جنگ و اسیری کی عید نوروز اور مجتبی جعفری کی یادیں

نیا سال اور کامیابی، ایک دن دو خوشیاں

گفتگو: مددی جانبان پور
ترتیب: تاریخ شفاہی ایران
ترجمہ: سید محمد روح اللہ

2016-7-11


افسر مجتبی جعفری، عراق کی جانب سے ایران کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ میں  لشکر خراسان ۷۷ کے سربراہی امور میں شریک تھے، انکا شمار جنگ کے زخمیوں اور قیدیوں میں ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل تحریر انکی وہ یادیں ہیں جو جنگ و اسیری کے دور میں عید نوروز کے دن سے متعلق ہیں۔

 

آپریشن کی رات ، بہت بڑا جشن

میں  ۵ سال محاز پر رہا اور ان تمام سالوں میں عید نوروزا جنگ کے دوران ہی گذری۔  ملٹری ڈرل یا تربیتی کیمپس میں بڑا آسان تھا، سات سین کا دسترخوان(1) بچھاتے تھے۔ کچھ چیزیں آسانی سے مل جاتی تھیں باقی وہ چیزیں جیسے خاردار تار (سیم خاردار) یا کوئی اور  جو سین سے آتی تھیں اور  جنگ کے محاز پر موجود ہوتی تھیں، وہ جمع کرکے دسترخوان پر رکھ دیتے تھے۔ اور ہمارا دسترخوان "۷ جنگی سین" کا دسترخوان بن جاتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ  ۱۹۸۲ ء میں فتح المبین آپریشن ، کا آغاز (ایرانی)سال کے دوسرے دن کیا تھا۔  ہم عید نوروز کی رات لشکر حمزہ ۲۲  کے کیمپ میں تھے، کسی کے ذہن میں بھی یہ بات  نہیں تھا کہ اگر آج  عید نوروز کی رات ہے تو کیا ہوا جنگ ہے آپریشن ہے اس سمے عید کا کیا کام ؟  لیکن اس چیز سے قطع نظر کہ کل آپریشن شروع ہونا ہے، ہم میں سے کئی افراد شہید ہوجائیں گے، ایک عظیم الشان جشن کا اہتمامکیا گیا اور نوروز کی رسمیں انجام دیں،

 

برف پر سجدہ!
۱۹۸۷ء کی عید نوروز کے دنوں ہم ایران کے شمال غرب میں تھے سال کی تبدیلی کا وقت تقریبا صبح ۴ بجے تھا۔  پہاڑی علاقہ اور صبح ۴ بجے نوروزکی ثقافتی  رسمیں ادا کرنا ممکن نہیں تھا، دوسری طرف عراق کا کرد علاقہ تھا۔ ہم دونوں نے ہوائی فائرنگ شروع کی اور جشن منایا۔ ہم نے تو کچھ دیر بعد فائرنگ بند کردی لیکن دوسری طرف یہ عمل جاری رہا یہاں تک کہ ہمیں تشویش  ہونے لگی۔ سورج کے طلوع ہوتے ہی خبر ملی کہ  عراق نے رات ایک  علاقہ پرحملہ کر دیا ہے  آپ سب تیاری کریں ہم نے ان سے وہ علاقہ آزاد کرانا ہے۔ ٹرک میں سوار ہوئے  اور روانہ ہوگئے ۔  عید کا پہلا دن گہما گہمی ، لوگوں کی رفت و آمد  اور ہمارے ہاتھ میں اسلحہ اور زبان پر جنگی ترانے۔ تقریبا ۱۱، ۱۱:۳۰ بجے ہم اس علاقے میں پہنچ گئے ۔ میں نے جوانوں کو ۲ گروہوں میں تقسیم کیا  ایک گروہ وہیں رہا اور عراقیوں کی جانب بڑی تعداد میں آگ برسائی۔ دوسرا گروہ درختوں کی آڑ میں عراقی مورچوں کی جانب روانہ ہوگیا۔

عین اسی وقت تیز برف باری شروع ہوگئی۔  تقریبا آدھا، پونا گھنٹہ ایک کلو میٹر کے اس علاقے میں  اس شدید برف میں ہم نے فائرنگ  کی کہ عراقی بھاگنے پر مجبور ہوگئے اور ہم نے وہ علاقہ آزاد کرالیا۔  جو گروہ  باہر رکا ہوا تھا وہ بھی فتح کی خبر سن کر آگیا  اور ہم نے فتح اور نوروز کا جشن منایا۔ اور ایگ دوسرے کانئے سال کی اور کامیابی کی مبارکبادیں دیں، گلے ملے۔ مجھے خیال آیا کہ خدا کی بارگاہ میں شکر کا سجدہ بجا لاوں، زمین کی حالت غور کیے بغیر میں سجدہ میں گرگیا، متوجہ ہوا کہ آدے یا ایک میٹر تک میرا بدن برف  میں تھا اور ہم نے اسی برف میں سجدہ ادا کیا، اور اس فتح کا خدا کی بارگاہ میں شکر بجالائے۔

 

سیب کی تقسیم

۱۹۸۹ء ، عراقی علاقہ تکریت کا ۱۹ نمبر کیمپ۔ تقیبا ۸ مہینوں سے وہاں قید تھے اور یہ ہماری پہلی عید تھی جو ہم نے اسیری میں گذاری، ہمارے لئے بہت سخت تھا، میں اور میرا بھائی دونوں اسیر تھے۔ سوچا کہ کیا کیا جائے جو اس غمزدہ حالت سے جوانوں کو باہر نکالیں۔

عراقیوں کو کچھ پیسے دیے اور کہا کہ ہمارے لئے کچھ تیل ، شکر آٹا وغیرہ لے آئیں تاکہ کچھ میٹھا بنائیں۔

اگلے سال جب عید آئی تو اس وقت بھی ہم قید تھے، ہم نے عراقیوں سے کہا کہ ہمارے لئے ۷ سین والا دسترخوان مہیا کریں۔ کہنے لگے : "کیا لا کر دیں ؟" ہم نے کہا :"سیب لے آو" بولے کہ:" عراق میں سیب نہ ہونے کہ برابر ہیں،  سونے کے سکہ لانا آسان ہے سیب ڈھونڈنا مشکل ۔"ہم نے کہا کہ ہم تم کو پیسے دے رہے ہیں تم لوگوں کے لئے جنتا ہوسکے ہمیں سیب لادو۔

ہم جو ایک ہال میں ۶۰ افراد ہوتے تھے، ہر ہال کے لئے ۲ سیب لے کر آئے۔ ایک سیب ایک عراقی دینار کا حساب کی جو اس وقت تقریبا ہمارے ۲۰۰ تومان ہوتے تھے۔ یعنی یہ سیب بہت ہی زیادہ مہنگے تھے۔ ان سیبوں کو ہم نے باقی سین والی اشیاء کے ساتھ دسترخوان پر سجا دیا اور سال کی تبدیلی کی رسمیں ادا کیں۔ اب میری باری تھی کہ میں سیب کو تقسیم کروں یعنی ایک سیب کو ۳۰ افراد میں تقسیم کروں تاکہ ۲ سیبوں میں سےسب کو کچھ مل جائے۔ یہ مرحلہ میرے لئے بہت سخت تھا ۔

 

(1) عید نوروز پر سال کی تبدیلی کے وقت ایرانیوں کی ایک رسم جس میں ایک دسترخوان پر ۷ ایسی مخصوص  چیزیں  رکھی جاتی ہیں جن کا نام سین سے شروع ہوتا ہے۔



 
صارفین کی تعداد: 3953


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔