مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں!

اگلے دن میں آیت اللہ خمینی کی خدمت میں پہنچا، جو اپنے گھر کے تہہ خانے میں اکیلے بیٹھے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے کل رات ایسی فون کال آئی تھی، میں نے کسی کو نہیں بتایا اور نہ بتانے کا ارادہ ہے، کیونکہ اس سے ہمیں نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ لیکن میں نے آپ کو مطلع کرنا ضروری سمجھا۔

جنگ کی یادداشتوں کا ایک ٹکڑا

حقیقت یہ ہے کہ آج مورچہ پر آنے اور جانے کے دروان میں نے ان چیزوں کو مشاہدہ کیا ہے جن کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے ان مناظر کو جس طرح قلم بند کرنا چاہئے اس کی قدرت میرے قلم میں نہیں ہے

محاصرے کے باوجود محروم افراد کی امداد

پھر میں تبریز گیا اور امام کا خط اپنے ساتھ لے گیا۔ وہاں ہم نے کچھ علماء کو آیت اللہ مجتہدی کے گھر میں جمع کیا اور لوگوں کی مدد کے لیے ایک وفد تشکیل دیا گیا۔

مرتضی الویری کے واقعات

رات ہو چکی تھی  اور وحشت نے میرے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ میں اسی چائے والے کے ہمراہ اس کے گھر جا پہنچا۔ اس کا گھر ایک بڑے سے صحن میں واقع تھا۔ اس صحن کے چاروں طرف کمرے ہی کمرے بنے ہوئے تھے۔

محمد علی پر دل کے واقعات

اسیروں کا آزار

یہ لال ٹوپیوں والے بعض اوقات اسیروں کے ٹرکوں کے پاس آتے تھے اور گندی گندی گالیاں دیا کرتے تھے۔ راستہ میں ایک موٹر سائیکل سوار ہمارے ٹرک کے نزدیک آیا تو ایک سپاہی نے جلدی سے کھڑکی کھول کر اور کو ایک گندی سی گالی دی اور کہا کہ ٹرک سے دور رہو۔

جلال الدین فارسی کی یادداشتوں سے اقتباس

ڈاکٹر مصدق کے خلاف بغاوت کا احوال

دو دن بعد امتحانات میں شرکت کے بہانے میں نے تہران یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ تہران کے شریف اور آزادی طلب عوام حیرت میں مبتلا نظر آئی۔ شاہ کے حامی جشن منا رہے تھے اور شعبان بی مخ نامی بدمعاش ایک کھلی چھت کی گاڑی میں ہاتھ میں پستول لہراتا ہوا شاہ زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا گذر رہا تھا۔

اسیری کے برسوں بعد۔۔۔

منیژہ لشکری کے واقعات

جس وقت اس کا خط میرے ہاتھوں میں پہنچا میں کانپ رہی تھی۔ میں یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ یہ خط حسین نے لکھا ہے۔ میں خط کو لیا چوما  دیکھا مگر اس وقت میں مکمل سکتہ میں آگئی تھی میرے اطراف موجود لوگوں نے مجھے کرسی پر بٹھایا۔

حجۃ الاسلام غلام علی مہربان جہرمی کے واقعات

اگلے مورچوں  پر پہلے اسکول کا افتتاح

یں تمہیں  ایک پتہ بتاتا ہوں وہاں جاؤ مگر میرا نام نہیں لینا  کیونکہ وہ اس پر راضی نہیں ہے۔ خود اس کو ڈھونڈو اور خود ہی اس سے بات چیت کرو۔ وہ شیراز کی یونیورسٹی سے آیا تھا تو گمنام رہ کر کام کرتا تھا اب اس کے پاس پانی کا ایک ٹینکر ہے اور وہ مورچوں پر پانی پہنچانے کا کام کر رہا ہے

امیر سعید زادہ کے واقعات کا ایک حصہ

ہم سے رابطہ

میرے ساتھی ایک ایک کر کے شہدا کے کارواں سے ملتے رہے۔ حاجی احمد علی پور ، مجلس شورائے اسلامی میں سردشت کے نمائندہ تھے ۔ وہ تاکستان سے گذر رہے تھے کہ ایک مشکوک حادثہ پیش آیا اور عجیب طریقہ سے ان کی گاڑی الٹ گئی

خاور تقی زادہ کے واقعات

انسان سازی کا کارخانہ

میں جوان بھی تھی اور پرجوش بھی۔ انقلاب اسلامی کا جذبہ میری رگ و پے میں  سمایا ہوا تھا۔ میں نے صبح پانچ بجے ہی اپنے سارے کام نمٹائے، چند نوالےناشتہ کے کھائے اور بس آنے سےکوئی آدھا گھنٹہ قبلی ہی امام بارگاہ پہنچ گئی۔
4
...
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔