چند آپریشنز سے وابستہ مجید یوسف زادہ کی یادیں

شیراز، اردبیل، کرمان، تہران وغیرہ کے شجاع و دلاور

انٹرویو: مہدی خانبان پور
ترتیب: ایران کی زبانی تاریخ

2016-11-12


مجید یوسف زادہ ایران پر مسلط کی گئی عراقی جنگ  کے زمانے میں پانچویں نصر اور گیارہویں عاشورا لشکرمیں بسیجی مجاہد اور پاسدار رہے۔ وہ آجکل کنسٹرکشن کمپنی میں انجینئر اور  ملازم ہیں۔ اس سال عید نو روز سے پہلے ہم نے اُن کا انٹرویو کیا تھا۔ مندرجہ ذیل تحریر میں آپ اُن کے واقعات ملاحظہ کریں گے۔

 

ہم سب قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے

جنگ کے حالات اور مراحل عام دنوں سے مختلف ہوتے ہیں۔  ایک جارحانہ حالت  ہے جیسا کہ ہم آپریشن میں تھے اور قدرتی سی بات ہے کہ ایسے میں سپاہی عید نوروز کیلئے جشن نہیں منا سکتے۔ مثلاً فتح مبین آپریشن جو  ۲۲ مارچ سن ۱۹۸۲ء والے دن کرخہ نہر کے مغرب اور شوش کے علاقے میں انجام پایا۔ تمام سپاہی اس مسئلے میں درگیر تھے۔ مارچ سن ۱۹۸۷ء میں بھی کربلائے ۵ اور کربلائے ۸ آپریشنز اپنے اختتامی مراحل میں تھے اور تمام سپاہی وہاں بھی مصروف تھے۔ لیکن دفاع مقدس کے بقیہ سالوں میں آپریشنز اُس انداز میں نہیں تھے اور عید نوروز کے دنوں میں مجاہدین زیادہ تر دفاعی حالت میں تھے۔ دفاع کی بھی دو حالتیں ہوتی ہیں، پہلی حالت یہ کہ آپ فرنٹ لائن پہ دفاعی پوزیشن میں ہیں۔ دفاعی پوزیشن میں آپ دشمن کی کمین گاہ سے ۶۰ – ۵۰ میٹر کے فاصلے پر اور تقریباً ۲۰۰۰- ۱۰۰۰ میٹر  بارڈر لائن سے دور ہوتے ہیں،  جہاں گرنیڈ ، میزائل بھی آتے ہیں، لہذا آپ وہاں پر نہ جشن مناسکتے اور نہ ہی سات سین والا دستر خوان لگاسکتے۔ آپ نوروز کے دنوں میں دفاع مقدس سے متعلق جو فلمیں دیکھتے ہیں،  یہ اُس زمانے کی ہیں جب فوجیں دفاعی بیرکوں میں تھیں، جیسے دو کوھہ چھاؤنی، شہید باکری چھاؤنی  اور دوسری چھاؤنیاں جہاں فوجوں نے پڑاؤ ڈالا ہوا تھا  اور سپاہی وہاں رہتے تھے۔ یہاں قدرتی طور پر سات سین والا دسترخوان بچھایا جاتا  جو عام طور سے لگائے جانے والے سات سین والے دستر خوان سے مختلف ہوتا، اس میں سیب و سکہ کے بجائے سین سے شروع ہونے والا جنگی سازو سامان ہوتا، جس سے والا دسترخوان لگایا جاتا۔ سب سے اہم ترین قرآن کریم تھا جو اس دستر خوان کی زینت کا باعث تھا۔

خیبر آپریشن  مارچ سن ۱۹۸۴ء میں ہوا جس میں عظیم شہداء جیسے حاج ابراہیم ہمت  نے جام شہادت نوش کیا۔ دشمن کی طرف سے دباؤ بڑھتا جا رہا تھا اور وہ ہم سے جزائر مجنون کو واپس لینا چاہتا تھا ، دشمن نے کیمیائی بمب استعمال کئے۔  کیمیائی بمب کی شرائط بھی بہت سخت ہوتی ہیں۔ جیسا کہ میزائل کا ایک گولہ لگنے سے ۶۰ – ۵۰ لوگ زخمی اور شہید ہوجاتے ہیں، لیکن  ایک کیمیائی بمب سے پانچ ہزار افراد لپیٹ میں آسکتے ہیں  اور پھر ان میں لڑنے کی سکت نہیں رہتی؛ انہیں پیچھے ہٹنا پڑتا اور ان کی  دیکھ بھال میں کافی توانائی خرچ ہوجاتی۔ ان ایام میں امام خمینی ؒ نے فرمایا کہ جزیروں کی حفاظت ہونی چاہیے۔ حتی زخمی افراد بھی ہسپتالوں سے آگئے، تمام افواج جزیروں  پر چلی گئی اور  بہت ہی جانفشانی سے دفاع کیا اور جزیروں کی اچھی طرح حفاظت کی۔  آپریشن کے بعد فوجی تھکے ہوئے تھے اور اپنے شہروں کی طرف پلٹنا چاہتے تھے۔ اس مسئلے کو امام کے سامنے پیش کیا گیا کہ ہمارے پاس فوجی کم ہیں اور بعض فوجی گھروں کو جانا چاہتے ہیں تاکہ عید نوروز اپنے گھر والوں کے ساتھ منائیں۔ امام نے تاکید کی کہ فوجی حتماً جنگی علاقوں میں رہیں۔ ہمارا یونٹ ۱۸ ویں جواد الائمہ (ع) بریگیڈ  میں سے ایک تھا  اور اُس میں خراسان کے فوجی تھے۔ آپریشن شروع ہونے سے پہلے شہید  عبد الحسین برونسی نے آکر ہم سے خطاب کیا۔ ہم جو شوش کےعلاقے کی چوتھی اور پانچویں سائیڈوں پر تعینات تھے، سن ۱۹۸۵ء کی عید ہم نے وہیں گزاری۔ میرے خیال سے دوپہر ایک، ڈیڑھ بجے  کے قریب تحویل سال کا وقت تھا۔ مجھے یاد ہے تبلیغات والوں نے تمام فوجیوں کو تحفے میں ایک ایک جیبی قرآن دیئے تھے جس میں بہت ہی باریک لکھا ہوا تھا، لیکن اُس میں پورا قرآن تھا۔ ہم نے سن ۱۹۸۵ء کا آغاز وہاں کیا،  سب ایک ساتھ جمع تھے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ اُن لمحات میں جس چیز نے مجھے اپنی طرف جلب کیا وہ سب کا قرآن سے متوسل ہونا  اور دعا اور تلاوت کرنا تھا۔ بعض لوگ تحویل سال تمثیلی طورپر مناتے ہیں، قرآن کو ہاتھ میں لیتے ہیں کہ ہم اپنے سال کو دعا اور ذکر کے ذریعے بدلنا چاہتے ہیں، جیسے ہی تحویل سال ختم ہوتا ہے قرآن کو چوم کر آئندہ سال اور تحویل بعد کیلئے طاقچہ پر رکھ دیتے ہیں۔ لیکن وہ دلچسپ بات ابھی تک میرے ذہن میں ہے، وہ قرآن جو ہمیں تحفے میں دیئے گئے تھے، سب قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے۔ ایک کمانڈر بیان کر رہے تھے کہ "آپریشن کی رات میں نے لوگوں سے کہا: "کس کی جیب میں قرآن ہے؟" ۳۰۰ افراد میں سے ۲۶۰ لوگوں نے اپنی جیب سے قرآن نکالا" اور یہ بات اُن کے قرآن سے مانوس ہونے کی علامت تھی۔

ابھی مجھے دسمبر سن ۱۹۸۶ء کا واقعہ یاد آیا ہے۔ اس دن میں پاسدار بنا تھا؛ یعنی میں سپاہ میں شامل ہوگیا  تھا۔ میں نے اُسی دن اپنی ڈیوٹی کا حکم نامہ لیا اور پہلی دفعہ سپاہ کی وردی حاصل کرکے محاذ پر چلا گیا۔ میں ایک دن بعد دزفول پہنچا۔ تمام فوجی آگے بڑھ چکے تھے۔ میں ایک منی بس پر بیٹھ کر اہواز سے آگے اور خرم شہر سے نزدیک ایک علاقے موقعیت شہید اجاقلو پہنچا۔  فوجیوں نے نخلستان میں خیمے لگائے ہوئے تھے۔ ہم کربلائے ۴ آپریشن کیلئے تیار ہورہے تھے۔ آپریشن والی رات عراقی لڑاکا طیاروں نے کلسٹر اور لائٹنگ بمب گرائے، پورا صحرا روشن ہوچکا تھا  اور مجھے ابھی تک یاد ہے  کہ ہم خرم شہر سے کافی فاصلہ پر تھے  (تقریباً ۵۰ – ۴۰ کلومیٹر) لیکن آپریشن کی شرائط بالکل واضح تھیں۔

 

آپریشنز کے واقعات سنائیں؟

میں جن آپریشنز میں  شریک رہا  اُن میں سے ایک آٹھواں والفجر آپریشن تھا  در حقیقت ہم وہاں تبریز یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ فاو فتح کرنے کی غرض سے تھے۔  جیسا کہ ہم لشکر عاشورا   کے ساتھ آئے تھے، آرگنائزڈ تھے اور  میڈیکل یونٹ میں تھے۔ اطلاع دی گئی کے آپریشن ہے، ہم آگئے حالانکہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ آپریشن کہاں ہوگا۔ بس وہ لوگ بٹالین  کے کمانڈر کی حیثیت سے رفت و آمد کر رہے تھے۔ بٹالین  کمانڈر سے نچلے درجہ کا اگر کوئی دوسرے علاقے جاتا تو پھر واپس نہیں آتا۔ علاقے میں امنیت اور ۶ مہینے کی تگ و دو کے بعد حاصل ہونے والی اطلاعات کے بعد دشمن متوجہ نہیں تھا اور نہ ہی سوچا کہ ہم نہر اروند سے گزر کر اُسے اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں۔ آپریشن کا بنیادی مسئلہ  بیک اپ تھا اور وہ پل بعثت جسے نئی تعمیرات کے افراد نے نہر اروند کے اوپر بنایا تھا، آپریشن برقرار رہنے کا باعث بنا  اور دشمن  ہمیں پیچھے نہیں دھکیل سکا۔

 

اُس کے یورپین اسٹائل پر سب کو حیرت ہوئی!

ہم آپریشن سے دو دن پہلے پہنچ گئے تھے۔ ہمیں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ ہمیں ٹرک میں بٹھا یا اوراُس پر کپڑا ڈال کر چل پڑے۔  ہمیں نہیں پتہ تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ زیادہ تر افراد سوچ رہے تھے کہ جزائر مجنون کی طرف جا رہے ہیں اور خیبر آپریشن جاری ہے اور ہم وہاں دوبارہ آپریشن کریں گے۔ چونکہ پہلے بھی ٹرک جزیروں کی طرف گئے اور سڑک اور پیڈ کی تعمیر ہوئی، سب اُسی بارے میں سوچ رہے تھے۔ جب ہم باہر نکلے تو دیکھا کہ نخلستان میں کھڑے ہیں، ہم نے کہا: خدایا یہ کونسی جگہ ہے جہاں درخت اور پانی ہے۔ پتہ چلا اُس جگہ کو خسروآباد اور ساحل اروند کہتے ہیں۔ آپریشن شروع ہونے  سے ایک رات پہلے میرا دل اُداس تھا۔ میں نے سوچا کہ اطراف کاچکر لگا کر وضعیت کا جائزہ لوں۔ ہمیں نخلستان سے خارج ہونے کو منع کیا گیا تھا۔ درختوں کے درمیان چل رہا تھا کہ دیکھا ہمارے برابر میں نصر ۵ کا لشکر ہے۔میں نے سوچا جاکر مشہد کے افراد سے ملوں، کوئی محلے والا مل جائے۔  ایک جاننے والے کو دیکھا جو مشہد میں میری دادی کے گھر کے سامنے رہتے تھے، اُن کا نام جناب  مجید ناجی تھا، وہ اُستاد تھے۔  اُن کا قد لمبا اور داڑھی گھنی تھی۔ میں اُس وقت ۱۹ سال کا تھا۔ اُن سے ملا اور خیریت  دریافت کی۔ وہ آپریشن میں شہید ہوگئے۔  وہ گاڑی پر گولہ بارود لے جارہے تھے۔ ایک ہیلی کاپٹر سے فائر نگ ہوئی اور گولیاں گاڑی پر لگی؛ وہ گردن پر گولی لگنے سے شہید ہوئے۔ جیسا کہ ہمارا کام  چھوٹے کٹوشا میزائل استعمال کرنا تھا لیکن  شروع کے دنوں میں ہم نے گولہ بارود اُتارنے اور کشی کے ذریعے اُنہیں نہر اروند کے اس پار لے جانے میں مدد کی۔ کئی دفعہ لڑاکا طیارے آئے اور  غوطہ لگا کر ہم پر بمباری کی۔ کیونکہ نہر کی دونوں طرف بمباری کیلئے واضح ایریا تھا۔ میں نے ایک دفعہ اپنے سروں سے گزرنے والے طیاروں کو گنا،  ایک ساتھ ۲۵ طیارے بمباری کر رہے تھے۔ معمولاً وہ کوشش کرتے کہ نہر اروند کے آخر تک یعنی  خلیج فارس کے نزدیک نہ ہوں کیونکہ وہاں ایک کونے پر ہماری طیارہ شکن گنیں تھیں۔ اُن میں سے ایک آگے بڑھا تو دفاعی پوزیشن سے اُس پر فائر ہوا اور وہ سقوط کرگیا۔ دوسرے طیارے کا پائلٹ جو اُس سے ۵۰۰ میٹر پیچھے تھا، وہ ڈر گیا اور اس سے پہلے کہ اُس پر بھی فائر ہوتا، اُس نے باہر نکل کر چھلانگ لگادی۔ ہم نے اُسے قیدی بنالیا، ہم نے دیکھا کہ اُس کا رنگ گورا، آنکھیں روشن اور بال گولڈن ہیں۔ اُس کے یورپین اسٹائل پر سب تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے: "ایسا نہ ہو کہ عراق نے یورپ سے پائلٹ منگوایا ہو!" جب اُس نے بات کی تو پتہ چلا عراقی ہے۔

 

غوطہ خور مجاہدین کا کوئی واقعہ یاد ہے؟

جی، میں نے کربلائے ۴ آپریشن کی رات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ آپریشن کی صبح سب کو پتہ چلا کہ آپریشن کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔  سب کے دل ٹوٹ گئے خدایا ہم اپنے وظیفے کی انجام دہی کیلئے آئے تھے لیکن اپنا وظیفہ انجام نہیں دے سکے۔ کچھ لشکروں نے تو فوجیوں کی چھٹی کا حکم صادر کردیا،  کچھ نے اپنے فوجیوں کو اُسی حالت میں رکھا۔ ہم کربلائے ۵ آپریشن کیلئے شلمچہ میں تیاری کی۔ آپریشن کی منصوبہ بندی پر کم از کم ۶ مہینے صرف ہوئے، آرگنائزڈ کرنا، انٹیلی جنس ورک اور  ہوائی نقشوں کی جانچ پڑتال کرنا  اور کھوج لگانا، پندرہ روزہ مدت میں، بہت دباؤ اور سختی میں تیار ہوا۔  ہم اُس شہید اجاقلو کی موقعیت پر تھے۔ اتفاق سے جناب کریمی، جنگ کے زمانے میں جن کی آواز مشہور تھی، انٹرویو کیلئے آئے ہوئے تھے، انٹرویو کے درمیان کہنےلگے: "اسٹینڈ اپ، حرکت کرو" ہم سب اٹھے اور ٹرک پر سوار ہوگئے۔ سردیاں تھیں اور ٹھنڈی ہوائیں! لیکن ہم خوش اور  باعزم تھے۔

 

ابراہیم کا کمبل

میں نے غور کیا تو دیکھا جو لوگ جارہے ہیں، اُن کے بیگوں میں ایک کمبل یا سلیپنگ بیگ ہے۔ ہم دو افراد جو واچ مین تھے اور ساتھ ساتھ چل رہے تھے، میں نے اپنے دوست سے کہا: "ان سب کے پاس کمبل ہیں، ہم بھی اٹھالیتے ہیں؟" اُس نے کہا: "نہیں بھائی، ہم آپریشن کیلئے جا رہے ہیں، کیوں اتنا بھاری سامان اٹھائیں۔" کیونکہ ہمارے پاس بقیہ فوجیوں کی طرح ساز و سامان کے علاوہ  وائرلیس، قطب نما اور کیمرہ بھی تھا، ہمارا سامان کا وزن دوسروں سے زیادہ تھا۔ خلاصہ میں اُس کی مدد سے ٹرک پر سوار ہوا۔ شہید اجاقلو کے مقام سے اہواز ہائی وے سے ہوتے ہوئے خرم شہر پہنچ گئے، پھر شہید صفوی ہائی وے کی طرف گئے، پھر ایک گلی سے باہر نکلے تو وہاں پہنچے جہاں ٹرک کھڑے ہوئے تھے۔ کہا گیا: "بھائیوں اُتر جاؤ۔"ہم سب نیچے اُتر گئے۔  نزدیک ہی ایک سرنگ تھی۔ کہا گیا: "بھائیوں سرنگ میں داخل ہوجاؤ" سب سرنگ کے اندر چلے گئے۔ کہا گیا: "سب لوگ سو جائیں"  سب نے اپنے سامان اور سلیپنگ بیگ کھول لیا، جن کے پاس کمبل تھے وہ کمبل کے اندر چلے گئے۔ میرے اور جعفر کے پاس کچھ نہیں تھا۔ ہم مٹی سے اٹی زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور سونا چاہتے تھے۔ بہت سردی ہو رہی تھی۔ ہمارے تمام اعضاء جم چکے تھے۔ سردی کی وجہ سے ہمارے دانت بج رہے تھے۔ یہ آواز ہمیں سونے نہیں دے رہی تھی۔ میں نےکہا: "جعفر کیا کریں؟ اٹھو چہل قدمی کرتے ہیں۔" اُس نے کہا: "خطرناک ہے، فوجی ہمیں نہیں پہچانتے، وہ مسلح اور خواب آلود ہیں؛ ممکن ہے پہچاننے میں غلطی کریں، یہ احتمال ہے۔" میں نے کہا:"تو پھر ٹہلنے کے علاوہ کیا کریں، صبح تک تو برداشت نہیں کرسکتے۔" اُس نے کہا: "آؤ چلیں۔ میرا ایک دوستی ہے ابراہیم عبادی، جو کمپنی کمانڈر ہے۔ چلو ابراہیم کو ڈھونڈتے ہیں شاید وہ ہماری مدد کرسکے۔" ہم گئے اور ابراہیم کو ڈھونڈ لیا،  ۱۵۰ سینٹی میٹر قد اور ۴۰ کلو وزن کا مالک، وہ بہت ہی لاغر اور نازک تھا۔ ابراہیم نے کہا: "میری جان، کیا ہوا ؟ کسی چیز کی ضرورت ہے؟" اُس نے کہا: "ہاں، کیا تمہارے پاس ہمیں دینے کیلئے کوئی اضافی کمبل ہے؟" وہ بولا: "نہیں، میرا کمبل لو اور سو جاؤ۔ میں کسی نہ کسی طرح اپنی مشکل حل کرلوں گا۔" ہم نے کہا: "نہیں جناب، ہمیں آپکا کمبل نہیں لینا، اگر اضافی ہے…" اُس نے کہا: "آپ آئیں ، لیٹ جائیں،  میں کسی طرح گزار لوں گا۔" اُس نے ہمیں قائل کرکے کمبل دیدیا اور خود صبح تک ٹہلتا رہا اور ہم سوتے رہے۔ ہم صبح کی نماز پڑھ کے دوبارہ سو گئے۔ جیسے جیسے ہوا گرم ہو رہی تھی، سونے میں مزہ آرہا تھا۔ اچانک دو شیل ہمارے پاس آکر گرے۔ کہا گیا:  "کھڑے ہوکر اپنی پناہ گاہ میں جائیں۔" ہم اپنے کمانڈر کے پاس گئے۔اُس نے وضاحت پیش کی اور خلاصہ یہ کہ ہم آپریشن کی رات تک پہنچ گئے۔  ہم نے سورج غروب ہونے سے پہلے کھانا کھالیا اور سورج ڈوب جانے کے بعد نماز پڑھی اور آگے کی طرف چل پڑے۔ سیلاب زدہ علاقے تک پہنچے۔ پنج ضلعی کے پیچھے سیلاب زدہ علاقے میں آپریشن ہونا تھا۔ غوطہ خوروں نے جاکر راستے میں چراغ روشن کردیئے تھے تاکہ ہم رات میں راستہ ڈھونڈ سکیں۔ کشتی میں سوار ہوکر آگے کی طرف بڑھے۔ ہمارے ملاح، بٹالین کمانڈر جناب رحیم نوعی اقدم تھے جن کا تعلق اردبیل سے تھا۔

جناب رحیم نوعی اقدم کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ بقول اُن کے: "میں بدر آپریشن میں بٹالین کمانڈر تھا۔ مورچے کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ ایک گرنیڈ میرے نزدیک آکر لگا اور میرا وائرلیس آپریٹر شہید ہوگیا۔ ایک ٹکڑا مجھے بھی لگا اور اُس ٹکڑے نے میرے حلق کو کاٹ دیا۔ ایک دم وائرلیس سے آواز آنے لگی: "رحیم رحیم مہدی…" جناب مہدی باکری وائرلیس کے ذریعے مجھے پکار رہے تھے اور میرا حلق ہی نہیں تھا  اور میں جناب مہدی کو جواب نہیں دے سکتا تھا۔ خدایا اب کیاکروں؟  میں نے مٹی کا ڈھیلا اُٹھاکر اپنے حلق میں رکھ لیا تاکہ کچھ آواز نکال سکوں  تاکہ جناب مہدی سمجھیں کہ میں وائرلیس پہ ہوں۔  وہ ڈھیلا خون کے ذریعے بہہ کر باہر آگیا اور میں جناب مہدی کو جواب نہیں دے سکا ، یہ حسرت مجھے کھاگئی۔

ہم کشتی پر بیٹھے پنج ضلعی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کشتی کا سرا خاردار تاروں میں پھنس گیا اور وائرلیس سے یوں آواز آنے لگی۔ بٹالین کمانڈر ، کمپنی کمانڈر سے رابطے میں تھا جو کہہ رہا تھا، ہماری کشتی پر گرنیڈ لگاہے اور فلاں شخص شہید ہوگیا ہے۔ پریشان کنندہ خبریں دے رہے تھے۔ ایک جگہ ہم نے دیکھا ایک طالبعلم پانی میں کودا اور اُس نے پانی کے  نیچے جاکر  خار دار تاروں کو کھولا اور کشتی کو ہلکے ہلکے دھکا دیکر اسٹارٹ کرلیا اور ہم پھر چل پڑے۔ ایک ایسی خاردار تار تک پہنچے جس کے اُس طرف ساحل تھا۔ ہم نے وہاں پر ایک غوطہ خور ساتھی کو زخمی پایا جو آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا۔ ہم نے اُس سے کہا: "بھائی یہاں سے گزرنے میں ہماری مدد کرسکتے ہو؟" وہ اُسی زخمی حالت میں پانی میں تیرتے ہمارے نزدیک آیا۔ اور خاردار تار پر بیٹھ گیا اور خاردار تار اُس کے وزن کے مطابق پانی کے اندر چلی گئی اور ہم وہاں سے گزر کر دوسری طرف آگئے۔ انہی لمحات میں اُس کے پہلو پر گولی لگی اور وہ تار پر گرکر شہید ہوگیا۔ ہم بھی مورچوں میں چلے گئے۔ جناب رحیم نے لشکر کے کمانڈر کو وائرلیس کیا: "ہم پہنچ گئے ہیں، لیکن بٹالینز خاردار تاروں میں پھنسی ہوئی ہیں، دوسری بٹالین بھیجو۔" ۵ بٹالینز خاردار تاروں میں پھنس گئی تھیں اور ابھی تک نہیں پہنچی تھیں۔

ہم نے نماز صبح ادا کی اور میں نے کہا: خدایا! کربلائے ۴ میں فرنٹ لائن نہیں ٹوٹی اور اب یہ آپریشن، تو خود ہی ہماری مدد کر۔ ایک دفعہ دیکھا کہ سپاہی آگئے ہیں اور مورچوں میں جمع ہیں۔ میں نے لوگوں کو بھاگتے ہوئے اور  علاقہ آزاد کراتے ہوئے دیکھا۔ ہم خود کو ان سے ملحق کرکے جھڑپوں میں شریک ہونا چاہتے تھے، ہم آگے نہیں بڑھ پا رہے تھے۔ ہم نے ان کے پیچھے بھاگنا شروع کردیا۔ پہلے ضلع حاصل کرنے کے بعد دوسرے ضلع تک پہنچے، ہم نے دیکھا کہ جن غوطہ خور افراد نے محاصرہ توڑا تھا، وہ سخت سردی میں کمبل اُوڑھے ایک خندق میں بیٹھے ہیں  تاکہ موسم مناسب ہوتے ہی پیچھے کی طرف جائیں۔ ایسے میں، میں نے ابراہیم کے اسسٹنٹ  کو دیکھا، جس کے کولہے پہ گولی لگی تھی اور اُس کی پینٹ خون میں تربتر تھی اور وہ پیچھے کی طرف ہٹ رہا تھا۔ اپنا پیر بھی گھسٹ رہا تھا، لیکن بہت ہی باوقار اور محکم انداز میں پیچھے ہٹ رہا تھا۔ جب لوگ زخمی ہوجاتے ہیں تو اُن کے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے سائیڈ میں رکھ دیتے ہیں تاکہ ہلکے ہوجائیں اور آسانی سے پیچھے ہٹ سکیں۔ لیکن اُس کا اسلحہ اور تمام سامان اُسے کندھوں پر تھا اور وہ محکم انداز میں پیچھے ہٹ رہا تھا۔ میں اُس سے بولا: "سلام دلاور" اُس نے کہا: "سلام، آپ؟" میں نے کہا: "آپ کی بٹالین کا واچ مین ہوں۔" وہ بولا: "اچھا، کوئی کام ہے؟" میں نے کہا: "ابراہیم کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ کہاں ہے؟" اُس نے کہا: "ابراہیم… !" تھوڑا سوچنے کے بعد کہنے لگا: "زخمی ہوگیا ہے" میں نے کہا: "الحمد للہ، بقیہ جنگ کیلئے رہ گیا ہے تاکہ اسلام کی خدمت کرے۔" اُسے خدا حافظ کہا۔ سو قدم آگے بڑھا ہونگا کہ میں نے ابراہیم کو مورچے پر گرا ہوا پایا،  اُس کے ماتھے پر ایک گولی لگی ہوئی تھی اور وہ جام شہادت نوش کرچکا تھا۔ میں نے اُس کے چہرے کا بوسہ لیا اور کہا: "ابراہیم تمہیں جنت مبارک ہو۔ تم نے ہمیں اپنا کمبل دیدیا تھا  اور ہم صبح تک سوتے رہے اور تم صبح تک ٹہلتے رہے  اور جنت ایسے ہی تو ملتی ہے، اپنے آپ سے گزر جاؤ تاکہ خدا تک پہنچو۔" پھر آپریشن جاری رکھنے کیلئے ہم آگے کی طرف بڑھے۔

 

کہیں ایسا ہوا ہے کہ آپریشن اپنے عروج پہ ہو اور ایک واقعہ کی وجہ سے تمام سپاہی  تمام اہم کام چھوڑ کر ہنسنے لگیں؟

آٹھویں والفجر آپریشن کا ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ ہے ۔ طے پایا کہ ہماری دو بٹالین آپریشن کیلئے جائیں۔ اس آپریشن میں میرے کچھ دوست بھی تھے۔ ہم رکاوٹیں عبور کرکے علاقے سے نکل چکے تھے اور عراقیوں کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے۔ اور انتظار کر رہے تھے کہ آرڈر آئے تو ہم دشمنوں کی صفوں پر حملہ کریں۔ اب اس کیفیت میں آپ سوچیں جب آپ کا فاصلہ دشمن سے ۵۰ میٹر ہو۔ ہمارے دوست ایک دوسرے کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے؛ شیراز کا رضا، اردبیل کا جلوش احد، اُس سے آگے کرمان کا عباس جھانشاہی، اُس سے آگے تہران کا سید تقی میر حیدری، سب لائن سے بیٹھے تھے۔ احد پیچھے آکر رضا سے کہنے لگا: "رضا اب ذکر کرنے کا وقت ہے، ابھی وقت ہے، ذکر کرو، ابھی تھوڑی دیر میں ہم صفوں پر حملہ کرنے والے ہیں اور نجانے کیا ہو۔" رضا اُن شرائط اور حالات میں جہاں موت ہم سے کچھ فاصلہ پر ہو، وہ کہتا ہے: "بسم اللہ الرحمن الرحیم، قال رسول اللہ (ص)،النکاح سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔ حضرت رسول (ص) نے فرمایا: شادی کرنا میری سنت ہے…" اوہ ھو، یہ کوئی مذاق کا وقت ہے؟" ایسے میں دشمن ایک برسٹ فائر کرتا ہے۔ دشمن کی فائرنگ دو طرح کی ہوتی تھی، ایک قسم یہ کہ وہ آپ کو دیکھ کر آپ کی طرف فائر کرتا ہے۔ ایک دوسری قسم بھی ہے جس میں وہ آپ کو دیکھتا نہیں ہے بلکہ اندھا دھند فائر کرتا ہے۔ یہ بھی ظاہراً اندھا دھند فائرنگ تھی، لیکن زگ زیگ انداز میں تھی۔ پہلی گولی رضا کے ٹخنوں پر لگی، دوسری گولی احد کی ران پر لگی، تیسری گولی سید عباس جھانشاہی کے ہاتھ پر لگی، چوتھی گولی سید تقی میر حیدری کے سر پر اور وہ شہید ہوگیا۔ سید عباس آرپی جی اٹھا کر دشمن کی طرف فائر کھول دیتا ہے۔ پھر دشمن کی طرف بڑھنا شروع کرتا ہے اور اُن کے مورچوں میں گھس جاتا ہے  اور خندقیں خالی کرانے والی جھڑپوں میں شہید ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے گھر کا اکیلا لڑکا تھا، وہ سب ۴ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ احد ایرانی ویٹ لفٹنگ کا چیمپئن تھا ٹھوس اور مضبوط جسم کا مالک اور رضا  کا بدن بہت لاغر تھا۔ بقول اُس کے:"میں نے دیکھا احد کی حالت خراب ہے، گولی لگنے سے اُس کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔  میں نے اُس سے کہا: "آؤ میں تمہیں پیچھے لے جاتا ہوں۔" جبکہ خود کو بھی گولی لگی ہے اور لاغر بھی ہے۔ وہ اُسے وزنی ہونے کے باوجود اپنے پیٹھ پر ڈالتا ہے تاکہ پیچھے کی طرف لے آئے۔ آرہے تھے، لیکن سختی اور درد کے ساتھ۔ وہ کہتا ہے: "ہم پیچھے آتے جاتے اور رضا فریاد کرتا جاتا۔" میں کہتا: "چپ!" وہ فریاد کرتا اور میں کہتا: "درد ہو رہا ہے، تم اوپر مزے کر رہے ہو اور میں بیچارہ جان لگا رہا ہوں، کیا ہوگیا ہے اتنا شور کیوں کر رہے ہو۔" خلاصہ جتنا زور لگا سکا لگایا لیکن اُسے پیچھے لے آیا۔ ہم جس راستے سے آرہے تھے گرنیڈ کے دھماکوں اور ٹکڑوں سے پُر تھا۔ اس کو جب کوئی ٹکڑا آکر لگتا تو کہتا: "آخ…  آخ…!" وہ  میرے لئے ڈھال بنا ہوا تھا اور میرے پیچھے زخم اٹھا رہا تھا۔ چلتے آرہے تھے کہ جس پیر پر گولی لگی تھی، ایک دم اُس کی ہڈی ٹوٹ کر لٹک گئی…"خلاصہ وہ احد کو پیچھے لے آتا ہے، جبکہ وہ خود بھی زخمی تھا۔ جناب احد نے بی اے، ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی ہے  اور آجکل تبریز یونیوسٹی میں ٹیچر  اور یونیورسٹی میں ایجوکیشنل اسسٹنٹ ہیں۔ لوگ موت  کے ساتھ ایسے مذاق کیا کرتے۔

ہمارا ایک دوست تھا جو تبریز کا رہنا والا اور بہت مزاحیہ تھا۔ اُسی فاو کے علاقے میں ایک صف تھی جس میں وہ کمپنی کمانڈر تھا۔ ہمارے مورچے کی بلندی بہت کم تھی، عراقی ہماری خندق میں شیل پھینکتے جس کی وجہ سے فوجی زخمی ہوجاتے۔ ظہر کا وقت تھا اور بہت گرمی ہو رہی تھی۔ سن ۱۹۸۶ء کی گرمیوں میں ہم وہیں پر تعینات تھے اور حزب اللہہی قوم نے محاذ پر رہنے والوں کیلئے تربوز بھیجے تھے۔ خندقوں میں تربوز بانٹ دیئے گئے تھے۔ پولی سٹائرین فریزر اور برف بھی تھی، تربوز ٹھندا کرنے کیلئے اُس میں رکھا ہوا تھا۔ ظہر کا وقت تھا ہم نے سوچا ذرا رضا سے مل کر آتے ہیں، اُس سے احوال پرسی کریں۔ گئے اور سلام کے بعد خیریت دریافت کی، اُس نے کہا: "دوستوں تربو لے آؤ، مجید لوگوں نے نہیں کھایا ہے، ہم ملکر کھاتے ہیں، ایسا نہ ہو کھائے بغیر اس دنیاسے چلے جائیں۔" اُس نے تربوز کی پھانکیں بنائی۔ بہت ہی ٹھنڈا تھا ، اُس نے دو تین پھانکیں کھائیں اور کہا: " میں باہر جا رہا ہوں، کچھ افراد اتنی  گرمی میں کھڑے ہیں ، ذرا اُن سے ملوں۔" جیسے ہی باہر گیا، نزدیک سے شیل کی آواز اور اُس کی سیٹھی  سنائی دی۔ لوگوں نے باہر جاکر دیکھا تو بتایا: "رضا بقائی کے پیٹ میں ٹکڑے لگے ہیں اور وہ شہید ہوگیا ہے۔" پانچ منٹ پہلے اُس نےکہا تھا: "کھانے کیلئے تربوز لے آؤ، کہیں کھائے بغیر دنیا سے نہ چلے جائیں"، وہ جاکے شہید ہوگیا اور اُس کا جنازہ لایا گیا۔ اب ہم رہ گئے تھے اُس کی اس تعبیر پر ہنسنا چاہیے یا بیٹھ کر گریہ کرنا چاہیے۔ یہ مزاحیہ پن بہت سے لوگوں میں رائج تھا، حتی سخت حالات میں بھی۔

میں اونچائی پر زخمی ہوا تھا ، مجھے شیل کا ٹکڑا لگا تھا  اور ایک ساتھی وہیں پر شہید ہوگیا تھا اور اُس کا جنازہ وہیں رہ گیا۔ جب ہم پیچھے آئے تو میرے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ عمامہ کی طرح لگ رہا تھا۔ جب ہیڈ کوارٹر پہنچے تو سب لوگ مذاق اُڑانے لگے: " سلام علیکم مولانا صاحب! …، مولانا صاحب التماس دعا… یہ کیا ہوا ابھی تو گئے تھے، اور اب مولانا بن کر آئے ہیں؟" میں نے کہا: "مذاق نہیں کرو، قاسم شہید ہوگیا ہے۔" وہ کہنے لگے: "ہم اس لئے مذاق کر رہے ہیں تاکہ آپ اس غمگین ماحول سے باہر آجائیں۔"وہ مجھے اس طرح پرسکون کرنا چاہتے تھے۔

 



 
صارفین کی تعداد: 3895


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔