جلیل طائفی کی یادداشتیں
میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی
2024-4-19
سولہ جنوری ۱۹۷۹ کو "سیس" گاؤں میں وقع اپنے ایک دوست کے باغ میں پکنک منا رہے تھے کہ ہمیں مقامی افراد نے شاہ کے فرار کی خبر سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ ریڈیو نے یہ اعلان کیا ہے۔ جیسے ہی یہ خبر سنی میں نے ایک گدھا لیا اور اس پر سوار ہو کر کھڑا ہوگیا اور نعرہ لگایا: "شاہ قاشدی" یعنی شاہ بھاگ گیا۔ اپنے ایک ساتھی کو کیمرہ دیا کہ وہ اسی حالت میں میری تصویر کھینچے اور اس نے بھی میری تصویر کھینچ لی۔
شاہ کے فرار کے بعد انقلاب کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی اور اس کی کامیابی کے لئے عوام کی امید میں بھی اضافہ ہوگیا۔ شہر میں ہر جگہ جھڑپوں میں تیزی آچکی تھی۔ کوئی دن بھی ایسا نہیں تھا جو سکون سے گذرے۔ میں اکثر اوقات اپنے کیمرے کے ساتھ شہر میں نکل جاتا حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ ایک خطرناک کام ہے اور اگر میں پھنس گیا تو میرا کام تمام ہوجائے گا۔ میری کوشش ہوتی کہ میں مظاہرے میں شامل افراد کی تصویریں کھینچ سکوں۔
انہی دنوں میں نے "ساعت" اسکوائر پر شاہ کے مجسمے کو گرتے ہوئے دیکھا اور اسکی تصویر کھینچ لی۔ ساعت اسکوائر کے حوالے سے تبریز کے عوام کافی حساس تھے۔ شہر کا مرکز تھا جہاں متعدد اصلی شاہراہیں آکر ملتی تھیں۔ ایک دفعہ اسی اسکوائر پر چند لوگوں کو شہید ہوتے بھی دیکھ چکا تھا۔ اس دن لوگوں کی ایک بڑی تعداد "لہ لہ بیگ" نامی سڑک سے اس چوک کی جانب آرہی تھی۔ ان لوگوں کے آگے آگے ایک عالم دین تھے۔ جیسے ہی وہ ساعت اسکوائر پر پہنچے پولیس نے ان پر فائرنگ شروع کردی۔ ایک شخص کے سر میں گولی لگی وہ زمین پر گِر گیا۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ لوگوں نے آگے بڑھ بڑھ کر اس کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کرلیا اور شہری حکومت کی عمارت کی دیواروں کو اسکے خون سے رنگین کردیا اور شاہ مردہ باد کے نعرے لگائے۔ اسکے بعد مزید تین افراد گولیاں لگنے سے شہید ہوگئے، ایک درخت کنارے اور دو سڑک کے بیچوں بیچ۔
ایسے عالم میں سپاہیوں کا ایک دستہ بھی خیابان تربیت سے ساعت اسکوائر پر پہنچ گیا اور عوام کا محاصرہ کرلیا گیا۔ جو بھی لہ لہ بیگ سے بھاگ سکا بھاگ گیا اور جو نہیں بھاگ سکا وہ گرفتار کرلیا گیا۔ میں ایک کونے میں کھڑا اس پوری صورتحال کی ویڈیو بنا رہا تھا۔ اس شور شرابے میں چند سپاہی متوجہ ہوگئے کہ میں فلم بنا رہا ہوں۔ وہ تیزی سے میری طرف دوڑتے ہوئے آئے۔ میں نے بھی جب دیکھا کہ صورتحال خراب ہورہی ہے تو اپنا کیمرہ اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا اور لہ لہ بیگ میں داخل ہوگیا۔ سپاہیوں نے مجھے رکنے کا حکم دیا اور چند گولیاں بھی چلائیں لیکن میں نے بھی ہار نہیں مانی۔
اس کیمرے اور اس سے بنائی جانے والی ویڈیوز کی وجہ سے میرا جرم عام مظاہرین سے کہیں زیادہ بھاری تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو گلی کے کونے تک پہنچایا جو تھوڑا کھلا ہوا علاقہ تھا اور وہاں اصلی سڑک کے پاس ایک عمر رسیدہ خاتون اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا بیٹا بھاگ کیوں رہے ہو؟ میں نے کہا سپاہی میرا پیچھا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا جلدی کرو گھر کے اندر آجاؤ۔ میں تیزی سے انکے گھر میں داخل ہوا اور انہوں نے دروازہ بند کردیا۔ سب سے پہلے میں نے کیسٹ کو کیمرے سے نکالا اور اپنی جیب میں ڈال لیا۔ میں نے اس پورے واقعے کی تین فلمیں بنائی تھیں۔ میں نے سوچا کہ اگر انہوں نے کیمرہ پکڑ لیا تو کم از کم میں کسی نہ کسی طرح یہ ویڈیوز تو بچا ہی لوں گا، البتہ ویڈیوز کا بچنا میرا بچنا تھا۔ تقریبا ایک گھنٹے کے لگ بھگ میں اسی گھر میں رہا اور اسکے بعد احتیاط سے دروازہ کھول کر باہر جھانکا، جب دیکھا کہ سب کچھ نارمل ہے تو ان خاتون کا شکریہ ادا کرکے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔
اس واقعے کے بعد دو ہفتے تک اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا کہ اگر مجھے پہچان لیں گے تو گرفتار کرلیا جاؤں گا۔ دو ہفتے بعد جب گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ جگہ جگہ کمانڈوز تعینات کردیئے گئے ہیں۔ جھڑپیں شروع ہوچکی تھیں اور کماڈوز عوام پر بری طرح لاٹھی چارج کررہے تھے۔ میں نے کچھ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی خون میں لت پت دیکھا جو زمین پر گرے ہوئے تھے لیکن لوگ انہیں اٹھا کر ساتھ نہیں لے جا پارہے تھے۔
کیمرہ میرے ساتھ تھا لیکن میں اب تک ویڈیو نہیں بنا پایا تھا اسی شور و غل میں اچانک کسی نے پیچھے سے میری پیٹھ پر مارے۔ میں بری طرح کراہ گیا۔ لیکن زمین پر نہیں گرا۔ کچھ لمحوں بعد ایمبولنس پہنچ گئی۔ زخمیوں کو ایمبولنس میں دال کر لے جایا گیا۔ میں مسجد "انگجی" چلا گیا تاکہ وہاں سے جامع مسجد جا سکوں۔ میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا۔ جیسے ہی موڑ کی جانب پہنچا تو دیکھا کہ سڑک کنارے ٹھیلے کھڑے ہوئے ہیں۔ علی الظاہر اس ہنگامے میں ٹھیلے والوں نے اپنی جان بچانا غنیمت سمجھی اور ٹھیلے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایک ٹھیلے پر پیاز اور آلو لدا ہوا تھا۔ میں جلدی سے ایک ٹھیلے کے نیچے چھپ گیا اور اس کا دروازہ بند کرلیا۔ کمانڈوز نے وہاں پہنچ کر مجھے ڈھونڈا لیکن میں انہیں نہیں مل پایا۔ مجھے انکی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لیکن میں ڈر کے مارے چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا۔ دو گھنٹے اسی ٹھیلے کے اندر محبوس رہا اور پھر تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ سڑک کے بیچ میں ایک بوڑھے کو مار رہے تھے۔ اسی جگہ سے اپنا کیمرہ سیٹ کرکے اس واقعے کی ریکارڈنگ کی۔ وہ لوگ اسے مارنے پیٹنے کے بعد اسی جگہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ جب صورتحال بہتر ہوئی تو میں بہت احتیاط سے وہاں سے نکل کر تیزی سے دور ہوگیا۔
صارفین کی تعداد: 597