گوهرالشریعه دستغیب سنارہی ہیں

شوہر کے بھائی رحیم کی گرفتاری کی داستان

دکھ اور صبر

مترجم: ضمیر رضوی

2020-10-17


سن 1972ء میں موسم بہار کے ایک دن میں ناصر صادق کی ایصال ثواب کی مجلس سے واپس آ رہی تھی کہ گلی کے کونے پر میری اپنے شوہر کے بھائی رحیم سے ملاقات ہوئی۔ سلام دعا اور حال احوال پوچھنے کے بعد اس نے پوچھا: " آپ کہاں تھیں؟" میں نے کہا: " میں ایصال ثواب کی مجلس میں گئی تھی۔" اس نے پوچھا: "آپ کے پاس کچھ ہے؟" اس کا مطلب اعلامیہ تھا۔ میں نے کہا: "ہاں! چلو، گھر چل کر لے لو۔"

رحیم, تبریز یونیورسٹی میں میڈیکل فیکلٹی کا طالب علم تھا اور وہ عام طور پر ہر دو تین ہفتے میں ایک بار ہم سے خبریں اور اعلامیے لینے تہران آتا تھا۔

جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو میں نے اپنے بیگ سے دو اعلامیے نکال کر اسے دے دیے۔

چند ہفتوں بعد، جمعہ کے دن دوپہر کو رحیم کے دوست امین صاحب نے ہمارے گھر پر فون کیا اور بہت جلدی سے کہا: " رحیم صاحب سفر پر چلے گئے ہیں۔" اس وقت ہم ایک لفظ یا ایک جملے سے پوری بات سمجھ جاتےتھے!" اسی لیے جیسے ہی انہوں نے کہا: " سفر پر چلے گئے" میں سمجھ گئی کہ رحیم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ہمیں جتنا جلد ہوسکے گھر کی صفائی کرنی پڑے گی۔ ہمارے پاس جو بھی کتابیں اور اعلامیے تھے ہمیں ان کا صفایا کرنا تھا۔

ہم جانتے تھے کہ پولیس والے ہمارے گھر کی تلاشی لینے ضرور آئیں گے۔ جلدی جلدی کام ختم کرنے کے لیے اسدی صاحب نے علی اکبر سلیمی صاحب کو بھی اطلاع کردی۔ کتابوں اور اعلامیوں کو جمع کرنے کے بعد ہم انہیں جلانا چاہتے تھے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس وقت پڑوسیوں کی آمدورفت کی وجہ سے اس کام میں عقلمندی نہیں ہے۔ اگر گھر سے دھواں اٹھا تو ہو سکتا ہے کہ پڑوسی سمجھیں کہ آگ لگ گئی ہے اور وہ مدد کرنے کے لیے آجاتے، اس صورت میں ایک نئی مشکل کھڑی ہو جاتی۔ ہم نے سوچا بہتر ہے کہ رات کا انتظار کریں، کیونکہ بلدیہ کے کارکنان روز رات کو جو بھی لکڑیاں کوڑا کرکٹ جمع کرتے تھے اسے ہمارے گھر کے برابر میں واقع خالی زمین پر لا کر جلاتے تھے اور بہت زیادہ دھواں اٹھتا تھا، اور یہ بہترین موقع تھا کہ ہم بھی اپنا کام کر لیں۔

جیسے ہی رات ڈھلی اور کارکنوں نے اپنا کام شروع کیا، تو ہم نے بھی اپنا کام شروع کر دیا۔ اسد صاحب اور سلیمی صاحب پہلی منزل پر چلے گئے۔ اسدی صاحب جلدی جلدی کتابیں اور اعلامیے سلیمی صاحب کو دے رہے تھے اور وہ انہیں جلدی جلدی نیچے لا کر مجھے دیتے جارہے تھے تاکہ میں صحن کے کونے میں موجود واش روم میں انہیں جلا دوں۔ اس کام میں تقریباً تین سے چار گھنٹے لگے۔

اگلے دن، جیسے ہی میں اسکول سے گھر واپس آئی، اس وقت مغرب میں تقریباً ایک گھنٹہ باقی تھا، کہ گھر کی گھنٹی بجی۔ اسدی صاحب ابھی کچھ دیر پہلے ہی گھر سے باہر گئے تھے۔ انہیں گلی کے کونے پر سلیمی صاحب سے ملنا تھا شاید انہیں کہیں جانا تھا۔ وہ میرے چھوٹے بیٹے محسن کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے لیکن حسین اور علی گھر میں سائیکل چلا رہے تھے۔

جب میں نے گھنٹی کی آواز سنی میں سمجھی کہ اسدی صاحب واپس آگئے ہیں اور انہیں کوئی کام ہے۔ لیکن جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا تو میرا سامنا لمبے چوڑے قد کے چار پانچ پولیس والوں سے ہوا۔ انہوں نے فوراً ہی صحن پر دھاوا بول دیا۔ جیسے ہی میں یہ کہنے آئی کہ تم لوگ کیا چاہتے ہو تو ان میں سے ایک نے مجھ پر بندوق تان دی اور مجھے تہ خانے میں دھکیل دیا اور اس نے مجھ سے سخت لہجے میں پوچھا: " گھر میں کون کون ہے؟!" میں نے اطمینان سے جواب دیا: "کوئی نہیں، صرف بچے ہیں۔" لیکن میں بہت پریشان تھی، میں ڈر رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسدی صاحب اور سلیمی صاحب جلدی گھر واپس آجائیں اور گرفتار کر لیے جائیں۔  میرے دماغ میں آیا کہ میں کسی نہ کسی طرح انہیں اطلاع دے دوں۔ میں نے اس پولیس والے سے جس نے مجھ پر بندوق تانی ہوئی تھی کہا: " اس بچے (علی) نے کپڑے نہیں پہنے ہیں اور اسی طرح سے برہنہ پھر رہا ہے، وہ بیمار پڑ سکتا ہے۔ مجھے اس سے کہنے دو کہ کپڑے پہن لے۔" ابھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ میں نے علی کو آواز دی اور کہا: " علی بیٹا! جلدی آؤ اور کپڑے پہنو!" اور جب میں اسے کپڑے پہنا رہی تھی میں نے آہستہ سے اس کے کان میں کہا: " بابا کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ گھر نہ آئیں!"

علی اور حسین سائیکل چلانے کے بہانے گھر سے باہر چلے گئے۔ پولیس والوں نے ہمارے گھر کی تلاشی لینا شروع کردی۔ تہ خانے میں جتنی بھی کتابیں اور اضافی سامان تھا جیسے لیموں کے رس کی بوتلیں، لحاف، گدے، تکیے انہوں نے سب باہر پھینک دیا۔ میں نے خود کو پیٹا اور سادگی سے کہا: " کیا لیموں کے رس کی بوتل میں بھی کوئی آدمی ہوسکتا ہے جو اسے خالی کر رہے ہو؟! کیا گدے میں بھی کوئی آدمی ہوسکتا ہے جو تم اسے اس طرح بکھیر رہے ہو؟!"   انہوں نے اشاروں میں ایک دوسرے سے کہا یہ حواس کھو بیٹھی ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ جب انہوں نے اچھی طرح سے تہ خانہ چھان لیا، تو وہ کمروں کی تلاشی لینے کے لئے پہلی منزل پر گئے۔ ایک کمرے میں دیوار کی الماری تھی اور اس کے نچلے حصے میں کچھ درازیں تھیں۔ بچے اسکول کے کاغذ وغیرہ درازوں میں ڈالتے تھے درازوں میں کاغذات بہت بری طرح سے بکھرے ہوئے تھے۔ پولیس والے سمجھے کہ درازیں اعلامیے رکھنے کی جگہ ہے اور فوراً انہوں نے درازوں کے کاغذات کو الٹ پلٹ کرنا شروع کردیا لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ اس کے بعد وہ کمرے کے کنارے میں بڑی ڈیسک کے پاس گئے۔ ڈیسک کی دراز میں میری اور اسدی صاحب کی آفس کی کچھ فائلیں پڑی تھیں۔ ایک پولیس والے نے ان سب فائلوں کو باہر نکالا اور ایک ایک کر کے انہیں دیکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد اس نے غصے سے مجھے دیکھ کر کہا: " اچھا! تو تم استاد بھی ہو!" میں نے دوبارہ خود کو اسی طرح پیٹا اور کہا: " ہاں! کوئی مسئلہ ہے؟" اس نے مجھے جواب نہیں دیا۔ گھر کی تلاشی رات کے کئی گھنٹوں تک جاری رہی اور آخرکار وہ بغیر کسی ثبوت کے لوٹ گئے۔ اس رات پولیس والوں کو اسدی صاحب کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ کیا ہوا ہے اسی لیے وہ بہت دیر سے گھر آئے۔

اگلی رات تقریباً آٹھ نو بجے دوبارہ پانچ چھ پولیس والے اسی طرح سے گھر میں گھس آئے۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ دوبارہ آئیں گے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا: " تمہارا شوہر کہاں ہے؟" میں نے کہا کہ وہ رات کو پڑھاتے ہیں اور دیر سے گھر آتے ہیں۔" باقی پولیس والے سیدھے دوسری منزل کے کمروں میں گئے اور انہیں بری طرح سے بکھیر دیا۔ پہلے انہوں نے لمبے لمبے سریوں اور سیخوں سے صوفوں کے اندر اور یہاں تک کہ گیس ہیٹر کے پائپوں کو بھی چھانا، پھر وہ دوچھتی اور چھت پر چلے گا اور انہوں نے وہاں کی تلاشی لی، لیکن انہیں کوئی ثبوت یا سراغ نہیں ملا اور وہ چلے گئے۔

تیسرے دن پھر شام کے وقت اچانک ان میں سے تین چار لوگ آئے۔ البتہ اس سے پہلے بھی انہوں نےمیری غیر موجودگی میں فون پر بچوں سے پوچھ تاچھ کی تھی، کیونکہ جب میں گھر آئی تو بچوں نے بتایا: " امی! کسی انکل کا فون آیا تھا اور انہوں نے ایک ایک کر کے ہم سے پوچھا آپ لوگوں نے اپنے چچا کو اعلامیے دیے ہیں؟! ہم نے کہا نہیں، اعلامیہ کیا ہوتا ہے؟!"  پھر مجھے سمجھ میں آیا کہ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ رحیم نے اعلامیے کس سے لیے ہیں اور میں کسی حد تک مطمئن ہو گئی کہ اس سے تفتیش کے دوران میرا نام نہیں آیا۔

پولیس والے جب گھر میں آئے تو وہ پھر سیدھے پہلی منزل پر چلے گئے اور کمروں کو چھاننے لگے۔ پھر وہ بچوں کو پوچھ تاچھ کے لیے ایک ایک کر کے چھوٹے کمرے میں لے گئے اور ان سے پوچھا: " آپ نے اپنے چچا کو اعلامیے دیے ہیں؟" زہرا، حسین اور علی نے کہا: "نہیں!" بچوں کو کچھ نہیں معلوم تھا، میں نے ان کے چچا کو اعلامیے دیے تھے۔ جب محسن کی پوچھ تاچھ کی باری آئی تو میں نے کہا: " سر! یہ بچہ چھوٹا ہے، صرف چار سال کا ہے! وہ ڈر رہا ہے، وہ بہت زیادہ خوف زدہ ہو جائے گا!" اس نے جواب دیا: " ہمیں کوئی لینا دینا نہیں، بس ہم کچھ سوال پوچھنا چاہتے ہیں!"

  وہ محسن کو کمرے میں لے گئے اور میں کمرے کے دروازے کے پیچھے راہداری میں کھڑی ہو گئی۔ دروازے کا کچھ حصہ شیشے کا تھا، میں محسن کے سائے کو دیکھ رہی تھی۔ پوچھ تاچھ کرنے والے نے اس سے دو تین بار پوچھا: " تم نے اپنے چچا کو کوئی کاغذ دیا تھا؟" بچے کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ میں سمجھ گئی کہ وہ پریشان ہے۔ اسے ان سے چھڑوانے کے لیے میں نے دروازے کے پیچھے سے کہا: " سر! ہمارا ملازم "مشہدی رضا" اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لیے گاؤں گیا ہوا تھا۔ میں بھی ملازم ہوں اس لیے میں نے "مشہدی رضا" کے واپس آنے تک بچے کو اس کے چچا کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ ضرور کسی نے کوئی چیز صحن میں پھینکی ہوگی اور بچے نے اسے اٹھا کر اپنے چچا کے ہاتھ میں دے دیا ہوگا!" پوچھ تاچھ کرنے والے نے محسن سے  پوچھا: " ہیں؟! تم نے صحن سے کوئی کاغذ اٹھا کر اپنے چچا کو دیا ہے؟!" پھر بھی محسن کی آواز نہیں نکلی۔ میں نے کہا: "سر! اس سے اتنا پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دو اور دو چار والی بات ہے! کسی نے صحن میں کوئی کاغذ پھینکا اور بچے نے اسے اٹھا کر اپنے چچا کو دے دیا!" آخرکار پولیس والوں نے محسن کا پیچھا چھوڑ دیا اور اسدی صاحب کے آنے سے پہلے چلے گئے۔

منبع: گوهر صبر: گوهرالشریعه دستغیب، نویسنده طیبه پازوکی، تهران، سوره مهر، 1398، ص244 – 241.



 
صارفین کی تعداد: 2061


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔