صدامی فورسز کے سامنے جدوجہد کرنے والوں سالوں میں محمد مجیدی کی یادیں۔ دوسرا حصہ

سات ایسے واقعات جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا

انٹرویو: مہدی خانبان پور
ترتیب: سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-11-15


محمد مجیدی، دفاع مقدس کے سالوں میں محاذ پر گئے تاکہ کربلائے ۵ آپریشن کے مراحل میں شرکت کرسکیں؛ لیکن جنگی محاذوں پر صرف دس دن رہنے کے بعد دشمن کی بعثی افواج کے قیدی بن جاتے ہیں اور اپنی جوانی کے بہترین چار سال صدامی افواج کے کیمپوں میں گزار تے ہیں۔ جناب مجیدی ایرانی اورل ہسٹری سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ کے سالوں میں اپنی یاد داشت کے دریچوں کو وا کرتے ہیں۔ اس انٹرویو کے پہلے حصے میں اُن کے محاذ پر جانے، کربلائے ۵ آپریشن میں ہونے والے اتفاقات، اسیر ہونے کے طریقہ، ۶۹ اسیر افراد  پر مشتمل مشہور گروپ  اور ان اسیروں کو بغداد کے مشہور ۲۳ افراد کی جدوجہد کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا، یہ ساری باتیں ہوچکی ہیں۔ بقیہ گفتگو زیر نظر ہے۔

 

آپ کو اسیری کے زمانے کی بہت سی باتیں یاد ہوں گی، ہمارے لئے ذہن پر نقوش چھوڑنے والے ایک دو واقعات بیان کریں۔

جب امام خمینی ؒ کی رحلت کی خبر ہم تک پہنچی،  سب نے بلند آواز میں قرآن پڑھنا  اور گریہ کرنا شروع کردیا؛ ہم نے اتنا گریہ کیا کہ عراقی فوجی کھڑکیوں کے پیچھے آکر کہنے لگے: "کیا ہو گیا ہے؟ کیوں رو رہے ہو؟ کیوں قرآن پڑھ رہے ہو؟ قرآن تو قبرستان میں پڑھا جاتا ہے، یہ کونسا وقت ہے؛ تالیاں بجاؤ ، رقص کرو!" ہم نے کہا: "ہم ایسا نہیں کریں گے، ہمارے امام کا انتقال ہواہے، ہمارا رہبر ہم سے جدا ہوگیا ہے۔" ایک افسر نے کھڑکی کے پاس آکر کہا: "کوئی ایک بسیجی کھڑا ہوجائے۔" ہمارے ایک بسیجی دوست جناب حسن پور جن کا تعلق رفسنجان سے تھا، وہ کھڑے ہوئے۔ جناب حسن پور ظاہری لحاظ سے بہت ہی نحیف اور لاغر تھے،  ایسے کہ اگر آپ پھونک ماریں تو وہ گر  پڑیں۔ اُنھوں نے کھڑکی کے پاس جاکر کہا: "جی کیا کام ہے؟ میں بسیجی ہوں۔" عراقی افسر بولا: "تم لوگ اسرائیل کیوں نہیں گئے؟ ہم سے لڑنے کیلئے یہاں کیوں آگئے؟" جناب حسن پور بولے: "امام خمینی نے فرمایا تھا قدس کا راستہ کربلا گزرتا ہے  اس لئے ہمیں پہلے تم سے لڑنا ہے، کیونکہ اسرائیل سے جنگ کرنے سے زیادہ ضروری تم سے جنگ کرنا ہے  اور تم سے نمٹنے کے بعد اُن کی باری  ہے۔"

عراقی افسر جو غصہ میں آگیا تھے، بولا: "میں تمہیں کل یہیں پر دفن کروں گا۔" اُسی رات عراقی فورسز نے ہم پر وہ سختیاں ڈھائیں جو بیان نہیں کی جاسکتی۔ رات میں ہم سب کو باہر نکالا اور قرآن پڑھنے کی وجہ سے سب کو سزا دی گئی۔ پھر مجھ سمیت ۷۲ لوگوں کو بقیہ افراد سے جدا کرکے دوسری جگہ لے گئے۔ اُس زمانے میں ہمیں زیادہ اذیتیں دینے کیلئے سردیوں کے لباس گرمیوں میں اور گرمیوں کے لباس سردیوں میں پہناتے تھے ۔ اُس سال بھی امام خمینی ؒ کی رحلت سے کچھ دن پہلے ہمیں اون سے بنا ہوا براؤن رنگ کا موٹا لباس دیا گیا۔ یہ لباس اتنا کھردرا تھا  جسے زیر جامہ کے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا، اُن شدید گرمیوں میں ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اُسی موٹے لباس کو پہنیں گے تاکہ سب ایک جیسے لگیں۔ عراقی فوجیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ ہمارے پاس آکر کہنے لگے: "تم لوگ پاگل ہوگئے ہو، یہ کیا طریقہ ہے؟ تم لوگوں نے یہ لباس کیوں پہنا ہے؟  ہم نے تم سے کہا ہے کہ آزاد گھومو پھرو، تم لوگ سردیوں  کے کپڑے پہن رہے ہو؟!" لیکن ہم راضی نہیں ہوئے۔ عراقی فورسز جو غصے میں تھیں، کہنے لگیں: "ان لباسوں کو صحن میں ڈالو ہم اُنہیں آگ لگانا چاہتے ہیں۔" اور یقین کریں کمروں اور کیمپوں میں جو بھی لباس تھے اُن سب کو صحن میں ڈال کر سب کو جلا دیا۔ البتہ ہم نے  زیادہ تر کپڑے پہن رکھے تھے تاکہ سب کو نہ جلا سکیں اور ایسا نہ ہو کہ ہم آنے والی سردیوں میں سردی سے ٹھٹھر  رہے ہوں۔

کچھ دیر بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں دوسرے کیمپ منتقل کردیں۔ اُس لمحےجب ہمیں کیمپ کے دوسرے افراد سے جدا ہونا تھا وہ وقت ہمارے لئے بہت ہی  مشکل تھا۔ ہمیں ایسے دوستوں سے بچھڑنا تھا جن سے بھائیوں جیسی محبت ہوگئی تھی  اور ایک دوسرے سے دور رہنے کی ہم میں ذرا بھی ہمت نہیں تھی، ہمیں اُن سے ہمیشہ کیلئے جدا ہونا تھا۔ خاص طور سے میں کمسن ہونے کی وجہ سے زیادہ مشکل میں تھا،  کیونکہ میں اپنے سن و سال کی وجہ سے اُن سخت حالات میں اپنے اندر پائے جانے والا خلاء کو دوستی  کے ذریعے پُر کرتا تھا۔ بہرحال ہم اپنے دوستوں سے جدا ہوگئے اور برابر والے کیمپ ۱۱ میں چلے گئے۔ جب ہم داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا گیٹ پر دو دُبلے پتلے چوکیدار کھڑے ہیں  اور وہ اپنے لاغر ہونے کے باوجود اسیروں کو بری طرح پیٹ رہے تھے۔ ان میں سے ایک معمولی طور پر مار رہا تھا؛ لیکن دوسرا  بہت زور سے، جہاں دل چاہتا وہیں پر لگا دیتا۔ کبھی پیٹ پر، کبھی آنکھ اور حتی کبھی لوگوں کے کان پر مارتا ۔ میں بھی سب کے پیچھے ان میں سے ایک چوکیدار کی طرف آگے بڑھ رہا تھا جو نوفل کے نام سے مشہور  ہوگیا تھا۔ نوفل شلمچے میں ہونے والے ایک آپریشن میں ٹینک میں رہ گیا تھا اور جس وقت ایرانی فورسز نے اُس ٹینک کو نشانہ بنایا، ٹینک کو آگ لگ گئی۔ نوفل اس سے پہلے کہ خود کو بچاتا اُس کا آدھا جسم جل چکا تھا۔ اس کے علاوہ ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ میں نوفل اپنے چار بھائیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا تھا  اور دو بھائیوں کو ایرانی فورسز نے قیدی بنالیا تھا، خلاصہ یہ کہ اُس نے ایرانیوں سے بہت دُکھ اٹھائے تھے  اور بقول معروف وہ ایرانیوں کے خون کا پیاسا تھا۔ میں اُس لائن میں تھا جسے نوفل کے سامنے سے گزرنا تھا۔ ہم نے اتنی مارکھائی تھی کہ  مار کھانے میں استاد ہوگئے تھے، لیکن مجھے لگا کہ میں نوفل کی مار برداشت نہیں کر پاؤں گالہذا جب میں نوفل سے ۱۰ یا ۱۵ میٹر کے فاصلے پر رہ گیا تو میں چوکیدار کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پلک جھپکنے میں  چھلانگ لگا کر دوسری لائن میں چلا گیا۔ دوسرا والا بھی بہت برا مار رہا تھا، لیکن وہ اندھا دھند مار رہا تھا تو ایک طریقے سے اُس سے بچا جاسکتا تھا۔ ایک دو لوگوں کے بعد میری  مار کھانے کی  باری تھی، میں نے سوچ رہا تھا  کہ کیا کروں؟  اچانک میرے ذہن میں ایک چال آئی کہ  میں فالج ہونے کا ڈرامہ کرتا ہوں۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ کمر پر اور دوسرا ہاتھ گھٹنے پر  رکھ کر اور خود کو موڑنا اور گھمانا شروع کردیا۔ جب میں چوکیدار  کے سامنے پہنچا،  اُس نے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟" میں نے کہا: "تم نے مارا ہے۔" اُس نے کہا: "میں نے تو ابھی تک ہاتھ بھی نہیں لگایا" اور گالیاں بکنے لگا ۔ میں بہت ہی لاغر تھا اور میرے گھٹنے کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، میں نے کہا: "یہ دیکھو میرے گھٹنے کو بھی توڑ دیا ہے۔ کل جب ریڈ کراس والے آئیں گے تو اُنہیں بتاؤں گا۔"بہرحال اُس نے جو بھی کہا میں نے جواب میں کہا کہ میں شکایت کروں گا۔ امام کی رحلت کے بعد ہم نے کیمپ وہ افراتفری مچائی تھی، ٹی وی اور شیشوں کو  ریزہ ریزہ کر دیا تھا اور ایسے حالات میں وہ ہماری پٹائی لگا کے اس کی تلافی کرنا چاہتے تھے، میں اُسی طرح ڈرامہ کر رہا تھا کہ تم نے میرے پیروں کو توڑ ڈالا۔ عراقی چوکیدار نے کہا: " وہاں جاکے بیٹھ جاؤ، تمہیں تو بعد میں دیکھتا ہوں۔"بعد میں وہ بھول گیا  اور مجھے کچھ کہا ہی نہیں ہے  اور اس طرح میں نے خود کو مار سے بچالیا۔

ایک اور دن میں احاطے میں ٹہل رہا تھا  اور جیسا کہ میں نے قرآن حفظ کرنا شروع کیا ہوا تھا،  اس لئے میں آیات کو دہرا رہا تھا۔  وہی افسر میرے سامنے آیا اور کہنے لگا: "یہاں آؤ تم سے کام ہے۔" جیسے ہی میں اُس کے پاس پہنچا اُس نے مجھے مارنا شروع کردیا، میں نے بھی کہہ دیا: "نہیں مارو، میں نے پناہ لی ہوئی ہے۔" عراقی افسر خوش ہوگیا اور فکر کرنے لگا کہ میں مجاہدین خلق آرگنائزیشن(منافقین) کی پناہ میں ہوں۔ کیونکہ چند دن پہلے آرگنائزیشن کا اعلی عہدیدار ابریشمچی، ہمارے کیمپ میں آیا تھا اور اُس نے آرگنائزیش میں پناہ لینے کیلئے بہت کچھ کہا تھا۔ لیکن وہ کیمپ  کے اندر نہیں آیا کیونکہ ہمارا اُس پر حملہ کرنے کا ارادہ تھا اور نگہبانوں  کو اس بات کا پتہ چل گیا تھا۔ انھوں نے اُس کو بتا دیا تھا  اور وہ کیمپ  میں آنے سے ڈر رہا تھا، اُس نے خار دار تاروں کے پیچھے کھڑے ہوکر مائیک کے ذریعے اپنی باتیں کیں اور چلا گیا،  لیکن اُس کو جواب  دینے کیلئے کوئی بھی اپنی جگہ سے کھڑا نہیں ہوا۔

میں نے عربی سیکھ لی تھی اس لئے اُس دن میں نے عراقی افسر سے کہا: "مجھے نہیں مارو، میں پناہ لینا چاہتا ہوں۔" افسر بولا: "کہاں پناہ لینا چاہتے ہو؟ عراق میں؟ اقوام متحدہ میں؟ کہاں پر؟  مجاہدین خلق سے؟ " میں نے کہا: "نہیں، میں امام حسین (ع)، حضرت فاطمہ زہرا (س) کی پناہ میں  جانا چاہتا ہوں۔" میں تقریباً ۱۵ منٹ تک اُسے چکر دیتا رہا تھا۔ جب اُس کی سمجھ میں آیا کہ کہانی تو کچھ اور ہی ہے تو اُس نے بری طرح مارنا شروع کردیا اور پھر مجھے چھوڑ دیا۔

 

مخصوص ایام جیسے عید کے ایام کیمپ میں کیسے گزرتے؟ کیا عام دنوں سے فرق ہوتا تھا؟

ہم کیمپ نمبر ۱۱ میں تقریباً تین مہینے رہےتھے۔ عید مبعث والے دن، صبح کمرے کا دروازہ کھلا اور قیدیوں کا دشمن نوفل کمرے میں داخل ہوا اور کہنے لگا: "باہر آجاؤ" اور گالیاں بکنے لگا۔  ہم سوچنے لگے: "خدایا کیا ہو گیا ہے؟ عید والے دن یہ رویہ ہے؟" سب باہر نکل آئے اور ایک لائن میں کھڑے ہوگئے، نوفل نے ہمیں مارنا شروع کردیا  اور وہ واقعاً بری طرح مار رہا تھا۔ جب جناب انصاری کی باری آئی۔ وہ ۲۵ ویں کربلا لشکر کی بٹالین کے کمانڈرتھے اور چوڑے ہیکل کے مالک تھے۔ نوفل نے اُن کے منھ پر ایک طمانچہ مارا اور وہ قوی ہیکل ہونے کے باوجود اچانک منھ کے بل زمین پر گرے،  لیکن انھوں نے ایک آواز نہیں نکالی۔ میں اس ماحول کی وجہ سےدباؤ کا شکار ہوچکا تھا، میں نے اپنے دوستوں سے کہا: "میں چاہتا ہوں نوفل کو نیچا دکھاؤں" سب نے کہا: "رہنے دو، نوفل تمہارا سر قلم کردے گا۔ تمہارا ایک کان صحیح و سالم بچا ہے وہ اُسے بھی کاٹ دیگا۔" میں نے کہا: "کوئی بات نہیں، میں نوفل کو نیچا دکھانا چاہتا ہوں۔" جب میری باری آئی،  نوفل نے دستے سے میری ٹھوڑی کے نیچے مارا، لیکن میں ہلا نہیں۔  پھر میرے گال پر تھپڑ لگایا، میرے ہاتھ زمین سے لگنے والا تھا، لیکن میں نے خود کو سنبھال لیا  اور کھڑا ہوگیا۔ نوفل کو احساس ہوا کہ اُس کی توہین ہوئی ہے، مسلسل گالیاں بک رہا تھا اور کہنے لگا: "جاؤ دوبارہ لائن میں لگ جاؤ۔" میں لائن کے آخر میں جاکر کھڑا ہوگیا اور جب دوبارہ مار کھانے کی باری آئی،  میں اس بار بھی ڈٹا رہا اور نیچے نہیں گرا۔ نوفل جسے مزہ آرہا تھا گالیاں دیتے ہوئے اور بکواس کرتے ہوئے بولا: "تم میری خوراک ہو، جاؤ دوبارہ لائن میں کھڑے ہوجاؤ۔" میں جاکے لائن میں لگ گیا  اور تیسری دفعہ میری باری آنے والی تھی کہ  مجھے احساس ہوا کہ میرے دماغ میں زوں زوں کی آواز گھوم رہی ہے، جیسے کوئی زنبور میرے کان میں گھس گئی ہو۔ میں برادشت نہیں کرسکا۔ میں اپنا توازن کھو بیٹھا  تھا اور عجیب و غریب حرکتیں کر رہا تھا۔ نوفل نے تیسری مرتبہ مجھے بہت آرام سے مارا،  لیکن میری حالت خراب ہوچکی تھی اور میں مزید جدوجہد کرنا نہیں چاہتا تھا میں نے خود کو نیچے گرادیا۔ نوفل کو غصہ آگیا، کہنے لگا: "اب مجھ سے جھوٹ  بھی بول رہے ہو؟ جب تمہیں نیچے گرنا تھا تو نہیں گرے، اب تمہیں چیک کرنے کیلئے ایسے ہی مارا تو خود کو زمین پر گرالیا۔" میں اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہوا ، لیکن ہمت نہ کرسکا اور کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔ مجھے ایسا لگ رہا جیسے سر کا نچلا حصہ گرم ہورہا ہے۔ جب میں نے دیکھا تو پورا تکیہ خون سے بھر ا ہوا تھا۔ میرے کان کا پردہ پھٹ چکا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ عید والے دن سب خوش ہوتے ہیں اور عیدی بانٹی جاتی ہے، لیکن جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اُنھوں نے میرے سیدھے کان کے پردے کو پھاڑ دیا تھا۔

 

ہمیں اُس زمانے کا کوئی اور واقعہ سنائیں، کیمپ میں کوئی دلچسپ واقعہ پیش نہیں آیا؟

کیوں نہیں، ایک واقعہ ہے ، جب کوئی بیمار ہوجاتا اور اُسے ہسپتال لے جایا جاتا، تو کبھی ڈرپ  بھی لگانی پڑ جاتی۔ ہم نے طے کیا ہوا تھا جس سپاہی کو بھی ڈرپ لگے،  اُسے ہر صورت میں ڈرپ کی نلکیوں کو اپنے ساتھ لانا ہے۔ ہم نلکیوں کو آپس میں جوڑ کر اُس کے ایک سرے کو  کچن میں موجود پانی کی ٹنکی سے وصل کردیتے۔ کیمپ کے پچھلے احاطے میں چپکے چپکے ٹماٹر اور کھیرے اُگاتے تھے اور نلکیوں  کو بھی کسی کونے میں چھپا دیتے تھے۔ البتہ یہ بھی بتادوں کہ جب عراقی اس بات سے آگاہ ہو جاتے تو اُگی ہوئی تمام چیزوں کو اپنے ساتھ لےجاتے اور ہمیں کھانے کیلئے صرف مار ملتی۔ لیکن نلکیوں کے چھپانے کا فائدہ  پھر بھی تھا  جب ہمیں چند دنوں تک کمرے میں بند کر دیا جاتا  اور کھانے پینے کیلئے کچھ نہ ہوتا تو پینے کیلئے ہمارے پاس پانی ہوتا اور اس طرح ہم پیاس اور موت سے چھٹکارا پالیتے۔

ایک واقعہ اور بھی ہے لیکن وہ تھوڑا تلخ واقعہ ہے۔ حتماً آپ نے بڑے فرار کا قصہ ماہ عسل کے پروگرام میں سنا ہوگا۔ سن ۱۹۸۹ء میں جناب احمد چلداوی  اور اُن کے دو دوستوں نے بیماری کا ڈھونگ رچا یا اور ہسپتال منتقل ہوگئے۔ انھوں نے ہسپتال کے چوکیدار کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور وہاں سے ایک گاڑی کے ذریعے ایران کے بارڈر تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، لیکن بارڈر پر پکڑے جاتے ہیں، وہ اپنے پیر پر لگنے والی گولی کی وجہ سے گرفتار ہوتے ہیں۔ اُن کے بھاگنے سے لیکر واپس آنے تک ٹوٹل تین دن لگے، ان تین دنوں میں تمام وقت ہمیں سزا دیتے اور مارتے رہے۔  تین دن بعد جب جناب چلداوی اور اُن کے دوستوں کو کیمپ میں لائے، تو وہ لوگ صبح ۸ بجے سے لیکر اذان مغرب تک مار کھا تے رہے  اور اس پوری مدت میں ہم کھڑکی کے پیچھے سے تماشا دیکھنے پر مجبور تھے۔ آپ یقین کریں ان تین لوگوں نے تقریباً دس  سے بارہ گھنٹے تک مسلسل مار کھائی،  جس کی وجہ سے اُن کے بدن میں ایک جگہ بھی صحیح و سالم نہیں بچی۔

نماز مغرب کے بعد میں نے دوستوں سے کہا: "اب مجھ سے برداشت نہیں ہورہا، ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ میں ڈرامہ بازی کرنا چاہتا ہوں، تم لوگ ڈرنا نہیں۔" دوستوں نے کہا: "تم کیا کرنا چاہتے ہو؟" میں نےکہا: "صبر سے کام لو، نہیں معلوم کیا کرنا چاہتا ہوں، لیکن خدا مدد کریگا۔  میں ڈرامہ بازی کروں گا اور تم لوگ بھی اس کیلئے تیار رہنا۔" جیسے ہی عشاء کی نماز ختم ہوئی میں نے کھڑے ہوکر چلانا شروع کردیا۔ میں بل کھانے لگا اور فریاد کر نے لگا " یاحسین، یافاطمہ، یا زہرا … ۔" چوکیدار کھڑکی کے پاس آکر کہنے لگا: "کیا ہو گیا ہے؟" اُسی وقت ٹی وی پر رود بار زلزلے کی تصاویر اور زلزلے سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں دکھانے لگے۔ دوستوں نے جھوٹ بولا: "ہمارا یہ دوست رودبار کا رہنے والا ہے، ٹی وی دیکھتے ہوئے اس نے دیکھا کہ اس کا گھر اُجڑ گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہے۔" چوکیدار نے جاکر اپنے اعلیٰ افسر کو یہ بات بتائی۔ افسر کھڑا ہوا دوسرے پر حکم صادر کر رہا تھا کہ صحن میں موجود اسیروں کو کس طرح مارنا ہے، جیسے ہی اس بات سے آگاہ ہوا کہنے لگا ابھی رُک جاؤ  اور اُن تین افراد کے  ٹارچر کو رکوا دیااور کیمپ کے دروازے کو کھول دیا۔ غروب کے بعد کیمپ کا دروازہ کسی صورت بھی نہیں کھلتا تھا لیکن اگر صدام کے حکم پر کوئی انٹیلی جنس کا بندہ آجائے  یا جب کیمپ میں نئے افراد کو لانا ہوتا۔ اس کے علاوہ  حتی افراد کے مرجانے پر بھی دروازہ  کسی صورت میں بھی صبح تک نہیں کھلتا تھا۔ کیونکہ گنتی کرنے والا افسر چابی اپنے ساتھ لے جاتا تھا اور دوسری چابی تھی ہی نہیں جس سے دروازہ کھولا جاتا۔

اُس رات متعلقہ افسر جو کیمپ کا کمانڈر بھی تھا، اُس نے اپنی چابی چوکیدار کو دی اور کہا دروازے کو کھولے تاکہ ہم لوگ باہر آئیں۔ جناب ناصر صادقی جو کرمان کے رہنے والے تھے، انھوں نے مجھے کندھے پر بٹھایا اور کیمپ کے احاطے میں بیچوں بیچ بٹھادیا؛ ایسی جگہ جہاں سے پورے کیمپ کو دیکھا جاسکتا تھا،  کیونکہ کیمپ کے کمرے پورے احاطے میں دائرے کی شکل میں تھے۔  میں اُسی طرح رو رہا تھا اور فریاد کر رہا تھا کہ "ہمارا گھر اُجڑ گیا …  میری بہنیں اور میری ماں کس حال میں ہوں گی… ۔" میں نے  دیکھا کہ ناصر رو رہا ہے اور بین کرتے ہوئے کہہ رہا ہے: "یہ بھی گیا، ہم نے اسے بھی کھو دیا ، یہ پاگل ہوگیا ہے۔ عراقی افسر نے آکر پوچھا: "اب کیا ہوگیا ہے؟" ناصر نے جواب دیا: "رودبار میں میرے دوست کا گھر اُجڑ گیا ہے  اور یہ دیوانہ ہوگیا ہے۔"

عراقی افسر جو متاثر ہوگیا تھا کہنے لگا: "پریشان مت  ہو، خدا بہت بڑا ہے، انشاء اللہ تم سلامت رہو، حتماً کوئی غلطی ہوئی ہے،  شاید وہ تمہارا گھر نہ ہو اور تم سے دیکھنے میں غلطی ہوگئی ہو۔" اور اُس نے مجھے دلاسے دینا شروع کردیا۔  وہ بھی ایسے نے  افسر جو کچھ دیر پہلے تک ہمارے دوستوں کو مار مارکے قتل کر دینا چاہتا ہو۔ اُس کے بعد عراقی افسر نے اُس طرف کھڑے بھیاری کی طرف رُخ کرکے کہا: "ذرا ادھر آنا۔" بھیار سپاٹ چہرے کے ساتھ آیا اور بولا: "کیا ہو گیا ہے؟" عراقی افسر نے بھیار سے کہا: "جاؤ اور اس قیدی کیلئے دوائی لے آؤ، تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ اس کی حالت خراب ہے!"

بہرحال وہ مسلسل مؤدبانہ کلمات استعمال کر رہا تھا تاکہ میری حالت ٹھیک ہوجائے اور میں پرسکون ہوجاؤ۔ ایسے میں بھیار جاکر ایک مٹھی گولیاں لے آیا اور یوسف نامی ایک چوکیدار  کو دیکر کہنے لگا: "یہ دوائیں اس اسیر کو دو تاکہ  کھالے۔" یوسف اپنے کمانڈر سے کہنے لگا : "سر یہ قیدی ٹھیک ٹھاک ہے اور جھوٹ موٹ میں ڈرامہ بازی کر رہا ہے، میں آپ سے شرط لگاتا ہوں کہ یہ ٹھیک ہے،  آپ مجھے تار سے اسے دس کوڑے مارنے دیں تاکہ میں ثابت کرسکوں کہ یہ قیدی ٹھیک ٹھاک ہے۔" جیسے ہی یوسف نے یہ باتیں کی، میری تو لائٹ ہی چلی گئی کیونکہ مجھے تجربہ تھا  کہ تار سے مار کھانے میں کتنا درد ہوتا ہے۔ خودسےکہنے لگا: "خدایا تو ہی میرے مدد کر، اگر اس نے مجھے تار سے مارا تو میں برداشت نہیں کر پاؤں گا۔" اُسی وقت عراقی افسر نے یوسف سے کہا: "بیچارے اس قیدی کو تو خدا نے مار دیا ہے، اس کا تو کچھ بھی نہیں بچا،  اُسے تو اب آزاد ہونے کی بھی اُمید نہیں اور تم اُسے قتل کرنا چاہتے ہو؟ یہ بیچارہ ۱۵ سال کی عمر میں محاذ پر آگیا  تھا  اور اب اس کے گھر والوں کا بھی کچھ پتہ نہیں ہے۔" لیکن یوسف نے ان باتوں پر توجہ نہیں کی اور مجھے مارنے کیلئے آگے بڑھا تو عراقی افسر نے اُسے پیچھے سے پکڑ لیا۔  اتنے میں، میں نے  کیمپ کی نگہبانی کا دروازہ کھلتے ہوئے دیکھا اور تین، چار تازہ دم چوکیدار  اپنے ہاتھوں میں تاریں  لئے  میری طرف بڑھے۔  عراقی افسر بولا: "کیا کرنا چاہتے ہو؟" اُن میں سے ایک چوکیدار نے کہا: "یہ قیدی ڈرامہ بازی کر رہا ہے، ہم انہیں اچھی طرح جانتے ہیں" اور اُس نے مجھے چند گالیاں بھی بکیں۔ وہ عراقی افسر پھر بولا: " بیچارے اس قیدی کو تو خدا نے مار دیا ہے "اور بھیاری سے کہنے لگا: "اسے گولیاں دو تاکہ کھا سکے۔" میں نے دیکھا عراقی افسر بجائے اس کے  نگہبانی اور دواؤں کے کمرے کی طرف جاتا، وہ چوکیداروں کے کمرے کی طرف گیا اور ایک ستون سے ٹیک لگاکر اپنا سر آسمان کی طرف کرلیا۔ پروجیکٹر کی لائٹ عراقی افسر  کے چہرے پر پڑ رہی تھی  اور میں نے اُس کے چہرے پر آنسوؤں کو بہتا  ہوا دیکھا، وہ رو رہا تھا۔  میں سمجھ گیا کہ اُسے میری حالت پہ رونا آرہا ہے۔ پھر وہ جاکے میرے لئے کچھ دوائیں لایا اور کہنے لگا: "کھالو" میں نے اپنے آپ سے کہا: "خدایا! میں تو ٹھیک ہوں۔ اگر میں نے یہ دوائیں کھالیں،  مجھے تو دورہ پڑ جائے گا۔" دوائیں لے لیں اور  ایسا ظاہر کرنے لگا جیسے گولیاں کھا رہا ہوں، لیکن اچانک اُن سب کو پیچھے پھینک دیا، میں نے اس طرح سے پھینکا تھا کہ مجھے یقین تھا وہ خاردار تاروں سے  تقریباً دس میٹر دور  گئی ہونگی۔ پھر ظاہر کرنے لگا کہ گولیاں میرے حلق میں پھنس گئی ہیں۔ عراقی افسر نے کہا: "اس کیلئے پانی لاؤ کہیں مر نہ جائے۔" جب عراقی فوجی مجھے دلاسے دینے اور میری دیکھ بھال میں مصروف تھے، اُن تین افراد کو انفرادی  سیل بھیج دیا گیا اور اُن تینوں نے شکنجوں سے نجات پالی۔

 

کیا ہمیں سنانے کیلئے یوسف کے بارے میں کوئی واقعہ ہے ؟

اُس کا تعلق وہاں کی انٹیلی جنس فورسز سے تھا اور اُس کی تعریف میں مجھے یہ کہنا چاہیے کہ وہ  مکمل طور پر ایک وحشی درندہ تھا  اور ایسا کہنا بھی افسوس ہے کہ اُسے کسی حیوان کا نام دیا جائے۔ آپ یقین کریں، اُس میں انسانیت، شرافت اور ذرا بھی وجدان  نہیں تھا۔  چوڑے جسم کا مالک اور اُس کے چہرے پر چیچک کے داغ تھے۔ ایسا کہ آپ جب بھی اُس کو دیکھیں گے تو وحشت سے آپکا پورا وجود لرز جائے اور چہرے کے علاوہ وہ بد اخلاق بھی بہت تھا۔ ہمیں مارنے کیلئے تار  استعمال کرتا تھا،  ایسی تار جو باریک تاروں سے مل کر بنی ہو، اُس کی باریک تاریں وگ کی طرح ایک دوسرے ملی ہوتیں۔ آپ یقین کریں جب وہ ہمیں اُس تار سے مارتا تو ہمارے کپڑے پھٹ جاتے  اور اُس کی چوٹ سیدھی گوشت پر جاکر لگتی اور گوشت کو اپنے ساتھ لے آتی۔ جب بھی تار سے مارتا، خون اُبلنا شروع ہوجاتا،  مختصر یہ کہ بہت ہی برا مارتا تھا۔ اس کے علاوہ ہمیں کبھی سزا دینے کیلئے پلاس سے ہمارے کان پکڑ لیتا اور زور سے دبا کے اُسے بند کردیتا۔ کبھی ہمارے کان کے پوروں کو پکڑ کے پریس کردیتا،  خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کے کام کرتا اور ایسے وحشتناک شکنجے دیتا کہ  میں تصور نہیں کرسکتا کہ اُس نے کہاں سے سیکھا تھا۔

میں نے ایک دفعہ گوشت کے کاغذی تھیلے پر کوئلے سے "بسم اللہ اور یا غیاث المستغیثین" لکھ دیا  اور اپنے کمرے میں ایک جگہ اوپر لگا دیا، جیسے ہی یوسف کی نگاہ اُس لکھائی پر گئی، اُس نے کاغذ کو  دیوار سے اُتارا اور  پاؤں  سے کچلنے لگا اور مسلسل چیخے جا رہا تھا: "خدا کہاں ہے؟! حسین کہاں ہے؟! کیا ہر دفعہ نہیں کہتے ہو یا حسین، پھر حسین میرے ہاتھوں  سے تار کیوں نہیں لیتا؟!"ہم سب ناراحت ہوگئے  تھے، ہم نے کہا: "دوستوں رات کو توسل کرو اور دعا مانگو۔"  آپ یقین کریں اُس رات ہم نے  ختم صلوات کا ورد کیا اور امام حسین (ع) سے توسل کیا اور کہا: "مولا ہمیں آپ سے کچھ نہیں چاہیے، جو بھی ہے آپ کے فضل سے قبول ہے اور آپ کے لطف و کرم سے اس سے بدتر کو بھی سہہ لیں گے، لیکن  اس  ظالم  کو کچھ تو کہیں۔" یقین کریں ایک مہینہ نہیں گزرا تھا کہ یوسف سخت بیماری میں مبتلا  ہوگیا اور ہمارے پاس آکر کہنے لگا: "مجھے معاف کردینا، مجھ سے غلطی ہوئی۔"

جاری ہے …



 
صارفین کی تعداد: 3488


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔