ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح 41 واں حصہ

ہمارے گلے سے کب لقمہ اترتا تھا سب نے اپنی اپنی رکابی سے تھوڑا تھوڑا کھانا  نکال کر ایک آدمی کا کھانا مہیا کیا اور یوں ہم سے نے افطار کیا۔ یہ پہلی اور آخری بار تھا کہ میں نے افطار صرف اپنے گھر کے لئے تیار کیا ہو۔

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، 40 واں حصہ

ایک پاکستانی ملازم جو مالی اعتبار سے فقیر تھا اور علی اس پر بہت توجہ دیا کرتا تھااور ہمیشہ اس کی خالی جیب کے بارےمیں فکر مند رہتا تھا۔ اس کا حل علی نے یہ نکالا کہ اسکا رابطہ انگلستان میں مقیم اپنے  ایک دوست سے کرا دیا اور یہ شخص ملتان میں دوائیں درآمد کرنے لگا اس طرح علی نے ملتان کے لوگوں کی  بھی مدد کی تاکہ ان کو ضروری ادویات دوسرے شہروں سے منگوانی نہ پڑیں

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، انتالیسواں حصہ

انہوں نے اسکول اور بچوں کی پڑھائی کا پوچھا تو میں نے اطمینان اور رضامندی کا اظہار کیا یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگئے اور مسکراتے ہوئے ہمیں دعائیں دینے لگے۔ملاقات کے اختتام پر انہوں نے ہمیں در نجف کی دو انگوٹھیاں دیں ایک میرے لئے ایک علی کے لئے

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، اڑتیسواں حصہ

موسم انتہائی گرم تھا میں نے الگنی سے چادریں اور کپڑے اتارے۔ عید ، گھر کی صفائی ستھرائی کے بغیر ہمارے لئے بے معنی تھی۔ در دیوار سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی عید کی خوشبو

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، سینتیسواں حصہ

حبیب گاڑی چلا رہا تھا علی اس کے ساتھ آگے سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا میں اور بچے پچھلی سیٹ پر۔ میرا دل مہدی کے لئے پریشان تھا کیونکہ وہ ملتان میں اکیلا تھا۔ جب میں  نے صحرائی راستوں کا مشاہدہ کیا تو جان گئی کہ علی نے کس وجہ سے ہمیں تنہا سفر نہیں کرنے دیا۔

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، چھتیسواں حصہ

میں ناراض سی ہو گئی ، مجھے اچھا نہ لگا کہ علی کمپیوٹر آن کرے کیونکہ میری دانست میں اس کا یہ کام اس ایک طمانچے کے اثر کو زائل کردیتا جو بچوں کی تربیت میں موثر ثابت ہو سکتا تھا

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، پینتیسواں حصہ

۔کچھ بھی ہو کوئی چیز کسی کے پاس ہو یا نہ ہو مگر ان کو کوئی حق نہیں کہ خانہ فرہنگ کی چیزوں کو اپنے ذاتی استعمال میں لائیں۔ یہ آخری بار ہے کہ ایسی حرکت ہوئی ہے۔ جو چاہئے خود خریدو، زہیر کو کہو یا مجھے کہو۔ مگر دفتر کی کسی چیز کو کبھی ہاتھ نہ لگاو

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، چونتیسواں حصہ

اسی سال محرم الحرام میں ایک مجلس عزاء پر حملہ ہوا اور تقریباً ۹۰ لوگوں نے جام شہادت نوش کیا یہ وہ وقت تھا جب میں زہیر کی پریشانیوں اور گھبراہٹوں کا سبب سمجھ گئی۔ لوگوں کے درمیان نفرت کی ہوا چل پڑی تھی۔

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، تینیسواں حصہ

آہستہ آہستہ یہ چند ماہ میں ایک بار باہر جانا بھی بند ہوگیا اور بچوں کا باہر جانا صرف اسکول تک محدود رہ گیاحتیٰ خریداری کے لئے باہر جانا جو بچوں کے لئے تفریح کا نعم البدل تھا وہ بھی منسوخ ہو گیا ۔

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، بتیسواں حصہ

پاکستان میں شیعہ عمومی پروگرامز میں زیادہ تر شرکت نہ کرتے تھے  اور ان کا عمومی مراکز پر جمع ہونا   عزاداری سید الشہداء کے جلوس و مجالس یا ولادت و شہادت  کی تقریبات کے موقعہ تک محدود تھا۔
4
...
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔