۱۵ خرداد کو ہمارا عہد و پیمان

میں نے چند دیگر کیڈٹس کے ساتھ میٹنگ رکھی اور یہ طے کیا کہ مظاہرین سے آمنا سامنا ہونے کی صورت میں اپنے کسی آفیسر کا آرڈ نہیں مانیں گے۔ نہ فقط یہ بلکہ ہم فوج اور موقع پرموجود مسلح نفری کے خلاف الرٹ ہوجائیں گے۔

میں فارسی سیکھنا چاہتا ہوں!

میں نے کہا: "گھر قریب ہے یا دور؟" اُس نے کہا: "قریب ہے لیکن گاڑی موجود ہے۔" میں اور میرے ساتھ جو دو خواتین تھیں، ہم اُس کے ساتھ ہولئے۔ ہم ابھی چند قدم نہیں چلیں ہوں گے کہ اُس نے ہمارا سامان اٹھانے کیلئے پیروں کے بل جھک کر ہمارے ہمراہ موجود ایک ساتھی کا بیگ اپنے کاندھوں پر رکھ لیا۔

خط اور ملاقات

میں ان لوگوں سے گاڑھے تہرانی لہجے میں بات کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ عام فرد کی طرح بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ ان کا دھیان اس بات کی طرف نہ جائے کہ ہم ان کو کوئی چکر دینا چاہ رہے ہیں

منصورہ قدیری نے بہجت افراز کے بارے میں بتایا

تمہیں ماں کا کردار بھی ادا کرنا ہے اور باپ کا بھی

میرے شوہر نے بہت زیادہ اسیری کاٹی ہے اور میں نے محترمہ بہجت افراز سے بہت زیادہ توانائی حاصل کی ہے۔میں ۲۸ سال کی تھی جب میرے شوہر لاپتہ ہوگئے اور جب پتہ چلا کہ وہ اسیرہیں، میں اُس وقت بہت سے کاموں میں مشغول تھی

سب اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ دیکھتے ہیں آج کون منبر پر جاتا ہے

سخت ترین منبر ۔۔۔۔۔۔

میں نے ساواک کو پیغام بھجوایا کہ میں منبر پر جانے سے نہیں رک سکتا۔ میں مبر پر جائوں گا۔ ساواک کی جانب سے پیغام آیا کہ بہت احتیاط کرنا اگر زرا سی بھی غلطی کی یا امام خمینی رح کا نام بھی لیا تو مسجد اور اس میں موجود لوگوں کا برا حال کردیں گے۔

کہنے لگا: اسکا دل بہت دھڑک رہا ہے۔۔۔۔۔۔

ایک پولیس والے نے پستول کے بٹ سے میرے سر پر مارا ۔ مجھے احساس ہوا کہ جیسے یہ لوگ حقیقت میں مجھے مارنا چاہتے ہیں ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا اب جب مارنا ہی چاہتے ہیں تو کیوں نہ میں ہی انہیں ماروں۔ ہمیں ان سے لڑنا چاہئے۔ میرے سر اور چہرے سے خون بہہ رہا تھا اور میں نے اسی حالت میں اٹھ کر ان دو تین سپاہیوں کا مارا۔

امام خمینی رح کا ترکی میں قیام

بورسا شہر کے لوگ انہیں "بابا" کہہ کر پکارتے تھے

پہلوی حکومت کے تصورات کے برخلاف امام خمینی رح نے ترکی میں بھی اپنے بہت سارے دوست بنا لئے حتیٰ بورسا کے عوام امام خمینی رح کو باب کہہ کر پکارنے لگ گئے تھے۔ امام خمینی رح تقریبا ایک سال ترکی میں رہے۔ آُپ نے وہاں کتاب تحریر الوسیلہ تحریر کی۔ آپ کو ایک سال بعد ترکی سے آپ کے صاحبزادے سمیت عراق تبعید کردیا گیا۔

حج میں شاہ کے خلاف مظاہرہ

پہلےچند دنوں تک تو مجلس میں بہت پریشان ہوتا تھا، لیکن آج میں آُ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی درباریوں کی خدمت میں گذار دی۔ آیا توبہ کا کوئی راستہ موجود ہے؟۔ میں سمجھ گیا کہ الحمد اللہ یہ شخص منقلب ہوچکا ہے۔ لہذا ہم نے اسکی رہنمائی کی، وہ اتنا بدل چکا تھا کہ اس کے بعد ہر رات وہ بڑے جوش و ولولے سے ہمارے گفتگو سننے وقت پر پہنچ جاتا تھا۔

آیت اللہ محلاتی کی تقریروں پر پابندی لگادی گئی

۲ فروری ۱۹۷۵ کو شاہ کی خفیہ انٹیلیجنس ایجنسی ساواک کے اعلیٰ افسر پریوز ثابتی کے حکم پر آیت اللہ شیخ فضل اللہ محلاتی کے منبر پر بیٹھنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اگرچہ آپ پر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے زمانے تک پابندی لگی رہی، لیکن آپ جب مصلحت سمجھتے مسجدوں اور مذہبی رسومات میں تشریف لے جاتے اور اپنے گفتگو کے زریعے رائے عامہ کو حالات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ انکا یہ عمل اس بات کا سبب بنا کہ ساواک نے چراغ پا ہو کر بالآخر انہیں ۱۹۷۸ کے ابتدائی مہینوں میں دوبارہ...

جون ۱۹۶۳ میں ارومیہ کے علماء کی گرفتاری

پولیس والا ٹرک آپ لوگوں کو اسی وقت تہران لے جانے کیلئے تیار کھڑا ہے اور وہاں لے جاکر آپ لوگوں قزل قلعہ زندان کی تحویل میں دیدیں گے! لہذا اگر آپ شاہ کی مخالفت کا ا رادہ نہیں رکھتے تو آکر تعہد نامہ پر دستخط کریں اور آزاد ہوجائیں
...
22
...
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔