کچھ اہم جنگی آپریشنوں اور شہید دستوارہ کے بارے میں عبد الرضا طرازی کی گفتگو

مختلف وائرلیس اور جادوئی کوڈز لے جانے والی ایمبولنس

سارا رشادی زادہ
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-8-31


عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے واقعات جنگی سپاہیوں کی جانب سے بیان کیا جانا اپنے سامعین کیلئے اس جنگ کے مزید نئے پہلوؤں کو آشکار کرنے کیلئے بہت کارآمد ہے۔ ان معمولی سپاہیوں کا وجود اس عنوان سے کہ یہ اپنے افسروں کے نزدیک ترین افراد میں سے تھے اور جنگی آپریشنوں کے کوڈز جانتے تھے، ان آپریشنوں پر براہ راست اثر انداز تھا۔ عبد الرضا طرازی، بٹالین محمد رسول اللہ  کے ڈویژن ۲۷ کے ایک معمولی سپاہی ہیں۔ جنہوں نے بدر، خیبر، و الفجر ۸ اور آٹھ سالہ دفاع مقدس میں مختلف آپریشنز میں شرکت کی۔ انھوں نے جنگ کے دنوں کی یادوں، مختلف آپریشنز اور افسروں کی ہمراہی  کے بارے میں زبانی تاریخ کی ویب سائٹ سے گفتگو کی۔

 

آپ اپنے بارے میں بتائیے اور آپ کس طرح جنگ کا حصہ بنے؟

میں عبد الرضا طرازی  ہوں اور میری پیدائش ۲۱ مارچ ۱۹۶۶ء میں ہوئی۔ عراق کی ایران کے خلاف جنگ کے آغاز کے دوران میں قانونی لحاظ سے بلوغت تک نہیں پہنچا تھا اور مساجد میں موجود بسیج کے دفاتر مجھے جنگ پر جانے کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے۔ اس وقت، کچھ مسجدوں کے بسیج کے دفاتر، کسی ایک مسجد میں بسیج کے دفتر کے تحت نظر ہوا کرتے تھے اور وہ مسجد دیگر دفاتر کیلئے مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ جب مجھے  اپنے محلے کی مسجد کی طرف سے جنگ پر جانے کو منع کردیا گیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ مرکزی مسجد سے اجازت لیکر جنگ پر جاؤں۔  میں بہت ہی مشکل سے اپنی مسجد کی بسیج کے مرکزی فتر کے افسر کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ لیکن وہ بھی میرے قانونی  سن بلوغت سے چھوٹا ہونے کو سمجھ گئے اور میرے جنگ پر جانے کی مخالفت  کی۔ میں پھر بھی مایوس نہیں ہوا اور خاوران اسٹریٹ پر بسیج کے مالک اشتر نامی دفتر گیا اور میدان جنگ پر جانے والے لوگوں کی صف میں کھڑا ہوگیا تاکہ جنگ پر جانے کے مراحل کے بارے میں جان سکوں اور جنگ پر جانے کیلئے کونسے کاغذات و اسناد درکار ہیں۔

جب مجھے پتہ چل گیا کہ کن کاغذات و اسناد کی ضرورت ہے تو میں اپنے کاغذات و اسناد کی تیاری میں مصروف ہوگیا لیکن مجھے  معلوم تھا کہ ان سندوں کے باوجود مجھے میری کمسنی کے باعث میدان جنگ پر جانے کی اجازت نہیں دی جائیگی، اسی لیے میں نے اپنے شناختی کارڈ میں اپنی تاریخ پیدائش بدل دی لیکن مجھ سے تاریخ کے حساب کتاب میں غلطی ہوگئی  اور تاریخ میں تبدیلی کے بعد بجائے اس کے کہ میری عمر میں اضافہ ہوتا، مزید کمی ہوگئی۔ اسی وجہ سے میں نے دوبارہ اپنے شناختی کارڈ میں تاریخ پیدائش کو تبدیل کیا، لیکن ان سب کے باوجود جب میں نے جنگ پر بھیجنے والے افسر کو اپنا شاختی کارڈ دیا تو فوراً ہی واپس لے لیا کیونکہ جو تاریخ میں نے تبدیل کرکے لکھی تھی، میں اس کے بارے میں مطمئن نہیں تھا  کہ صحیح ہے یا  نہیں، اور تو اور اس کے علاوہ میں آخری وقت میں متوجہ ہوا کہ میں نے اپنا سن صرف عدد میں بدلا ہے اور حروف میں تو بدلا ہی نہیں۔

مختصر یہ کہ میں نے اسے بھی بدلا اور دو دن بعد جب اپنے ڈاکومنٹس لینے گیا تو میں توقع کر رہا تھا کہ مجھے چھاؤنی بھیج دینگے اور وہاں تھوڑا بہت اسلحہ چلانا سیکھ لونگا کیونکہ مجھے اس وقت تک اسلحہ چھونے تک کا بھی تجربہ نہیں تھا۔ اس دن میں نے تھوڑا انتظار کیا اور کچھ دیر کے بعد جنگ پر بھیجنے والے افسر سے سوال کیا: "مجھے کونسی چھاؤنی بھیجیں گے؟" انھوں نے جواب میں کہا: "تم میدان جنگ جاؤ گے لیکن کونسی چھاؤنی، یہ مجھے نہیں معلوم۔"

میں تھوڑا پریشان ہوا لیکن میں نے زیادہ سوال جواب نہیں کئے کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں شناختی کارڈ میں تبدیلی والی بات کھل نہ جائے۔ میں بسیج کے دفتر میں بالکنی میں کھڑا ہوا تھا اور بقیہ جنگ پر جانے والوں کے بارے میں پڑھنے لگا کہ اچانک متوجہ ہوا  کہ اس  افسر نے مجھے غلطی سے چھاؤنی میں ٹریننگ لئے بغیر، مجھے میدان جنگ بھیج دیا ہے، کیونکہ میرے بارے میں حکم نامہ ان لوگوں کے حکم ناموں کی طرح تھا کہ جنہیں  میدان جنگ بھیجنا ہے۔ میں نے بھی کیونکہ خدا سے دعا کی تھی، کوئی بات نہیں کی تاکہ جلد از جلد میدان جنگ پہنچ جاؤں۔ میں نے یہ خبر اپنے محلے کی بسیج کے دوستوں تک پہنچائی لیکن ان میں سے کوئی بھی یقین نہیں کر رہا تھا۔ بہرحال میرے جنگ پہ جانے والے دن میرے دوست آئے اور وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم تمہاری پول کھول دینگے اور تمہیں میدان جنگ پر جانے نہیں دینگے۔ ہم اس دن بسیج کے دفتر مالک اشتر کے صحن میں کھڑے ہوئے تھے، جب میں نے دیکھا کہ میرے دوست سنجیدہ ہیں، میں وہاں کے بیت الخلاء میں جاکر چھپ گیا اور جب تک لاؤڈ اسپیکر سے چلنے کا اعلان نہیں ہوگیا، وہی پر رہا۔

لاؤڈ اسپیکر سے چلنے کے اعلان کے بعد سب کھڑے ہوئے تھے تاکہ ان کا نام لیا جائے اور وہ گاڑی میں سوار  ہوں۔ میرا نام سب سے آخر میں لیا گیا جس کی وجہ سے ہر لمحہ میری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ مختصر یہ کہ جب میرا نام لیا گیا، میں ڈبل ٹریکر بس میں سوار ہوا اور ڈر کے مارے ا وپر جاکر ایسی جگہ بیٹھا کہ کھڑکی سے میرا چہرہ دکھائی نہ دے۔

 

اس کے بعد آپ کو یقین ہوگیا کہ آپ جنگ پر جا رہے ہیں، آپ میدان جنگ میں کونسے علاقے میں گئے؟

ہم  جنوب کی طرف گئے۔ خوزستان جانے والے راستے میں،  میں پہلی مرتبہ ٹرین میں سوار ہوا اور اہواز کے ر استے میں اتفاقاً ایک دلچسپ واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔ ہمارے ڈبے میں تمام ہی لوگ وہ تھے جو دوسری مرتبہ میدان جنگ جا رہے تھے اور میں کیونکہ جنگ کے میدان کے ماحول سے آگاہ نہیں تھا، خاموشی سے ان لوگوں کی باتیں سن رہا تھا۔ ان لوگوں میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا: "تم کونسی جگہ لڑ رہے تھے؟" میرے پاس کوئی جواب ہی نہیں تھا اور صرف چند مرتبہ "دو کوھے" کا نام سنا تھا۔ اس لئے میں نے کہا: "میں دو کوھے پہ تھا"۔ انھوں نے کہا: "دو کوھے تو پیچھے ہے، کونسی جگہ تھے؟" میں نے جواب دینے سے گریز کیا اور اس ڈبے سے نکل گیا تاکہ مجھ سے مزید سوالات نہ کریں اور کچھ وقت گزر جائے اور میرے ساتھ کے لوگوں کا موضوع بدل جائے، تھوڑی دیر بالکنی میں ٹہلنے کے لگا لیکن میں بوگی نمبر اور کیبنٹ نمبر دیکھنا بھول گیا تھا۔ اسی لئے کھو گیا اور ناچار چند مرتبہ پوری ٹرین میں شروع سے آخر تک چکر لگایا تاکہ مجھے اپنی بوگی اور کیبنٹ مل جائے۔ مختصر یہ کہ کافی دیر کے بعد میں اپنے کیبنٹ میں واپس پہنچ گیا۔ میرے ساتھ کے لوگ جو میرے اتنی دیر غائب رہنے کی وجہ سے پریشان ہوگئے تھے، مجھ سے پوچھنے لگے: "تم کہاں چلے گئے تھے؟" میں نے انھیں جواب دیا: "مجھے جنگ کا ایک پرانا ساتھی مل گیا تھا اس کے ساتھ پرانی یادیں تازہ کر رہا تھا۔"

 

کیا آپ کو اھواز کے بعد سیدھا میدان جنگ بھیج دیا گیا؟

نہیں، خوزستان پہنچنے کے بعد ہم پہلے اھواز اور پھر "امیدیہ" گئے اور ایک ہفتہ وہی پر رہے۔ جمعے کا دن تھا اعلان ہوا کہ نماز جمعہ میں جانا ہے اور وہاں سے واپس آکر جنگ کا سامان اٹھاکر فرنٹ لائن   کی طرف جانا ہے۔ مجھے حتی یہ بھی نہیں معلوم تھا  کہ مسلح ہونا یعنی کیا؟ ہم اس دن نماز جمعہ میں دیر سے پہنچے اور ہمیں آخری صف میں جگہ ملی۔ میں نے اس سے پہلے کبھی نماز جمعہ میں شرکت نہیں کی تھی اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ قنوت اور رکوع کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ لہذا میں نے پوری نماز غلط پڑھی اور شرم کے مارے نماز  ختم ہونے سے پہلے اپنے جوتے اٹھائے اور نماز کی صفوں سے باہر آگیا۔

نماز جمعہ سے واپس آنے کے بعد ہمیں ایک باغ میں لے گئے جہاں ہم سب کو اسلحہ دیدیا گیا کیونکہ جنگ کے آغاز کا زمانہ تھا، سارا اسلحہ نیا تھا، حتی ابھی تک ڈبوں میں بند تھا۔ ہمیں اسلحہ کھولنا تھا اور  اس میں گولی ڈال کر ایک مرتبہ آزمائشی فائر کرنا تھا تاکہ اطمینان ہوجائے کہ ہم سب کے اسلحے صحیح ہیں۔ میں نے اس دن تو ا سلحے کو چھوا تک نہیں، نظریں چھپاکر دوسروں کی طرف دیکھا کہ ان لوگوں نے کس طرح اسلحے کو کھولا ہے لیکن اس میں گولی ڈالنے کا طریقہ مجھے نہیں آتا تھا۔ اسی وجہ سے میں نے اپنے ساتھ کے ایک سپاہی سے کہا: "لگتا ہے کہ اس اسلحے میں کچھ مسئلہ ہے" اور جیسے ہی اس نے مجھ سے اسلحہ  لیا، میں فوراً درخت کے پیچھے چھپ گیا تاکہ دیکھوں کہ یہ کس طرح گن لوڈ کرتا ہے، جیسے ہی اس نے لوڈ کرلیا میں فوراً سامنے آیا اور اس سے کہنے لگا: "میں جلدی واپس آگیا ہوں تاکہ تمہاری مدد کرسکوں۔" اسی دن ہمیں فرنٹ لائن پر بھیج دیا گیا۔

 

آپ نے جنگ کا کون سا منظر سب سے پہلے دیکھا؟ میدان جنگ کو آپ نے کیسا پایا؟

جب یہ طے پایا کہ ہمیں فرنٹ لائن  پر بھیجیں، ہم نیسان کی ڈاٹسن پرسوار ہوئے، جس پر اچھا خاصا سامان لادا جاسکتا تھا، اس ڈاٹسن پر ہم ڈیفنس لائن  کی طرف بڑھے۔  اس دن کیونکہ ڈاٹسن پر پڑے ہوئے سامان کی بلندی مٹی کے ڈھیروں سے زیادہ تھی اور ہمارے پیچھے مٹی کا ڈھیر بڑھ چکا تھا، دشمن نے ہم پر حملہ کیا اور کیونکہ میں نے کوئی جنگی ٹریننگ نہیں لی تھی اور اس طرح کے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت  نہیں رکھتا تھا، اُس جگہ میرے بائیں ہاتھ کی کلائی پر راکٹ کا ایک ٹکڑا آلگا اور میں زخمی ہوگیا، مجھے ہسپتال لے کر گئے اور کیونکہ زخم زیادہ گہرا نہیں تھا، فرنٹ لائن کی طرف واپس پلٹ گیا۔

 

"دفاعی " مقام پر لڑنا کیسا تھا؟ اس جگہ پر ایسے نوجوان کا لڑنا جو ابھی قانونی لحاظ سے بالغ نہیں ہوا تھا، کیسا تھا؟

تین مہینے تک میں وہاں موجود تھا۔ اس وقت میں راتوں کو نگہبانی کا کام انجام دیتا تھا اور ہمیشہ اپنے اسلحے سے گولی چلاتا رہتا تھا اور گولے چلانے میں مجھے مزہ آتا تھا لیکن میں نے اتنی دفعہ گولیاں چلائیں کہ نگہبان نے مجھے خبردار کیا کہ بلاوجہ میں گولی نہ چلاؤ ورنہ اس چوکی کے بارے میں سب کو پتہ چل جائیگا۔

جس چوکی پر ہم نگہبانی دے رہے تھے وہاں ہینڈ گرینڈز کا ایک باکس بھی تھا میرا بہت دل چاہتا تھا کہ اُن میں سے ایک کی آزمائش کروں،  لیکن میں ڈر رہا تھا۔ ایک رات میں نے ایک گرنیڈ کے ہک کو کھینچ دیا اور اُسے سامنے اُلٹے ہاتھ کی طرف پھینک دیا تاکہ اگر کسی سے باز پرس کرنا چاہیں تو دوسری چوکی والے اس کے ذمہ دار ٹھہریں۔

 

جب پہلی دفعہ آپ کا عراقی فوجیوں سے سامنا  ہونا تو آپ کا رویہ کیسا تھا اور آپ نے کیسا محسوس کیا؟

چونکہ وہ ایام جنگ شروع ہونے کے ایام تھے، ایران اور عراق کی فرنٹ لائن کا فاصلہ بہت کم تھا اور عراقی مورچوں کے سامنے خاردار تاروں کی چند لائنیں تھیں۔ دفاعی مقام پر رہنے کے کچھ عرصہ بعد طے پایا کہ فتح المبین آپریشن انجام پائے، اس آپریشن کیلئے طے پایا گیا کہ فرنٹ لائن سے لیکر عراقی مورچوں تک  ایک سرنگ کھودی جائے۔ ہر رات کچھ لوگ سرنگ کی کھدائی کیلئے جاتے اور اندھیرا چھاتے ہی سرنگ کھودنا شروع کردیتے۔ ہر رات، سرنگ کی کھدائی کے وقت  کچھ لوگ بقیہ افراد سے کچھ آگے گھات لگائے رہتے تاکہ اگر عراقی گشتی فورسز کا سامنا ہو تو سرنگ کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔ پہلی دفعہ جب طے پایا کہ میں کھدائی کے پروسیس میں شرکت کروں تو میرا نام گھات لگانے والے سپاہیوں میں نکلا اور مجھے کہ جس نے کوئی ٹریننگ نہیں لی تھی، گھات لگانے جانا تھا۔ ہم کھیتوں میں بنی نالیوں میں یوں ہی بیٹھے ہوئے تھے اور گھات لگائی ہوئی تھی،  میں گہری نیند میں تھا اور رات کے اندھیرے کی وجہ سے میرے برابر والے کو میرے سو جانے کا پتہ نہیں چلا۔ تھوڑی دیر بعد برابر والے نے مجھ سے کہا: "بھائی تم نے کوئی آواز تو نہیں سنی؟" میں نے اپنی آنکھیں کھولے بغیر اُس سے کہا: نہیں، اور پھر سو گیا، لیکن فوراً ہی اپنی آنکھیں کھولیں اور ۴، ۵ عراقیوں کو دیکھا جو ہماری دائیں طرف چل رہے تھے۔ وہ ہم سے کچھ ہی فاصلہ پر تھے، لیکن مجھ پر ایسی وحشت طاری ہوئی کہ میری زبان گنگ ہوگئی ، میں بالکل سُن ہوگیا تھا اورمیری ہمت نہیں تھی کہ اپنے ساتھی کو بتاؤں کہ عراقی فوجی ہمارے قریب آرہے ہیں۔ بہرحال اپنے برابر والے کو کہنی مار کر اُن کے بارے میں متوجہ کیا، اُس نے عراقی فوجیوں کو دیکھتے میرے سر پر ایک ہاتھ مارا اور ہم دونوں پانی کی ندی میں لیٹ گئے۔

جیسا کہ ہمارے پاس وائرلیس نہیں تھا، میرے ساتھی نے مجھ سے کہا تم یہیں رہو جب تک میں پیچھے والوں کو عراقیوں کے نزدیک ہونے کی خبر دیکر آتا ہوں، لیکن میں جو ڈرا ہوا تھا اور اکیلا رہنا نہیں چاہتا تھا، میں نے اُس سے کہا میں خود  ہی چلا جاتا ہوں۔ تقریباً ۳۰ میٹر پیچھے گیا تھا کہ میں نے دیکھا کہ میرا ساتھی  بھی پیچھے پیچھے  آرہا ہے، ہم دونوں نے پیچھے آکر اپنی فورسز کو عراقی فورسز کے نزدیک ہونے کی خبر دی۔ یہ عراقی فوجیوں کو نزدیک سے دیکھنے کے بعد میرا پہلا عکس العمل تھا۔

 

میدان جنگ میں فتح المبین آپریشن آپ کا پہلا تجربہ تھا، یقیناً اس آپریشن کا کوئی دلچسپ واقعہ ہوگا، آپریشن کے بارے میں ہمیں بتائیے

آپریشن شروع ہونے سے دو تین رات قبل، ہمیں امیدیہ کے قریب باغ میں لے گئے تاکہ وہاں پر آرام کرکے واپس آئیں۔  ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہماری بٹالین اُسی جگہ سے، جس ڈیفنس لائن پر دو مہینے پہلے تھے، آپریشن شروع کریگی۔

اُس رات ہمیں کرخہ برج سے عبور کرنا تھا۔ اُس زمانے میں آپریشن کیلئے کرخہ نہر کے اوپر ایک فلوٹنگ برج بنایا گیا تھا، ہمیں اُس پر سے گزر کر نہر کی دوسری طرف جانا تھا۔ جب ہم نہر کے اُس پار پہنچے، عراقی فورسز متوجہ ہوگئیں کہ ہم کھیتوں  کی ندی سے اُن کی طرف بڑھ رہے ہیں، اُنھوں نے اُسی وقت ہم پر فائر کھول دیا اور لڑائی شروع ہوگئی۔ ہم سب زمین پر لیٹ گئے اور میں دونوں طرف سے ہونے والی شدید فائرنگ سے اتنا ڈر گیا تھا کہ میں ایک بھی فائر نہ کرسکا ۔ اُسی طرح زمین پر لیٹے لیٹے میں یہ سوچ رہا تھا کہ کاش میں اپنے ہاتھوں سے زمین کو کھود سکتا تاکہ زمین میں اور اندر تک چلا جاتا۔

میرے برابر والا شخص جو وائرلیس آپریٹر تھا، میرے برابر سے گزرتے ہوئے زمین پر گرا اور شہید ہوگیا۔ میں نے اُس کے وائرلیس کو اٹھالیا، وائرلیس  آن تھا اور میں مستقل وائرلیس پر چیخ رہا تھا: "وائرلیس آپریٹر شہید ہوگیاہے" میرا اس طرف دھیان ہی نہیں تھا کہ دوسری طرف اپنی آواز پہنچانے کیلئے ٹاک سوئچ (Talk switch)کو دبانا پڑتا ہے۔ میرے قریب کھڑے ہوئے ایک زخمی نے مجھ سے کہا: "پہلے ٹاک سوئچ کو دباؤ پھر بات کرو" پھر اُس نے مجھ سے وائرلیس لیکر خود ہی بات کرلی۔ کافی وقت گزر چکا تھا اور میں ڈر کی وجہ سے ابھی تک زمین پر ہی پڑا ہوا تھا اور لوگ کرولنگ کرتے ہوئے ، گھٹنوں کے بل اور کھڑے ہوکر آگے کی طرف جا رہے تھے۔ میں جو اپنے ساتھیوں کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ رہا تھا اپنے ڈرنے اور آگے نہ بڑھنے پر مجھے غصہ آنے لگا ، میں نے فیصلہ کیا کہ فوراً کھڑے ہوکر اُن کے ساتھ آپریشن میں شریک ہوجاؤں۔ میں کھڑا ہوگیا اور کسی نہ کسی طرح عراقی مورچوں تک پہنچا، میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ہماری فوجیں اُس علاقے کو فتح کرچکی تھیں۔

 

عراقی فورسز کے مورچے کی طرف پیشقدمی کرنے کے بعد کیا ہوا؟

دن نکلتے ہی جوابی کاروائیوں کا آغاز ہوگیا۔ عراقی فوجی چاہتے تھے کہ قبضہ ہوجانے والے علاقوں کو دوبارہ حاصل  کرلیں اور ایرانی فوجی بھی اپنے پوزیشنوں کو مضبوط کرنے کے درپے تھے۔ اُسی وقت دو ہٹے کٹے ادھیڑ عمر عراقی اسیر میرے حوالے کئے گئے تاکہ انھیں پیچھے  لے جاؤں۔

 

یہ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ عراقی اسیروں کو منتقل کرنے کا کام آپ کو سونپا گیا ۔۔۔

جی ہاں، میں نے فیصلہ کیا کہ جس راستے سے ہم آئے تھے اُسی راستے سے ان دو عراقیوں کو لے جاؤں۔ اُس وقت تک ہمارے زیادہ تر فوجیوں کے عراقی مورچوں تک پہنچ جانے کی وجہ سے وہ راستہ تقریباً سنسان ہوگیا تھا اور وہاں کوئی بھی نہیں تھا؛  لیکن وہ  راستہ زخمیوں، شہیدوں اور اسلحے وغیرہ سے  بھرا ہوا تھا۔ میں اس بات پہ دھیان دیئے بغیر، ہاتھ میں اسلحہ پکڑے دو عراقی اسیروں کے آگے چلنے لگا اور وہ بھی میرے پیچھے چل پڑے، حتی میرے ذہن میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ وہ راستہ سنسان ہونے کی وجہ سے کوئی بھی اسلحہ اٹھا کر فرار کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ تھوڑا آگے چلے تھے کہ اپنے ایک فوجی سے سامنا ہوا، اُس نے مجھ سے پوچھا: "تم کیوں عراقی اسیروں کے آگے آگے چل رہے ہو؟ کیا تم اسیر ہو؟" وہاں پہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا پھر میں اُن کے پیچھے چلنے لگا۔ تھوڑا آگے جانے کے بعد جب میرا ڈر بالکل ختم ہوگیا  تو میرا دل چاہا کہ عراقیوں کو تنگ کروں۔ میں مستقل اُن سے کہے جا رہا تھا: "اسٹینڈ اپ، سٹ ڈاؤن" میں نے اُنھیں اتنی دفعہ اٹھنے بیٹھنے کا کہا کہ اُن کی سانس اکھڑ ہوگئی۔ الغرض ہم  کرخہ کے فلوٹنگ برج تک پہنچے اور اب ہمیں اس برج کو عبور کرکے نہر کی دوسری طرف جانا تھا۔

فلوٹنگ برج کا طول و عرض بہت کم تھا اور جب ہم پل پر  چل رہے تھے تو ایک عراقی قیدی پل سے عبور کرتے ہوئے نہر میں گر گیا اور اُس نے فورا ً ہی پل کے کنارے کو پکڑ لیا، لیکن پانی کا پریشر اتنا زیادہ تھا کہ اُس کا جسم ہٹا کٹا ہونے کے باوجود پانی پر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ مستقل فریاد کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا: "خاطر خمینی"، یعنی امام خمینی ؒ کی خاطر مجھے بچالو۔ دوسرا عراقی جو میرے ساتھ پل پہ کھڑا تھا وہ خوف کے مارے چیخے جا رہا تھا۔ میں نے ناتجربہ کاری کا ثبوت دیتے ہوئے نہر میں گرے ہوئی قیدی کی طرف اسلحے کی نالی بڑھائی تاکہ وہ نالی کو پکڑ لے اور میں اُسے اوپر کھینچ لوں، لیکن چونکہ اُس کا وزن زیادہ تھا اس لئے میں خود بھی پانی میں گر پڑا۔ ایسے میں ، جب میں پانی میں عراقی اسیر کی کمر کو پکڑا ہو اتھا، اورہم دونوں چلّا رہے تھے اور پل پر دوسرا عراقی بھی مدد کیلئے پکار رہا تھا، یہاں تک کے پل کی دوسری طرف ہماری فوجیں ہماری طرف متوجہ ہوئیں اور ہماری مدد کو پہنچیں۔ بہرحال میں اُن دو عراقی قیدیوں کو اپنی فوج کے حوالے کرکے عراقی مورچوں کی طرف واپس پلٹا۔

 

آپ میدان جنگ سے تہران آتے جاتے رہتے تھے یا مستقل طور پر میدان جنگ میں ہی رہے؟

میں آتا جاتا رہتا تھا۔ میں پہلی دفعہ محاذ پر جانے  اور تہران لوٹنے کے بعد تہران میں دو مہینے کیلئے اہم مقامات  کی حفاظت اور سویلین دفاعی فورسز میں کام پہ لگ گیا تھا  ٹی وی اسٹیشن پر سیکیورٹی کیلئے گیا۔ اُس زمانے میں ٹی وی، ریڈیو میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نفوذ کی وجہ سے کوئی پروگرام براہ راست نشر نہیں ہوتا تھا اور ہمیں ہر پروگرام کی نظارت کرنی ہوتی۔  مجھ سے کہا گیا کہ اگر آپ یہیں رُک جائیں تو ہم آپ کو مستقل طور پر رکھ لیں گے، لیکن تمام وسائل ہونے کے باوجود اپنی ڈیوٹی شروع ہونے سے ۴۵ دن پہلے، میں نے محسوس کیا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتا، میں نے اپنی ڈیوٹی منسوخ کروائی اور دوبارہ جنگ پہ جانے کی درخواست دیدی۔

 

اگلی دفعہ بھی آپ کو اُسی علاقے میں بھیجا گیا یا آپ دوسرے علاقوں کی طرف  گئے؟

اب کی بار میں کردستان گیا۔ اُس زمانے میں کردستان میں رہنا بہت ہی زیادہ سخت تھا، اس طرح سے کہ جب کچھ لوگوں کو پتہ چلتا کہ اُنہیں کردستان بھیجا جا رہا ہے تو  وہ منصرف ہوجاتے۔ زیادہ تر لوگ مغربی یا جنوبی محاذ پر جانا پسند کرتے تھے۔ کردستان میں ہر ٹائم کا کھانا بنانا ہمارے اپنے ذمہ تھا  اور  ہمیں مشخص راشن میں پورا دل گزارنا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ  مغربی اور جنوبی محاذوں پر دشمن کی سمت معلوم تھی لیکن کردستان میں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ جو ہماری طرف آرہا ہے اُس کا تعلق کوملہ اور ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے یا کسی محلے کا کوئی فوجی ہے۔ بہرحال بہت سخت وقت تھا، میں نے چھٹی کیئے بغیر کردستان میں تین مہینے گزارے اور اس مدت میں بہت سے تجربات حاصل کئے۔ اس کے بعد  میں نے و الفجر یک کے ابتدائی  مراحل میں شرکت کی۔

 

وائرلیس آپریٹر ہمیشہ اپنے افسروں کے ساتھ ہوتے ہیں، کیا آپ بھی  ہمیشہ شہید رضا دستوارہ جیسے اپنے افسر  کے ساتھ ہوتے ۔۔۔

سن ۱۹۸۴ ء میں محمد رسول اللہ (ص) کے ۲۷ویں ڈویژن میں مستقل فوجی کے عنوان سے بھرتی ہوا، میں نے اُسی وقت سوچ لیا تھا کہ  میں ڈویژن کے ٹیلی کمیونیکشن میں جاؤں  گا اور میں جنگ کے اختتام تک اسی پوسٹ پر رہا۔ آپریشن میں ڈویژن ٹیلی کمیونیکشن کی فوجیں مورچہ بندی کے حوالے سے اپنے افسروں اور ساتھیوں سے ر ابطے میں رہتی تھیں۔ میں نے و الفجر ۸ آپریشن میں پہلی دفعہ شہید رضا دستوارہ کے ساتھ وائرلیس آپریٹر کے طور ایک لمبا عرصہ گزارا۔ یہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے، حاج حسین بہشتی نے مجھ سے کہا تھا: "تم ہر وقت تیار رہنا کہ اگر کسی فوجی کا وائرلیس خراب ہوجائے تو اُسے دوسرا سیٹ دیدینا۔" لیکن آپریشن  کے آغاز میں جب ہماری بٹالین کی باری آئی تو  مجھ سے کہا: "رضا دستوارہ کے ساتھ جاؤ" میں بھی ایک پی آر سی ۷۷ وائرلیس  اور اُس کے کوڈز کا پیپر اُٹھا کر اُن کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ آپریشن شروع ہونے سے ایک رات قبل فرنٹ لائن کو شکست دیدی گئی تھی اسی وجہ سے ہم نے نہر اروند کو آسانی سے عبور کرلیا۔ رضا دستوارہ ڈویژن افسر کا معاون تھا۔ میں ہر وقت دستوارہ کے ساتھ ساتھ رہا اور وہ جہاں جاتے اُن کے ساتھ جاتا، میں نے اُن کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ اصولاً تو فوج کے افسروں کو پیچھے رہنا چاہیے لیکن دستوارہ ہمیشہ آگے ہوتا اور میں اُن کے تمام کاموں میں اُن کے ساتھ ہوتا، اسی لئے وہ میرے کام سے خوش تھے۔

 

شہید دستوارہ میں کیا خصوصیات تھیں؟

شہید دستوارہ دبلے اور لمبے قد کے مالک تھے اُن کی شہادت سے پہلے ان کے دو بھائی درجہ شہادت پر فائز ہوچکے تھے۔ وہ خوش اخلاق اور مزاحیہ طبیعت کے مالک تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ اپنے اسکول کے واقعات ہمیں سناتے تو ہنستے ہنستے اُن کے پیٹ میں درد ہوجاتا۔

 

شہید دستوارہ کا کوئی اور واقعہ آپ کو یاد ہے؟

ایک دفعہ میں شہید دستوارہ اور ہیڈکوارٹر کے دو افراد کے ساتھ جیپ پر بیٹھا اور ہم لوگ فرنٹ لائن کی طرف گئے تاکہ علاقے کو نزدیک سے دیکھیں۔ اُس دن ہم اپنے فوجیوں کی لائن سے آگے نکل گئے تھے اور وہاں جیپ سے اُتر کر عراقی مورچے سے ۷، ۸ میٹر کے فاصلے تک پیدل چلے۔ ہم ایک  گڑھے میں چھپے ہوئے تھے ہم دشمن کی مشین گنوں کے اتنا نیچے تھے کہ حاج رضائی جن کو ہم ہمیشہ زبردستی زمین پر لٹاتے تھے، اُنھوں نے اپنا سر زمین سے ملایا ہوا تھا۔ ہم عراقی فوج کے اتنے قریب تھے کہ اُن کی باتوں اور فائرنگ کی آواز بھی سن رہے تھے۔ میں نے شدید فائرنگ کی وجہ سے اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے ہوئے تھے اور دوسروں کو نہیں دیکھ رہا تھا۔ دستوارہ اور دوسرے ساتھیوں نے موقع ملتے ہی خود کو پیچھے پہنچایا اور جیپ پر بیٹھ گئے، لیکن اتنا ٹائم نہیں تھا کہ مجھے اطلاع دے سکتے تھے، جب میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کوئی بھی نہیں ہے۔ میں نے اُسی فائرنگ کے دوران وہیں سے جیپ کی طرف دوڑنا شروع کردیا، حتی یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مجھے گولی لگی ہے یا نہیں۔ جب میں جیپ تک پہنچا، وہ چل چکی تھی، میں پھر بھاگا یہاں تک کہ جیپ کے پیچھے سوار ہوکر اُن کے ساتھ آیا۔ جب اپنے علاقے میں آکر گاڑی رکی تو میرے ساتھیوں نے اُس وقت مجھے دیکھا۔

 

آپ محمد رسول اللہ (ص) کے ۲۷ویں ڈویژن کی ٹیلی کمیونیکشن میں کیسے آئے؟

میں اُس سے پہلے  خیبر آپریشن میں بسیجی وائرلیس آپریٹر تھا، لیکن اس کے بعد والے آپریشن یعنی بدر آپریشن میں  سپاہ  کے فورس اسٹاف میں شامل ہوگیا۔ اُس زمانے  میں محمد رسول اللہ (ص) کے ۲۷ ویں ڈویژن کی ٹیلی کمیونیکش کے انچارج حاج حسین بہشتی اور سید محمد دینی اُن کے اسسٹنٹ تھے۔

 میں ڈویژن کے ٹیلی کمیونیکشن میں آنے کے بعد  ٹیلی کمیونیکشن کے میسج سنٹر کا انچارج بن گیا، اس کے بعد  میں نے کچھ آپریشنز میں آپریشن کے کوڈ ورڈز لکھنے لگا اور اُنہیں مرتب کرکے مختلف بٹالینز میں تقسیم کرتا۔ کیونکہ ہر کسی کا اپنا مخصوص اور الگ کوڈ ہوتا جو مختلف فریکینسیوں پر سیٹ ہوتا۔

 

آپ ہر آپریشن کیلئے کوڈز کس طرح ڈیزائن کرتے تھے؟

دو کوھہ کی چھاؤنی میں،  ہیڈ کوارٹر اور ہماری بلڈنگ کے درمیان، ٹیلی کمیونیکشن کے میسج سنٹر کا دفتر تھا۔ ایک دفعہ میں اور جناب فشارکی اس دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے اور جناب بہشتی کے دستور کے مطابق پانی اور خشکی  پر ہونے والے آپریشن کیلئے کوڈ ورڈز ڈیزائن کر رہے تھے۔ اس طرح کے آپریشن کے بارے میں ہماری سوچ یہ تھی کہ لوگوں کے درمیان کس طرح کی گفتگو ہونی چاہیے۔ مثلاً مختلف الفاظ جیسے کشی، چپو، پانی اور خشکی کو سامنے رکھ کر ہر ایک کیلئے کوڈز ڈیزائن کرتے تھے۔ مثلاً اس جملہ "کشتی کی ضرورت ہے" کیلئے ہم نے کوڈ ۱۰۲۳ بنایا تھا۔

 

آپ اس طولانی مدت میں حتماً کئی مرتبہ زخمی ہوئے ہونگے، کونسا زخمی ہونا آپ کو زیادہ  اچھی طرح یاد ہے؟

میں دو کوھہ چھاؤنی سے اندیمشک جانے کیلئے اپنا بیگ تیار کر رہا تھا کہ جناب بہشتی آگئے اور کہنے لگے: "کہاں جا رہے ہو؟" میں نے کہا: "تہران" انھوں نے پوچھا: "کتنے دن کیلئے؟" میں نے کہا: "۱۰ دنوں کیلئے" تو انھوں نے کہا: "دس دن تو بہت زیادہ ہیں، ۵، ۶ دنوں میں واپس آجانا" میں اُن سے بحث کرنا چاہتا تھا لیکن چھٹی منسوخ ہوجانے کے خوف  سے کہا: "قبول ہے" میں اس فکر میں تہران پلٹا کہ چھٹی والے کاغذ پر تو ۱۰ دن کی چھٹی لکھی ہوئی ہے۔

میرے تہران آنے کے کچھ دن بعد، جیسا کہ ٹیلی فون تو تھا نہیں، اُن کی طرف سے جناب بہشتی میرے گھر پر آئے اور کہا: "حاج حسین کہہ رہے ہیں کہ آج رات ہی واپس آجاؤ۔" میں نے کہا: "ظہر کے بعد تو کوئی ٹرین بھی نہیں جاتی، اُن سے کہیں کہ میں کل آجاؤں گا۔" لیکن جناب بہشتی نے اصرار کرتے ہوئے کہا: "انھوں نے تاکید کی ہے کہ آج رات ہی واپس آجانا" اُس وقت میں گھر میں اکیلا تھا، میں نے بیگ تیار کرکے اپنے پڑوسی سے کہا: "میری ماں کو بتادینا کہ میں چلا گیا ہوں۔" کسی نہ کسی طرح میں نے خود کو صبح تک دو کوھہ کی چھاؤنی تک پہنچایا، وہاں پہ دیکھا کہ ہر کوئی تیاری میں مصروف ہے۔ اُس زمانے میں ڈویژن کے پاس ایک ایمبولنس تھی جس پر مختلف آپریشنوں میں وائرلیس  حمل کئے جاتے۔ میرے پہنچتے ہی حاج حسین نے بغیر کسی وضاحت کے مجھ سے کہا: "جاؤ اپنا میجک باکس اٹھاکر لے آؤ۔" میرے پاس ہینڈ گرنیڈ کا ایک باکس تھا کہ جس میں تیار شدہ کوڈورڈز رکھ کر چھپا دیتا تھا۔ میں اُسی جملے سے سمجھ گیا کہ کوئی آپریشن ہونے والا ہے۔

ہم ایمبولنس میں بیٹھ کر شلمچے کی طرف گئے، آپریشن میں جب تک ہمارے ڈویژن کی باری آتی، میں نے اس عرصے میں اپنے باقی ماندہ کوڈ ورڈز کا کام پورا کرلیا۔ ہمارے  ڈویژن کی طرف سے آپریشن شروع ہونے کے بعد، حاج حسین جو کہ فرنٹ لائن پہ تھے اُنھوں نے مجھ سے رابطہ کرکے کہا: "بٹالینز کے کوڈ اور پاسورڈ بھیج دو۔" میں نے خود سے کہا: "کوڈز میں خود لے جاؤں گا تاکہ اُنکی وضاحت بھی کرسکوں۔" رضا جلیلی اور رضا محمدی کے ساتھ ٹویوٹا میں بیٹھ کر فرنٹ لائن کی طرف چلے۔  راستے میں مٹی بہت اُڑ رہی تھی، ہم نے راستے سے کچھ سپاہیوں کو بھی سوار کیا تاکہ اُنہیں بھی فرنٹ لائن تک چھوڑ دیں۔ ابھی ہم فرنٹ لائن کے نزدیک پہنچے تھے کہ ایک کاٹیوشا میزائل ہم سے کچھ فاصلے پر آکر لگا، میرئی سائیڈ کے شیشے ڈائریکٹ میرے منہ پر لگے۔ گاڑی کے پیچھے جو لوگ تھے وہ سب شہید ہوگئے۔ میں بھی زخمی ہوگیا تھا، میں نے فوراً گاڑی سے باہر چھلانگ لگادی۔ بہرحال مجھے میڈیکل سنٹر پہنچایا گیا اور میری آنکھوں میں شیشے کے پرزے گھس جانے کے سبب میری آنکھ پر پٹی باندھ دی گئی اور مجھے اہواز بھیج دیا گیا۔ میں بس اسی فکر میں تھا کہ میری آنکھیں چلی گئیں اور میں بہت پریشان تھا، لیکن تہران آنے کے بعد علاج کے ذریعے مجھے بینائی حاصل ہوگئی۔

 

آپ نے بہت سے لوگوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہوگا، کس کی شہادت کا لمحہ آپ کو یاد ہے؟

میں بہت سے آپریشنوں میں وائرلیس آپریٹر  کے طور پر بہت سے افسروں  کے ساتھ رہا۔ آپریشن فاو سے پہلے، مہران شہر کا دفاع محمد رسول اللہ (ص) کے ۲۷ ویں ڈویژن کے فوجیوں  کو سونپا گیا تھا، لیکن اس آپریشن کے شروع ہوتے ہیں ہمارا ڈویژن آپریشن میں شرکت کیلئے چلا گیا۔ اسی دوران صدام کی فوجوں نے مہران شہرپر دوبارہ قبضہ کرلیا ، فاو آپریشن ختم ہونے کے بعد محمد رسول اللہ (ص) کا ۲۷ واں ڈویژن مہران شہر کو دوبارہ آزاد کرانے گیا۔ اس دوران، میں تہران میں تھا اور رضا دستوارہ اسی آپریشن میں شہید ہوا۔ میں ان کی شہادت کے لمحات کو نہیں دیکھا سکا، لیکن میں نے ان کی  تشییع جنازہ میں شرکت کی۔ شاہراہ شریعتی پر تشییع جنازہ کے بعد، میں اُن کےتابوت لیجانے والی ایمبولنس پر سوار ہوکر اُن کے ساتھ گیا۔

اس کے علاوہ میں بدر آپریشن میں جناب جعفر محتشم اور ان کے جانشین قلی اکبر کے ساتھ انصار بٹالین میں تھا۔ میں اور محتشم مورچے کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم نے نہایت ہی تعجب سے دیکھا کہ ہمارے سیدھی طرف چند میٹر بلند ایک سڑک ہے جس پر سے قلی اکبر موٹر سائیکل پر بیٹھے ہماری طرف آرہا ہے ۔ یہ راستہ بالکل عراقی فوجیوں کے سامنے تھا اور ہم نے دیکھا کہ مورچوں کے پیچھے موجود ٹینکوں نے ان کی طرف فائرنگ کرنا شروع کردی۔ اور ہم گولیوں کو اپنے سروں سے کے اوپر سے گزرتا ہوا دیکھ رہے تھے اور ہم نے دیکھا کہ اکبری کیسے شہیدہوا۔ اس واقعہ کے بعد میں نے شہید عباس کریمی کو دیکھا ۔سب افراد نے اپنے اس افسر کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا اور  وہ اس کوشش میں تھے کہ دشمن کی طرف سے آنے والی کوئی گولی ان کو نہ لگ جائے۔ اُسی جگہ میرے پیر پر ایک ٹکڑا آکر لگا اور اس سے پہلے کے مجھے پیچھے لے جایا جاتا، وہ بھی شہادت کے درجہ پر فائز ہوچکے 



 
صارفین کی تعداد: 3655


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔