جدوجہد کے پیغامات

میرے خیال سے اہواز، یزد اور شیراز میں مشخص مولوی حضرات کے قریبی اور جان پہچان والے لوگ اور اصفہان میں بھی مرحوم خادمی کے جان پہچانے والے افراد ان پیغامات کو حاصل کرتے اور تہران میں بھی میں، جناب توکلی بینا اور ایک تیسرے آدمی – کہ جن کا نام اب مجھے یاد نہیں – اس کام کو انجام دیتے تھے

جلا وطنی کا خرچہ

تقریباً ایک گھنٹے بعد، ایک سپاہی آیا اور میرے سامنے پڑی میز پر ایک کاغذ رکھ کر کہا: "آپ کو ایک سال کیلئے کرمان کے انڈسٹریل علاقے میں جلا وطن کیا جا رہا ہے، آپ اس کاغذ پر دستخط کردیں"

بیرونی ممالک اور ایران کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار

انقلاب اسلامی کے رونما ہونے سے پہلے امام خمینی ؒ کو جن مسائل کے متعلق پریشانی لاحق رہتی تھی ان میں سے ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ بیرونی ممالک (امریکہ اور اس کے حواریوں) نے ایران کے قدرتی ذخائر کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔

ہمیں لوگوں کے درمیان رہنا چاہیے

ہم نے کہا: "ہم مجرم تھوڑی ہیں جو ہمیں ہتھکڑیاں لگا رہے ہو! تم نے ہمیں جہاں لے کر جانا ہے لے جاؤ، ہتھکڑی کیوں لگاتے ہیں؟!"

۱۵ خرداد کو ہمارا عہد و پیمان

میں نے چند دیگر کیڈٹس کے ساتھ میٹنگ رکھی اور یہ طے کیا کہ مظاہرین سے آمنا سامنا ہونے کی صورت میں اپنے کسی آفیسر کا آرڈ نہیں مانیں گے۔ نہ فقط یہ بلکہ ہم فوج اور موقع پرموجود مسلح نفری کے خلاف الرٹ ہوجائیں گے۔

میں فارسی سیکھنا چاہتا ہوں!

میں نے کہا: "گھر قریب ہے یا دور؟" اُس نے کہا: "قریب ہے لیکن گاڑی موجود ہے۔" میں اور میرے ساتھ جو دو خواتین تھیں، ہم اُس کے ساتھ ہولئے۔ ہم ابھی چند قدم نہیں چلیں ہوں گے کہ اُس نے ہمارا سامان اٹھانے کیلئے پیروں کے بل جھک کر ہمارے ہمراہ موجود ایک ساتھی کا بیگ اپنے کاندھوں پر رکھ لیا۔

خط اور ملاقات

میں ان لوگوں سے گاڑھے تہرانی لہجے میں بات کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ عام فرد کی طرح بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ ان کا دھیان اس بات کی طرف نہ جائے کہ ہم ان کو کوئی چکر دینا چاہ رہے ہیں

منصورہ قدیری نے بہجت افراز کے بارے میں بتایا

تمہیں ماں کا کردار بھی ادا کرنا ہے اور باپ کا بھی

میرے شوہر نے بہت زیادہ اسیری کاٹی ہے اور میں نے محترمہ بہجت افراز سے بہت زیادہ توانائی حاصل کی ہے۔میں ۲۸ سال کی تھی جب میرے شوہر لاپتہ ہوگئے اور جب پتہ چلا کہ وہ اسیرہیں، میں اُس وقت بہت سے کاموں میں مشغول تھی

سب اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ دیکھتے ہیں آج کون منبر پر جاتا ہے

سخت ترین منبر ۔۔۔۔۔۔

میں نے ساواک کو پیغام بھجوایا کہ میں منبر پر جانے سے نہیں رک سکتا۔ میں مبر پر جائوں گا۔ ساواک کی جانب سے پیغام آیا کہ بہت احتیاط کرنا اگر زرا سی بھی غلطی کی یا امام خمینی رح کا نام بھی لیا تو مسجد اور اس میں موجود لوگوں کا برا حال کردیں گے۔

کہنے لگا: اسکا دل بہت دھڑک رہا ہے۔۔۔۔۔۔

ایک پولیس والے نے پستول کے بٹ سے میرے سر پر مارا ۔ مجھے احساس ہوا کہ جیسے یہ لوگ حقیقت میں مجھے مارنا چاہتے ہیں ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا اب جب مارنا ہی چاہتے ہیں تو کیوں نہ میں ہی انہیں ماروں۔ ہمیں ان سے لڑنا چاہئے۔ میرے سر اور چہرے سے خون بہہ رہا تھا اور میں نے اسی حالت میں اٹھ کر ان دو تین سپاہیوں کا مارا۔
...
22
...
 
کتاب"در کمین گل سرخ" سے اقتباس

شہید علی صیاد شیرازی کی داستان

اُن لوگوں کی ان کے برتاؤ کے مطابق طبقہ بندی کی تھی۔ پہلے اور دوسرے کمانڈر کے احساسات ہم آہنگ نظر آئے جس سے محسوس ہورہا تھا کہ ان کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے دو افراد سے الگ الگ بات کرنی چاہئے تھی تاکہ نفسیاتی اعتبار سے کوئی تداخل پیدا نہ ہو۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔