سٹی پولیس کی عارضی جیل کے واقعات

مترجم: سید ضمیر رضوی

2020-4-6


سٹی پولیس کی عارضی جیل ایک بہت چھوٹی جگہ تھی۔ اس کا کمره شاید بیس میٹر کا تھا۔ کمرے اور صحن کا رقبہ بھی کمرے سے کچھ زیاده تھا۔ وہاں دھوپ نہیں آتی تھی۔  دیواریں بہت اونچی اور بہت نزدیک تھیں اس طرح سے کہ آقا فلسفی کبھی کبھی حکومت اور نظام پر شدید تنقید کرتے تھے کہ یہ کیا طریقہ ہے کہ ۴۹ افراد کو ایک چھوٹی اور تنگ جگہ میں رکھا ہوا ہے۔ یقیناً سردیاں نهیں تھیں اور تقریباً سال کا پانچواں مہینہ تھا کچھ لوگ کمرے میں سوتے تھے اور کچھ صحن میں، یعنی کمرے اور صحن کی پوری جگہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور تقریباً آدھا میٹر لمبی اور آدھا میٹر چوڑی جگہ تھی کہ انسان پیر پھیلا سکے اور دونوں طرف لوگ آرام کر رہے ہوتے تھے۔ کمرے اور صحن کی چوڑائی اتنی تھی کہ اگر کسی کا قد لمبا ہوتا  تو اس کے پاؤں دوسرے سے ٹکراتے، یعنی ایریا اس قدر کم تھا که ہم جگہ کے لحاظ سے بہت دشواری میں تھے۔

مجھے اس جیل میں بزرگوں سے علمی، سیاسی، معاشرتی اور خصوصاً مذہبی بحثوں سے بہت سے روحانی فائدے حاصل ہوئے۔ روزانہ، ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے علاوه، کبھی کبھی سات آٹھ لوگ مل کر کسی علمی- اخلاقی موضوع پر بحث کیا کرتے تھے، اس کے ساتھ روزانہ دوپہر سے پہلے با ضابطہ طور پر کسی موضوع پر بحث ہوتی تھی اور جو ماہرین تھے، بزرگ اور دانشور،  وه اس موضوع پر گفتگو کرتے تھے ۔۔۔

کیونکہ میں جیل میں بزرگوں کی مجلس میں بیٹھتا تھا اور مستفید ہوتا تھا تو وه حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اگر میرے پاس کوئی نکتہ، رائے یا سوال ہوتا تو میں مباحث  کی جستجو میں لگا رہتا۔ آقا فلسفی ، شہید مطہری،  آقا مکارم اور دوسرے  بزرگ حضرات میرے ساتھ خاص شفقت و مہربانی سے پیش آتے تھے اور جتنا میں ان لوگوں کا احترام کرتا تھا وه لوگ(خصوصاً آقا فلسفی) میرا احترام کرتے تھے اور اس دوران میں نے بزرگوں کی موجودگی سے بہت فائده اٹھایا۔

شہید مطہری کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو مجھے یاد آرہا ہے وه یہ ہے کہ نماز جماعت، تقریر اور گفتگو کے علاوه جو وقت ہوتا تھا، دوسرے صاحبان ممکن تھا کہ بیٹھیں اور اپنی باتیں کریں جو زیاده مفید نہ ہو، لیکن شہید مطہری ہمیشہ یا غور و فکر کی حالت میں ہوتے تھے یا عبادت اور قیمتی اور مفید گفتگو کی حالت میں۔ اب چاہے وه سیاسی ہو معاشرتی ہو یا مذہبی، سبھی فائدے مند تھیں اور میں نے کبھی انہیں اپنا وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔  یہ ان کی ایک خصوصیت تھی۔  ان کی دوسری خصوصیت شب بیداری اور نماز شب تھی، میں بے توفیق و ناکام رها، لیکن وہ اور اُن جیسے افراد ایسے لوگ تھے جو رات کے کچھ حصے کو شب بیداری، نماز شب اور عبادت میں گزارتے تھے ، جس کی وجہ سے جیل میں ایک بہت ہی اچھی اور روحانی فضا قائم ہوگئی تھی۔

قم کی ان جیلوں  میں پندرہ افراد کے ساتھ اور سٹی پولیس کی عارضی جیل کہ جس میں ہم ۴۹ افراد تھے، میں پائے جانے والی خصوصیات بعد والے جیلوں میں نہیں تھیں۔ یہ تمام افراد مجاہد، دیندار، مذہبی اور فضیلت، علم اور کمالات رکھنے والے تھے اور مجھے کسی قسم  کی کوئی پریشانی اور اُداسی نہیں تھی۔ میرے لئے جیل اسکول کی ایک کلاس کی مانند تھا لیکن بعد والی جیلوں میں حکومتی نظام کی طرف سے دیئے جانے والے شکنجے اور جیل کی شرائط کے علاوہ نفسیاتی شکنجے بھی موجود تھے کہ جس میں ایسے قیدی تھی جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ کمیونسٹ اور مرتد افراد تھےیا ایسے افراد تھے جو ظاہراً مذہبی تھے لیکن اُن کی سوچ اورفکروں پر مادہ گرائی غالب تھی اور اُن کے عقائد ماکسیسٹ عقائد پر مبنی تھے،  اُن کا مجھ سے ٹکراؤ ہوتا اور مجھے اُن کی حالت کمیونسٹوں اور غیر مذہبی افراد سے زیادہ تکلیف دیتی تھی۔ سن ۱۹۶۳ء میں  چند عرصہ تک جو میں جیل میں رہا میں مختلف پہلوؤں سے بہت سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا۔ اُن میں سے ایک فائدہ یہ تھا کہ میں ایسے افراد کے ساتھ تھا جن سے میں نے امام خمینی (رہ) کی مرجعیت کے بارے میں گفتگو کی، چونکہ میں اس سے پہلے تک مرحوم آیت اللہ العظمیٰ حکیم کی تقلید کرتا تھا۔ جیل میں وہ افراد جن کا امام خمینی (رہ) کے شاگردوں میں شمار ہوتا تھا وہ با فضیلت، با علم اور علامہ تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں میں مختلف پہلوؤں کی وجہ سے امام خمینی (رہ) کا دلدادہ ہوگیا، اور میں اُن کی علمی پوزیشن، فقہی اور اجتہادی رتبہ سے آگاہ ہوا اور میں  خود اپنے مجتہد کی تقلید سے پلٹ گیا۔ یعنی میں اس بات کا قائل ہوگیا کہ امام اعلم ہیں، کیونکہ تقلید میں اگر انسان ایک زندہ مجتہد کی تقلید کرتا ہے تو اُسے جب تک دوسرے زندہ مجتہد کی اعلمیت کا علم حاصل نہ ہوجائے تو وہ اُس کی تقلید سے پلٹ نہیں سکتا، لیکن واقعاً میں مطمئن ہوچکا تھا کہ امام خمینی (رہ) اعلم ہیں اور میں نے امام خمینی (رہ) کی تقلید کرلی۔ ایک وہ بحث جس سے میں نے استفادہ کیا میرے شرعی وظیفہ کی بحث تھی کہ تقلید کے معاملے میں  مجھے کس کی تقلید کرنی چاہئیے اور اس کے علاوہ میں نے سیاست، معاشرت ، اپنے ملک کی شناخت، حکومت کی شناخت اور امام کے تفکرات کے لحاظ سے استفادہ  کیا۔ جیل کے اندر یہ تمام مسائل  مجھ پر واضح اور روشن ہوئے، دراصل میرے تفکر کی بنیادیں سن ۶۳ کی اُنہی جیلوں میں  بنی تھیں ۔۔۔ سن ۱۹۶۳ء میں زندان کے اندر، ساواکیوں نے شدید ترین رویہ اختیار کیا ہوا تھا، عام طور سے جن لوگوں کو گرفتار کرکے پولیس چوکی یا تھانے میں  لاتے تھے، اُن کے ساتھ توہین آمیز جملے، مذاق اُڑانے والا رویہ اختیار کرتے تھے لیکن تھانوں میں جسمانی شکنجے دیکھنے میں نہیں آئے؛ کم از کم وہ مولوی حضرات جنہیں گرفتار کرکے لاتے تھے۔ لیکن ساواک جسمانی اور نفسیاتی شکنجے دیتی تھی۔ وہاں پر دھمکی اور رعب و بدبہ تھا، میں نے عشرت آباد میں نفسیاتی اور اعصاب توڑ دینے والے شکنجوں  اور جسمانی شکنجوں میں سے کچھ نہیں دیکھا تھا۔ جب ہم سٹی پولیس کے عارضی جیل میں داخل ہوئے؛ اذیتیں اور شکنجے نہیں تھے لیکن اُن کی اذیتیں اس طرح کی تھیں کہ  رہنے کی جگہ اور کھانا خراب تھا، کیونکہ بہت سے افراد جو جیل میں تھے، بوڑھے تھے؛ بعض لوگوں کو معدہ کی بیماری تھی اور صفائی ستھرائی کے لحاظ سے کھانے اچھے نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے افراد زیادہ تر اذیت اور آزار میں مبتلا رہتے تھے اور صفائی ستھرائی اور حمام کی صورت حال بھی اچھی نہیں تھی۔ یعنی اگر افراد ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ حمام جانا چاہتے تھے، تو ہمیں عارضی جیل سے عمومی حمام میں لے جاتے تھے۔ جس وقت ہم حمام جانا چاہتے تھے اُس وقت میں عام افراد کا داخلہ ممنوع کر دیتے تھے۔ جیل کے حالات اور شرائط بہت برے تھے، لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ سٹی پولیس کی فورسز نے جیل میں رہنے والے یا کسی گرفتار شخص کو شکنجہ دیا ہو یا اُس سے باز پرس کی ہو۔



 
صارفین کی تعداد: 2118


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔