تہران کے ڈاکٹروں کی جانب سے قزوین کے زخمیوں کی امداد

مترجم: ابومیرآب زیدی

2019-9-18


قزوین کے فوجی گورنر ، بریگیڈیئر جنرل معتمدی  نے لوگوں پر جبر و تشدد اور اُن میں خوف و ہراس پھیلانے کیلئے  جنوری ۱۹۷۹ء میں  اس شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا اور خون کی ندیاں بہا دیں۔ قزوین میں  انقلابی تحریکوں کی قیادت  آیت اللہ باریک بین کے ذمہ تھی اور فوجی حکومت نے لوگوں کی بھرپور شرکت اور اُن کے جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ آلودہ  کرنے کیلئے لوگوں پر ظلم و ستم کرنا شروع کردیا تھا۔ اس اقدام میں، تقریباً ۴۰۰ سے زائد گاڑیوں کو ٹینکوں کے ذریعے تباہ کردیا گیا اور بہت سے انقلابیوں کے گھروں کو نذر آتش کردیا گیا۔ فوجی حکومت کے سرکردہ افراد اس کوشش میں تھے  کہ ان اقدامات کے ذریعے، قزوین میں گھٹن کا ماحول قائم کردیں۔

ہم نے بھی جو دوستوں سے مشورہ کیا تھا، سہ راہ تہران ویلا پر واقع مسجد مہدی (عج) کے امام جماعت، حجت الاسلام مروارید نے تاکید کی کہ سب مل کر قزوین جائیں اور وہاں پر مظاہرے کرکے، لوگوں کو ایک بار پھر میدان میں لیکر آئیں۔ اسی طرح میرے ایک دوست حاج بابا فقہی نے مجھ سے کہا کہ زخمیوں کی بہت زیادہ تعداد لوگوں کے گھروں میں موجود ہے کہ جنہیں ڈاکٹر اور دوائیوں کی ضرورت ہے، لیکن وہ اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی جرائت نہیں کر رہے ہیں۔ لہذا ہم نے تہران سے ڈاکٹر اور نرسوں کا ایک چھ، سات افراد پر مشتمل گروہ – کہ جنہیں ڈاکٹر شیبانی نے متعارف کروایا تھا – قزوین کی طرف بھیجا۔ وہ لوگ اُسی رات واپس آگئے اور کہنے لگے ہم جس گھر میں بھی جاتے ، چونکہ لوگ ہمیں نہیں پہچانتے تھے اس لئے ہم پر اعتماد نہیں کررہے تھے اور وہ ڈر رہے تھے کہ  کہیں ہم حکومت کے ایجنٹ نہ ہوں اس وجہ  وہ کہہ دیتے کہ ہمارے گھر میں کوئی بھی زخمی نہیں ہے، حالانکہ  حقیقت میں معاملہ کچھ اور تھا۔

ان ڈاکٹروں سے دوبارہ کام لینے کیلئے اور اس شہر میں مظاہرے کرنے کیلئے  ہم چند گاڑیوں پر قزوین گئے اور بازار کے نزدیک ایک میدان میں، ہم نے وہ پلے کارڈ اٹھائے جو ہم تہران سے تیار کرکے لائے تھے اور ہم نے وہاں پر نعرے لگانا شروع کردیئے۔ ہماری تعداد  تیس افراد کے  قریب تھی  اور ہم نے "لا الہ الا اللہ" اور "اللہ اکبر" کے نعرے لگاتے ہوئے ایک چھوٹا سا مظاہرہ شروع کیا۔ ہم نے صبح تقریباً ۹ بجے اپنے کام کا آغاز کیا تھا اور تقریباً ایک گھنٹے بعد لوگوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی تھی۔ سب نے فیصلہ کیا کہ امام زادہ حسین (ع) کے مزار کی طرف حرکت کریں جو ہم سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ راستے میں آہستہ آہستہ لوگوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جب لوگوں کی تعداد ۴۰۰، ۵۰۰ افراد سے زیادہ ہوگئی تو آہستہ آہستہ نعرے بھی تبدیل ہوگئے اس طرح سے کہ سب  مل کر "اللہ اکبر، خمینی رہبر"  اور"نہضت ما حسینیہ، رہبر ما خمینی" کے نعرے لگا رہے تھے۔

جب ہم امام زادہ کے مزار تک پہنچے، لوگوں کا آخری حصہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اُس سے پہلے دوستوں نے لوگوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے، امام زادہ کے مزار کے چاروں طرف لاؤڈ اسپیکر نصب کردیئے تھے۔ اس کے باوجود کہ لوگوں کے چاروں طرف سیکیورٹی اور انتظامی امور سنبھالنے والے سپاہی کھڑے ہوئے تھے، لیکن وہ کوئی کام  انجام نہیں دے سکتے تھے۔ جب ہم امام زادہ کے مزار تک پہنچے تو ہم نے مرگ بر شاہ کے نعرے بھی لگائے تھے۔ امام زادہ کے مزار پر، جناب مروارید نے پرجوش تقریر کرتے ہوئے، پہلوی حکومت اور اُس کے ظلم کو بھی مورد تنقید قرار دیا۔ لوگوں نے بھی تکبیر لگاتے ہوئے ان کی باتوں کی تائید کی اور اپنے ساتھ دینے کا یقین دلایا۔ ظہر کے بعد ہم تمام دوستوں کے ساتھ جناب باریک بین کے گھر پر گئے اور وہاں پر ۳۰ سے ۴۰ علماء کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ ہمارے اس اقدام سے، قزوین کے لوگوں کے جوش و ولولہ میں تبدیلی آئی  اور ہم نے مذکورہ ڈاکٹروں کے گروپ  کو دوبارہ اُس شہر کے زخمیوں کے علاج معالجہ کیلئے بھیجا۔ وہ لوگ تین چار دن اُس شہر میں رہے  اور حکومت کے ظلم و جنایات کے ہاتھوں زخمی ہونے والے افراد کی مدد کی۔



 
صارفین کی تعداد: 2540


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔