صدامی فورسز کے سامنے جدوجہد کرنے والے سالوں میں محمد مجیدی کی یادیں۔ پہلا حصہ

۱۰ دن کا محاذ اور ۴ سالہ اسیری

انٹرویو: مہدی خانبان پور
تدوین: سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-11-12


محمد مجیدی، دفاع مقدس کے سالوں میں محاذ پر گئے تاکہ کربلائے ۵ آپریشن کے مراحل میں شرکت کرسکیں؛ لیکن جنگی محاذوں پر صرف دس دن رہنے کے بعد دشمن کی بعثی افواج کے قیدی بن جاتے ہیں اور اپنی زندگی کے بہترین چار سال صدامی افواج کے کیمپ میں گزار چکے ہیں۔ جناب مجیدی ایرانی اورل ہسٹری سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ کے سالوں میں اپنی یاد داشت کے دریچوں کو وا کرتے ہیں۔

 

جناب مجیدی، اپنا تعارف کروائیں  اور بتائیے کہ آپ کب جنگی محاذ پر گئے؟

میں محمد مجیدی، میں ملایر کے جوراب نامی گاؤں میں پیدا ہوا۔ سن ۱۹۸۶ء اور چودہ سال کی عمر میں، یعنی یہ وہ وقت تھا جب میں ساتویں کلاس میں پڑھ رہا تھا، مجھے دفاع مقدس کے جنگی محاذ پر جانے کی توفیق نصیب ہوئی۔ اگر دقیق بیان کروں تو ۲۱ فروری سن ۱۹۸۷ء کو کربلائے ۵ آپریشن میں شرکت کیلئے جنگی محاذ پر گیا، لیکن بالکل دس دن بعد یعنی ۳ مارچ کو دشمن کی افواج کے ہاتھوں اسیر ہوجاتا ہوں۔

 

آپ کو جنگی محاذ  پر جانے والے دنوں کی جزئیات کے بارے میں کچھ یاد ہے؟

جی ہاں۔اُن دنوں ششماہی امتحانات ہونے والے ایام تھے۔  مجھے یاد ہے کہ محاذ پر جانے سے دو یا تین دن پہلے صبح کے وقت جب میں بیدار ہوا تاکہ ہونے والے امتحان میں شرکت کرسکوں۔ میری والدہ بھی نماز کیلئے بیدار ہوچکی تھیں۔ جب اُن کا دھیان میری طرف گیا، تو کہنے لگی: "کل رات میں نے خواب دیکھا کہ عراقی فوجیوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کردیا ہے اور وہ گاؤں کے لوگوں میں سے صرف تمہیں اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ میں روئے جا رہی تھی اور اُن سے فریاد کر رہی تھی کہ تمہیں اپنے ساتھ نہ لے جائیں۔"

اُس وقت میں اس فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ کل رات ہم سب دوست مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور فرار کرنے کا نقشہ بنا رہے تھے کہ کس طرح محاذ پر جائیں۔ کیونکہ ہمارے گھر والے ایسے کام کی اجازت نہیں دیتے۔ اپنی والدہ کی بات سننے کے بعد میں سوچوں میں غرق ہوگیا اور جب بھی میں محاذ  اور جانے کے وقت کے بارے میں سوچتا، تو ناچاہتے ہوئے بھی میرا ذہن اسیری کی طرف چلا جاتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ محاذ پر جانے کا وقت آگیا۔ اُس دن کڑاکے کی دھوپ نکلی ہوئی تھی، ہم ایسی بس پر سوار ہوئے جس پر لکھا ہوا تھا: "مصر سے بغداد جانا سفر نہیں ہے، خود اپنے آپ سے گزر جانا مردوں کا سفر ہے۔" وہاں پھر مجھے اپنی والدہ کا خواب یاد آیا  گویا یہ سارے جملات میرے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہے تھے، میں اپنے آپ سے یہی کہے جا رہا تھا: "خدایا! کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ان سارے معاملات میں آپس میں کوئی ربط ہو ؟! مصر، بغداد، جان سے گزر جانا، ہمارا محاذ کی طرف جانا، لڑنا، کربلائے ۵ آپریشن وغیرہ"

ہمارے جنگی محاذ پر روانہ ہوتے ہی میرے والد اس بات سے آگاہ ہو جاتے ہیں  اور وہ میری تلاش میں شہید مفتح چھاؤنی آگئے۔ وہاں اُن سے کہا جاتا ہے کہ میں آدھا گھنٹا پہلے اہواز کیلئے نکل پڑا ہوا۔وہ وہیں سے اہواز آجاتے ہیں،  لیکن وہاں پر بھی پہنچتے ہی، اُن سے کہا جاتا ہے کہ میں ابھی ابھی دزفول کی طرف روانہ ہوا ہوں۔ بہرحال وہ میری تلاش میں دزفول اور اُس کے بعد خرم شہر بھی جاتے ہیں۔ لیکن وہ جس چھاؤنی پر پہنچتے، ہم اُن سے تھوڑی ہی دیر پہلے وہاں سے نکل چکے ہوتے۔ خرم شہر پہنچ کر بھی وہ مجھ سے مل نہیں پاتے  اور اُن سے کہہ دیا جاتا ہے: "آپ کا بیٹا جنگی محاذ پر جاچکا ہے اور آپ یہاں سے آگے نہیں جاسکتے۔"

 

کربلائے ۵  کے بارے میں بتائیے۔ اُس آپریشن میں کیا ہوا اور عراقی فوجیوں نے آپ کو کیسے اسیر بنالیا؟

ہم ہمدان کے ۳۲ ویں انصار الحسین (ع) لشکر کی ۱۵۱ ویں بٹالین کے فوجیوں میں سے تھے۔ ہمارے لشکر کے کمانڈر کا نام جناب کیانی تھا۔ اس بٹالین میں کمانڈر کے عہدے پر پہلے شہید خانجانی تھے اُن کی شہادت کے بعد مصطفی طالبی، حسن تاجیک اور آخر میں جناب کیانی  اس عہدے پر فائز ہوئے۔

کربلائے ۵ آپریشن کے مختلف مراحل میں سے ایک مرحلہ ۳ مارچ سن ۱۹۸۵ء کی رات انجام پایا۔ جنگی محاذ پر یہ میرا پہلا تجربہ تھا، اس مرحلے میں میرا کام آر پی جی گن چلانے والی کی مدد کرنا تھا  اور مقررہ قوانین کی بناء پر مجھے فرنٹ لائن پر رہنا تھا۔

ہماری افواج کے مورچوں کی شکل  گھوڑے کی نعل کی طرح تھی اور  ہماری جگہ بالکل نقطہ صفر پر تھی، ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہمارے اور عراقی فوجیوں کے درمیان ایک صرف مورچے کا فاصلہ ہے۔ میرے اندر تجسس پیدا ہوا اور میں نے چاہا اٹھ کے دیکھوں کہ کیا ہو رہاہے، میں نے دیکھا کہ کچھ عراقی ٹینک بہت تیزی سے ہماری طرف آ رہے ہیں، میں نے سوچا میں گرنیڈ پھینک کر کم سے کم ایک ٹینک کو روک سکتا ہوں، لیکن بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ فاصلہ بہت زیادہ ہے گرنیڈ  سے کام نہیں چلے گا۔ اسی وجہ سے میں نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ کچھ آگے آجائیں  اور میں پھر کلاشنکوف سے اُن پر فائرنگ کروں۔ لیکن اچانک ایک ٹینک نے میری طرف فائر کیا، مجھے ایسا لگا جیسے زمین و آسمان کے درمیان معلق ہوکے رہ گیا ہوں۔  میں نے جولباس پہنا ہوا تھاوہ ہوا کو روکنے والا تھا، وہ میں نے کیمیائی حملوں سے بچنے کیلئے پہنا تھا، اس تصادف کے بعد، میرے لباس کی جیبیں خون سے بھر گئیں، مجھے اپنے سینے پر بے انتہاء دباؤ کا احساس ہونے لگا۔ اس کے علاوہ میرے سر پر بھی چوٹ لگی تھی۔ میں نے اپنی ٹوپی اُتاری تاکہ دیکھوں سر میں کس جگہ سوراخ ہوا ہے۔ پتہ چلا کہیں بھی سوراخ نہیں ہے۔ اپنی آنکھوں کو صاف کرکے اپنی بینائی کو ٹیسٹ کیا، مجھے ایسا لگا جیسے تصویریں دیکھ رہا ہوں لیکن میری ایک آنکھ سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ میں نے اپنا چفیہ نکال کر اس طرح باندھ لیا تاکہ خون بہنا رُک جائے اور پھر بیہوش ہوگیا۔

جب میں بیہوش ہوا تھا تو تقریباً اذان صبح کے بعد کا وقت تھا اور جب مجھے ہوش آیا تو میں نے کو خود عراقی فورسز کی تیسری لائن میں پایا  اور سورج کی کرنوں کی چمک سے سمجھا جاسکتا تھا کہ صبح ساڑھے نو یا دس کے لگ بھگ ہو رہے ہیں۔ رات میں ہم نے جو کچھ عراقی افواج سے لیا تھا، اُنھوں نے ایک دن کے آپریشن میں وہ سب واپس لے لیا  اور دشمن کی افواج  ہمیں اپنا قیدی بنا چکی تھی۔

 

اُن حالات میں کہ جب آپ زخمی بھی تھے اور قیدی ہونے کا صدمہ بھی پہنچا، وقت کیسے گزرتا تھا؟

جب مجھے ہوش آیا تو عراقی فورسز کے چند افراد میرے نزدیک آگئے۔ میں نے اپنا سامان کھولا، اپنے بیگ میں دیکھا تو اُس میں دھماکہ خیز مواد اور آر پی جی کے میزائل کے علاوہ کچھ ٹافیاں اور شہد بھی موجود تھا جو معمولاً آپریشن کی راتوں سے مخصوص تھا اور تمام فوجیوں کے بیگ میں ہوتا۔  عراقی فوجی جو ظاہراً ایرانی لگ رہے تھے مجھ سے فارسی میں کہنے لگے: "ماشاء اللہ تمہارا بیگ تو بھرا ہوا ہے۔" میں جوکہ زخمی بھی تھا اور ٹینک کا گولہ لگنے سے میں حواس باختہ بھی ہوچکا تھا،  میں نے اس گمان میں کے وہ ہمارا ہی ساتھی ہے اُس سے کہا: "نوش فرماؤ!"

اسٹریچر لاکے مجھے اس پر لٹایا گیا، اسی وقت میں نے ٹینک حرکت کرنے کی آواز پر اپنی دائیں طرف دیکھا، میں نے ایک ٹینک کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا، اُس حال میں مجھے ایسا لگا کہ شاید ٹینک میرے اوپر سے گزرنا چاہتا ہے۔ میں نے بہت ہی مشکل سے اپنے چہرہ کو قبلہ کی طرف موڑا اور منھ ہی منھ میں کلمہ شہادت پڑھا، پھر میں نے سردیوں کے اُس سخت موسم میں مورچوں کے پیچھے سے تین لوگوں کو آتے ہوئے دیکھا جو ٹی شرٹ اور عراقی کمانڈو  کیپ پہنے ہوئے تھے۔ ابھی تک میرا ذہن صحیح کام نہیں کر رہا تھا،میں نے خود سےکہا: "شاید یہ آپریشن میں انٹیلی جنس کے افراد ہیں اور مجھے اُن کے عراقی فوجی ہونے پر پھر بھی شک نہیں ہوا۔" بہرحال وہ آئے اور مجھے سٹریچر پر ڈال کر گاڑی کے پیچھے ڈال دیا۔ جب ہم نے بصرہ شہر کے دروازے کو عبور کیا تو مجھے ہارون الرشید ہسپتال کا بورڈ نظر آیا۔ جب ہم ہسپتال کے احاطے میں داخل ہوئے تو مجھے ویل چیئر پر ڈال دیا گیا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ہسپتال کے کمروں میں بسیجی  مٹی میں اٹے لباس میں، ہاتھ پاؤں رگڑتے ہوئے عجیب حالت میں زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں کہ کوئی بھی اُن کی مدد  نہیں کر رہا۔ میں خود سے کہتا ہوں: "خدایا! آخر یہ نرسیں کہاں رہ گئیں؟ کیوں بیماروں کی دیکھ بھال نہیں کر رہیں؟"  اور پھر بھی مجھے ایک لمحہ کا احساس نہیں ہوا کہ ممکن ہے میں اسیر ہوچکاہوں۔

بالآخر مجھے ایک کمرے میں جگہ دی گئی  اور ایک آفیسر میرےپاس آیا۔وہ میرے لئے ایک کپ چائے لایا تھا،  میرے سامنے والے بیڈ پر بیٹھ گیا اور فارسی میں باتیں کرنا شروع کردیں۔ مثلاً جب اُس نے کہا: "امام کا کیا حال ہے؟" میں نے کہا: "الحمد للہ امام ٹھیک ٹھاک ہیں۔" وہ میرے جواب دینے پر عجیب انداز میں خوش ہوا۔ اس کے بعد یہاں کیسے آئے اور آپریشن کیسا رہا ، اس بارے میں مجھ سے سوال کیا اور اُس نے کلمہ اسیری کی طرف کوئی اشارہ ہی نہیں کیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اُس آفیسر کا تعلق عراقی مجاہدین فورسز سے تھا کہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ قسمت سے اُسے میرے کاموں کا مسئول بنایا گیا۔

مجھے ہسپتال میں آئے ہوئے تین دن گزر چکے تھے،  تیسرے دن مجھے سوتی ، جاگتی حالت میں آپریشن تھیٹر لے گئے۔ صبح کی اذان کا وقت تھا جب میں بیدار ہوا اور میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ پاؤں تخت سے بندھے ہوئے ہیں، میں چلایا: "آؤ  اور میرے ہاتھ پاؤں کھول دو۔" اُسی وقت دروازہ کھولا  اور میرے والد صاحب اندر آئے۔ میں نے کہا: "مجھے کیوں باندھ رکھا ہے؟" کہنے لگے: "چونکہ تم نیند کے کچے اور کہیں تخت سے گر نہ جاؤ اس وجہ سے ہم نے تمہیں تخت سے باندھا ہے۔ میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں کھولتا ہوں۔" وہ کمرے سے باہر چلے گئے اور اُن کے بعد میری والدہ ، چچا، خالہ، ماموں اور تمام رشتہ داروں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتی ہیں میں اُن سب سے بھی یہی کہتا ہوں کہ مجھے کیوں تخت سے باندھا ہوا ہے اور وہ رسیوں کے  کاٹنے کیلئے کسی اوزار کی تلاش میں کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ آخری آدمی کے کمرے سے باہر نکلتے ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے پھر مجھے پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام باتیں خواب تھیں۔ اُسی لمحے مجھے احساس ہوجاتا ہے کہ میں اُسی صورت میں تخت سے بندھا ہوا ہوں۔ میں پھر دوبارہ چلایا "کیوں میرے ہاتھ پاؤں باندھے ہوئے ہیں؟" اُس وقت ایک نگہبان کمرے میں آتا ہے اور کہتا ہے: "کیا ہوا ہے؟ کیوں چلا رہے ہو؟ کوئی مسئلہ ہوگیا ہے؟ میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں کھولتا ہوں۔" لیکن میں اتنے ہاتھ پاؤں  مار چکا تھا کہ گرہیں نظر نہیں آرہی تھیں اور نگہبان نے مجبوراً چاقو کا سہارا لیا۔

اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد ہم بغداد جانے کیلئے ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے۔وہاں ہمارے کپڑوں کو جلا دیا  گیا تھا اور ہمیں  عربی جبہ پہنا دیا گیا اور دس افراد پر مشتمل اخباری رپورٹرز کا ایک گروہ ہمارے ساتھ ساتھ تھا جو مسلسل ہم سے انٹرویو لئے جا رہے تھے، لیکن میں نے جب دیکھا کہ بے پردہ خواتین بھی ہیں تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے انٹرویو دینے سے انکار کردیا۔ اتفاق سے وہ وڈیو بعد میں ایرانی فورسز کے ہاتھ لگ گئیں  اور میرے علاوہ، تمام اسراء کی پہچان ہوگئی۔ کیونکہ میں نے جبہ بھی پہنا ہوا تھا، میرے سر پر پٹی بھی بندھی ہوئی تھی اور میں کیمرے کی طرف بھی نہیں دیکھا رہا  تھا۔

 

تو پھر کیسے پتہ چلا کہ آپ اسیر ہوگئے ہیں؟

جب ہم ہسپتال سے باہر آئے تو  پارکینگ میں ایک ایمبولنس میرے انتظار میں کھڑی تھی۔ مجھے ویل چیئر کے ذریعے ایمبولنس کے دروازے تک لائے اور کہا: "لیٹ جاؤ۔" اُس وقت ایک ہٹا کٹا آفیسر اپنا ہاتھ میں ایک بڑا رجسٹر لئے میرے پاس آیا اور بولا: "کھڑے ہو بیٹھ جاؤ" پھر اُس نے مجھ سے سوال جواب شروع کر دیئے تاکہ مطمئن ہوجائے کہ میں واقعاً زخمی  ہوں۔ میں نے ایک دفعہ اُس کے سوال کا غلط جواب دیدیا، وہ  آفیسر متوجہ ہوگیا اُس نے مجھے تھپڑ مارنے کے جیسے ہی ہاتھ اوپر اٹھایا میں پیچھے ہٹ گیا  اور اُس کا ہاتھ زور سے ایمبولنس کے کنارے سے ٹکرایا، اُسے اتنا زیادہ درد ہوا کہ وہ باقی انٹرویو چھوڑ کر چلا گیا۔

بصرہ سے بغداد جانے والے ہائی وے  کے کنارے ایک ۳ بائی ۴ میٹر کا کمرہ تھا، طے پایا کہ ہم وہاں جائیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بعض  لوگ زخمی حالت میں  پھٹے لباس پہنے ہوئے مار کھا رہے ہیں، میں نے سوچا کہ انھوں حتماً کوئی غلط کام انجام دیا ہوگا اور فوجی قوانین کے تحت اُنہیں سزا دی جا رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میری حالت اتنی  خراب تھی کہ حتی میں یہ بھی نہیں سوچ پا رہا تھا کہ ہوسکتا ہے وہ چند افراد ایرانی ہوں اور جو لوگ اُنہیں مار رہے ہیں اُن کا تعلق عراقی فوج سے ہو۔  بالآخر ایمبولنس اُس چھوٹے سے کمرے تک پہنچ گئی اور مجھے دو لوگوں کی مدد سے نیچے اُتارا گیا۔ جب میں کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ پورا کمرہ ایرانی فوجیوں اور آشنا لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہمارے لشکر اور ۲۵ویں کربلائے مازندران لشکر نے ایک ساتھ آپریشن انجام دیا تھا، قرار یہ تھا ہم فرنٹ لائن کو شکست دیں گے اور اس کے بعد متبادل کے طور پر وہ لوگ  فرنٹ لائن پر آجائیں گے۔ بہرحال اُس کمرے میں موجود تمام لوگوں کا تعلق اُنہی سپاہیوں سے تھا۔ کچھ دیر بعد کمرے کا دروازہ دوبارہ کھلا اور اسٹریچر کے ذریعے ایک شخص کو  کمرے میں لایا گیا۔ اُس نے  اندر آتے ہی سب پر نگاہ دوڑائی اور جیسے ہی مجھے دیکھا، مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا: "محمد تم بھی اسیر ہوگئے؟"

عباس میرزائی، سامن ملایر کا رہنے والا تھا۔ جب ہم نے محاذ پر جانے کا فیصلہ کیا تو ہم ساتھ ہی تھے۔ میں جو سکتہ کے عالم میں تھا، میں نے پوچھا: "تم نے کیا کہا؟!" تو اس نے جواب دیا: " بیچارے ہم ابھی بصرہ شہر میں ہیں اور بغداد کی طرف جا رہے ہیں۔" یہ وہ جگہ تھی جہاں مجھے اپنے اسیر ہونے کا پتہ چلا۔ میں صرف ۱۴ سال کا تھا، میں اسیری سے بری طرح ڈر گیا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں برداشت کر پاؤں گا یا نہیں۔ میں نے اپنا سر گھٹنوں پر رکھے مسلسل خود سے یہی کہے جا رہا تھا کہ "ہم اسیر ہوگئے ہیں۔ اب کیا ہوگا؟ کیا میں برداشت کر پاؤں گا؟" اور بالآخر میں نے اپنے آپ سے کہا: "پروردگارا! میں تیری رضا پہ راضی ہوں۔"

 

آپ کب تک اُس کمرے میں رہے؟

تین دن بعد پورا کمرا بھر چکا تھا، ہمارے لئے ایک بس آئی۔ پھر وہی اخباری رپورٹر ہمارے ساتھ لائن سے کھڑے ہوئے تھے۔ پھر وڈیو بنے گی، انٹرویو لیا جائے گا  اور سب کی جانچ پڑتال ہوگئی، میرے علاوہ کیونکہ میں نے انٹرویو نہیں دیا۔ بصرہ شہر سے ابھی ۲۰ کلومیٹر آگے بڑھے تھے کہ بس رُک گئی اور ایک عراقی افسر بس میں سوار ہوا اور سیدھا میرے پاس آیا۔ اس نے میرا پلاک(۱) نکالا اور کہنے لگا: "مفتاح الجنہ؟"میں سمجھ گیا تھا کہ مفتاح الجنہ یعنی جنت کی چابی، میں نے جواب میں کہا: "یہ پلاک ہے۔" اُس نے عربی میں کہا: "[امام] خمینی نے کہا ہے کہ یہ جنت کی چابی ہے، جاؤ دروازہ کھولو اور جنت میں داخل ہوجاؤ!" میں نے کہا: "نہیں، پلاک ہے، پلاک۔"  اُس نے زنجیر سے پلاک نکال کر اُسے بس کی کھڑکی سے باہر پھینک دیا، پھر تمام راستے ۸ گھنٹے تک اُس زنجیر سے میرے اور جناب انصاریان کے سر پر چوٹ لگاتا رہا۔ اور میں درد کے مارے چلا رہا تھا اور میرے ساتھ پوری بس رو رہی تھی۔ عراقی افسر میرے پاس بیٹھے ہوئے جناب انصاریان سے مسلسل یہی کہے جا رہا تھا: "اس گروپ کے کمانڈر تم ہو، تم نے انہیں جنگ کرنے کا حکم دیا تھا …۔" میں یہ بھی بتادوں کہ جناب انصاریان اسیر ہوتے وقت، میدان میں پھنس جانے والے افراد کے ساتھ پھنس گئے تھے، سب نے دیکھ لیا تھا کہ وہ ۲۵ویں کربلا لشکر کی بٹالین کے کمانڈر ہیں بنابریں اُسی وقت اُن کے کمانڈر ہونے کا راز برملا ہوگیا تھا اور اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ کوئی اس راز کو فاش کرتا۔

اذان مغرب کے وقت ہم لوگ بغداد چھاؤنی پہنچے۔ ہمارے نیچے اُترنے سے پہلے، وہی عراقی افسر ڈرائیور کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا  اور بس میں مسافروں کے سروں  کے اوپر سامان رکھنے کی جگہ  چیک کرنے لگا اور مسلسل کچھ ڈھونڈتا رہا یہاں تک کہ اُس کا  ہاتھ پانوں کے ایک بکس سے ٹکرایا، کہنے لگا: ""ھا! وجدتُ" یعنی میں نے ڈھونڈ لیا۔  ڈرائیور نے بریک لگائی، ہینڈ بریک کو کھینچا، اُسے پیچھے سے پکڑ کر کہنے لگا: "یہ میرے پاس کسی کی امانت ہے، تم کیا کرنا چاہتے ہو؟" افسر نے عربی میں جواب دیا: "ان کے سر پھوڑنا چاہتا ہوں!"بالآخر کافی بحث و تکرار کے بعد ڈرائیور نے اسے روکنے میں کامیاب ہوگیا اور بس بغداد کی الرشید چھاؤنی پر رُک گئی۔

 

اس کے بعد کیا ہوا؟

جب دروازہ کھلا تو اب ہمیں نیچے اُترنا تھا۔ میں جو بس کی تیسری صف میں بیٹھا ہوا تھا ، مجھ سے کہا: "نیچے اُترو" میں نے کہا: "نہیں اُتر سکتا، میرے پیر بے حس ہیں۔" دو قیدیوں نے مجھے بغل کے نیچے سے پکڑلیا، جب ہم بس کے دروازے کے پاس پہنچے ، ڈرائیور کے پاس کھڑے افسرنے مجھے  بس سے سیدھے اُترنے نہیں دیا، اُس نے میری کمر پر لات ماری اور میں بس سے زمین پر منھ کے بل گر پڑا۔ میں ابھی اپنا سر اٹھانا ہی چاہتا تھا، ایک دوسرے افسر نے مجھے ایک تھپڑ رسید کیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے سرخ سیسہ کا کوئی ٹکڑا میری منھ پر لگا ہے۔ میرے سر میں جتنی بھی آوازیں تھیں، اُنھوں نے زوں زوں کرنا شروع کردیا۔ میں نے روتے ہوئے کہا: "یا فاطمہ زہرا!" پھر میں کمرکے سہارے اٹھا تو  بندوق کے بٹ سے میری کمر پر مارا۔ باقی افراد جو مجھے مار کھاتا دیکھ رہے تھے، میری مدد کیلئے آگے بڑھے اور ہم سب ایک ایسی گاڑی میں سوار ہوگئے ظاہراً جس کا کام گوشت لے جانا تھا  اور ہمیں اُس کے فرج میں بٹھادیا گیا۔ ہمیں بغداد ایئرپورٹ کی طرف سے لے جایا گیا اور رن وے کے پیچھے اتار دیا۔ ہر چند سیکنڈوں بعد  ایک جہاز وہاں سے گزرتا اور ہمارے کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ یہ آواز اتنی تکلیف دہ تھی کہ ہم مرنے کیلئے تیار تھے۔ ایک دو گھنٹے تک ہمیں جہاز کی آواز  کے ذریعے اذیت دیتے رہے اس کے بعد دوسری جگہ لے گئے۔ وہاں پر ان کے شکنجہ دینے والے افراد آگئے اور ہر ایک نے تین یا چار دن مسلسل ہمیں شکنجے دینے کا کام انجام دیا۔

 

کس طرح کے شکنجے تھے؟

۳ بائی ۴ میٹر کے ایک کمرے میں ہم ۷۲ افراد جمع تھے۔  ہم سے کہا گیا تھا تمہارے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو اسیران کربلا کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس کمرے کے دروازے پر آدھے میٹر کا ایک ڈائی میٹر تھا، بالکل  تجوری کی طرح تھا جو بہت کم کھلتا تھا۔ کمرے میں بھی ایک پرانےفوجی کمبل کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا؛  لیکن سردی اتنی زیادہ اور غیر قابل تحمل  تھی کہ ایک پرانا کمبل کسی کام کا نہ تھا۔ ہم نے بھی جب دیکھا کہ کمبل ہمارے کام نہیں تو ہم نے اُسے لپیٹ کر کمرے کے کونے میں رکھ دیاتاکہ ٹوائلٹ جاتے وقت کمرے کا بقیہ حصہ نجس نہ ہو۔ تین دن تک کمرے کا دروازہ بند رہا اور ہم سب پیاسے ہو رہے تھے۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ دروازے کے پیچھے سے پانی آرہا ہے  اور قطرہ قطرہ کمرے میں ٹپک رہا ہے۔ بھوک اور پیاس کی شدت سے لوگ پانی کی طرف اس طرح دوڑے جیسے منرل واٹر کا چشمے مل گیا ہو،  لیکن میں حرکت نہیں کرسکتا تھا اور میں نے آخری دفعہ ہسپتال میں پانی پیا تھا، اس وجہ سے مجھے شدید چاہت تھی کہ تھوڑا سا پانی پی لوں۔ اور میرے پیر میں گولی بھی لگی ہوئی تھی، مجھ میں حرکت کرنے کی حس نہیں تھی، بالآخر میں اپنی پینٹ پکڑ کر ایک سینٹی میٹر پانی کی طرف کھسکا۔ وہاں تک ٹوٹل دو میٹر کا فاصلہ تھا، ابھی میں نے آدھا راستہ طے کیا تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور سب سے کہا گیا: "باہر آجاؤ۔"

تب ہم لوگوں کی سمجھ میں آیا کہ وہ لوگ کوریڈور کے فرش پر پانی اور صابن کے جھاگ سے پھسلن بنا رہے تھے اور وہ پینے کا پانی نہیں تھا۔ یہ آرڈر سنتے ہی سب کمرے سے باہر نکل گئے  اور صرف میں وہاں اکیلا  رہ گیا کیونکہ میں کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔  میں نے کہا: "دوستوں کوئی ایک میری مدد کرے، میں ہل نہیں سکتا۔" اُس وقت جناب جعفر یار احمدی جو قم کے مولانا تھے اور آج کل حوزہ علمیہ کے استاد ہیں، وہ پلٹے اور انھوں نے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا یا اور اپنے ساتھ باہر لے گئے۔ ہم جیسے ہی کمرے سے باہر نکلے عراقی فوجیوں نے اُن کے پیٹ اور پنڈلیوں پر لاتیں ماریں تاکہ وہ مجھے زمین پر گرادیں، لیکن انھوں نے مجھے چھوڑا نہیں اور ہر سختی کا سامنا کرتے ہوئے مجھے کوریڈور کے ایک کونے میں فرش پر رکھ دیا۔ تمام قیدیوں نے  کمرے سے باہر قدم رکھتے ہی پھسلنا شروع کردیا۔ وہ دونوں طرف لگے پلروں سے ٹکراتے اور عراقی آفیسرز بھی اُنھیں فوٹبال کی طرح ادھر اُدھر اچھالتے۔ پورے ہال میں سنگ مرمر لگا ہوا تھا  اور پانی اور جھاگ کی وجہ سے اور زیادہ پھسلن بن گئی تھی؛  آدھے گھنٹے تک وہاں گرتے پھسلتے رہے۔

میں کوریڈور کے ایک کونے میں زمین پر پڑا ہوا تھا، جب میں نے نگاہ کی تو دیکھا وہاں پر واش روم اور حمام موجود ہے  اور وہاں پر موجود پانی کے نلکے سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا ہے۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں  کس طرح کھڑا ہوا اور کیسے پانی کے نل تک پہنچ گیا۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں نے دو تین جگ پانی پی لیا اور اتنا زیادہ پیا کہ مجھے بھاری پن کا احساس ہونے لگا اور میں ہل بھی نہیں سکتا تھا۔  تقریباً آدھا یا ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد افراد کا فرش پر پھسلنے والا شکنجہ ختم ہوا اور تمام افراد کو واش روم اور حمام استعمال کرنے کی اجازت دی گئی   اور پھر از سر نو شکنجے دینا شروع کردیا، اس طرح سے کہ ہم ۷۲ لوگوں میں سے اکثر کو خونی پیچش لگ گئی۔ یا اُن تین چار دنوں کی ایک اور مثال، ہمارے لئے مسلسل ایسے برتنوں میں کھانا لاتے جو دھلے ہوئے نہیں ہوتے اور اُن میں نجاست صاف نظر آرہی ہوتی!

 

آپ کون کونسے کیمپوں میں رہے؟

مجھے بہت سارے کیمپوں میں پھرایا گرایا، جیسے کیمپ ۱۱۔ ہم ٹوٹل ۶۹ افراد تھے کہ احتجاج اور  مخالفت کی  وجہ سے جن کا نام بلیک لسٹ میں تھا اور صدام نے غائبانہ طور پر ہمارا محاکمہ کیا تھا۔ اس محاکمہ میں ہمیں ۹۹ سے لیکر ۴۰۰ سال زندان کی سزا سنائی گئی۔ مثال کے طور پر میرے حکم نامے میں میرے لئے ۹۹ سال کی اسیری معین کی گئی تھی۔

 

ہمیں ۱۶۰ مخالف افراد کے گروہ کا ماجرا سنائیں

کربلائے ۴ اور ۵ آپریشن کے بعد کیمپ میں پہلا گروہ جو لاپتہ افراد پر مشتمل تھا، وہ ہم لوگ تھے۔  اُس وقت تک عراق نے بہت ہی کم قیدی پکڑے تھے اور جیسا کہ ہم نے بعد میں عراقی افواج سے سنا اور عربی اخبارات اور مجلات میں پڑھا، کربلائے ۵ آپریشن کی رات اور خاص طور سے ۳ مارچ کی رات جو حقیقت میں کربلائے ۵ آپریشن مکمل ہونے کی رات تھی، عراقی فوجیوں تک ایک حکم پہنچتا ہے جس کی بنا پر اُن کیلئے ضروری تھا کہ جیسے بھی ہو قیدی بناکے لانا ہے۔ چاہے قیدی زخمی یا مجروح بھی ہوں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ عراقی فورسز سمجھ رہی تھیں کہ جنگ ختم ہونے والی ہے اور ممکن ہے کہ جلد ہی اسیروں کا تبادلہ کیا جائے۔ ایسے حالات میں اُنہیں زیادہ امتیازات حاصل کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ قیدی بنانے کی ضرورت تھی۔

یہ مخالف گروہ جو ۶۹ افراد کے گروہ سے مشہور ہوا تھا، دراصل یہ ۷۲ لوگ تھے۔ یہ سب افراد بسیجی تھے جنہوں نے مختلف کیمپوں میں دوسرے اسیروں کی رہبری اپنے ذمہ لی ہوئی تھی۔ یہ لوگ زیادہ تر تقریبات، جیسے کیمپ کے افراد کو جمع کرنا، نماز جماعت، دعائے کمیل، زیارت عاشورا اور دوسرے پروگرام منعقد کیا کرتے تھے۔ یہ بات بھی کہہ دوں اُن سخت اور دشوار شرائط کے باوجود، ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ ہم نے فرادیٰ نماز ادا کی ہو جبکہ ہم جانتے تھے ہماری کڑی نگرانی کی  جارہی ہے اور دیکھا جائے تو ہم نے اپنی جان کی بازی لگائی ہوئی تھی، لیکن اپنے عقائد کے معاملے میں مسلسل ڈٹے ہوئے تھے اور نماز کو باجماعت ادا کرتے تھے۔

 

پس یہ ۶۹ لوگ حقیقت میں وہ افراد ہیں جو مختلف کیمپوں میں مخالف تھے؟

جی ہاں، ان کی یہ قیادت اور مخالفت کا معیار پہلے سے طے شدہ حالات میں وہاں تک پہنچا کہ بقول صدام کہیں بھی اگر کوئی مسئلہ پیش آئے توممکن ہے اس میں گروہ  کا ہاتھ ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے اس گروہ سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود میرا نام اس گروہ کے اعضا میں  لکھا گیا اور مجھے غائبانہ کورٹ میں سزا سنائی گئی۔

 

آپ کو جو ۹۹ سال حبس کی سزا سنائی گئی تھی، حقیقت میں آپ کو بتایا گیا تھا کہ جنگ ختم  ہونے کے بعد بھی آپ قید میں رہیں گے؟

جی ہاں۔ ہم سے کہا گیا تھا کہ تم ۶۹ لوگ ایران کو دوبارہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھو گے اور جنگ بھی ختم ہوجائے اور اگر مسئولین اور تمہارے رشتہ دار تمہاری تلاش میں آئیں، ہم تمہیں آزاد نہیں کریں گے؛ کیونکہ تم لوگوں نے ہمارے قوانین کی مخالفت کی ہے، اسی وجہ سے یہاں اتنا رہو  کہ سڑ جاؤ!

 

اُس زمانے میں آپ کا سن و سال بہت کم تھا، عراقی فوجیوں کا آپ کے ساتھ وہی رویہ تھا جو دوسرے قیدیوں کے ساتھ تھا؟

قرار  تھا کہ پندرہ سال سے کم عمر بچوں کیلئے ایک کیمپ بنایا جائے تاکہ اُن سے صدام کی تبلیغاتی غذا کے عنوان سے استفادہ کیا جائے۔ عراق اس طرح کا کیمپ بنا کے چاہتا تھا اعلان کرے کہ ایرانی افواج ختم ہوچکی ہے  اسی لئے اب وہ ۱۰، ۱۵ سالہ بچوں سے کام لے رہے ہیں۔ میں ابھی ۱۵ سال کا ہوا تھا کہ ہمیں صدام کی اس منصوبہ بندی کا پتہ چلا۔ ۱۵ سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ جن کی تعداد ۱۶ یا ۱۷ ہوگی، اس کام پر احتجاج کرنے کیلئے ہم نے بھوک ہڑتال کردی۔ کیمپ کے مسئولین نے بھی ہم سب کے نام لکھ لئے اور کہنے لگے: "ہم ہر صورت میں تم لوگوں کے پاس آئیں گے اور تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ خود کو ابھی سے تیار کرلو، قرار ی ہے کہ تمہیں دوسرے کیمپ لے جایا جائے، جہاں پر نہ صرف تم لوگوں کو مارا نہیں جائے گا  بلکہ تم لوگوں  کو تمہاری پسند  کے کھانے بھی دیئے جائیں گے اور وہاں ٹی وی کے علاوہ، ٹینس ، فوٹبال اور والیبال کیلئے  میدان بھی ہے!"

المختصر  ہمیں سبز باغ دکھائے گئے تاکہ احتجاج نہ کریں اور اپنی مرضی سے دوسرے افراد اور اپنے دوستوں سے دور  رہیں، لیکن حقیقت میں کہانی کچھ اور ہی تھی۔ ایک دن، صبح ۱۰ بجے کے قریب انھوں نے ہمیں ایک دفعہ پھر صفوں سے نکالا اور ہمارے نام لکھے اور دوبارہ کہنے لگے: "کل صبح تیار رہنا، ایک گاڑی تم لوگوں کو لینے آئے گی اور تمہیں ایک نئے کیمپ لے جائے گی۔" آپ یقین کریں اُس دن صبح ۱۰بجے سے لیکر اگلی صبح تک جب بھی دروازہ کھلتا اور وہ کہتے: "آؤ اور آکر کیمپ کے احاطے میں بیٹھ جاؤ" میں زیارت عاشورا، دعائے کمیل، دعائے توسل اور ہر وہ دعا جو میں نے یاد کی ہوئی تھی  یا جو سنی ہوئی تھی، میں نے پڑھی۔ دلچسپ یہ ہے کہ حتی اُس ۲۴ گھنٹے کے دورانیے میں، بعض دعاؤں جیسے زیارت عاشورا اور دعائے کمیل کو میں نے دوستوں  کے ذریعے یاد کیا اور اُسے پڑھا تاکہ کوئی راہِ حل نکلے اور ہمیں نئے کیمپ نہ بھیجیں اور اگر بھیج بھی دیں تو میں کچھ سیکھ لوں۔ اس کے علاوہ، اُس کیمپ میں ہمیں کچھ پیسے دیئے جاتے کہ دوستوں نے اُسی پیسوں سے کھجور کا شربت خریدا تھا اور دعا کے ہر  فراز کو یاد کرانے کے بعد مجھے ایک گلاس شربت دیتے۔ میں بھی ہر دفعہ، دعا کے ہر فراز کو سیکھنے کے بعد کہتا: "بس بہت ہے، حالت بری ہورہی ہے۔" لیکن وہ کہتے: "نہیں، تم صرف اسی رات تو ہمارے مہمان ہو، پس جتنا چاہتے ہو شربت پیو۔"

بہرحال اُس دن کا ماجرا میرے دعائے کمیل اور زیارت عاشورا حفظ کرنے کا بہانہ بن گیا۔ بالآخر صبح وہ ہماری تلاش میں آئے اور کہنے لگے: "جن لوگوں کے نام پکارے جا رہے ہیں وہ باہر آجائیں۔" ہم سب کا نام پکارا گیا اور ہم صفوں سے باہر چلے گئے۔ ہمارے درمیان محمد رئیسی نام کا ایک شخص  تھا جس کا تعلق شہر کرد سے تھا اور وہ بھی ۱۵ سال کا تھا۔ لیکن چوڑی چوڑی ہڈیوں کا مالک تھا جس کی وجہ سے وہ زیادہ عمر کا لگتا تھا۔ محمد ایک دن پہلے نام لکھوانے نہیں آیا تھا،  لیکن اُس دن ہمارے ساتھ صفوں سے باہر آیا تاکہ ہمارے ساتھ چلے۔ اُس سے کہنے لگے: "کہاں آرہے ہو؟" محمد نے جواب دیا: "میں بھی ۱۵ سال کا ہوں۔" جیسےہی اُس نے یہ جملہ کہا عراقی فوجیوں نے محمد کو مارنا شروع کردیا اور ا صرار کر رہے تھے: "حتماً یہ کہو کہ میں ۲۰ سال کا ہوں" اور اُسے اتنا مارا کہ محمد نے قبول کرلیا اور صف میں واپس آگیا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ ا ُس سے پوچھا کتنے سال کے ہو اور جیسے ہی محمد نے کہا ۱۵ سال کا ہوں، اُسے دوبارہ مارنا شروع کردیا۔ پھر ہمیں بس میں سواور کیا اور ہم ابھی کیمپ کے دروازے تک پہنچے تھے کہ اعلان ہوا  واپس آجاؤ، کیونکہ "تم لوگوں کو  کہیں نہیں لے جا رہے!"پہلے  تو سب یہی سوچ رہے تھے کہ محمد کی وجہ سے ہمارا جانا کینسل ہوگیا ہے؛ لیکن ہم تھوڑی دیر میں سمجھ گئے  کہ بغداد میں اُن مشہور ۲۳ افراد کے واقعہ کی  وجہ سے ہمیں دوسرے کیمپ نہیں لے جایا گیا۔ یہ ۲۳ لوگ وہی تھے جنھوں نے بغداد میں مخالفت کی تھی اور صدام سے ملاقات میں بھوک ہڑتال کی تھی اور کہا تھا کہ تم لوگ ہم سے سوء استفادہ کرنا چاہتے ہو، اسی وجہ سے دوسرے کیمپ والا معاملہ ختم ہوگیا اور خدا کے کرم سے اس معاملے سے ہماری جان چھٹ گئی۔

جاری ہے …

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔  پلاک، جسے سپاہی لاکٹ کی طرح اپنے گلے میں پہنتے تھے تاکہ لاپتہ یا شہید ہوجانے کی صورت میں اُن کی شناخت ہوسکے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3583


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔