی رہا نہیں ہوجاتے وہ بھی نہیں آئیں گے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

