(دشمن کی ) قید سے آزاد ہونے والے خوزستانی مجاہد کی داستان

آزادی کے وقت اور آپریشن سے پہلے ہونے والی الوداع کی تکرار

انٹرویو و ترتیب: مریم اسدی جعفری
مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2016-9-18


آٹھ سالہ دفاع مقدس میں  اسیر ہونے والے سپاہی کبھی بھی آزادی کے ان یادگار لمحوں کو نہیں بھلا سکتے جب وہ عراق کی بعث پارٹی کی جیلوں اور ان کی اذیت و آزار سے آزاد ہوئے۔ اسی لئے ان دنوں کو دسیوں سال گزر جانے کے باوجود ان ایام کے واقعات اور باتیں ذہنوں میں باقی رہیں گی۔ قیدیوں کے آزاد ہونے کے دن کی مناسبت سے ہم نے عراق کی بعث پارٹی سے رہائی پانے والے قیدی جو کہ جنگ میں زخمی بھی ہوئے تھے، اصغر بایمانی نژاد سے آزاد ہونے والے دونوں اور ایران واپسی کے ایام کے بارے میں گفتگو کی ۔

 

برائے مہربانی اپنے بارے میں بتائیں اور یہ کہ جنگ پہ آپ کہاں سے گئے اور کیسے قیدی بنالئے گئے؟

میں اصغر بایمانی نژاد ہوں۔  میں نے (عراق کی بعث پارٹی کی) قید سے آزادی حاصل کی ہے اور جنگ میں بھی بہت زیادہ زخمی ہوا تھا، اس وقت میری عمر ۱۴ سال تھی۔ خوزستان کے گروپ نمبر ۱۵ (امام حسنؑ) کے ساتھ  تھا اور آپریشن خیبر کیلئے خوزستان کے شہر "ہفتگل" بھیجا گیا اور چزابہ کے محاذ میں بھی شریک ہوا۔ میں  سر میں اور بعض دوسرے اعضاء میں گولی لگنے کی وجہ سے بیہوش ہوگیا تھا جس کی وجہ سے قیدی بناکر عراق لے جایا گیا۔ تقریباً ۲۰ دن بغداد  کے "الرشید" ہسپتال میں رہا۔ اس کے بعد ہمیں موصل ۲ کی جیل میں لے جایا گیا جہاں پر آپریشن خیبر میں اسیر کیے جانے والے سپاہی موجود تھے۔ میں اپنی قید کے آخر تک وہیں پر تھا۔ میرے جسم کی حالت ناقابل بیان تھی کیونکہ سر پر گولی لگنے کی وجہ سے، میرے سر کا کچھ حصہ غائب تھا اور بھیجا نظر آرہا تھا۔ اسی وجہ سے میرے بدن کا بایاں حصہ پوری طرح سے مفلوج ہے۔  جیل میں میرے دوسرے قیدی ساتھی زحمت اٹھایا کرتے تھے اور میرے کاموں میں میری مدد کیا کرتے تھے۔ میں دو سال سے زیادہ قید میں رہا۔

 

آپ کو کب ایسا لگا کہ آزاد ہونے والے ہیں اور کب یہ خبر ملی کہ واپس ایران آنے والے ہیں؟ دن اور تاریخ یاد ہے؟

اس بات کو پورے تیس سال گزر چکے ہیں۔  سن ۱۹۸۶ء تھا لیکن مہینہ مجھے یاد نہیں ہے۔ میرے خیال میں گرمیاں تھا اور جولائی/ اگست کا مہینہ تھا۔ بہرحال جب ہمیں، مجھے اور کچھ دوسرے ساتھیوں کو اپنی آزادی کی خبر ملی تو بہت خوش ہوئےکیونکہ جیل میں پیش آنے والے حالات کی وجہ سے ہمارے ذہن میں آزاد ہونے کا ذرا سال بھی خیال نہیں تھا، ہمیں امید نہیں تھی کہ ایک دن آزاد ہوجائیں گے کیونکہ جو مظالم و اذیت دشمن ہم پر کرتا تھا، اس سے ہمیں یہ یقین ہوچکا تھا کہ یہ ہمیں آزاد  نہیں کریں گے! ایسا لگتا تھا کہ سب یہیں شہید ہوجائیں گے اور بات ختم ہوجائے گی۔ لیکن خدا کے کرم سے ہم ایران واپس آگئے تاکہ اپنی قوم کی خدمت کو جاری رکھ سکیں۔

 

عراقیوں نے آپ کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

انھوں نے ہم سے کہاکہ  طے یہ پایا ہے کہ ۱۲۰ عراقی زخمی سپاہیوں کے بدلے میں ۲۹ ایرانی  زخمی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ جب یہ طے پایا تومجھے اور کچھ دوسرے دوستوں کو معذور ہونے کی وجہ سے جلدی آزاد کر دیا۔ ایک ہفتہ پہلے سے مستقل ہم پر نظر رکھے ہوئے تھے اور دوسری طرف ریڈ کراس  اور عراقی ڈاکٹروں کی طرف سے علاج کیلئے، شدت سے ان کی تحت نظارت تھے۔

 

بعث پارٹی کے لوگوں کے سوال و جواب کس بارے میں تھے؟

اپنی تفتیش سے وہ یہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ ہم واقعی زخمی اور معذور ہیں یا یہ کہ اپنے آپ کو معذور و مریض ظاہر کر رہے ہیں۔ میری حالت تو صاف ظاہر تھی۔ لیکن اس قدر سختی کیا کرتے تھے کہ ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ ہمیں آزاد کرینگے ہمیں کئی مرتبہ جیل کے دروازے تک لے کر گئے اور واپس جیل میں لے آتے اور کہتے کہ آج آزاد نہیں ہوگے۔ ہمیں ذہنی اذیت دینا چاہتے تھے۔ (انھوں نے) یہ کام کئی دنوں تک بار بار کیا۔

 

لیکن بالآخر ان تمام صعوبتوں کے بعد آپ کو آزادی مل ہی گئی۔ آزاد ہونے سے پہلے کی چند راتوں میں آپ کیا سوچا کرتے تھے؟ اپنے گھر والوں کے بارے میں یا دوستوں کے بارے میں یا پھر اپنے پیچھے رہ جانے والے قیدی دوستوں کے بارے میں؟

یقین کیجئے کہ میں زیادہ تر اپنے ان دوستوں کے بارے میں سوچتا تھا، جن سے جدا ہو رہا تھا۔ میری عمر ۱۴ سال تھی اور زیادہ دنیاوی تعلقات نہیں رکھتا تھا۔ اسے میں پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کیونکہ جس وقت میں اپنے جیل کے ساتھیوں کے ساتھ جیل میں رہا ہوں، میرے گہرے زخموں کی وجہ سے  انھوں نے میرے لئے بہت زحمت اٹھائی۔ میرے ان دوستوں نے واقعاً میرے لئے بہت زحمت اٹھائی جبکہ وہ خود بھی مشکل میں تھے اور ابھی انہیں کوئی نہیں جانتا ہے۔ میری طرح کے بہت زیادہ زخمی ہونے والوں کو دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ (ہمارے وہ ساتھی) دن رات ہماری تیمارداری کیا کرتے تھے۔ اگر انسان کسی ایک وجہ سے بھی جیل میں قید ہوجائے، جب اسے آزادی کی خبر دی جائے تو شاید وہ خوش ہو اور گھر واپس لوٹنے کی خوشی کو محسوس کرے لیکن جب بات عقیدے اور وطن کے دفاع کی ہو تو حقیقتا  اپنے ان دوستوں سے جدا ہونا بہت سخت تھا کہ جن کے ساتھ میں جیل میں تھا۔

 

جب آپ کیمپ سے نکل رہے تھے تو دوستوں سے کس طرح الوداع کیا؟

آخری دن جب دوستوں سے الوداع کیا تو ہر وہ چیز جو ہمارے پاس تھی مثال کے طور پر کھجور کی گٹھلیوں سے بنائی گئی تسبیح، انہیں اپنی نشانی کے عنوان سے دے دی  اور ان کے حق میں اگر کوئی غلطی ہماری طرف سے ہوئی ہو تو اُس کی  معافی مانگی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے جنگی آپریشن سے پہلے ایک دوسرے کو الوداع کر رہے ہوں۔ اپنے دوستوں سے جدا ہونا بہت سخت تھا۔ وہ بہت غمناک لمحہ تھا۔ ہمیں آزادی سے ایک دن پہلے ہمارے دوستوں سے جدا کر دیا گیا اور الرمادی کی جیل  کی صحت گاہ لے گئے۔  اس کے بعد بس سے بغداد کے ہوائی اڈے لے جایا گیا۔ ان ۲۹ لوگوں میں سے ۸ یا ۹ لوگ ہماری جیل کے تھے۔

 

جب آپ بس میں سوار ہوئے تو آپ کو یقین ہوگیا تھا کہ آزاد ہوجائیں گے؟

اس کے باوجود کہ ہم سے کہا جا چکا تھا کہ ہم وطن واپس لوٹ جائیں گے، پھر بھی ہمارے ذہن میں نہیں آیا کہ  یہ طے پایا گیا کہ ہم واطن واپس لوٹیں۔  جبکہ ریڈ کراس آزادی کیلئے ہماری نام دے چکی تھی۔ اس وقت تک بھی ہم اپنے آپ کو اسیر و قید  ہی سمجھ رہے تھے۔ ہمیں بغداد کے ہوائی اڈے سے ہوائی جہاز کے ذریعے سے ترکی منتقل کر دیا گیا۔ گھر والوں کی نسبت میں بہت زیادہ حساس نہیں تھا۔ میں اپنے قیدی دوستوں کیلئے زیادہ فکر مند تھا۔ بالآخر  دو سال سے زیادہ قید کے بعد ہمیں کچھ عراقی زخمیوں کے بدلے واپس وطن لا یا گیا۔

 

کیا آپ لوگ ترکی میں بھی رُکے تھے؟

مجھے یاد ہے، ہمیں ریڈ کراس کے ہوائی جہاز سے، اگر میں غلط نہ ہوں تو، انقرہ کے ہوائی اڈے لایا گیا، جہاں سپاہ کے لوگ تہران سے پہنچے ہوئے تھے، وہاں ہمارا استقبال ہوا، ترکی میں حاضر ایرانی سفیر نے تقریر کی اور پھر ہمیں ایران منتقل کر دیا گیا۔ دلچسپ بات ہے  کہ جب ہم ہوائی جہاز پر سوار ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ جنگی لڑاکا طیارے ہمارے جہاز کے برابر میں چل رہے ہیں۔ ہم سب لوگوں کو اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ عراقی جہاز ہوں اور اس آخری موقع پر ہم پر راکٹ مار دیں اور واپس پہنچنے کی بات میں کوئی حقیقت نہ ہو۔ لیکن لڑاکا طیارے کے  پائلٹ نے ہمارے جہاز کے پائلٹ سے فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ ہم ایرانی پائلٹ ہیں اور "آزاد ہونے والے قیدیوں" کی حفاظت کیلئے آئے ہیں۔  وہ لڑاکا طیارے ہمارے جہاز کی کھڑکیوں کے برابر میں آئے اور ان لوگوں نے ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلانا شروع کیئے۔ دو مرتبہ ہوا میں قلابازیاں بھی کھائیں اور پھر یہ لڑاکا طیارے ہم سے دور ہوگئے۔ لیکن ایرانی سرحدوں تک ہمارے ساتھ آئے۔

 

سرزمین ایران میں داخل ہونے کے بارے میں کچھ بتائیے، کون لوگ آپ کا استقبال کرنے  آئے تھے؟

ہمارا طیار جب مہر آباد کے ہوائی اڈے پر اترا،  یادش بخیر، آیت اللہ شہید محلاتی، سپاہ اور ہلال احمر کے لوگ ہمارے استقبال کیلئے آئے۔ جمہوری اسلامی ایران کے سپاہ نے پریڈ کی اور شہید محلاتی نے تقریر کی اور پھر ہمیں آخر میں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ کچھ دن ہم علاج وغیرہ کیلئے صحت گاہ میں تھے اور پھر آہستہ آہستہ جس جس کے بھی گھر والے آجاتے وہ گھر چلے جاتے۔ ہم جو کہ  خوزستان کے رہنے والے تھے، کچھ دن وہیں پر رہے۔ اپنی جسمانی حالت کی وجہ سے ایک ہفتے سے دس دن تک میں وہیں رہا۔ میرے کچھ جاننے والوں نے مجھے ہسپتال میں ہی فون کیا اور میرا حال احوال اور میرے ایران واپس پہنچنے پر احساسات کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ کوئی خاص احساسات نہیں ہیں کیونکہ میں اپنے قیدی دوستوں کے بارے میں زیادہ فکر مند تھا جو کہ غریب الوطنی کے عالم میں مظالم کا شکار ہو رہے تھے۔ کیونکہ وہ ایسے لوگوں کی قید میں تھے جو کہ حقوق بشر (Human rights) کا ذرا سا بھی  خیال نہیں رکھتے تھے۔ (بہرحال) اس کے بعد میں اہواز لوٹا اور میرے دوستوں اور شہر کے لوگوں نے اہواز کے ہوائی اڈے پر میرا بے مثال استقبال کیا۔ اہواز سے "ہفتگل" تک ۸۰ کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ ہمارے شہر کے داخلی راستے سے (تقریباً) ۲۵ کلومیٹر پہلے سے ہی گاڑیاں اور لوگوں کا جمع غفیر خود شہر تک کے راستے میں کھڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم وہاں سے قبرستان "بہشت معصومہ" گئے۔ میری قبر کیلئے جو کتبہ تیار کیا گیا تھا وہ مجھے دکھایا گیا یعنی میں نے اپنی قبر کا کتبہ بھی (اپنی زندگی میں ہی) دیکھا ہے۔ لوگ بہت بڑی تعداد میں تھے، جس کی تصویریں موجود ہیں۔ جب میں (اپنے ذہن) میں واپس پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ایسے لوگ یاد آتے ہیں جو کہ بعد میں شہید ہوگئے یا انتقال کر گئے اور بعض سن رسیدہ ہوگئے، مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ خدا نے اس اسارت و قید کی وجہ  سے مجھے ایسی عزت عنایت کی کہ لوگ اس طرح سے میرا احترام کریں اور استقبال کرنے آئیں۔

 

اگر آپ کیلئے قبر کا کتبہ تیار ہوچکا تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ لوگ یقین کرچکے تھے کہ آپ  آپریشن خیبر میں شہید ہوچکے ہیں۔ واپس لوٹنے کے بعد آپ کے والدین  کے سب سے پہلی ملاقات میں کیا احساسات تھے؟

مجھے اپنی والدہ سے ایک خاص اُنس تھا۔  انہیں کبھی ایسا نہیں لگا کہ میں شہید ہوچکا ہوں۔ میرے دوست میری والدہ سے جب بھی کہتے کہ میں جنگ میں شہید ہوچکا ہوں تو وہ اس بات پر یقین نہیں کرتی تھیں اور میرے واپس آنے کا انتظار کرتی تھیں۔ حتی میری برسی کا پروگرام کرنے کا ارادہ کیا گیا لیکن اتنے میں جیل سے میرا خط، والدہ تک آن پہنچا۔ حتی تعزیتی بینروں اور اشتہاروں کو میں نے  نشانی کے طور پر اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ میری واپسی پر میرے والدین کی خوشی ناقابل بیان تھی۔ بہت ہی زیادہ خوش تھے۔ بالکل ان دوسری ماؤں کی طرح کہ جن کے بچے قید سے آزاد ہوئے تھے۔ ہمارے علاقے کے لوگ کیونکہ "بختیاری" قبیلے سے ہیں، انھوں نے اس خوشی کو بھی اپنے خاص طریقے سے منایا مثلاً ہوائی فائرنگ کی اور اپنی خوشی کا اظہار کریا۔ جب میں قید ہوا تھا تیسری کلاس میں تھا۔ جب واپس آیا تو مجھے انٹر کی ڈگری دینے کا کہا گیا لیکن میں نے خود ہی قبول نہیں کیا اوربیساکھی کے سہارے اسکول جایا کرتا تھا۔ میں نے اپنی پڑھائی کو جاری رکھا اور اب ماسٹرز کرچکا ہوں اور "جامعہ ایثار گری" کے ادارہ میں خدمات انجام دے رہا ہوں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3699


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔