یادوں پر مشتمل کتاب "بچہ ھای حاج قاسم" کے مصنف سے گفتگو

ہم ان یادگار لمحات کیلئے پریشان ہیں، جو ذہنوں سے محو ہورہے ہیں

الہام صالح
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-8-21


لوگ اپنے ذوق  کے مطابق کسی ایک طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ قلمکار بھی غالباٍ کسی ایک خاص موضوع کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور اسی بارے میں اپنا قلم اٹھاتے ہیں۔ ان میں سے بعض "دفاع مقدس" کے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں۔ محترمہ افسر فاضلی شہر بابکی، بھی اسی طرح کے تحریر نگاروں میں سے ہیں، جو کہ بچپن سے ہی ایسے ماحول میں رہے کہ"دفاع مقدس" کو بطور کامل سمجھ سکیں۔ ان کی پیدائش سن ۱۹۷۶ء میں صوبہ کرمان کے شہر بابک میں ہوئی۔ وہ اشعار، زبانی تاریخ اور یادگار واقعات کی تحریر کے میدانوں میں سرگرم عمل رہے۔ اور کتاب "بچہ ھای حاج قاسم" جو کہ ان کی نگارش ہے، پچھلے سال اگست کے مہینے سے اب تک تین دفعہ شائع ہوچکی ہے۔ انھوں نے دفاع مقدس سے اپنے لگاؤ اور کتاب "بچہ ھای حاج قاسم" کے بارے میں بات کی ہے۔ تاکہ وہ اس کتاب کے بارے میں انٹرویو کیلئے سردار حسین معروفی کی توجہ حاصل کرسکیں، انھوں نے ایک غیر معمولی طریقہ کار اپنایا ہے۔ افسر فاضلی شھر بابکی نے اس بارے  میں زبانی تاریخ کی ویب سائٹ سے گفتگو کی۔

 

انقلاب اور دفاع مقدس کے بارے میں قلم اٹھانے کا شوق آپ میں کس طرح پیدا ہوا؟

دفاع مقدس سے مجھے بہت لگاؤ تھا۔ شہدا کے جنازوں میں شرکت کیا کرتا تھا اور ان کیلئے آنسو بہاتا تھا۔ میرے والد مرحوم اس وقت (دفاع مقدس کے دوران) کی علمی و ثقافتی شخصیت شمار کیئے جاتے تھے۔ وہ حافظ قرآن، قاری قرآن، شاعر، خطّاط اور اس کے ساتھ ساتھ ذاکر اہل بیت اور شبیہ ساز واقعہ کربلا تھے۔ اس کے باوجود کے ضعیف تھے، جنگ پہ جاکر لڑنے اور شہادت کے مشتاق تھے۔  انھوں نے کئی دفعہ محلے میں موجود جنگی امور  کے ذمہ دار افراد سے بات کی لیکن انھوں نے ان کے سن اور پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ سے انھیں جنگ پر جانے سے منع کردیا۔ میرے والد محترم کہا کرتے تھے: اگر میں اسلحہ اٹھا کر نہیں لڑ سکتا تو مجاہدوں کیلئے کم از کم چائے تو بنا سکتا ہوں، پیاز تو چھیل سکتا ہوں۔ شہادت کی خواہش ان کے دل میں ہی رہ گئی اور وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ والد محترم ہمیشہ انتظار میں رہتے تھے کہ ہمارے خاندان یا محلے کا کوئی فرد جنگ سے واپس آئے، مجھے فوراً بھیجتے تھے کہ میں اسے ان کی طرف سے اپنے گھر پر آنے کی دعوت دوں۔ اور میں اپنے گاؤں کی گلیوں کو عبور کرتا ہوا ان کے پاس جاتا تھا اور انھیں اپنے والد کی طرف سے دعوت دیتا۔ وہ لوگ بھی والد محترم سے خاص لگاؤ رکھتے تھے، رات کو ہمارے یہاں آجایا کرتے تھے تاکہ  جنگ پر پیش آنے والے واقعات بیان کریں اور مجاہدوں کے ایثار و فداکاری اور ان کی شہادت کے بارے میں بیان کریں۔  میں اور میرے بہن بھائی بھی بیٹھ کر ان کی باتوں کو سنا کرتے تھے۔ اسی وقت سے میں نے اپنے اندر اس موضوع کے بارے میں شدید عشق کو محسوس کیا۔

 

سب سے پہلی کتاب جو آپ نے اس بارے میں شائع کروائی وہ کونسی کتاب تھی؟

۱۰، ۱۲ سال کی عمر سے جب میں نے شعر پڑھنے شروع کیئے تو جنگ، میدان جنگ، شہادت اور قیدیوں کی آزادی کیلئے میں نے کئی اشعار کہے۔ اب تک ۱۵ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں سے ۱۳ شعروں کی کتابیں ہیں اور ۲ نثر  کی ہیں۔

دفاع مقدس کے بارے میں میری سب سے پہلی چھپنے والی کتاب، اشعار کا مجموعہ تھا، جس کا نام "فقط برای کسانی کہ عشق را بلدند"(صرف ان لوگوں کیلئے جو عشق کرنا جانتے ہیں) تھا اور وہ  ۲۰۰۹ء میں انتشارات فرہنگ گستر تھران نے شائع کی۔ صوبہ کرمان میں دفاع مقدس کے بارے میں صرف اشعار پر مشتمل یہ پہلی کتاب تھی۔ شہداء کی یاد میں منعقد ہونے والے پروگراموں میں شعر پڑھنا بھی میری سرگرمیوں میں سے ایک تھی۔  اظہار تشکر کی سب سے پہلی سند مجھے نوجوانی میں اس شعر کی وجہ سے ملی کہ جسے صوبے کے نوجوانوں اور بچوں کی فکری تربیت کے ادارے نے انتخاب کیا تھا اور وہ مجھے جناب قاسم سلیمانی ے دی تھی۔ مجھے کئی سندیں جناب قا سم سلیمانی نے دی ہیں، جن میں سے ہر ایک میرے لیئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دفاع مقدس کے بارے میں میری دوسری کتاب جو شائع ہوئی، "علمدار بصیر" تھی۔ جس میں شہید با عظمت علی علویان کا زندگینامہ اور واقعات تھے اور ان کے علاوہ شہید نور علی شوشتری کے بارے میں بھی تھا جو سیستان و بلوچستان میں ایک دہشت گردی کے واقعے  میں درجہ ٔ شہادت پر فائز ہوئے۔ شہید نور علی شوشتری، کتاب "بچہ ھای حاج قاسم" (حاج قاسم کے ساتھی) کی اصلی شخصیات میں سے ہیں۔

 

آپ کی جناب حسین معروفی سے واقفیت کیسے ہوئی اور کس طرح آپ کو ان کے واقعات پر مشتمل کتاب لکھنے کا خیال آیا؟

جناب معروفی  اور میں ایک ہی شہر سے ہیں اور میں بچپن سے ہی جنگ کے زمانے میں ان کی باتوں کو غور سے سنا کرتا تھا۔ یہ کہنا بہتر ہے کہ تقریباً تیس سالوں سے ان کی شخصیت سے واقف ہوں لیکن کتاب "علمدار بصیر" کے چھپنے میں انھوں نے میرے ساتھ بہت ہی مخلصانہ طور پر معاونت اور مدد کی، اس وقت وہ فوج کے ثقافتی معاون تھے اور یہی چیز سبب بنی کہ میری ان سے دن بدن واقفیت میں اضافہ ہوا۔ کتاب "علمدار بصیر" کی اشاعت کے بعد میں نے جناب معروفی کو کئی مرتبہ ان کے اپنے واقعات کو (کتبی صورت) میں) شائع کرنے کی تجویز دی، لیکن وہ کہتے تھے: "جلدی مت کرو، فکر مت کرو، وقت بہت ہے۔" ایک رات قطب آباد کے شہداء کی یاد میں ہونے والی تقریب میں انھوں نے اپنی تقریر کے دوران اپنے شہید استاد کے ایک خط کی طرف اشارہ کیا اورکہا: "میں شہید احمد پور کو جنگی آپریشن میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا کیونکہ میں ا س سے بہت محبت کرتا تھا اور ڈرتا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آجائے لیکن وہ  صرف ایک خط کے ذریعے فرنٹ لائن میں جاکر لڑنے کی اجازت لینے میں کامیاب ہوگیا۔ "

 

تو یقیناً آپ کو بھی (اس بارے میں اجات لینے کیلئے) انہیں (جناب معروفی کو) خط لکھنے کا خیال آیا ہوگا؟

جی ہاں، میں نے خود سوچا کہ خط (لکھ کر اجازت لینا) ایک اچھا طریقہ ہے۔ میں نے جناب معروفی کو چھ صفحات پر مشتمل  ایک خط لکھا، جس میں معاشرے کے کئی مسائل اور مثبت فکروں کا ذکر کیا اور ان سے درخواست کی کہ اپنی قیمتی یادوں اور واقعات کو آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے یادگار کے طور پر چھوڑ دیں۔

 

آپ نے اس خط میں کیا لکھا تھا؟

میں نے اس خط میں ایک جگہ لکھا: "مجھے ا ن واقعات کی فکر ہے جو آہستہ آہستہ ذہنوں سے مٹ رہے ہیں۔ اگر آئندہ آنے والے زمانے میں کسی وقت ہماری اولادیں ہم سے پوچھیں کہ دفاع مقدس میں ہمارے شہر کا کیا کردار تھا تو ہم انہیں کیا جواب دیں گے؟" اس خط کو پڑھنے کے بعد معروفی صاحب نے اپنی یادوں اور واقعات کو قلمبند کروانے کا حتمی فیصلہ کرلیا البتہ انھوں نے خود اس سے پہلے اپنی قید کے حالات پر مشتمل واقعات کو ایک کتابچے میں جمع کیا تھا، جسے میرے حوالہ کر دیا تھا۔ وہ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے آخری لمحے تک پریشان تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں مجھ سے خود اپنے بارے میں اپنی تعریفیں کرنے کا قبیح فعل انجام نہ پاگیا ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے لئے اور مجھ حقیر کیلئے خاتمہ بخیر کی دعا کرتے رہتے تھے۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنے ان واقعات کو قلمبند کروانے کی سب سے اہم دلیل، رہبر معظم انقلاب کا وہ حکم تھا جس میں انھوں نے جنگی سپاہیوں سے اپنے واقعات قلمبند کروانے کو کہا تھا۔

 

آپ نے یہ کتاب کس طرح لکھی؟ ہمیں اس بارے میں کچھ بتائیے۔

اس کتاب کو لکھنے میں سب سے بڑی مشکل، فاصلے کا زیادہ ہونا تھا۔ معروفی صاحب تہران میں رہتے تھے اور بہت مصروف رہتے تھے اور میں یہاں شہر بابک میں رہتا تھا۔ ان کا انٹرویو لینے کا امکان بہت کم تھا۔ اکثر انٹرویو اور ان کے واقعات کو یاد داشت کرنے کا کام ٹیلیفون پر انجام پایا۔ بہت کم دن ایسے ہوتے تھے جب ہم کئی گھنٹے ٹیلیفون پر بات نہ کریں۔ بعض واقعات اور یادوں کو خود لکھ کر ایمیل یا فیکس کر دیا کرتے تھے۔ جب بھی شہر بابک آتے تھے، جو کہ بہت کم ہوتا تھا، تو ہماری ملاقات کئی گھنٹوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ ان کے کچھ جلسے اور ملاقاتیں جنگی سپاہیوں اور عراق سے آزاد ہوکر آنے والے سپاہیوں کے ساتھ ہوا کرتی تھیں جو کہ ہمارے کام میں بہت مؤثر تھیں۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کی مصروفیت اور بعض اوقات جنگ میں کیمیائی اسلحوں سے وارد ہونے والی جسمانی مشکلات کے تازہ ہوجانے سے اور مختلف صوبوں میں ان کی ڈیوٹی، اس مشکل کو چند برابر کر دیا کرتی تھیں۔

 

کتاب کا عنوان آپ نے تجویز کیا تھا یا سردار معروفی نے؟ آیا دوسرے عنوان بھی زیر غور  رہے؟

کتاب کی تدوین کی بعد، ہم دونوں نے ہی موضوع سے متعلق چند عناوین کی تجویز دی، جن میں سے جناب معروفی صاحب نے عنوان "بچہ ھای حاج قاسم" (جناب قاسم کے ساتھی) کو اس کتاب کیلئے عنوان چن لیا اور اس نام کو انتخاب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جنگ کے زمانے میں بھی اور قید کے زمانے میں بھی عراقی دستہ نمبر ۴۱ ثار اللہ کو "بچہ ھای حاج قاسم" کے نام سے پکارتے تھے۔ معروفی صاحب کا ماننا تھا  کہ دستہ ثار اللہ کے ا فراد آج بھی چاہے جہاں بھی ہو "قاسم صاحب کے ساتھی" ہیں۔ البتہ  معروفی صاحب نے اس نام کیلئے اپنے جنگ کے کئی ساتھیوں اور قید کے ساتھیوں سے مشورہ کیا تھا اور ان سب نے ہی اس نام کی تائید کی تھی۔

 

کتاب کی اس موجودہ ترتیب پر آپ کس طرح پہنچے؟

ہم شروع سے ہی اس کتاب کیلئے مجموعی طور پر ترتیب بناچکے تھے جو کہ آخر تک نہیں بدلی لیکن مختلف ابواب کی ترتیب میں بعض اوقات تبدیلی کرنا پڑی۔

 

اس کام کے درمیان کبھی آپ مشکلات سے روبرو ہوئے؟ مثلاً معروفی صاحب واقعات بھول گئے ہوں یا نہیں؟

فطری بات ہے کہ دفاع مقدس سے اتنے سال گزر جانے کے بعد بعض اوقات ان واقعات میں بھول چوک واقع ہوجائے۔

 

اس مشکل کو آپ لوگوں نے کس طرح حل کیا؟

معروفی صاحب کے ساتھ جب یہ مشکل پیش آتی تھی کہ یہ واقعہ کب رونما ہوا یا کون سے جنگی آپریشن میں ایسا ہوا، وہ فوراً اپنے جنگ کےساتھیوں، مختلف دستوں کے افسروں اور قید کے ساتھیوں سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا کرتے تھے۔ اور ان کی طرف سے کی جانے والی یاد آواری سے ہر طرح کے شبہے اور شک کو برطرف کیا کرتے تھے۔  جب بھی شہر بابک آتے تھے، ان لوگوں کے ساتھ ملاقات کیا کرتے تھے۔

 

آیا کتاب کی تدوین میں صرف جناب معروفی صاحب کے بتائے ہوئے واقعات پر آپ نے اکتفا کیا یا اس کے علاوہ بھی آپ نے تحقیق و جستجو کی؟

اس کتاب میں اصلی ترین موضوع ان کی زبانی بتائے جانے والے واقعات تھے لیکن کبھی کبھی تحقیق و جستجو کی بھی ضرورت پیش آتی تھی۔ جو کہ معمولاً ناموں، جنگی آپریشنز کی تاریخوں اور چند واقعات کے بارے میں تھی۔ اِن معاملات میں، میں زیادہ تر ان کے جنگی ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں رہا کرتا تھا۔

 

کتاب کا کونسا حصہ خود آپ کے لئے دلچسپ تھا اور آپ کو زیادہ پسند ہے؟

میرے لئے  اس شخص کی حیثیت سے کہ جس نے اس کتاب کیلئے واقعات کو قلمبند کیا اور ایک سال تک اس نے ان واقعات کے ساتھ ہی اپنی زندگی کا ہر لمحہ گزارا، خوشی میں ہنسا اور غمگین یادوں میں رویا، کسی ایک حصے کا انتخاب کرنا آسان کام نہیں ہے۔ مجھے اول سے آخر تک پوری کتاب پسند ہے۔ میرے خیال میں دلچسپ واقعات پوری کی پوری کتاب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دفاع مقدس کا حصہ ایک خاص جذابیت رکھتا ہے اور قید کا حصہ بھی اسی طرح سے ایک خاص جذابیت کا حامل ہے۔ وہ چیز جو سب سے زیادہ جذاب ہے، مجاہدوں کی استقامت اور ولایت و اقدار سے حتی ایک  قدم بھی پیچھے نہ ہٹنا ہے اور اس کے لئے انھوں نے اس دفاع مقدس کے دوران اپنی جان اور زندگی کی بھی پروا نہ کی۔ روحانیت سے سرشار ہونا، عظمت کا احساس، ایرانی ہونے اور مسلمان ہونے پر فخر، خدا سے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہونا اور شہادت کا مشتاق ہونا؛ یہ حالت ایجاد ہونا اسی کام کا نتیجہ ہے۔ میں دفاع مقدس کے بارے میں اس کتاب اور دیگر کتابوں کی تصنیف کے دوران بارہا اس حالت میں مبتلا ہوا ہوں۔

 

کیا آپ ابھی بھی کسی کتاب کی تصنیف میں مصروف ہیں؟

دفاع مقدس کے بارے میں اشعار پر مشتمل کتاب "ھم نفس با لالہ ھا" کی تدوین میں مشغول ہوں جو کہ شہر بابک کے شہدا کے بارے میں ہے اور اشاعت کے لئے تیار ہے۔ اس کے بعد ایک اور کتاب جو شہر بابک کے ۳۶۰ شہداء کے واقعات و حادثات کے بارے میں ہے، جس پر ایک تہائی کام ہوچکا ہے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3764


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔