حصہ اول
شہداء تبریز کے چہلم کا انعقاد اور معصومہ زارعیان کی شہادت
میں انکی طرف چل پڑا، جب پہنچا تو وہ دروازے پر ہی کھڑے تھے۔ وہ گاڑی میں سوار ہوئے اور بولے:"جناب حق شناس کے گھر چلو"۔ جب ہم آقا حق شناس کے گھر پہنچے تو انہوں نے بھی یہی کہا: "مجھے بھی فون کیا ہے کہ ہم آپ کو کل کسی بھی صورت مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"ساواک کی تجویز کا جواب
یونیورسٹی میں تعلیم جاری رکھنے سے انکار،
میں ایک سال سے غیر حاضر تھا اور حالات کافی تبدیل ہو چکے تھے۔ اس سے قبل، میرے دوست سیاسی معاملات سے لاتعلق رہتے تھے لیکن اس بار وہ بہت جوش اور احترام سے میرے استقبال کو آئے۔مشترکہ کمیٹی کے زندان میں تبدیلی، سال ۱۳۵۷، پچاس کی دہائی
میں نے تفتیشی افسر سے احتجاج کیا اور کہا: "ہماری گرفتاری کی وجہ کیا تھی؟" وہ ہمیں یہاں کیوں لائے؟ وہ اب ہمیں رہا کرنے کا کیوں سوچ رہے ہیں؟" اس کے پاس دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا!مشترکہ کمیٹی کے زندان میں تبدیلی، سال ۱۳۵۷، پچاس کی دہائی
وہ ہمیں گاڑی میں سوار کرکے مشترکہ کمیٹی کی جیل میں لے گئے۔ اس وقت سڑکوں پر سناٹا طاری تھا۔ فوجی حکومت نے سڑکوں پر یوں دھاک بٹھا رکھی تھی جیسے شہر میں کوئی نہ ہو۔ٹینکوں کے بالمقابل جنگی معرکہ آرائی
فوج نے اہواز میں مارشل لاء کا اعلان کر دیا تھا اور ٹینک سڑکوں پر آ گئے تھے۔ دہشت پیدا کرنے کی خاطر وہ سڑک کے کنارے کھڑی گاڑیوں پر ٹینک چڑھا کر انہیں کاغذ کی کچل رہے تھےزندان سے رہائی
بہرالحال اس قسم کی گفتگو کرنا، انکے لیے حیرت انگیز تھا، کیونکہ اب ہم انکے قیدی تھے اور مار بھی کھا چکے تھے اور اس طرح کھل کر بحث بھی کررہے تھےتم اشارہ کرتے کہ زیادہ نہ ماریں
ہمارے تفتیشی افسر کا نام رحیم خانی تھا، جو بہت عجیب، عمدہ اور ماہرانہ طریقے سے کام کرتا تھا۔ہم میں سے جس سے بھی پوچھ گچھ کرتا ، کہتا تھا،" میں نے سنا ہے کہ تمہیں قید میں مارتے ہیں؟اگر کوئی شکایت ہے تو بتاوَتاکہ اسکی خبر لگاوَںزندان میں حجاب کی ممانعت
یرے والدین نے بعدمیں بتایا کہ انٹیلی جنس افسران، ان پر ناراض ہوئے کہ ہم نے تمہیں سوالات پوچھنے کو کہا تھا اورتم ایک بچی سے بے وقوف بن گئے، اور اس سے کچھ بھی نہیں اگلوا سکےایران میں ایک جاپانی ماں کی داستان
اسے ابھی گئے ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ بسیجیوں کی جانب سے ایک خط مجھے موصول ہوا۔ لفافے پر محمد کے دستخط دیکھ کر دل کو سکون ملا۔ خط کھولا تو اس میں لکھا تھا: " پہلے میں مغربی جنگی محاذوں پر، جو پہاڑی علاقوں میں ہیں، مصروف تھا۔ لیکن اب جنوبی علاقے کی طرف آگیا ہوںجناب غلام علی مہربان جہرمی کی ڈائری سے اقتباس
جنگ بندی کا اعلامیہ، اس کی قبولی اور جنگ کا خاتمہ
میں وہاں سے اٹھا اور مورچے میں جاکر اسدی صاحب اور ید اللھی صاحب کے پاس جا یٹھا، وہ بھی رو رہے تھے لیکن حقیقت کا علم انہیں بھی نہ تھا۔ بہرحال ان کا اصرار یہ تھا کہ کسی صورت اس حکم کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے۔ میں نے بھی کہا: اگرچہ یہ سب بہت افسوس ناک ہے لیکن کوئی اس کی مخالفت نہیں کرے گا...
15
...
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
حسینیہ ارشاد کے بانی
اگرچہ ان کے پاس ایک منصوبہ تھا لیکن یہ محرم الحرام کی سات اور آٹھویں تاریخ تھی جب انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اب حسینیہ نہیں آئیں گے اور پھر حسینیہ کے معاملات سے نکل گئے۔ جناب مطہری کے جانے سے حسینیہ حقیقی معنوں میں اپنی روح سے خالی ہو گیا تھا۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

