بھوک ہڑتال کا نتیجہ - ۱

اس ہڑتال میں بیس تیس افراد نے شرکت کی۔ جب ہم نے ہڑتال کا آغاز کرنا چاہا تو جیل حکام کو مطلع کرتے رہے کہ مثلاً آج سے ہمارے لیے کھانا مت لائیں۔ جیل کے افسران نے پہلے دو تین دن ہمارے فیصلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، لیکن اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ یہ ایک سنجیدہ فیصلہ ہے اور حقیقت بھی یہی تھی۔

مدرسہ کی دادیاں

اسکول کا چپڑاسی ہماری کلاس میں آیا اور ہماری چادریں چھین کر ایک تھیلے میں بھریں اور کہا کہ میں ان چادروں کو جلا رہا ہوں اور یہ آخری مرتبہ ہے کہ  تم لوگ چادر پہن کر  اسکول آئی ہو آئندہ کوئی چادر پہن کر نہ آئے۔

بھوک ہڑتال کا نتیجہ - ۳

اس کے بعد مجھے پھر جیل کے دفتر بلایا گیا۔ وہاں، ذلیل کرنے اور تنبیہ کی خاطر، میری داڑھی مونڈ کر مجھے واپس اسی کمرے میں چھوڑ گئے۔ نماز کے وقت، میں نے وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کی خاطر ٹوائلٹ جانے کی درخواست کی، لیکن انہوں نے مجھے اجازت نہ دی

ماہ رمضان کے واقعات سے ایک ٹکڑا

افطاری بھی کیا تھی پیاز کا پانی اور ابلے ہوئے بینگن وہ بھی بغیر نمک کے، خدا کسی دشمن کو بھی ایسا کھانا نصیب نہ کرے۔

حاجی احمد متوسلیان اور بیت مال کی ٹوپی

پاوہ کے نزدیک ایک گاؤں ہے جس کا نام نجار ہے اس کی آبادی ۴۰ خاندانوں میں منقسم ۱۵۶ افراد پر مشتمل تھی۔ یہ پاوہ کے بعد پہلا گاؤں تھا جو نوسود کی جانب واقع تھا۔ فوجی اسٹراٹیجیک کے لحاظ سےاس کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ لیکن ہمیں اس پر تصرف کرنا تھا  تاکہ ہم نوسود کی جانب سفر کر سکیں۔ ۱۹۷۹ کی سردیوں کی ایک صبح  ہم پاوہ کے رضا کار گارڈز اور غیر مقامی گارڈز کے ہمرا نوسود کی جانب روانہ ہوئے۔ انقلاب مخالف عناصر نے گاؤں نجار کے اندر سے  مزاحمت شروع کی۔ جوانوں...

شکست میرے لیے رہنے دو

ہم ہوائی اڈے کے ویٹنگ لاوَنج میں منتظر تھے جب امام طیارے کی سیڑھیوں سے نیچے اترے، پھر "خمینی اے امام" والا ترانہ پڑھا گیا اور امام خمینی نے خطاب کیا۔

  حصہ دوم

شہداء تبریز کے چہلم کا انعقاد اور معصومہ زارعیان کی شہادت

سید محمود نے بہت خوبصورتی سے اشعار پڑھے اور محفل میں کچھ جان آئی۔ پھر منصوبے کے مطابق ہم نے اسے مسجد سے باہر نکال لیا۔ مسجد کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ کسی اہلکار کو یہ پتہ نہیں چلا کہ اشعار کس نے پڑھے

حصہ اول

شہداء تبریز کے چہلم کا انعقاد اور معصومہ زارعیان کی شہادت

میں انکی طرف چل پڑا، جب پہنچا تو وہ دروازے پر ہی کھڑے تھے۔ وہ گاڑی میں سوار ہوئے اور بولے:"جناب حق شناس کے گھر چلو"۔ جب ہم آقا حق شناس کے گھر پہنچے تو انہوں نے بھی یہی کہا: "مجھے بھی فون کیا ہے  کہ ہم آپ کو کل کسی بھی صورت مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"

ساواک کی تجویز کا جواب

یونیورسٹی میں تعلیم جاری رکھنے سے انکار،

میں ایک سال سے غیر حاضر تھا اور حالات کافی تبدیل ہو چکے تھے۔ اس سے قبل، میرے دوست سیاسی معاملات سے لاتعلق رہتے تھے لیکن اس بار وہ بہت جوش اور احترام سے میرے استقبال کو آئے۔

مشترکہ کمیٹی کے زندان میں تبدیلی، سال ۱۳۵۷، پچاس کی دہائی

میں نے تفتیشی افسر سے احتجاج کیا اور کہا: "ہماری گرفتاری کی وجہ کیا تھی؟" وہ ہمیں یہاں کیوں لائے؟ وہ اب ہمیں رہا کرنے کا کیوں سوچ رہے ہیں؟" اس کے پاس دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا!
...
7
...
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔