ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح؛ تیسرا حصہ

علی کے ساتھ میری شناسائی اور ہماری ذمہ داریاں انقلاب کے ایام میں

اس کی مسکراہٹ کھانے سے اٹھتے دھویں کے پیچھے کھو گئی تھی اس نے فنگر چپس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ڈرانے کے لئے چمچہ اٹھا لیااس نے گرم گرم چپس اپنی انگلیوں میں دبایا اور مسکراتے ہوئے باہر کی راہ لی میں نے اس کا پیچھا کرنا چاہا مگر نہ کرسکی

تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – چوتھی قسط

حکومت صدام نے امام خمینی اور انقلاب اسلامی کے چاہنے والے مسلمان انقلابیوں کو منظر سے ہٹانے کیلئے، مذہبی افراد اور علماء کرام کو وسیع پیمانے پر پھانسی دینا، گرفتار کرنا اور نظر بند کرنا شروع کردیا کہ عراق کے بہترین اور مخلص ترین افراد اس حملے کی زد میں آئے

تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – تیسری قسط

میں ان لوگوں کے جہل اور لا علمی کو ثابت کرنے کیلئے ایک مضحکہ خیز واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو میں نے ٹیلی ویژن پر دیکھا۔ صدام نے ایک بند کو معنی کے لحاظ سے برعکس پڑھا۔ اس دفعہ بھی حاضرین نے ایک آواز میں کہا: " جی جناب، ہم متفق ہیں! " البتہ صدام کو ہوش آگیا اور اس نے اپنی غلطی کی اصلاح کرلی۔

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح؛ دوسرا حصہ

لکھاری کا تبصرہ

میں نے کتاب رسول مولتان پڑھی جو میری اور شہید سید محمد علی رحیمی کی اس  زندگی کا خلاصہ ہے جب ہم ایک ساتھ ہوتے تھے، اس کے بعد ہم ، میں علی اور بچوں میں بدل گئے پھر پلک جھپکنے میں ، میں اور بچے رہ گئے اور علی ہم سے جدا ہوگئے۔ ان کی جگہ ہمارے درمیان ایسے خالی ہوئی کہ پھر کسی بھی وقت پر نہ ہوسکی۔ میں نے اس کتاب کے صفحات کے درمیان علی کو دوبارہ اپنے پاس پایا۔ وہ اپنی اسی مہربان طبیعت کے ساتھ ہمارے ساتھ تھے  مہدی اور محمد ان کے ساتھ کھیل رہے تھے اور فہیمہ ان کے...

تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – دوسری قسط

صدام عمومی افکار کو دھوکہ دینے کیلئے، دیہاتی لباس پہن کر، خیموں میں بیٹھ کر، فوجی بن کر، اور بالآخر قوم کا محبوب فرزند – حکومتی پرنٹ میڈیا کی تعبیر کے مطابق - بن کر منظر عام پر آیا۔

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، پہلا حصہ

قارئین سے گفتگو

میں ایک ایسی خاتون کے سامنے بیٹھی تھی جس کی جوانی کا بیشتر حصہ غریب الوطنی میں گذرا تھا اور سفر کا اختتام، ہمسفر زندگی کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ ہوا تھا۔ اور وہ پچھلے ۱۸ سال سے تن تنہا ماں اور باپ بن کر بچوں کی کفالت کے فرض سے عہدہ برآں ہو رہی تھیں ۔ ایک ایسی خاتون کہ جس کی تمام تر زندگی اب اس کے بچے تھے۔

تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – پہلی قسط

میں خداوند متعال سے دعاگو ہوں کہ وہ میری توبہ قبول کرلے، مجھے پر اپنی رحمتوں اور عنایتوں کی بارش کرے اور مجھے صراط مستقیم پر خدمت کرنے کی توفیق عنایت کرے۔ اِنَّه سَمیعُ مُجیب ۔ڈاکٹر مجتبیٰ الحسینی۔ دسمبر ۱
...
14
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔