روح اللہ کی نماز عاشقانہ

اچانک میں نے امام رح کی جانب دیکھا جو مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں امام خمینی کی نگاہوں کو خوب سمجھتا تھا، انکے پاس گیا اور پوچھا آپ کو مجھ سے کوئی کام ہے؟ فرمانے لگے کیا یہ طے نہیں تھا کہ نو بجے مجھے یاد دلاؤ گے اور اس وقت نو بج کر دس منٹ ہو رہے ہیں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ پیٹ لیا مجھ سے برداشت نہیں ہورہا تھا میں نے کہا اس حالت میں؟

زندان میں نماز کی برکتیں

جب میں کھانسوں گا اور چیخنا چلانا شروع کردوں گا کہ ان لوگوں نے پریشان کررکھا ہے، ان لوگوں کو بس ٹائلٹ لے کر جاؤ لے کر آؤ، اسی وقت تم بھی دروازہ پیٹنا شروع کردینا اور چیخنا چلانا کہ مجھ سے برداشت نہیں ہورہا۔ تم کہنا؛ سانجی قارنیمی دوغرویور

شاہ کے زمانے میں پرنٹ میڈیا

پہلے دس سال کا نتیجہ سیاسی بھونچال کی صورت میں تھا امام خُمینی کی سربراہی میں علماء  کی تحریک   اورانکے اشتہارات کا سامنا ساواک سے  ہوا چونکہ ۱۹۵۵میں سینسر کا قانون لاگو ہوچکا تھا جس کی  وجہ سے تمام  پرنٹ میڈیا ان کے ہاتھ  میں تھا۔

انقلابی جدوجہد کرنے والوں کے لئے عراقی سوغات

ہم ۱۵ محرم کو بھرے ہاتھوں قصر شیریں کے راستے ایران میں واپس پلٹے اور اس سفر کی سوغات اپنے سفر کا تجربہ امام خُمینی سےملاقات اور انکا انقلابی جوانوں کے لئے جو پیغام تھا

شاہرود کے جوانوں کا فحاشی کے اڈوں سے مقابلہ

میں نے جیسے ہی سیٹی بجائی کسی نے آواز لگائی پولیس اور پھر سب لوگ بھاگنے لگے۔ ہم بھی ایک گلی میں گھس گئے۔ دور سے دیکھا کہ پولیس نے اس جگہ کا محاصرہ کرلیا ہے اور کچھ لوگوں کا پیچھا کررہی ہے

نیرہ سادات احتشام رضوی کی ڈائری سے

اسی وقت ایک پولیس آفیسر اپنے کارندوں کے ہمراہ پہنچ گیا اور جب اس نے بھانپا کہ یہ لوگ واحدی صاحب کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے  تو اس نے ان دونوں کو گالیاں بکنی شروع کر دیں اور کہا: ’’ تم نے واحدی سے کیا رشوت لی ہے کہ اسے یوں فرار ہونے دیا؟‘‘

یہ ہوٹل نہیں ہے

سوء تفاہم دور کرنے کے لئے ثقافتی ہم آہنگی کرنی چاہئے

راستے بھر موکب ہی موکب تھے۔ بچے عطر ہاتھوں میں لئے کھڑے تھے۔ سارے راستے انواع اقسام کے کھانے تھے۔ موکب  کے خادمین جگہ جگہ چائےاور کھانے وغیرہ کے لئے اصرار کرتے تھے۔ انواع و اقسام کے نوحوں اور مرثیوں نے سارے راستے کی فضا کو پر کیا ہوا تھا۔ ہم آٹھ لوگ تھے ایک ساتھ ہی سفر کرتے اور ایک ساتھ ہی آرام کرتے۔

نجات  علی  اسکندری  کی  یاداشتیں

کیپٹن  نے  کہا :"سفید  جھنڈے  کے  ساتھ  باڈر  تک  آئے  تھے  اور  کھڑے  ہوگئے  تھے۔ان  کو  نہتا  کرکے  آپ  کا  انتطار  کررہے  تھے  وائرلیس  خراب  تھا  اس  لئے  ربطہ  نہیں ہوسکا۔

شہید نواب صفوی سے نیرہ سادات کی ملاقات کی حکایت

جب  ہم  وہاں  پہنچے  تو  دیکھا  کہ  ہر  طرف  مسلح  افراد  کھڑے  ہیں  کہ  دو  عورتیں  ایک  مرد  سے  ملنے  آئیں  ہیں! مجھے  اس  بات  پر  تعجب  ہوا  کہ  یہ  لوگ  نواب  صفوی  سے  کتنا  ڈرتے  ہیں۔

 آیت‌الله قاضی  کی  شہادت  کس  طرح  ہوئی

میں  نے  ٹارچ  کی  روشنی  میں  چار  گولیوں  میں  سے  دو  کے  خول  دیکھے۔اسکے  بعد  ہم   پولیس  کی  گاڑی  میں  بیٹھ   کر سینا   ہسپتال  پہنچے  ۔ہسپتال  کے  باہر  ایک  جمع  غفیر  تھا  لوگ  اور  کمیٹی  فورس  {نیروھائی  کمیتہ}  کسی  کو  ہسپتال  کی  اوپری  منزل  میں  جانے  نہیں  دے  رہے
...
20
...
 
ایک یاد، ایک خبر اور پانچ سرکاری رپورٹس پر مبنی

دامغان شہر کا 11 محرم(12دسمبر) سن 1978  کا واقعہ

س دن ’’عزاداری کے دستے دامغان شہر کی سڑکوں سے گزر رہے تھے، 11:30 بجے جب دستے شہر سے باہر نکل رہے تھے تو کچھ حکومت مخالف مسلح افراد نے ملک مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومت کے حامی دستوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں سارجنٹ محمد خدابندہ لو اور دس شہری زخمی اور دو شہری گولی لگنے سے ہلاک ہوگئے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔