پرانے زمانے کی آلبم سے ایک تصویر

ایک عظیم شخصیت کے بارے میں دو دوستوں کی روایت

گذشتہ ہفتے مزاحمتی ادب کا مرکز ایک ایسے دوست سے ہاتھ دھو بیٹھا کہ جسے نمایاں ہونے کا شوق نہیں تھا۔ ہدایت اللہ بہبودی اور احمد فیاض نے چند سطروں میں جناب احد گودرزیانی کے واقعات کو بیان کیا ہے۔

امام خمینی کے نمائندوں کا ملتا جلتا ردّعمل

اُن کا کہنا یہ تھا کہ ہم طیارہ اور دوسرے وسائل آپ کو فراہم کرتے ہیں، آپ نجف جائیں اور حکومت کا پیغام آقای خمینی تک پہنچائیں۔ ہمارا تو خیال یہ ہے کہ اس پیغام کو پہنچانے کیلئے قاضی صاحب بہت ہی مناسب رہیں گے۔

ایسے پائلٹ کی یاد میں جس نے اپنی روداد خود سنائی

اکبر توانگرایان ۱۹ ستمبر سن ۱۹۵۱ء میں اصفہان میں پیدا ہوئے، فانٹوم لڑاکا طیارے کے پائلٹ تھے۔ ۶۱ ویں اور ۳۱ ویں شکاری بٹالین کے کمانڈر تھے۔ چابہار ایئربیس کے نائب کمانڈر بھی رہے۔ شکاری چھاؤنی نمبر ۱۰ کے کمانڈر اور پائلٹ کالج کے کمانڈر بھی رہے

آسمانی سردار

الٰہی کمانڈر اور شیطانی کمانڈر

طویل عرصے سے ایک دوسرے کے مد مقابل رہنے والی ان دو طاقتوں نے الٰہی نمائندہ (ہیرو) اور شیطانی نمائندہ (ولن) کو جنم دیا ہے۔ ہیرو معاشرے کا محافظ ہے جبکہ ولن معاشرہ کا دشمن۔

سن ۱۹۶۸ء میں امام خمینی ؒ کا عزاداری کے طرز طریقے پر اعتراض

جو ماتمی انجمنیں آئی ہوئی تھیں ان کے نوحوں کا انداز بدلا ہوا تھا۔ ماتم داری اور سینہ زنی کا انداز بھی مختلف تھا۔ مجھے یاد ہے کہ نوحہ خوان حضرات یہ اشعار پڑھ رہے تھے: کربلا کربلا، فیضیہ بنا قتلگاہ۔ علماء کا خون ناحق جو گرا، امام کی نصرت بن گیا

بہت خطرناک!

جب میں نے یہ صورتحال دیکھی تو مجھے یقین هو گیا که یہ لوگ فوجی چھاؤنی پر حمله کریں گے اور فوجی دستے اور فوجی چھاؤنی کے گارڈز بھی اس صورتحال میں مزاحمت نہیں کریں گے، کیونکہ ہر کسی کو اپنی فکر تھی که کہیں وه لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔

۲۲ مارچ سن ۱۹۶۳ء کی دوپہر، مدرسہ فیضیہ

امام خمینی ؒ کا گھر حرم [حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا] کے سامنے والی تنگ و باریک گلیوں میں سے ایک گلی میں تھا۔ ہم گھر میں داخل ہوئے اور اوپر والی منزل میں جاکر بیٹھ گئے۔ لوگ مسلسل آ رہے تھے

استقبال کے لیے پریکٹس اور تیاری

شہید محمد بروجردی انقلاب سے پہلے مسلح گوریلا فورس میں تھے اور شہید عراقی کے ذریعے میرا ان سے تعارف ہوا تھا۔ انھوں نے چالیس پچاس سپاہیوں کو اس کام کو منظم کرنے کے لیے جمع کر رکھا تھا

جسے آپ تلاش کر رہے ہیں، وہ میں ہی ہوں!

مجھے یقین آگیا کہ یہ اللہ کی مشیت ہے۔ اور اس نے ہی یہ سب کچھ کیا اور یہ سارے پروگرام بنائے۔ میں وہاں سے نکل کر احاطے کے اندر گشت کرنے لگا

مشی کا آخری دن کربلا کی سمت سفر

ہم آگے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ تھوڑا آگے جاکر ہم ناشتے کے لئے رکے اور ناشتہ کرکے دوبارہ روانہ ہوگئے۔ راستے میں ایک ایرانی موکب پر نگاہ پڑی جو اصفہانیوں کا تھا۔
...
20
...
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔