"تب و تاب*" محمد رضا فرتوک زادہ کی نگاہ میں جدوجہد کا زمانہ

شیراز یونیورسٹی کی انقلابی فضا کا واقعہ

الہام صالح
مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2016-9-18


انقلاب کے دوران ایران کے مختلف شہروں پر کیا گزری؟ عوام نے پہلوی حکومت  کے خلاف کتنی جدوجہد کی؟ تعلیمی – ثقافتی سینٹرز کی کیا صورتحال تھی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب حاصل کرنا اُس صورت میں ممکن ہے، جب ہم اس سلسلے میں مختلف افراد کے واقعات سے آگاہ ہوں۔ ڈاکٹر محمد رضا فرتوک زادہ نے اپنی کتاب "تب و تاب" میں شیراز اور تہران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بارے میں بہت سی معلومات سے اپنے قارئین  کو آگاہ کیا ہے۔ چونکہ وہ اُن دنوں ایک اسٹوڈنٹس تھے اس لئے اُن کے زیادہ تر واقعات یونیورسٹی اور پہلوی حکومت کے خلاف طلباء جدوجہد سے مربوط ہیں۔

 

مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں کے مقابلے میں ساواک کا ردّ عمل

شیراز یونیورسٹی میں پہلوی حکومت کے نا امن دور میں، اسٹوڈنٹس گروپ  مذہبی سرگرمیاں انجام دیتے تھے جن میں سے ایک مسجد کا قیام تھا۔ " یونیورسٹی میں ظہر کی نماز ادا کرنے کیلئے  ہمیں کوئی جگہ میسر نہیں تھی، ہر کوئی کسی کنارے، بالکونی، صحن، یا گھاس پر کھڑا ہوکر نماز پڑھ لیتااور یا تو نماز ہی نہیں پڑھتا تھا یا پھر اُس کی نماز قضا ہوجاتی ...۔میں نے ادبیات فیکلٹی کے چیئرمین کے پاس جاکر کہا: "ہمارے نماز پڑھنے کیلئے کوئی جگہ مشخص کریں"۔ زور، زبردستی کرکے اور بار بار چکر  لگا کر ہم نے اپنی کلاسوں سے دور ایک جگہ کا انتخاب کیا تاکہ اُسے مسجد بنائیں۔"

اسٹوڈنٹس کی سیاسی سرگرمیاں اور یونیورسٹی پر چھائی فضا، اُن موضوعات میں سے ہے جن کے بارے میں سوالات کیئے جاسکتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ان سرگرمیوں کو کیسے  اور کس طریقے سے انجام دیا جاتا تھا؟ "تب و تاب" کتاب  کے ایک حصے میں اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے: "اسٹوڈنٹس کے کتابچوں کے درمیان امام کے پمفلٹ رکھنا ہمارے کاموں میں سے ایک تھا۔ وہ اُس وقت نجف اشرف میں تھے اور مہینے میں ایک یا دو دفعہ جب کوئی پروگرام ہوتا یا کوئی حادثہ پیش آجاتا تو وہ بیان صادر کرتے تھے۔ میں اُن لوگوں میں سے تھا جس کی ان بیانات تک فوری دسترسی تھی، اس کے بعد ہم اسے ہاتھ سے لکھ کر بانٹ دیتے تھے۔"

کتاب کے راوی نے پمفلٹ تقسیم کرنے والے کی طرف بھی اشارہ کیا: "احمد توکلی اور احمد جلالی کے ساتھ ملکر بیٹھ جاتے  اور پھر اُن کی تقسیم کا کام انجام دیتے؛  مثلاً اگر میں لکھتا تو دوسرا اُسے محلے یا دوسرے شہر جاکر تقسیم کرتا یا وہ لکھتا اور میں تقسیم کا کام انجام دیتا۔ اس طرح سے کام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر ہمیں پکڑ لیاجائے تو ہم کہیں :یہ ہمارا نہیں ہے  اور انہیں ہم نے نہیں لکھا ہے۔"

یونیورسٹی میں ہونے والی مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں پر ساواک خاموش نہ رہتی؛ گرفتاری ے بعد  بہت سے اسٹوڈنٹس پرتشدد کیا جاتا۔کتاب "تب و تاب" کے ایک حصے میں، مؤلف جو خود کسی ہاسٹل میں رہتے تھے، پیرامونٹ ہاسٹل کے تنازعے اور ساواک کے ذریعے طلباء کی گرفتاری کے بارے میں کہتے ہیں: "ادبیات فیکلٹی کی طرف سے ہونے والے مظاہروں کے چار، پانچ دن بعد پیرامونٹ ہاسٹل پر حملہ کیا، میں سوچ رہا تھا  کہ شاید میری وجہ سے آئے ہیں اور میں برابر والے کمرے میں جانا چاہ رہا تھا۔ میں ہاسٹل کے چوتھے یا پانچویں فلور پر تھا، میرے کمرے سے برابر والے کمرے کا فاصلہ  ایک میٹر یا ۹۰ سینٹی میٹر تھا اور وہاں سے گزرنا بہت ہی خطرناک تھا ۔۔۔ جب میں دوسری طرف جانا چاہ رہا تھاتو میں نے دیکھا کہ فوجی برابر والے کمرے میں گئے ہیں  اور وہ برابر والا بھی چھپنے کی کوشش کر رہا تھا، میں نے اس طرف نظر دوڑائی تو یہاں بھی یہی صورتحال تھی، سامنے کی طرف دیکھا تو سامنے بھی یہی صورتحال تھی ۔۔۔ ۔"

 

انقلاب کی کامیابی اور اس کے بعد

ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی، اُن موضوعات میں سے ہے جس پر "تب و تاب" نامی کتاب میں تحقیق ہوئی ہے۔ مشین گن بنانے والے کارخانے پر لوگوں کا دھاوا بول دینا بھی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے اتفاقات میں سے ایک تھا: "ہمارے گھر کے نزدیک مشین گن بنانے والا ایک بڑا کارخانہ تھا اور ظاہراً وہاں پر اسلحہ بنایا جاتا تھا۔ لوگوں نے اکٹھے ہوکر وہاں قبضہ کرلیا اور کسی نے اُس کو بچانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ سب لوگ کارخانے میں گھس گئے اور ہر کوئی ایک ہتھیار اٹھاتا اور اپنے ساتھ لیکر باہر آجاتا ۔۔۔ لیکن جب ایران شاہراہ پر مدرسہ علوی میں کمیتہ انقلاب کا دفتر بنا ، جہاں امام نے سکونت اختیار  کی تھی،  اعلان کیا گیا کہ جس نے بھی اسلحہ لیا تھا وہ لے آئے اور کمیتہ انقلاب میں جمع کرادے ۔۔۔"

"تب و تاب: کتاب جس میں انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے لوگوں کی جدوجہد کے بارے نقل کیا گیا ہے، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد رونما ہونے والے واقعات خاص طور سے اس زمانے میں یونیورسٹی پر چھائی فضا کے بارے میں  بیان کرتی ہے کہ یونیورسٹی میں سیاسی گروپس کی سرگرمیاں،  زبانی توں توں  میں میں، جن کا انجام ہاتھا پائی  بھی ہوتا  تھا، ثقافتی انقلاب کی فضا کا سازگار ہونا اور میڈیکل فیلڈ میں خود کفیل ہونا، ہی وہ موضوعات ہیں جن کے بارے میں مؤلف نے قلم اٹھایا ہے۔

 

کتاب کی فصل بندی

کتاب کی فصلیں، محمد رضا فرتوک زادہ کی زندگی کے ابتدائی ایام سے شروع ہوتی ہیں اور یونیورسٹی میں اسلامی اور فرہنگی انقلاب کی کامیابی تک جاتی ہیں۔ اس فصل بندی میں آپ زمانے کے اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کرسکتے ہیں؛ پہلی فصل: ولادت اور گھرانہ، دوسری فصل: شیراز یونیورسٹی، تعلیم و جدوجہد، تیسری فصل: عادل آباد کے جیل سے مجاہدین خلق کے زندان تک، چوتھی فصل: اپنی بہن کی خاطر گرفتار ہونا، پانچویں فصل: شیراز میں دوبارہ جدوجہد، چھٹی فصل: ازدواج، ساتویں فصل: انقلاب اسلامی کی کامیابی اور اُس کے بعد، آٹھویں فصل: ثقافتی انقلاب۔

ان فصلوں سے پہلے، کتاب کی فہرست، مقدمہ، پیشگفتار اور گفتار مؤلف پیش کی گئی ہیں کہ ان تینوں میں سے ہرایک نے اپنی طرف سے کتاب کے چھپنے کے مقصد کو بیان کیا ہے۔

مؤلف نے ان فصلوں کے بعد بھی اختتامی کلمات میں اس کتاب کے مقصد پر روشنی ڈالی ہے۔ملحقات کتاب، پیوست اول میں حمید رضا فرتوک زادہ کے دست نویس اور پیوست دوم میں "مجاہدین خلق؛ آغاز سے انجام تک" نامی کتاب کے روشن فکری پر غور؛ شامل ہے۔

آخر میں تصویریں، منابع و مآخذ اور نقشوں کے ساتھ کتاب مکمل طور پر تشکیل ہوجاتی ہے۔ تصویروں والے حصے میں محمد رضا فرتوک زادہ کی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ کچھ تصاویر ہیں۔ منابع و مآخذ میں  اُن منابع کا ذکر کیا گیا ہے جن سے کتاب کی تدوین میں مدد لی گئی ہے۔  اور اس میں کتابوں، سائٹس، میگزین ، اخباروں اور اسناد کی فہرست بھی شامل ہے۔  نقشوں والی فصل میں، اشخاص، عمارتوں، پارٹیوں، اداروں، اور کتاب میں جن کتابوں اور چاپ خانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے قارئین کو اُن سے آشنا کیا گیا ہے۔

 

زبانی تاریخ کے بارے میں کچھ نکات

وہ لوگ جو ڈائریکٹ یا انڈئریکٹ کسی حادثے میں شامل ہوجاتے ہیں، وہ اُس واقعہ کو بیان کرنے کیلئے اچھا وسیلہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ معلومات جو ایسے افراد کے زبانی بیان ہوتی ہیں کسی  واقعہ کو تشکیل دیتی ہیں، ایسے واقعات جن کوبیتے سالوں گزر گئے، لیکن یہ لوگ تاریخ کے کچھ حصوں کو بیان کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد رضا فرتوک زادہ نے بھی کتاب "تب و تاب" میں یہی کام انجام دیا ہے۔ جو کہ گزرے واقعات کے عینی شاہد تھے، اُنھوں نے جو دیکھا اُسے بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں واقعات کا کچھ حصہ ذاتی واقعات پر مشتمل ہے، لیکن یہی ذاتی واقعات بھی اُس زمانے کی زبانی تاریخ کے جزئیات کی منظر کشی کر تے ہیں۔ اُنھیں بعض مواقع پر مجبوراًٍ کلی طور پر بات کرنا پڑی، لیکن اُنھوں نےپھر بھی انقلاب اسلامی کے طریقہ کار کی شروع سے کامیابی تک  وضاحت کی۔ ڈاکٹر فرتوک زادہ کے واقعات کو جو چیز  متمایز کرتی ہے وہ اُن کا تعلیمی معاشرے پر نگاہ ڈالنا یعنی  یونیورسٹی  پر چھائی فضا اور طلباء کے معیار کا بیان ہے۔ ان لوگوں نے  انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بھی  بہت اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن جو کچھ کتاب کے مقدمہ میں ذکر ہوا ہے اُس کے برخلاف، کتاب کا بہت ہی کم حصہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد والے زمانے سے مختص ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*تب و تاب: ڈاکٹر محمد رضا فرتوک زادہ کے واقعات، تالیف: سمیرا عظیمی گلوجہ، تہران، موسسہ فرہنگی ہنری و انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۹۴، ص ۳۳۲۔



 
صارفین کی تعداد: 4188


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔