دو شہیدوں کے دو واقعات

قلعہ بدر اور کربلائے یک کا مورچہ

سارا رشادی زادہ
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-8-18


جب عراق کے خلاف ایران کی آٹھ سالہ جنگ کی بات ہوتی ہے، مسلح افراد کی تصویر اُبھر کر ہمارے ذہنوں میں آجاتی ہے جنہوں نے آخری دم تک اپنے وطن کی سرحدوں کا دفاع کیا؛ لیکن تمام کاروائیوں میں فوجیوں میں سے ایک ایسا ہوتا ہے جو پورے آپریشن میں وائر لیس اٹھائے اٹھائے اپنے کمانڈر کے ساتھ رہتا ہے اور ہر طرح کی معلومات اپنے ساتھیوں تک پہنچاتا ہے۔ حمید رضا عسگریان ایک ایسا سپاہی ہے جس نے جنگ کے تمام عرصہ میں وائرلیس اٹھائے رکھا  تاکہ ہر آپریشن کی فتح کی اطلاع پہنچا سکے۔ جناب عسگریان جنہوں نے اُن وقتوں میں بہت زخم کھائے ہیں، انھیں ابھی بھی جنگ کے واقعات اچھی طرح یاد ہیں۔

 

جناب عسگریان اپنا تعارف کرواتے ہوئے  ہمیں پہلی دفعہ جنگی محاذ پر جانے  کا بتائیں۔ اُس وقت آپ کتنے سال کے تھے؟

حمید رضا عسگریان، میں ۱۳ فروری ۱۹۶۷ء کو تہران میں پیدا ہوا۔  میں جون ۱۹۸۳ء سے جب میں صرف ۱۷ سال کا تھا، ایک بسیجی کی حیثیت سے محاذ پر گیا اور میں جنگ کے آخر تک مسلسل محاذ آتا اور جاتا رہا۔ پہلے میں جونیئر بسیج کے طور پر پھر کالج اسٹوڈنٹ کے عنوان سے اور بالآخر ایک عام فوجی کے عنوان سے محاذ پر گیا  لیکن کچھ آپریشنز میں وائرلیس آپریٹر  کے طور پر اپنے کمانڈر کے ساتھ رہا۔

 

پہلا آپریشن جس میں آپ نے شرکت کی وہ کونسا آپریشن تھا؟

سب سے پہلے جس آپریشن میں شریک ہوا وہ بدر آپریشن تھا کہ جس میں وائرلیس آپریٹر کے عنوان سے  شرکت کی۔

 

جنگ کے اُنہی ابتدائی ایام میں محاذ پر  ہونے والے آپریشنز میں وائرلیس آپریٹر کے عنوان سے شریک ہوئے؟

نہیں،  میں  محاذ پر پہلے تبلیغاتی سرگرمیوں کیلئے آیا ،  کچھ عرصہ  دفاعی فضائیہ میں بھی شریک رہا  اور اُس کے بعد  ابوذر بٹالین میں وائرلیس آپریٹر کے طورپر شامل ہوگیا  اور اسی پوسٹ پہ رہتے ہوئے بدر آپریشن میں شریک ہوا۔

 

وائرلیس آپریٹر کے عنوان سے کیا آپ کے پاس اسلحہ بھی ہوتا تھا؟

وائرلیس آپریٹر کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے وائرلیس گیارہ کلو کے تھے اور اتنے بھاری تھے کہ ہم میں اسلحہ اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی لیکن دو مسلح افراد وائرلیس آپریٹر کی مدد کیلئے اُس کے پاس رہتے  کہ اگر وائرلیس آپریٹر زخمی ہوجائے یا تھک جائے تو  اُس کی مدد کرسکیں  اور حتی وائرلیس آپریٹر کی شہادت کی صورت میں وائرلیس اُٹھانے کا کام کرتے۔ البتہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ آپریشنز کے دوران وائرلیس آپریٹر   اپنے مددگاروں سے دور ہوجائے؛ لیکن خود میرے ساتھ ایسا معاملہ پیش نہیں آیا۔

 

وائرلیس آپریٹر کے عنوان سے آپریشنز اور محاذوں پر آپ کی بہت سی یادیں ہوں گی، آپ کا اُس زمانے میں سب سے دلچسپ واقعہ  کون سا ہے؟

اُس زمانے  کے واقعات میں سے  دو واقعات مجھے بہت پسند ہیں، اُن میں سے ایک بدر آپریشن سے متعلق ہے اور دوسرا کربلائے یک نامی آپریشن اور مہران کی آزادی سے مربوط ہے۔

 

ہمیں بدر آپریشن والا واقعہ سنائیں

بدر آپریشن مارچ ۱۹۸۵ء میں  اور ھور الھویزہ کے مقام پر انجام پایا، دوپہر ۲ بجے کے قریب عراقی فورسز نے جوابی کاروائی شروع کی۔ اُس زمانے میں ہم نے نقشے کے مطابق جس نقطہ کو محور بنانا تھا، اُسے محور بنایا ہوا تھا  اور تمام افراد مشخص جگہوں پر  تعینات تھے۔  ہمارے گروپس میں سے ایک نہر دجلہ کے کنارے اور دوسرے دو گروپس نہر کی سیدھ میں کھیتوں کی پگڈنڈیوں میں اپنی پوسٹوں پر تعینات تھے۔  ہمارے سپاہیوں سے تھوڑی جدوجہد اور لڑائی کے بعد عراقیوں نے ہماری بائیں سائیڈ پہ قبضہ کرلیا جو حمزہ بٹالین کے پاس تھی  اور کمانڈر کی طرف سے پیچھے ہٹنے کا حکم صادر ہوگیا۔

عقب نشینی کرتے ہوئے ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہوگئے۔ آپریشن والا علاقہ ھور (ایسا علاقہ جہاں پانی جمع ہونے سے ہری گھاس اُگ آئے)تھا  اور ہم نے اُس دن صبح گشت کے وقت کشتی سے دو راستوں عبور کیا اور ہم نے الگ الگ وقت میں اس ھور کو عبور کیا تھا۔  کچھ افراد جو عراقیوں کے گشت  سے واقف نہیں تھے، عقب نشینی کرتے وقت  اُسی صبح والے راستے پر چل پڑے اور عراقیوں نے اُنھیں اسیر بنالیا، لیکن ہم قلعے کے پیچھے کی طرف جا رہے تھے جو نجف اشرف نامی لشکر کے ہاتھ میں تھا۔  اس راستے میں عراقی ٹینک ہمارا پیچھا کر رہے تھے اور وہ اتنے زیادہ تھے کہ اُس گھاس پھونس کے میدان میں لوگ چاروں ہاتھ پاؤں سے چل رہے تھے تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے۔ بہرحال ہم اتنا چلے کہ قلعہ کے نزدیک پہنچ گئے جو درحقیقت دو الگ الگ بلند مورچوں سے بنا   تھا کہ جس پر سے گاڑی گزرتی ہے۔

جب قلعہ تک پہنچے تو ہمیں بائیں طرف سے گھوم کر قلعہ کے بھیجے سے جانا پڑا کیونکہ فائرنگ اتنی زیادہ ہو رہی تھی کہ سامنے سے قلعے تک نہیں جاسکتے تھے۔  اُس آپریشن میں ایک گروپ کا کمانڈر جس کا نام رضا اکبری تھا جو کربلائے ۵ آپریش میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ وہ اُسی شدید فائرنگ میں قلعہ کے اوپر چڑھ گئے اور کافی ٹائم تک، آدھا گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ قلعہ پر کھڑے رہے اور انھوں نے ایسا لباس بھی پہنا ہوا تھا جس سے بآسانی دیکھے جاسکتے تھے لیکن پھر بھی قلعہ پر کھڑے رہے  اور اپنی ہدایات سے لوگوں کی جان بچانے میں کامیاب رہے اور اُنہیں قلعہ کے پیچھے  کی طرف بلایا۔

وہ اسی حالت میں ہر چند منٹوں بعد کسی ایک سے آر پی جی  لیکر ٹینکوں کی طرف فائرنگ کرتے تاکہ  اپنا اور ساتھیوں کا دفاع کرسکیں  اور اُسی حالت میں، میں نے اپنی آنکھوں سے ہزاروں گولیاں، شیل،  ٹریسر دیکھے جو اُن کے ہاتھ پاؤں کے قریب سے گزر رہے تھے لیکن شہید اکبری پھر بھی نہایت ہی پرسکون حالت میں قلعہ پر کھڑے لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے۔ اندھیرا چھا جانے تک وہ قلعہ کے اوپر ہی رہے اور اندھیرا چھا جانے کے بعد عراقی ٹینکوں کا بھی آگے بڑھنا رک گیا تھا۔ جس نے اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ نہ دیکھا ہو شاید اُس کے لئے یقین کرنا مشکل ہو،  جیسا کہ میرا اتنا عرصہ محاذ پہ رہنا ایک  خو اب کی مانند ہے اور کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جو مجھے ہر روز یاد آئے۔

 

کربلائے ایک آپریشن میں پیش آنے والا دوسرا واقعہ بھی ہمیں سنائیں

کربلائے یک آپریشن میں، ہماری بٹالین آپریشن کیلئے تین مرتبہ گئی تھی۔ لیکن اس آپریشن کے تیسرے مرحلے میں طے پایا گیا کہ دن میں حرکت کی جائے اور یہی بات ہے کہ ہم ہمیشہ راتوں کو آپریشن کیلئے جاتے لیکن اس دفعہ ہم سے کہا گیا کہ اس آپریشن کیلئے دن کے وقت جایا جائے۔ اس آپریشن میں قلاویزان کے علاقے میں ٹیلوں کا سلسلہ بہت زیادہ تھا اور ٹیلے اتنے زیادہ تھا کہ وائرلیس آپریٹر کے عنوان سے دو مددگار میرے ساتھ تھے ، ان دو کے علاوہ باقی سب کھو چکے تھے  اور کچھ دیر بعد ہم دشمن کے اتنے قریب تھے کہ اسیر ہوسکتے تھے پھر ہم پلٹ کر اپنی بٹالین ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے۔

اُس دن اُجالے اور علاقے میں عراقیوں کے وجود اور اُن کے جنگی سازو سامان کی وجہ ہمارے افراد کوئی پیشقدمی نہ کرسکے اور عراقیوں کی طرف سے ہونے والی شدید فائرنگ کی وجہ سے ہلالی شکل کے مورچے  کے پیچھے قید ہو کر رہ گئے تھے۔ جب ہم اپنی بٹالین سے آملے تو اُس وقت ظہر کا ٹائم تھا ، چند منٹوں بعد اذان کی  آواز آئی۔ ہم جو کہ کچھ نہیں کرسکتے ہم نے فیصلہ کیا کہ تیمم کرکے آمادہ رہیں اور  جوتے سمیت بیٹھ کر اپنی نماز ادا کریں۔ اُدھر سے عراقی فائرنگ اتنی شدید تھی کہ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت گولیوں کی تیزی  سے مورچے کٹ جائیں گے۔

اس آپریشن میں جواد صراف نامی شخص بھی تھا جو مالک اشتر بٹالین کا اسسٹنٹ چیف تھا  اور اس آپریشن میں ہماری انصار نامی بٹالین کی مدد کیلئے آیا تھا۔اُسی وقت میں نے دیکھا کہ وہ مورچے کے بالکل وسط میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے۔ اُس کی نماز بھی لمبی ہوگئی تھی اور فائرنگ اتنی زیادہ تھی کہ سب ڈرے ہوئے تھے اور مسلسل جواد، آغا جواد، برادر صراف وغیرہ  کی آوازیں چاہ رہی تھیں کہ وہ اپنی نماز کو جلدی ختم کرے لیکن اُس کی نماز اسی طرح چلتی رہی۔ اُن لمحات میں ٹینشن اور پریشانی کے سبب میں متوجہ نہیں تھا لیکن مجھے بعد میں یاد آیا کہ نماز کے بعد ایک آواز آئی کہ محاصرہ ٹوٹ گیا ہے اور کسی بھی مشکل کے بغیر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ البتہ یہ کہنا چاہوں گا کہ جواد صراف بھی کربلائے ۵ آپریشن میں درجہ شہادت پر فائز ہوگیا۔

ہمیں بعد میں سمجھ میں آیا کہ ہمارا آپریشن دن میں اس لئے تھا کیونکہ ایک رات پہلے سید الشہداء (ع) نامی لشکر نے کاروائی کی تھی  اور کچھ ٹیلے سر کرنا رہ گئے تھے اور اگر ہم اُس دن کاروائی انجام نہ دیتے تو عراقی فورسز کی جوابی کاروائی میں یہ علاقہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا۔ سالوں بعد بٹالین کے کمانڈروں کو جب یہ واقعہ سنایا تو  یہ بات اُن کیلئے بھی بہت دلچسپ تھی۔

 

آخری سوال کے طور پر، ان آپریشن کے علاوہ کن آپریشنز میں شرکت کی؟ اور آپ محاذ سے آخری بار لوٹ کر کب آئے؟

میں بہت سے محاذوں پر دفاعی بخش میں حاضر رہا لیکن جن آپریشنز میں شرکت کی وہ بدر، و الفجر ۸، کربلائے یک، کربلائے ۴، کربلائے ۵  اور اُس کا فائنل راؤنڈ  اور نصر ۴ تھے اور اپنے آخری آپریشن کے طور پر میں بیت المقدس ۲ میں بھی حاضر رہا کہ جس آپریشن میں میرا پاؤں کٹ گیا۔ البتہ اس آپریشن کے بعد بھی میں محاذ پر گیا لیکن فرنٹ لائن پہ نہیں گیا۔ اس کے علاوہ دوسرے آپریشنز میں بھی زخمی ہوا جیسے عملیات بدر میں ترکش لگنے کے سبب میرے ہاتھ کی جراحی ہوئی اور کربلائے ۵ کے فائنل آپریشن میں بھی میرے ہاتھ، پاؤں، پھیپھڑے اور کمر زخمی  ہوئی۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3525


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔