آرٹ گیلری سے فرنٹ لائن تک

اصغر نقی زادہ، اُس کا کیمرہ اور ہینڈ گرنیڈ!

سارا رشادی زادہ
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-8-19


اصغر نقی زادہ، تھیٹر، سینما اور ٹی وی کے آرٹسٹ، جنہوں نے اپنی  کارکردگی کا آغاز آرٹ گیلری سے کیا ہے، عراق کی ایران پر مسلط جانے والی جنگ کے آغاز سے ہی ایک فوٹو گرافر کے عنوان سے جنگی محاذوں پر گئے تاکہ جنگ کے ایک ایک لمحہ کو تصویر کے سانچے میں ڈھال دیں۔ وہ، جو آجکل ۵۴ سال کے ہیں، اُنھوں نے دفاع مقدس میں جنوبی و مغربی محاذوں پر اپنے گزرے واقعات کے بارے میں ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ سے بات چیت کی۔

 

آپ کس زمانے میں پہلی مرتبہ میدان جنگ میں گئے؟

میں پہلی بار ۱۹۸۲ء میں فتح المبین آپریشن میں شرکت کیلئے جنوبی محاذوں پر  گیا، لیکن ہم مسجد  کی طرف سے اور اپنی ذاتی جوش و جذبہ کی وجہ سے وہاں گئے تھے لہذا ہمیں وہاں سے واپس بھیج دیا گیا۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ ہمیں واپس تہران بھیجا جا رہا ہے، تو ہم نے افسران سے کہا ہمیں اھواز کے جیلوں میں ڈال دو تاکہ راتوں کو وہاں سو سکیں لیکن ہمیں تہران واپس مت بھیجو اور انھوں نے  ہمیں جواب دیا: "ہمارے پاس جیلوں تک میں جگہ نہیں ہے۔"

جیسے تیسے ہم تہران واپس پلٹ آئے  اور فتح المبین آپریشن میں شریک نہ ہوسکے۔ اُس کے بعد بیت المقدس آپریشن کیلئے  جب میں محاذ پر گیا تو وہاں پر بیمار پڑ گیا اور انفیکشن نے میرے پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لہذا مجھے اھواز کے جندی شاپور ہسپتال بھیج دیا گیا اور اُس کے بعد ٹرین کے ذریعے تہران بھیج دیا گیا۔

 

بیت المقدس آپریشن کے وقت آپ کتنے سال کے تھے؟ اور آپ نے تہران پلٹنے کے بعد کیا کیا؟

میں اُس زمانے میں تقریباً ۲۱ سال کا تھا اور آرٹ گیلری میں کام کرتا تھا۔ جب میں صحتیاب ہوا تو وہ ۱۹۸۳ ء کا سال تھا، میں ایک بار پھر میدان جنگ کی طرف پلٹا اور اس دفعہ آپریشن و الفجر ۳ میں شرکت کیلئے مہران گیا۔ البتہ اس آپریشن کے بعد میں خیبر، کربلائے ۵ اور مرصاد آپریشنز میں بھی حاضر رہا۔ مرصاد آپریشن کے بعد بھی میں ایک آپریشن میں  موجود تھا جو بالکل جنگ بند ہونے سے پہلے والا آپریشن تھا۔ اُس آپریشن میں ایرانی اور عراقی فوجیں شلمچہ کے بارڈر پر کھڑی ہوئی تھیں  اور ایک بھی گولی فائر کئے بغیر ایرانی شہداء اور عراقی لاشوں کی ردّ و بدل کر رہی تھیں۔

 

کربلائے ۵ آپریشن اور اس آپریشن میں جو کچھ دیکھا، اُس بارے میں بتائیں۔

کربلائے ۵ آپریشن میں ہمارا مرکز بالکل مچھلیوں کی جھیل کے پشت پر تھا۔ وہاں پر ایک سہ راہ تھا جو "سہ راہ شہادت" سے مشہور ہوگیا تھا اور وہاں تک پہنچنے کیلئے صرف ایک ہی راستہ تھا۔ اس راستے کے دونوں طرف دشمن نے اپنے ٹینکس کھڑے کیئے ہوئے تھے اور جو بھی اس سہ راہ تک پہنچتا دشمن کے گولہ کی زد میں آجاتا، اسی وجہ سے یہ سہ راہ "سہ راہ شہادت" سے مشہور ہوگیا تھا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۴ جنوری ۱۹۸۷ء والے دن اور کربلائے ۵ آپریشن میں، حاجی ذبیح اللہ بخشی اپنے داماد نادر نادری کے ساتھ اپنی ٹویوٹا گاری پر بیٹھے ہوئے سہ راہ شہادت تک پہنچے۔ حاجی بخشی سہ راہ پہنچنے کے بعد گاڑی سے اتر گئے؛  بالکل اسی لمحے اُن کی گاڑی پر کاٹوشا نامی راکٹ آکر لگا، اُن کا داماد جو کہ گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا، وہیں گاڑی میں جل کر درجہ شہادت پر فائز ہوگیا۔ اسی آپریشن کے دوران شہید امیر حاج امینی جو پہلے والے آپریشنز میں اپنی ایک  آنکھ گنوا چکے تھے، اُن کی اسی آنکھ پر گولی کا ایک ٹکڑا  لگا اور وہ  شہادت سے سرفراز ہوئے۔

کلی طورپر میرے عقیدے کے مطابق کربلائے ۵ آپریشن  ہماری دشمن کے ساتھ بہت بڑی آرٹلری جنگ تھی۔ اس آپریشن میں شدید جھڑپیں ہوئی تھیں۔

 

کیا آپ نے فائٹر کے عنوان سے میدان جنگ میں شرکت کی؟

نہیں، میں محمد رسول اللہ (ص) نامی ۲۷  ویں ڈویژن اسٹاٖف میں فوٹوگرافر کے طور پر تھا  اور احسان رجبی جیسے افراد بھی اُسی اسٹاف میں فوٹر گرافر کے عنوان سے موجود تھے۔

 

اگر یہ طے پائے کہ آپ میدان جنگ کی کسی ایک فوٹو کا انتخاب کریں، تو آپ کس تصویر کا انتخاب کریں گے؟

اُس دوران میں نے بہت سے تصویریں لیں اور اُن سب کو ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کے دستاویزات کے دفتر میں جمع کروادیا،  لیکن مشہور ترین تصویر جو اُس زمانے میں کھینچا گیا وہ خیبر آپریشن سے متعلق ہے۔ وہ تصویر ۲۱ فروری ۱۹۸۴ء کی شام ۵ بجے کھینچی گئی ہے، اُس میں شہید افراسیابی کٹے پاؤں کے ساتھ کھڑا ہیں اور اُن کی پشت پر بٹالین کے افراد جانے کی حالت میں ہیں۔

 

جنگی شرائط میں فوٹوگرافی کرنا کیسا ہے؟

میں میدان جنگ کے ابتدائی دنوں میں ٹیلی فوٹو لینس استعمال کرتا رہا اور مسلسل فوٹوگرافی کے اصولوں کی مراعات کرتا  تھا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس طرح سے فوٹوگرافی کرنا بہت دشوار  ہے، کیونکہ مجھے صرف اتنی فرصت ملتی کہ سر اٹھا کر بغیر فوکس کئے  تصویر کھینچ لوں، اسی وجہ سے اس کے بعدمیں نے چوڑے لینس کا استعمال شروع  کردیا۔ اُس زمانے میں مجھے فوجی ٹریننگ دی گئی تھی، لیکن میرے پاس اسلحہ نہیں تھا صرف ایک ہینڈ گرنیڈ تھا کہ دشمن کے فوجی کا سامنا ہونے یا گرفتار ہونے کی صورت میں، اُس گرنیڈ کو کیمرے کے پاس رکھ کر کیمرے کو اُس کے نگیٹو سمیت اُڑا دیا جائے۔

 

آپ نے جنگی شرائط کو کیسا پایا؟

جنگی شرائط بہت ہی دشوار ہوتی ہیں۔ مثلاً آپریشن خیبر کے دوران ہمیں بہت سی  مشکلات کا سامنا تھا جیسے وسائل کا نہ ہونا اور دشمن کا شدید دباؤ۔ ہماری بیک سائیڈ پر ۱۳ کلومیٹر تک پانی ہی پانی تھا اور ہماری غذائی اشیاء اور ایندھن تک رسائی نہیں تھی، اس حال میں شہید حاج محمد ابراہیم ہمت، ڈویژن کا کمانڈر اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے باوجود خود موٹر سائیکل پہ پٹرول کی تلاش میں جاتا اور واپس آتا۔

 

میدان جنگ پہ رمضان کا مہینہ کس طرح گزرتا تھا؟

میں نے دومرتبہ رمضان کا مہینہ میدان جنگ پر گزارا ۔ ایک دفعہ سن  ۱۹۸۴ء میں اور دوسری دفعہ  ۱۹۸۹ء کا رمضان تھا کہ میں میدان جنگ کی طرف گیا۔ کلی طورپر جو فوجی مستقل طور پر قیامگاہ میں رہتے تھے اور جہاں وسائل کی مستقل  فراہمی تھی وہ  روزہ رکھتے تھے، لیکن بٹالینز کیلئے جنگی شرائط اور مستقل حرکت میں ہونے کی وجہ سے روزے رکھنا ممکن نہیں تھا۔ جنہیں مستقل سپلائی جاری تھی اور جو مسلسل قیامگاہ میں رہ رہے تھے وہ روزہ رکھتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ ہم نے سن ۱۹۸۹ء کے ماہ رمضان میں  آرٹ گیلری کی طرف سے ڈیوٹی لگوائی تاکہ دو کوھہ میں موجود چھاؤنی کی  طرف جائیں۔ میں جناب حسینی کے ساتھ پردے پر فلم چلانے والی ایک ڈیوائس اور کچھ فلموں کی ریلیں لیکر نیلے رنگ کی نیسان پر  سوار ہوا اور دو کوھہ پہنچا تاکہ وہاں فوجیوں کیلئے فلم چلائیں۔ ہم نے ڈائریکٹر شہریار بحرانی کی فلم "گذرگاہ" کو پردے پر چلایا۔

 

آرٹ گیلری میں اپنے کام کے آغاز کے بارے میں بتائیے۔

اپنے دوستوں جیسے امیر حسین فردی اور مرحوم فرج اللہ سلحشور اور کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ پہلی دفعہ آرٹ گیلری میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ شروع میں ہمارا دفتر فلسطین اسکوائر پر تھا پھر کچھ دنوں بعد سمیہ اسٹریٹ پر موجود ایک بلڈنگ میں منتقل ہوگئے۔ اُن دنوں ہم سینمائی فلموں پر کام کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ آرٹ گیلری میں فلمی امور کے شعبہ سے بھی منسلک تھے۔ کچھ عرصہ بعد امیر حسین فردی ہم سے الگ ہوگیا اور بچوں کے کیہان نامی مجلہ میں کام کرنے چلا گیا، اسی دوران میں بھی  ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں چلا گیا اور ٹیچر کے عنوان مصروف ہوگیا، لیکن پھر بھی  سن ۱۹۹۸ء  تک اور اس ادارے میں جناب زم کی موجودگی تک ، آرٹ گیلری میں اپنے کام کو بھی محفوظ ہوا تھا۔

 

آخری سوال، ایران پر عراقی کی طرف سے تھونپی جانے والی جنگ کے ختم ہونے کے بعد، آپ نے کون سی فلموں میں کام کیا؟

ایران پر عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کے خاتمہ کے بعد  میں نے بہت سی فلموں جیسے مہاجر، چشم شیشہ ای، وصل نیکان، از کرخہ تا راین، خاکستر سبز، سرزمین خورشید، آژانس شیشہ ای، مردی از جنس بلور، گاہی بہ آسمان نگاہ کن، دست ھای خالی، بہ خاطر خواھرم، کلبہ، دہ رقمی، دیگری، گزارش یک جشن و سلام بر فرشتگان میں کام کیا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3613


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔