رحیم قمیشی سے گفتگو، آبادان کا محاصرہ توڑنے سے لیکر لاپتہ ہونے والے سالوں تک

کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ میں زندہ بچ گیا ہوں

سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-11-1


رحیم  قمیشی جو صوبہ خوزستان میں پیدا ہوئے، یہ ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ کے ابتدائی ایام میں ہی رضاکارانہ طور پر دفاع مقدس کیلئے محاذ پر چلے گئے۔۲۵ دسمبر سن ۱۹۸۶ء کو اور جب کربلائے ۴ آپریشن کا آغاز ہوا تو صدام کے فوجی انہیں گرفتار کرلیتے ہیں اور ان کے ۴ سال اسی قید میں گزر جاتے ہیں۔ وہ ولی عصر (عج) بریگیڈ کے ساتویں گروپ کی کربلا بٹالین کے اسسٹنٹ کے عنوان سے اپنی گزری یادوں کو بیان کر رہے ہیں، وہ اور اُن کے ساتھی اسیر ہونے تک یہ گمان بھی نہیں کرتے تھے کہ وہ اسیر ہوجائیں گے، وہ دشمن کی افواج سے مقابلے کے بعد ہر ہر لمحہ شہادت کے انتظار میں تھے۔ آپ ذیل میں ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کے نمائندے کی جناب قمیشی سے ہونے والے گفتگو کا مطالعہ کریں گے۔

 

سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کروائیے

میں رحیم قمیشی ہوں اور میں سن ۱۹۶۴ء میں اہواز میں پیدا ہوا۔

 

آپ ایسے شہر میں پیدا  اور بڑے ہوئے جہاں ایران، عراق کی جنگ کے اوائل میں ہی جنگی جھڑپیں شروع ہوگئی، ہمیں اہواز میں جنگ  کے ابتدائی ایام کے بارے میں کچھ بتائیے؟

اُن دنوں میں ۱۶ سال کا تھا  اور مجھے اپنی تعلیم کو ہائی اسکول تک جاری رکھنا تھا۔ سن ۱۹۸۰ء میں ۲۲ ستمبر والے دن جب ہم اسکول  جانے کیلئے تیار تھے، جنگ شروع ہوگئی۔ ابتدائی ایام میں ہم جنگ کے صحیح معنی سے بھی واقف نہیں تھے، جبکہ ہم اہواز میں زندگی بسر کرتے تھے اور باقی تمام شہروں کی نسبت ہم نے سب سے پہلے جنگی سختیوں کا احساس  کیا۔ اُس دوران ہمارے ذہنوں میں جنگ کا تصور پرانی فلموں کی نسبت بمب اور گولہ باورد  کہ سوا کچھ نہ تھا اور  ہمارے خیال میں زخمی ہونے کیلئے  ضروری تھا کہ ٹینک کا گولہ ڈائریکٹ آکر ہم سے ٹکرائے۔

 

جنگ شروع ہونے سے چند مہینےپہلے  خرم شہر میں جھڑپوں کا آغاز ہوچکا تھا، کیا آپ نے اہوازکے شہری ہونے کے عنوان سے ان بمب دھماکوں اور جھڑپوں کا سامنا کیا تھا؟

ہمیں معلوم تھا کہ بارڈر پر کچھ ہورہا ہے اور حالات معمول کے مطابق نہیں ہیں،  لیکن کم سن ہونے کی وجہ سے ان مسائل پر ہماری توجہ زیادہ نہیں  تھی۔ اس کے علاوہ اہواز ، خرم شہر سے دور تھا  اور ہم  خرم شہر میں ہونے والی جھڑپوں میں زیادہ شریک نہیں رہے۔  جب جنگ شروع ہوئی تو ہم کسی طرح بھی جنگ شروع ہونے کا یقین نہیں کر پارہے تھے، اسی طرح سے کہ جنگ کے اختتام کے بارے میں ہمارا یہی خیال ہوتا کہ جنگ زیادہ سے زیادہ ایک یا دو مہینے میں ختم ہوجائے گی ۔

 

ایران پر تھونپی گئی عراقی آٹھ سالہ جنگ کی تمام مدت میں آپ اہواز میں ہی رہے؟

جی ہاں، ہم مستقل اہواز میں ہی رہے، البتہ شدید حملوں اور بمباری سے بچاؤ کیلئے ہمارے گھر والے کچھ وقت کیلئے اہواز کےنزدیک گاؤں منتقل ہوگئے تھے  اور وہ چار یا پانچ مہینے بعد دوبارہ اہواز آگئے تھے۔

 

آپ ملیشین ملٹری میں رضاکارہوئے  تھے یا باقاعدہ  طور پر کسی آرگنائزیشن کے ذریعے  محاذ پر جنگ کیلئے گئے؟

ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ کے اوائل میں ہی میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ محلے کی مسجد میں رجوع کیا  اور  ہمارے جنگی وسائل اور اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد طے پایا کہ ہمیں جنگی محاذ پر بھیجا جائے،  لیکن بعد میں اعلان ہوا کہ ہمارے کم عمر ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ مدت مسجد میں رہنا پڑے گا اور وہاں نگہبان کی ڈیوٹی انجام دینی ہوگی۔ اس کے علاوہ اہواز ایک طرح سے جنگی علاقوں میں شمار ہوتا تھا اور کہا جاسکتا ہے کہ اُس زمانے میں مسجد میں ڈیوٹی دینا، ایک طرح سے جنگی محاذ پر شرکت کے برابر تھا، کیونکہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں عراقی فورسز، اہواز سے نزدیک  "دب حردان" کے علاقے تک پیش قدمی کرچکی تھیں۔  لیکن میں سب سے پہلی مرتبہ ثامن الائمہ (ع) آپریشن  اور محاصرہ آبادان توڑنے  کے ہدف سے جنگی محاذ پر گیا۔

 

آپ لوگوں کا کمانڈر کون تھا؟

اُس آپریشن میں ابھی ہم باقاعدہ طور پر آرگنائزڈ نہیں ہوئے تھے  اور زیادہ تر لوگوں نے رضاکارانہ طورپر شرکت کی تھی۔ ابھی ہم دستوں اور بٹالین کی صورت میں تقسیم نہیں ہوئے تھے  اور مختلف تعداد پر مشتمل گروپس کی شکل میں جنگ کی ابتدائی کاروائیوں میں شرکت کر رہے تھے؛ لیکن بعد والے آپریشنز جیسے طریق القدس آپریشن جو دو مہینے بعد انجام پایا،  فورسز کو آرگنائزڈ کرنے کے طریقہ کار  نے سنجیدہ شکل اختیار کرلی۔ میں نے سن  ۱۹۸۱ء میں طریق القدس آپریشن میں شرکت کی جوبوستان کی فتح کی خاطر ، سپاہ اور آرمی کے تعاون سے انجام پایا، اس آپریشن میں شہید خانچی ہمارے کمانڈر تھے جو اتفاق سے اسی آپریشن میں شہید ہوگئے۔ اس کے علاوہ میرے ایک دوست نے بھی اسی آپریشن میں جام شہادت نوش کیا اور یہی وہ مقام تھا جہاں میں نے پہلی بار جنگی حقائق کو قریب سے محسوس کیا۔

 

طریق القدس آپریشن کے بارے میں کچھ اوربتائیے

طریق القدس  آپریشن میں ہمارا  ۲۰ لوگوں پر مشتمل ایک گروہ تھا ، ہم جدید اسلحوں کے بغیر  کافی آگے نکل گئے تھے اور ہمارے پاس جو جدید ترین اسلحہ تھا وہ آر پی جی ۷ اور کلاشنکوف تھے،  لیکن ہمارے افراد خالی ہاتھ ، خدا پر توکل کرتے ہوئے اسی طرح آگے بڑھتے رہے کہ جہاں تک ہمارے کمانڈروں نے پیش قدمی کا سوچا تھا ہم اُس سے بھی آگے نکل گئے تھے۔ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سےعراقی ٹینکوں نے پیچھے ہٹنا چھوڑ دیا اور ٹینکوں  کی  نالیوں کو ہماری طرف گھما یا  اور گولے برسانا شروع کردیئے۔ وہاں ہمیں احساس ہوا کہ ہم حد سے زیادہ آگے آگئے ہیں، وہ بھی ایسے حالات میں کہ ہمارے پاس صرف ۳ آرپی جی گنیں تھیں اور ہمارے سامنے تقریباً ۲۰ عراقی ٹینک کھڑے ہوئے تھے۔آر پی جی سے فائر ہونے والی بہت سی گولیاں ہدف پہ نہیں لگیں  اور جنگ میں ہماری قسمت نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔

آہستہ آہستہ پریشانی بڑھتی گئی اور ہم نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کرلیا،  تھوڑا پیچھے آئے تھے کہ ہم  سڑک کے پیچھے چھپنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہمارا ایک دوست جس کا نام حسین احتیاطی تھا جو اہواز  کی جزایری مسجد کے افراد میں سے تھا،  اس نے اچانک ہمیں منظم کرنے کا عہدہ سنبھال لیا  اور وہ ہمیں بتا رہا تھا کہ ہم کس طرح اور کس راستہ سے عقب نشینی کریں تاکہ کم سے کم نقصانات ہوں۔  کچھ دیر بعد جب ہم ایک پر امن جگہ ٹھہر گئے، میں نے دیکھا کہ وہ لائن میں لگے تمام افراد کو باری باری روٹیاں تقسیم کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ اُس دن ہم سب بہت بھوکے تھے  ہم نے خوشی خوشی روٹی تناول فرمائی، دو، تین منٹ بعد ہم سے دوبارہ کہا گیا کہ اپنی جگہ تبدیل کریں اور کچھ اور پیچھے کی طرف جائیں۔ میں بھی ۵۰ میٹر پیچھے چلا گیا، وہاں میں نے دیکھا کہ دو افراد ایک دوسرے کے برابر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں تھوڑا اور آگے بڑھا  تو میں نے دیکھا کہ حسین ہمارے ایک اور ساتھی عظیم امیر دزفولی کے زانو پر سر رکھے  ہوئے ہے، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سو رہا ہے۔ عظیم پکار پکار کر اُس سے کہہ رہا تھا: " حسین اُٹھ جاؤ!" اور مسلسل اُسے جھنجھوڑ رہا تھا، جبکہ گولی حسین کی  پیشانی پر لگ چکی تھی اوروہ  جام شہادت نوش کرچکا تھا۔ میں نے اُس وقت تک کسی شہید کو قریب سے نہیں دیکھا تھا، میں تھوڑا آگے بڑھا تاکہ دیکھوں کہ شہید نزدیک سے کیسا لگتا ہے؛ میں نے دیکھا کہ حسین بہت ہی پرسکون انداز میں سو یا ہوا ہے،  لیکن اُس کا منھ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا اور روٹی کا ٹکڑا اُس کے دانتوں میں پھنسا ہوا تھا۔ یہ بات کہ حسین بھوکا اور روٹی کا نوالہ کھائے بغیر شہید ہوگیا، میرے لئے بہت دشوار تھی، لیکن ٹینکس  ہمارے قریب پہنچ چکے تھےاور عظیم اُسی جھٹکے کی زد میں تھا اور وہ حسین کے جنازے کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھا اور مسلسل اصرار کر رہا تھا کہ ہم اسے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ اُسی وقت دور سے ایرانی فورسز کی ایک گاڑی  ہمارے قریب آئی اور ہم نے فوراً حسین کے جسم کو گاڑی پہ رکھا اور پیچھے کی طرف آگئے۔

 

آپ نے مجموعی  طور پر کون سے آپریشنز میں شرکت کی؟

میں نے  فتح المبین، رمضان، و الفجر ابتدائی، و الفجر ۱، خیبر، بدر آپریشنز اور  آخر میں کربلائے ۴ آپریشن میں شرکت کی اور میں اُسی آپریشن میں عراقی فورسز کے ہاتھوں اسیر ہوجاتا ہوں۔ البتہ یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ جنگ کے ابتدائی ۶ مہینے میرا شمار بسیجی فورسز میں ہوتا تھا اور میرا جنگی محاذ پر آنا جانا لگا رہتا  تھا،  لیکن کچھ عرصہ بعد میں سپاہ پاسداران کے سرکاری فوجی کے عنوان سے جنگی محاذوں پر گیا اور میں نے بہت سی کاروائیوں میں شرکت کی، کیونکہ ہم ہمیشہ افراد کی کمی کا شکار رہت، اسی وجہ سے ہم نے بہت سے آپریشنز میں شرکت کی۔

 

کربلائے ۴ آپریشن کے طریقہ کار اور عراقی فورسز کے ذریعے اپنے اسیر ہونے کے بارےمیں بھی ہمیں کچھ بتائیے

ہم  ساتویں ولی عصر (عج) لشکر کی ایک بریگیڈ کے رکن تھے اور  حاج اسماعیل فرجوانی ہمارے کمانڈر تھے۔ میں ان کے بارے میں مزید  وضاحت کرنا چاہتاہوں، رمضان آپریشن میں ان کا پاؤں زخمی ہوگیا تھا اور یہ بدر آپریشن میں اپنا سیدھا ہاتھ بھی گنوا چکے تھے۔ فرجوانی کا پکا ارادہ تھا کہ وہ مستقبل میں ڈاکٹر بنے گا،  اس طرح سے کہ آپریشن میں ہاتھ قطع ہوجانے کے باوجود وہ کہہ رہے تھے میں مستقبل میں ڈاکٹر بنوں گا، لیکن سرجن ڈاکٹر نہیں بنوں گا، فرجوانی کربلائے ۴ آپریشن کے شروع میں ہی شہید ہوگئے۔

اس آپریشن میں ہم ایک دوسری بٹالین کے ساتھ آپریشن میں مصروف تھے، لیکن آپریشن رُک چکا تھا اور ہم اس بات سے بے خبر لڑے جا رہے تھے۔ رات کا وقت تھا اور ہم چوکنے تھے، ہم نے اپنی بائیں طرف سے ساتھ دینے والی فورسز کو آتا دیکھا، جب وہ نزدیک ہوئے تو ہمیں لگا کہ اُن میں سے کچھ لوگوں نے ماتھے پر پٹیاں باندھی ہوئی ہیں ، پوری بٹالین میں خوشی کی لہر  دوڑ گئی۔ انھوں نے ہم سے قریب ہوتے ہیں ہم پر فائر کھول دیئے، بہت زیادہ نقصان اٹھانے کے بعد ہم نے خود نہر اروند کے نزدیک  پہنچایا۔ لیکن نقصان اتنا زیادہ تھا کہ میں نے چند لوگوں کے ساتھ وہیں رکنے اور عراقیوں کو روکنے کا فیصلہ کیا، تاکہ باقی افراد پیچھے ہٹنے میں کامیاب ہوسکیں۔

ہم نے پندرہ منٹ تک اُن کا مقابلہ کیا  پھر  ہمارے کارتوس ختم ہوگئے، اُسی وقت ہمیں گرفتار کرلیا گیا۔  ہم واقعاً منتظر تھے کہ ہم پہ فائرنگ کرکے ہمیں شہید کردیاجائے، ہمیں دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا گیا تاکہ فائرنگ شروع کریں، مجھے یاد آیا کہ مجھے کلمہ  شہادت پڑھنا چاہیے، لیکن اُس وقت پریشانی اور دباؤ کے باعث کلمہ کے بجائے میں نے اذان کہنا شروع کردی اور چند دفعہ دہرایا۔ پھر میں ایک دم متوجہ ہوا اور کہنے لگا؛ "یہ میں کیا کر رہا ہوں؟ کیا میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں؟" میں سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا اور میں نے اسی حال میں اپنے برابر والے سے پوچھا: "ہم شہادتین کس طرح پڑھتے تھے؟" وہ بھی اُس وقت شدید دباؤ کی وجہ سے گھبرایا ہوا تھا کہنے لگا: "مجھے کیا پتہ شہادتین کیا چیز ہوتی ہے؟ چھوڑو بھی، ابھی ہم شہید ہوجائیں گے ۔۔۔۔" اُسی وقت فائرنگ شروع ہوگئی اور ہم میں سے دو لوگ فوراًٍ ہی شہید ہوگئے۔ ہم بھی اپنی شہادت کے انتظار میں تھے کہ اچانک عراقی فوجیوں کے آفیسر نے فائرنگ روکنے کا اعلان کردیا،  کیونکہ حکم آیا ہے کہ ایرانیوں کو گرفتار کرکے اسیر بنالیا جائے۔ ہم نے کبھی اسیری کا تصور بھی نہیں کیا تھا، ہم مطمئن تھے کہ بدترین حالات میں بھی جام شہادت نوش کرلیں گے۔

 

آپ کب تک اسیر رہے؟

میں سن ۱۹۸۶ء میں اسیر ہوا اور سن  ۱۹۹۰ء تک عراقی فوجیوں کی قید میں رہا۔ ان چار سالوں میں میرا شمارلاپتہ افراد میں ہوتا رہا  اور عراقی فوجی ہمیں آزاد کرنا نہیں چاہتے تھے، لیکن بالآخر سن ۱۹۹۰ء میں  بہت ہی مشکلات کے ساتھ اُن کی قید سے رہائی ملی۔

 

آپ کو کیوں آزاد نہیں کر رہے تھے؟ کیا آپ بھی اُن ۱۶۰ مخالف مشہور افرادمیں سے تھے؟

جی ہاں، ہم ایسے افراد میں سے تھے جو کچھ امور کی بناء پر جیسے فسادات اور  ایسے معاملات میں ملوث ہونا جن کی وجہ سے ہمیں ۹۹ سال سے ۴۰۰ سال تک کی قیدسنائی گئی تھی، لیکن ہمارے لئے ابھی تک حتمی فیصلہ صادر نہیں ہوا تھا۔ جب قیدیوں کے رہائی کی خبر ملی، طے پایا کہ ہم بھی باقی قیدیوں کے ساتھ آزاد ہوں۔ ہم سب ایک ساتھ آٹھ بسوں پر سوار ہوکر بارڈر کی طرف گامزن ہوئے۔  ان میں سے دو بسوں کو جن میں فسادات برپا کرنے والے لوگ تھے،  عراق واپس بلا لیا گیا  اور اعلان کیا گیا کہ  تبادلہ ہوگیا ہے! ہم ابھی عراق میں ہی تھے،  لیکن بالآخر کچھ مہینے بعد ہمارا تبادلہ بھی ہوگیا اور ہم ایران لوٹ آئے۔

 

ایران میں آتے ہوئے آپ کیسا محسوس کر رہے تھے؟

غربت (گھربار سے دور رہنا) کٹھن ہے، لیکن جب آپ کو معلوم ہوکہ آپ ایسی جگہ ہیں کہ حتی آپ کی زندگی کے  قریبی ترین افراد کو آپ کے زندہ ہونے کے بارے میں معلوم نہیں تو ایسے میں معاملہ اور بھی دشوار  اور سخت ہوجاتا ہے۔ جب میں چار سال بعد ایران آیا تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں زندہ ہوں اور میں بھی اپنے گھر والوں کے زندہ ہونے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا اور اب لوٹنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ میری اسیری کے پانچ مہینے بعد میرے والد اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3656


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔