بارہویں محرم کی رات اور میری گرفتاری کا ماجرا

میں جیسے ہی مسجد معیر سے باہر نکلا تو ایک شخص خوفزدہ حالت میں میرے پاس آیا اور کہنے لگا: "مسجد کی تمام دیواروں کے پیچھے پولیس والے کھڑے ہیں۔ دو تین نہیں، دس بیس نہیں، تیس، چالیس بھی نہیں۔ مسجد کے چاروں طرف ہر جگہ اہلکار موجود ہیں۔ چاہتا تھا کہ آپ مطلع رہیں۔"

میں نے 15 خرداد کے شہداء کے خون کی قیمت قبول نہیں کی

وہ اوپر آیا اور جوتے اتارے بغیر کمرے میں داخل ہوکر فرش پر بیٹھ گیا۔ والد مرحوم اس کے دوسری طرف بیٹھ گئے۔ اس نے والد صاحب سے احوال پرسی کی اور کہا: "حضرت آیت اللہ آپ ہمیشہ شہنشاہ اور مملکتی نمائندوں کے منظور نظر رہے ہیں"۔

شاہی جشن کا بائیکاٹ

ہمارا تقسیم کرنے کا طریقہ کار بھی بہت اچھا تھا اور اس کا موجد تقریباً میں ہی تھا، اور یہ وہی، مشہد میں اعلانات تقسیم کرنے والا طریقہ ہی تھا۔ کچھ اعلانات کو ہم جناب مہدوی کنی کے گھر لے گئے۔

نصرت اللہ  محمود زادہ کے واقعات کا ایک ٹکڑا

جنگ کے دروران سڑکیں بنانے کی اہمیت

جنگی امداد کو چوٹی تک پہنچانا بمشکل تمام انجام پایا۔ امداد رسانی کے لئے کچھ خچر ہمارے پاس تھے مگر وہ سب سامان لے جانے کے لئے کافی نہ تھے۔ اس لئے مجاہدین مجبور تھے کہ سامان کو کاندھوں پر لاد کر لے جائیں۔

ڈھائی سو سالہ شاہی جشن کی تقریبات پر ردعمل

فرح کے خلاف نعرے بازی اس لیے کی گئی کہ اس وقت وہ 2500 سالہ جشن کی تقریبات کا ایک اہم جزو اور ملک میں مذہب مخالف رجحانات کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں کا اصلی محور تھی۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ لوگ ہمارا ساتھ دیں گے لیکن توقعات کے برعکس، لوگ بھاگ گئے اور اجتماع منتشر ہو گیا!

گوہرشاد مسجد میں کیا ہوا؟

اگلی رات ہم نے گوہرشاد مسجد کے جنوبی دروازے کی جانب دعائے توسل کی محفل سجائی۔ جتنے دن ہم دعا پڑھتے رہے، دعا پڑھنے والوں کو ایک ایک کرکے گرفتار کرتے رہے۔ مشہد اور قم کے طلاب اور دوستوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا۔ آخرکار، آخری رات میں خود دعا پڑھنے آگے بڑھا اور اسکے بعد گفتگو شروع کی اور امام کی صحت کے لیے دعا کی

آیت اللہ خمینی کے نام پر درود

بظاہر کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس طرح پہلی بار، اور وہ بھی بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے، امام خمینی کا نام اس طرح پرجوش انداز میں ذکر ہوگا! بیرجند کے لوگوں کے بارے میں عمومی تصور یہ تھا کہ یہ زیادہ تر تعلیم یافتہ اور خواب آلود افراد ہیں، جنہیں اپنے اردگرد کے واقعات کا کوئی علم نہیں ہوتا! لیکن اس طرح صلوات کے ذکر کے ساتھ، بیرجند میں امام کے حامیوں کو مزید ہمت اور جرات ملی۔

دعائے توسل کی محفل میں کیا ہوا؟ 2

اس سال موسم گرما میں جب یہ پروگرام ہوا، ہمارا پورا خاندان مشہد کے ایک مضافاتی پرفضا مقام آخلمد میں ٹہرا ہوا تھا۔ سوائے میرے، کیونکہ میں اس پروگرام کی وجہ سے انکے ساتھ نہیں گیا تھا، یہاں تک کہ ان راتوں میں سے ایک رات، میں ان سے ملنے گیا اور رات وہاں گزاری۔ اگلے دن جب میں نے وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا تو میری ماں نے کہا، "تم کہاں جا رہے ہو؟ آج رات یہیں رکو۔" میں نے کہا "نہیں! مجھے جانا ہے، مجھے مشہد میں کام ہے"۔ میرا ارادہ یہی تھا کہ دعائے توسل کے اس پروگرام میں شرکت کروں۔

صاحب الزماں کے چند سکے!

اردشیر اور میں نے، تین ماہ تک، اپنا تقریباً سارا وقت اس جشن کو ہر ممکن حد تک شاندار طریقے سے منانے کے لیے صرف کیا۔ جشن کے پروگراموں میں سے ایک چیز، ایران کی سیاسی صورتحال کو متعارف کرانے والا، ۴۰ صفحات پر مشتمل، ایک کتابچہ بھی شامل تھا، جو جرمن زبان میں تھا۔

آیت اللہ شاہرودی کی موجودگی میں سیاسی خطبہ

یہ مجلس 12 ربیع الاول کو حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم مطہر پر ہونے والے حملے کی برسی کے موقع پر منعقد کی گئی تھی اور دوسری جانب اسی موقع پر آقا روح اللہ خمینی کو ترکی جلاوطن کیا گیا تھا۔
2
...
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔