حسین شاہ حسینی سے گفتگو

امریکہ کے حامیوں کی جانب سے برطانیہ مخالف وزیر کی پھانسی

سید محمد صادق فیض
مترجم: سید روح اللہ رضوی

2016-5-2


سید حسین فاطمی ۱۰ نومبر ۱۹۵۴، جب امریکا اور برطانیہ نے ایران کی عوامی حکومت پر شب خون کیا تھا اسکے ایک سال بعد، ملٹری کورٹ کے حکم پر تھران میں پھانسی پر چڑھائے گئے۔

۳۷ سال کا فاطمی، کیرمٹ روزلوٹ  (Kermit Roosevelt) کے مطابق،    ۱۹ اگست کی بغاوت میں شریک ، شاہ کے حکم کے مطابق گرفتار ہونے سے قبل ہی سزائے موت کا مستحق قرار پاگیا تھا، بغاوت کے بعد  ۲۵ فروری ۱۹۵۴ ءتک جب مولوی نامی ایک افسر کے ہاتھوں گرفتار ہوا،  مخفیانہ زندگی بسر کررہا تھا۔ وہ جو ایک بار مصدق کی حکومت میں فدائیان اسلام کے ہاتھوں حملہ کا  نشانہ بنا وا اور دوسری بار  جب  تھانے سے منتقل کیا جارہا تھا تو حکومتی کارندوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر شدید زخمی حالت میں اپنی بہن کی سفارش پر موت کے گھاٹ اترنے سے بچا اور آرمی کے ہسپتال میں آپریشن اور علاج  کی غرض سے  ایڈمٹ رہا تاکہ کورٹ میں گواہی کے لئے  پیش کیا جاسکے۔

اس کو عسکری عدالت کے دستور پر قصر تہران میں واقع ایک زندان میں منتقل کردیا گیا  اور پھر غیر علنی عدالت میں اسٹریچر پر لایا گیا اور دس دن بعد اسکی پھانسی کا حکم جاری کردیا گیا۔ ۱۰ نومبر ۱۹۵۴ء  کو صبح چار بج کر ۷ منٹ پر بروز بدھ ، اسی زندان میں پھانسی دے دی گئی۔

انگریزوں اور انکے حامیوں کے ہاتھوں اذیت اٹھانے والا، بغاوت کے بعد امریکیوں کی ایماء پر پھانسی پر چڑھادیا گیا۔  اسکو  شہر ری کے، ابن بابویہ قبرستان میں ۲۱ جولائی ۱۹۵۲ کو شہید ہونے والوں کی قبور کے ساتھ  دفنایا گیا۔

سید حسین فاطمی، ڈاکٹر مصدق کی حکومت میں وزیر خارجہ  کے عہدہ پر فائز تھا۔  ۱۶ اگست ۱۹۵۳ء کی ناکام بغاوت میں شاہی گارڈز کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور کچھ گھنٹوں بعد آزاد ہوگیا۔ اسی شام بہارستان چوک پر شاہ کے خلاف بہت سخت تقریر کی اور اپنے اخبار "باختر امروز"میں بھی اسکا تکرار کیا نیز حکومت پہلوی کی تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔ اس تقریر نے شاہ کو ایک دھچکا دیا جو بعد میں اسکی پھانسی کا سبب بنا۔

انقلاب اسلامی کے اطلاعاتی یونٹ، نے فاطی کی پھانسی اور اسکے زمان و مکان کے بارے میں حسین شاہ حسینی صاحب سے ملاقات اور گفتگو کی، جو ایران قومی محاز  اور قومی مزاحمتی تحریک کی شوری جو بغاوت کے بعد لاکھوں لوگوں نے بنائی تھی، اس کے اصلی رکن تھے۔ شاہ حسینی انقلاب اسلامی کے بعد عارضی حکومت میں جسمی تربیت اور المپیک کمیٹی کے ہیڈ رہ چکے ہیں۔

 

سوال:  آپ کی مرحوم فاطمی سے جان پہچان تھی ؟

میں ایران قومی محاذ کی وجہ سے ان کو جانتا تھا، لیکن ان سے براہ راست رابطہ نہیں تھا۔ لیکن جب میں سیاسی مسائل میں داخل ہوا تو خصوصا تیل کے قومیانے کی تحریک میں، مرحوم فاطمی آئے اور اس تحریک میں ایک بہت موثر کردار ادا کیا، اس وقت میں بھی اس عوامی مزاحمتی تحریک کا حصہ تھا اور اسکی مرکزی شوری کا رکن تھا۔

 

سوال: عوامی مزاحمتی تحریک،  بغاوت کے بعد وجود میں آئی ؟

جی، اسکے بعد یہ بنی۔ لیکن ڈاکٹر فاطمی کی اصل زندگی ۱۹ اگست کے واقعے کے بعد واضح ہوئی۔ وہ اس سے پہلے حکومتی عہدہ رکھتے تھے لیکن اس کے بعد جب شاہ نے انکو پکڑا، تو ڈاکٹر فاطمی کو ایران کے معاشرے میں مقبولیت ملی ورنہ اس سے پہلے وہ  اس معاشرے میں ایک مشکوک شخصیت کے مالک تھے۔ خصوصا خود مزاحمتی تحریک نے جب اٹھارویں پالیمنٹ کے انتخابات میں شرکت کے لئے اپنے افراد کی فہرست دی تو اس میں ڈاکٹر فاطمی کا نام نہیں تھا۔  مرحوم اس وقت قید میں تھے لیکن اسکے باوجود لوگ شک میں مبتلا تھے۔

 

سوال:  ایک پورا دور ان کی نسبت مشکوک تھا۔

جی، وہی وقت تھا اور ڈاکٹر فاطمی کی سرگرمیاں اور کارنامے ان تحریروں میں جو سید رضا زنجانی نے قید میں لکھیں اور جو نظریہ دیا اور وہ مطالب جو انکی گفتار اور انکی شجاعت کو بیان کرتے تھے، پہچانے گئے۔  ورنہ اس سے قبل، ڈاکٹر مصدق اور حتی بعض مزاحمتی تحریک کے وہ افراد جو بعد میں مخالف ہوگئے اور چلے گئے، اس میں سب سے زیادہ قصور مرحوم فاطمی کا تھا۔  اسکی وجہ وہ تعصب اور نفرت تھی جو فاطمی صاحب سے رکھتے تھے۔ وہ فاطمی جو حد اکثر ۴۰ سال کا تھا، آیا اور وزیر خارجہ بن گیا، حکومت کا مرکزی ترجمان بن گیا، حکومت میں اسسٹنٹ بن گیا۔ ڈاکٹر مصدق کے سارے عہدوں کو اپنے اختیار میں لے لیا۔ وہ ۱۹ اگست کی بغاوت سے پہلے آیا تھا۔ جب آیا تو "باختر امروز" یعنی "آج کا مغرب" کے نام سے اخبار شایع کیا، اس موقع پر مکی کی ان سے بڑی دوستی تھی، ڈاکٹر بقایی کی بھی اسی طرح۔ حائری زادہ صاحب انکی رہنمائی کرتے تھے اسی لیے پر ڈاکٹر فاطمی اپنے قوی رابطوں کی بنیاد پر ابتداء میں ہی جانی پہچانی شخصیت بن گئے، ورنہ مرحوم فاطمی کی جدو جہد تیل کے عوامی ہونے سے قبل اور چودہویں دورہ سے شروع نہیں ہوئی۔ کیونکہ تیل کے عوامی ہونے والا مسئلہ چودہویں دورہ سے تھا، یہ وہ پہلا دورہ تھا کہ جب رحیمیان آکر وکیل بنا کہ جس کے انتخابات ستمبر ۱۹۴۱ء کے بعد ہوئے تھے۔ وہی وقت جب رضا شاہ گیا تھا، یہ پہلے انتخابات تھے جب تحریک تودہ کے ۲۰ افراد پارلیمنٹ میں آئے۔ رحیمیان صاحب آئے اور تیل کے عوامی کرنے کا مطالبہ پیش کیا، اس پر بہت سے لوگوں نے دستخط کیے اور ڈاکٹر مصدق نے چودہویں دورہ میں اس پر دستخط نہیں کیے۔

کیا وجہ تھی ؟ کہا کہ بھائی صاحب ایران میں اتحادی ہیں، روس کے حامی بھی ہیں، ابھی شور شرابہ شور ہوجائے گا، تحریک تودہ والے بھی حکومت کا حصہ ہیں نیز اتحادی تھران اور قزوین کی سڑکوں پر موجود ہیں، لہذا یہ وقت اس مسئلہ کو چھیڑنے کے لئے صحیح نہیں اور اسی وجہ سے اس معاملے کو رکوادیا۔

چودہویں دورہ کے آخر میں تیل کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ اخباروں نے بہت کچھ لکھا، ڈاکٹر فاطمی کیونکہ اصفہان سے انکا تعلق پرانا ہے، تحریکوں میں رہے، ایک بار قید بھی جھیلی، پھر انکی تحریروں اور مقالوں کی سلیقہ محمد مسعود کی طرح کا تھا اس جہت سے انکی ایک حیثیت بن گئی ورنہ ابتدا میں ہی اس اخبار کا اٹھ جانا مشکل تھا۔ نیز جس منصفانہ روش کا اختیار انہوں نے مصدق کے مسئلے میں کیا وہ بھی بہت موثر رہا۔

شایران ملی کا محاذ کا آئین ان ہی افراد نے لکھا، ایک حسین مکی صاحب اور دوسرے ڈاکٹر فاطمی۔ برطانیہ کی سیاست سے بغض و نفرت مرحوم میں پہلے سے ہی موجود تھا۔ پہلے بھی جب انکو پکڑا تھا تو یہی کہا تھا کہ انگریزوں نے ہی مدرس کو پکڑا تھا، اور شاہ کو وارننگ دی تھی تاکہ مدرس کو مشہد کے مضافات میں بھیج دے اور بعد میں انہوں نے یہ کام انجام دیا۔ فاطمی اس طرح کا شخص نہیں تھا کہ دوسروں کی رائے پر عمل کرے، اسکی اپنی فکر برطانیہ مخالف تھی اور وہ انگریزوں کا ایرانیوں کی بدبختی کا اصی ذمہ دار سمجھتا تھا۔

 

سوال: پھر کیوں ملی محاذ اسکا مخالف تھا ؟ کیا صرف اس وجہ سے کے وہ جوان تھا ؟

رقابت، ایک دوسرے سے مقابلہ اور رقابت۔ تم تاریخ میں دیکھو تو نظر آئے گا کہ حسین مکی ایک لاکھ ووٹوں سے سترہویں انتخابات میں جیتا اور تہران کا وکیل بنا، فاطمی صاحب کے ووٹ اس سے کئی گنا کم تھے۔ جبکہ تحریک میں جس شخصیت کو دکھایا جاتا ہے، وہ حائریزادہ تھا، کیوں ؟

ایک تحریک تھی جو پندرہویں دورہ کے آکری ایام میں شروع ہوئی، مکی صاحب، عبد العزیز آزاد صاحب، ڈاکٹر بقائی، حائریزادہ اور پھر مصدق ان سب کے ساتھ میدان میں آیا۔ اس وقت فاطمی، فاطمی نہیں تھا۔ اخبار کا ایڈیٹر اسکا بھائی تھا۔ ۱۹۳۹ میں یہ پیرس گیا، وہاں جرنلزم کی تعلیم حاصل کی، پی ایچ ڈی ڈاکٹر بنا، واپسی ایران آیا تو آہستہ آہستہ اسکا نام اخباروں میں آنے لگا۔ بعد میں اخبار "باختر امروز" نکال لیا، جب یہ اخبار شروع کیا تھا تو تیل کا مسئلہ پچاس فیصد حل ہوچکا تھا۔ لیکن کیوں کہ خلوص کے ساتھ اس مسئلے میں کودا، زبان بھی اسکی عوام کی ترجمانی کرتی تھی خود بھی ایک عوامی بندہ تھا اور اصل بات جس کی طرف کم لوگ متوجہ ہوئے وہ یہ تھی کہ فاطمی کی تمام تحریروں میں مذھبی جھلک آتی تھی۔

 

سوال: یہ آیت اللہ زنجانی سے متاثر ہونے کی وجہ سے تھا ؟

زنجانی بعد میں پیدا ہوئے۔

 

سوال:  وہ خود بھی تو ایک عالم کے بیٹے تھے ؟

ہاں، کیونکہ خود ایک عالم کے بیٹے تھے اور ایمان رکھتے تھے، یہ نہیں کہ مذہب کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کریں، بلکہ یقین رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ تم دیکھو کہ سب جوان ہیں، سب کی زندگی بھی خوش و خرم گذر رہی ہے، لیکن فاطمی کی اس خوش و خرم زندگی کا کسی کو پتہ ہی نہیں۔ اسکا سارا کام ہی تحریریں تھیں اور وہ کوشش کرتا تھا کہ سیاست کے ذریعے انگریزوں سے لڑے۔ یعنی اسکی انگریزوں سے جنگ اسکے اعتقادات کی بنا پر تھی۔ آمریت کے خلاف اسکا ہونا ذاتی تھا۔ وہ کسی شخص یا کسی سیاسی فضا کے تحت تاثیر نہیں تھا۔ اس دن جب وہ ڈاکٹر مصدق کے بیٹے سے ملا اور کہا کہ تمہارا باپ آخر کار ہمیں قتل کرائے گا اور  ہمیں کچھ کرنے نہیں دے رہا۔ یہ اسکا استعماری سیاست کی نسبت بغض و کینہ تھا کہ اس بارے میں اسکا بہت مضبوط نظریہ تھا۔ البتہ اسکے علاوہ بھی موجود تھے جو اس نظریہ کے قائل تھے لیکن کہنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ مرحوم ڈاکٹر صدیقی کے بقول فاطمی وقت سے قبل آیا لیکن  خوب ترقی کی۔ کیونکہ سمجھ گیا تھا کہ  ایران کے اصلی دشمن کون ہیں، وہ کون لوگ ہیں جو ایرانی عوام کے مفادات کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شجاع  بھی تھا، اہل قلم بھی تھا اور صاحب بصیرت بھی۔ 

 

سوال: یہ بات اس  چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ قومی محاذ ڈاکٹر مصدق کے ساتھ بھی کوئی خاص مناسبت نہیں رکھتا تھا کہ اس کے وزیر اور دست راست کو اور وہ جو اسکی حکومت کا سب کچھ تھا، اسکو تنہا چھوڑ دیا۔

نہیں، تنہا نہیں چھوڑا، ڈاکٹر مصدق کے نظریات اس وقت تک حاوی تھے۔ ڈاکٹر مصدق نے فاطمی کو جو اس وقت مریض تھا، لاہہ کورٹ میں لے گیا ۔ وہ اسکو مشاور تھا اور اسی وجہ سے اسکو پکڑا تھا کیونکہ اسپر اعتماد  کرتاتھا۔ یہ اعتماد بعض افراد کے لئے کینہ اور بغض کا سبب بنا۔

کیونکہ جب ڈاکٹر مصدق کو گرفتار کرنے آئے تو فاطمی صاحب آگے جاچکے تھے، اسی وقت یہ افواہیں پھیلیں کہ انکو گرفتار کرلیا گیا ہے اور کوئی انکی مدد کے لئے نہیں آیا کہ انکو فرار کرائے یا کہیں مخفی کرے۔ وہ فرار کر گئے تھے، جب فرار ہونے کے لئے گھر سے نکلے تو ۲، ۳ راتیں اپنے بعض دوستوں کے گھر گزاریں۔

 

سوال:  قشقائیوں کی بات کررہے ہیں ؟

نہیں، قشقائیوں نے کہا تھا لیکن درحقیقت قشقائی اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہی یقین جو ڈاکٹر مصدق قشقائیوں پر نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ احتمال تھا کہ  اگر ان لوگوں کے اختیار  میں قدرت آتی ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ کسی کے تحت تاثیر چلے جائیں اور ملک کو مشکلات سے دوچار کردیں۔ انکی حب الوطنی  پر یقین تھا لیکن ایسی حب الوطنی جو آخر تا مفادات کا زیر اثر نہ ہو۔  قشقائیوں  کی مشکل یہ تھی کہ انکی حب الوطنی ، انکے مفادات کے ساتھ مخلوط تھی۔ جبکہ مرحوم فاطمی کی حب الوطنی صدق دل اور اخلاص کے ساتھ تھی۔

 

سوال: فاطمی صاحب ان ۲، ۳ دنوں میں کہاں تھے ؟

ابتدائی ۲ دن تو اپنے دو دوستوں کے گھرو٘ں میں تھے، ایک ڈاکٹر رضا کے گھر کہ جس کا پتہ قومی مزاحمتی تحریک کے کسی رکن کو نہیں  چل سکا تھا،   لیکن اس وقت معلوم ہوگیا کہ جب فاطمی صاحب احمد  توانگر صا حب  کے گھر چلے گئے  ۔ تیسرے دن کے بعد،  توانگر صاحب کے گھر گئے۔  کچھ دن وہیں تھے۔  توانگر صاحب سوشلسٹ تحریک کے اصلی ارکان میں سے تھے ۔ وہ ان افراد سے مربوط تھے، افسر سے بھی ارتباط میں تھے، انہوں نے بھی ایک مدت تک فاطمی کے لئے اسی جگہ کو نظر میں رکھا  ہوا تھا۔

 

سوال:  کون افسر ؟

وہی افسر کہ جس کے گھر میں فاطمی صاحب تھے، کچھ عرصے احمد توانگر کے گھر تھے اسکے بعد اس افسر کے گھر منتقل ہوگئے تھے۔

 

سوال: محمود محسنی ؟

جی ، محسنی صاحب

 

سوال:  انکا تعلق تحریک تودہ  سے تھا ؟

ہاں، وہ تودہ سے مربوط تھے۔ البتہ تحریک تودہ کے افسر در حقیقت انکے نظریات کے حامی نہیں تھے کہ سیاست کی وجہ سے روس کا ساتھ دیں۔

 

سوال:  لیکن  ہر حال میں تھے بائیں بازو والے ہی۔ کیا کیانوری صاحب بھی اس منتقلی میں حصہ رکھتے تھے ؟ کیونکہ کہ وہ دعوی کرتے تھے کہ میں نے محسنی سے کہا تھا کہ اسے پناہ دے ۔

نہیں، احمد توانگر کہ جس کے گھر وہ تھے اسنے تحریک تودہ والوں سے رابطہ کیا ۔ کیونکہ ایک صاحب تھے جو تحریک تودہ میں تھے،  عمامہ پہنتے تھے،    وہ  قومی  مزاحمتی تحریک میں آگئے اور چاہتے تھے کہ زنجانی صاحب کے ساتھ کام کریں، قدوہ کے نام سے۔ کیونکہ احمد توانگر صاحب کے دوست تھے تو انہوں نے ان لوگوں سے کہا تھا اور محسنی صاحب کا تعارف کرایا تھا  اور انہوں نے ہی ایک مکمل گھر ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا۔

 

سوال:  یعنی خود فاطمی صاحب کو معلوم تھا کہ یہ لوگ بائیں بازو والے  اور تحریک تودہ کے افراد ہیں ؟

فاطمی کی بھی توانگر صاحب کی طرح یہی رائے تھی کہ تحریک تودہ کوئی بری جگہ نہیں۔

 

سوال: تحریک تودہ  تو ختم ہوگئی تھی، مصدق کی دولت کے بھی مخالف تھے تو کیسے فاطمی صاحب نے قبول کیا کہ وہاں چلے گئے ؟

کیونکہ کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا  کہ یہ کام ممکن ہوگا، ۲ مہینہ یا ۳ مہینہ۔۔۔

 

سوال: یعنی فکر کررہے تھے کہ دوبارہ بغاوت ہو ؟

ہاں،  بہت شدت سے، کیونکہ ہمیں قومی مزاحمتی تحریک میں ایسی خبریں موصول ہوئیں کہ  تودہ تحریک کے پاس ایسی طاقت  ہے ویسی طاقت ہے، انکے پاس افراد بھی اتنے ہیں۔  ستمبر  کہ آخر میں  زنجانی صاحب نے لوگوں سے درخواست کی کہ بازار وں کو بند کردیں۔  آپ دیکھیں کہ اس وحشت کے زمانے میں کہ حاجی سید رضا زنجانی اتنے مشہور بھی نہیں تھے اور ابھی  تک کاشانی صاحب طاقتور تھے، زنجانی آئے اور بازاروں کو بند کردیا۔  میں اس وقت قومی مزاحمتی تحریک کا حصہ تھا، بازار بند کردیے گئے اور زنجانی صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔  انکو تیمور بختیار نے پکڑا تھا اور حظیرۃ القدس (*) لے آیا۔ میں زنجانی صاحب کے روبرو بیٹھا تھا۔   میں کیونکہ اشیاء کی فراہمی کا ذمہدار تھا تو مجھے بھی پکڑ کر لے آئے ۔ مجھے جو پکڑ کر لائے ، پہلے جیل میں تھا ، ۲، ۳ دن بعد بختیار کے پاس لے گئے۔ مولوی نامی افسر بھی وہاں موجود تھا وہ مجھے پہچان گیا۔ کیونکہ میں کھیلوں کی ٹیموں میں تھا  آرمی میں رگبی کی ٹیم کی کوچنگ بھی کی تھی۔ وہ مجھے پہچان گیا تھا  تو اسنے بختیار سے کہا کہ یہ شاہ حسینی کھلاڑی ہے اور اس نے کھیلوں میں ہمارے مختلف افراد کی کوچنگ بھی کی ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ میری مدد کرے۔ بختیار نے کوئی توجہ نہیں دی۔ زنجانی صاحب بہت سکون سے اپنے کمر پر عبا ڈالے آئے اور ادھر بیٹھ گئے ۔ بختیار نے شروع کہنا شروع کیا: صاحب آپ ؟ بولے:جی کہیے کیا کام ہے ؟ کہا :آپ آئے ہیں یا لائے گئے ہیں ؟ بولے: مجھے لے آئے اور نہیں معلوم کہ کہاں لےجائیں، انکے ہاتھوں اسیر ہوں۔ کہا: یہ اعلانات آپ نے لکھے ہیں ؟ بولے: ہاں۔ کہا: خود آپنے ؟بولے : ہاں ۔ کہا : کس لئے ؟بولے : لکھ دیا، میرا یہی یقین ہے، میں نے اجتہاد کیا اور وہ یہ تھا کہ ہم احتجاجی طور پر بازار بند کردیں  اور میں نے اپن شرعی وظیفہ انجام دیا۔ وہ  بار بار اجتہادکا لفظ دہرائے جاتے تھے کہ بختیار اپنی کرسی سے اٹھ کر انے پاس آبیٹھا اور کہا: حضرت عالی فرمارہے ہیں کہ اجتہاد، لیکن لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور جلاو گھیراو کررہے ہیں ۔ بولے: صاحب، میں امام زمانہ عج کا نوکر ہوں، امام زمانہ سے ہی باتیں کرتا ہوں اور وہی  مجھے جواب دیتے ہیں، میں شاہ کا نوکر نہیں۔ آپ شاہ کے نوکر  ہیں اسی کی نوکری کریں میں امام زمان عج کی نوکری کررہا ہوں۔

بختیار کو غصہ آگیا، کچھ نہیں کہا بلکہ اٹھا اور چلے گیا۔ زنجانی بھی کھڑے ہوئے اپنی عبا اوڑھی اور کمرے سے باہر آگئے۔ مجھے بھی لے گئے اور زنجانی صاحب کو بھی۔ اسکے بعد مجھے نہیں معلوم یہاں تک کہ مجھے ۲۷، یا ۳۸ دن بعد آزاد کردیا ۔ میں نے زنجانی صاحب سے پوچھا کہ: کیا ہوا ؟ بولے: مجھے اس دن ایک کمرے میں لے گئے تھے میں نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا انہوں نے وہ کھلایا اسکے  بعد شام میں آئے اور مجھے گھر چھوڑ دیا۔

 

سوال: محسنی صاحب کے گھر سے  فاطمی صاحب کہاں گئے ؟ وہ جگہ انکو کس نے بتائی تھی ؟

فاطمی صاحب انکے گھر گئے لیکن انکے تعلقات تھے، انکا رابطہ محسنی سے نہیں بلکہ میری نظر میں توانگر صاحب سے تھا۔ اور جو پہلا بیان بھی آیا وہ توانگر صاحب ہی کے ذریعے آیا  یہاں تک کہ جیل بھیج دیے گئے۔ لیکن آخری دن تھا کہ اس دن انہیں محسنی کہ گھر پر ہونا تھا ۔ کوئی اور جگہ دیکھ لی تھی لیکن افسوس کہ ساتھ اس دن۔۔۔

 

سوال: کونسی جگہ نظر میں تھی ؟

کوئی اور جگہ

 

سوال: معلوم نہیں کہاں ؟

ہاں، زنجانی صاحب نے کسی اور کو کہا تھا کہ کوئی جگہ ڈھونڈو تاکہ وہاں سے انسے رابطے میں رہے۔

 

سوال: فاطمی جب  جیل میں تھے، زخمی ہونے اور آپریشن کے بعد جو کچھ دن جیل میں تھے، کہا جاتا ہے کہ  آیت اللہ زنجانی بھی جیل میں تھے اور ان دونوں کے درمیان خط و خطابت کا سسلسہ تھا ؟

ہاں ، اس طرح کی بات ہے۔

 

سوال: زنجانی صاحب دوبارہ کیوں جیل گئے ؟

ہڑتالیں، اعلانات، احتجاج اور قومی مزاحمتی تحریک کے کاموں کی وجہ سے۔ ان تمام کاموں کی وجہ سے جو ڈاکٹر مصدق کی بغاوت کے بعد انجام دیے، ان  کاموں میں اصلی محرک زنجانی تھے۔ اگر کوئی خاص اعلانات ہوتے تو وہ انکے ذریعے ہوتے، وہ میرے ذریعے یا احمد توانگر یا عباس کے ذریعے ڈاکٹر عبد اللہ خان معظمی کو پہنچواتے یا دیوان بیگی کو تاکہ وہ انکو از لحاظ سیاسیاسکی  تصحیح کردیں۔ اور صرف انکی تصحیح  پر ہی زنجانی صاحب انکو چھپوا کر بٹوادیتے۔

 

سوال: کہا جاتا کہ وہ خط وخطابت جو فاطمی صاحب اور آیت اللہ زنجانی کے درمیان جیل میں ہوئی، اس وقت آیت اللہ کو اندازہ ہوا کہ فاطمی واقعا فاطمی ہے نہ وہ جو اسکے خلاف کہا جاتا ہے۔۔ قومی محاز کی کیا نظر تھی فاطمی صاحب کے بارے میں ؟

صاف صاف کہوں تو وہ سب اس وجہ سے کہ زنجانی صاحب مرکزی کمیٹی کے اجلاسوں میں  ان پر بہت زیادہ اعتراضات کرتے تھے، صرف وہی شخصیت تھی کہ جس کے الفاظ ایک خاص حیثیت کے حامل تھے، یعنی وہ افراد جو ان سے عمر میں چھوٹے تھے، اگر زنجانی کچھ کہتے تو اسکو مانتے تھے۔ جب بازرگان اور بختیار صاحب نے یہ کام کیا  اور اعلان بھی کردیا، شاید دوسرا اجلاس تھا کہ زنجانی صاحب  نے سب سے مخاطب ہوکر بہت سخت الفاظ میں کہا کہ : عمامہ سر پر ہونے کے باوجود کیا غلطی کی ہے،  جتنا بھی آپ لوگوں کو کہا، کسی نے نہیں سنا۔ ہمیں یہ اعلانات کرنے ہی نہیں چاہئے تھے، اب جب کہ یہ کام کر ہی دیا ہے تو اسکا مداوا کرنے کے لئے   فاطمی صاحب سے رابطہ رکھیں۔ طے ہوا کہ وہ خود ہی فاطمی صاحب سے معذرت خواہی کریں گے، یہ اختیار بھی انکو دیدیا گیا اور انہوں نے یہ کام کیا اور کہا کہ: آپ کا پیغام ملا تھا ، ہم بہت شکر گزار ہیں۔ غلطی اس جگہ ہے کہ ابھی تک بعض افراد برطانیہ کی سیاست کے تحت خواب غفلت میں ہیں کہ  بعض افراد کو  اپنی تحت تاثیر میں لے آئے ۔

 

سوال: یعنی ابھی تک، فاطمی صاحب کی نسبت یہ غلط فہمی موجود تھی کہ جب زنجانی صاحب نے یہ کام انجام دیا،  اسکے بعد   بھی قومی محاز نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ کیونکہ کہتے ہی کہ آیت اللہ زنجانی نے فاطمی صاحب کی رہائی یا کم از کم  انکی سزا میں کمی کی بہت کوششیں کیں۔

بہت کوششیں کی، اسکی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک قومی محاز کی قیادت، عملی میدان میں کوئی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ جب قومی محاز نے ایک تنظیم کی زکل اختیار کی تو دوبارہ اجلاس اور ارکان کی میٹنگ وغیرہ کا سلسلہ شروع ہوا۔  قومی مزاحمتی تحریک کے ۳، ۴ افراد کا انتخاب کیا گیا تاکہ قومی محاز کا ایک اجلاس تشکیل دیا جاسکے، ورنہ اصل میں چلانے والی قومی مزاحمتی تحریک ہی تھی۔ کوئی فعالیت نہیں تھی، نہ آزادی کی تحریک نہ کوئی دفتر۔ قیادت بھی آیت اللہ زنجانی کے پاس تھی۔ اس وقت جب کمیٹی اور قومی محاز بنایا گیا، زنجانی صاحب ، جو اس کے بنانے میں حصہ دار تھے، ان کو دعوت دی جاتی لیکن وہ نہیں گئے۔ آہستہ آہستہ دوری اختیار کی، کہتے تھے کہ: آپ سیاسی افراد ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سیاسی کام انجام دےسکتے ہیں۔ میں ایک مولوی ہوں، کام نہیں کرسکتا۔

 

سوال: ڈاکٹر فاطمی  کا کیس جس عدالت میں پیش ہوا وہ عمومی نہین تھی اور اعلانیہ بھی نہیں تھی،کیا  کسی کو بھی نہیں معلوم کہ اس میں کیا ہوا ؟

ایک افسر صاحب نے بعض باتوں کو جو ڈاکٹر مصدق سے مربوط تھیں زنجانی صاحب کے ساتھ زیر بحث لائے تھے، زنجانی صاحب اپنے وکیلوں کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرتے  اور بعد میں ڈاکٹر فاطمی نے بھی کچھ باتیں جو انہوں نے لکھی تھیں اور اس خاتون کی دی تھیں، لے آئے۔  بعض باتیں بتا چکے تھے، بعض وہ باتیں جو اس افسر نے کہیں ، مجھے اسکانام یاد نہیں،  کیونکہ عدالت ، عسکری عدالت تھی، وہ ان مسائل سے آشنا تھا، ڈاکٹر صدیقی سے بھی مذاکرہ ہوتا تھا،  اور اسی طرح  سید رضا زنجانی اسی خاتون کے ذریعے۔ ۔ ۔

 

سوال: کونسی خاتون؟

ایک خاتون تھیں کہ ڈاکٹر فاطمی کاغذات انکو دیا کرتے تھے، مرحوم حاجی سید رضا زنجانی کی بیٹی تھیں، اور ایک خون کی لیبارٹری چلاتی تھیں۔  وہ شام میں لیبارٹری چلاتی تھیں اور صبح جیل میں نرسنگ کرتی تھیں اور اس مسئلہ میں ارتباط بھی۔  انکا نام مجھے نہیں معلوم لیکن میں   خود انکو دیکھ چکا ہوں۔ وہ  جیل سے باہر اور اندر معلومات اور کاغذات وغیرہ کا تبادلہ کرتیں ، وہاں سےباہر  لاتیں ، پھر جواب فاطمی صاحبی تک پہنچاتیں۔

 

سوال: قومی ملی محاذ نے فاطمی صاحب کے کیس میں کیا رد عمل دکھایا ؟

ہم اعتراض کرتے تھے کہ یہ عدالت صحیح نہیں ہے، اسی طرح ڈاکٹر مصدق کے معاملے میں بھی،  کسی بھی طرح اسے قابل قبول نہیں سمجھا جاسکتا تھا ۔ اور اگر فرض کریں کہ ان قوانین کے مطابق جو اس وقت موجود تھے فاطمی صاحب کا قتل ہونا ثابت بھی تھا تو ایک مریض کو نہیں مارا جاسکتا۔  جس دن صبح ہم نے سنا کہ ان کو قتل کردیا گیا ہے،ہم پہنچ گئے، زنجانی صاحب نے کہا: بعض افراد جائیں اور معاملہ دیکھیں۔ اگر دخل اندازی کریں گے تو شور شرابہ ہوگا۔ ہم نے شور شرابہ نہیں کیا۔ ورنہ کس طرح ممکن تھا کہ  ۲۱ جولائی ۱۹۵۲ کے شہداء کے ساتھ انکو دفن ہونے دیں جبکہ ڈاکٹر مصدق کے کیس میں  انہوں نے یہ نہیں ہونےد یا۔ کیسے ممکن ہوا کہ ایک دم اس جگہ قبر ڈھونڈ لی گئی اور وہاں انکو دفنا دیا گیا۔  وجہ تھی جو یہ ممکن ہوا، صرف یہ کہ ڈاکٹر فاطمی کی بہن نے بہادری دکھائی اور وہ جو کچھ زنجانی نے ان سے کہا، کردیا، کہا کہ: تم لوگوں نے میرے بھائی کو مار دیا ہے اب کم از کم مجھے اس بات کی تو اجازت دو کہ اسکی قبر معلوم کرلوں۔ زنجانی صاحب نے کہا : ۲۱ جولائی کے شہداء کے ساتھ دفن کیا جائے۔

 

سوال: انہوں نے بھی قبول کرلیا ؟

انہوں نے اس خاتون کی بات  مانی، نہ زنجانی یا کسی اور کی۔ جب قبول کرلیا تو ہم نے بھی جلد از جلد اپنا کام کیا اور خبروں کو چلنے سے روکدیا، جلدی سے غسل دیا اور جلدی ہی دفنا دیا۔

 

سوال: آپ کب پھانسی کے بارے میں مطلع ہوئے ؟

بالکل صبح  ۸ بجے۔

 

سوال: کس نے  آپ کو خبر دی ؟

زنجانی صاحب، خود انہوں نے تقریبا ۷:۳۰ پر مجھے اور داریوش  فروہر کو بتایا کیونکہ رات انکے پاس ہی تھے۔ رات ۱۱ بجے تک وہیں تھے۔ ۔ ۔

 

سوال: کہاں تھے ؟

مرحوم زنجانی کے گھر پر، انہوں نے کچھ افراد  کو ذمہ داری سونپی ہوئی تھی، آخری شخص پارلیمنٹ کا سپیکر تھا، سردار فاخر حکمت، اسنےسو فیصد  وعدہ کیا تھا کہ : "پھانسی نہیں دینگے، بادشاہ سلامت نے بھی کہ دیا کہ کہ پھانسی نہیں دو۔" زنجانی صاحب نے کہا بھی :"نہیں، شہشہانی شاہ کے پاس گیا تھا" اور شاہ کو اس پر بہت بھروسہ تھا، لیکن  جب سردار کو بھیجا تو شاہ نے واضح طور پر کہا کہ نہیں پھانسی نہیں دینگے۔ لیکن قتل کردیا، بعد میں زنجانی کو سرادر نے فو ن کیا کہ "ہم نے کہا تھا اور شاہ نے بھی کہا تھا کہ قتل نہیں کریں گے" زنجانی نے کہا: "مجھے یقین ہے کہ پھانسی دینگے" اس نے ریڈیو سے نہیں سنا تھا، اسکو اطلاع ملی تھیں۔ مجھے اور فروہر کو اطلاع دی، ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے، فروہر بھی کھڑا ہوگیا ، جو کرسکتے تھے وہ یہ کہ ایک دفعہ فاطمی کے گھر کا چکر لگالیں۔ دیکھا کہ اسکی بہن کے گھر پر افراد تعینات ہیں۔ زنجانی صاحب نے کہا تھا کہ : کوئی رد عمل نہیں دکھانا، ورنہ حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ کہنے لگے  کہ : کوشش کرو کہ اسے ابن بابویہ لے جاو، کسی کو نہیں بتانا ، چند افراد جاو اور اگر کوئی مدد چاہئے ہو تو مدد کرو۔

 

سوال: آپ کس کے ساتھ گئے تھے؟

میں گاڑی سے، اپنی نہیں  بلکہ ٹیکسی لی، شہر ری گیا شاہ عبد العظیم ع کے مزار پر وہاں سے آیا تھا۔ صرف آنے انے میں تقریبا ۱ گھنٹہ لگ گیا ہوگیا ، جبتک داریوش بھی آگیا۔

 

سوال: اور کون آیا تھا ؟

داریوش اپنے ساتھ ۵، ۶ افراد لے آیا تھا۔ جو دوست آئے تھے ان میں سے کسی کو نہیں جانتا تھا۔ وہ آئے اور جنازہ کو لے کر چلے گئے ، ہم بھی انکے پیچھے نہیں گئے کہ قبر تک جائیں اور دیکھیں۔  صرف اطمنان تھا کہ یہاں لائے ہیں، ادھر بھی ۲۱ جوالائی کے شہداء کی قبور تک ہی گئے ۔

 

سوال: انکے خاندان  والوں میں، انکی بیوی نہیں تھیں ؟

نہیں صرف بہن تھیں۔

 

سوال: بیوی اور بچے کہاں تھے ؟

بیوی نہیں آئی تھی، گھر پر تھی۔

 

سوال: بغاوت اور فاطمی کی پھانسی کے درمیان، انکے بیوی بچوں کی کوئی خبر  نہیں تھی ؟

نہیں، لیکن زنجانی کا انکی بہن سے رابطہ تھا۔ اور تھوڑا بہت سعید کے ساتھ، ڈاکٹر سعید فاطمی، جو ڈاکٹر فاطمی کا بھانجا تھا اسے بھی کچھ رابطہ تھا۔ البتہ زیادہ نہیں،اس سے اس مسئلہ میں زیادہ داخل نہیں کیا۔

 

سوال: ملی محاذ یا قومی مزاحمتی تحریک کا ان کی پھانسی پر کیا رد عمل تھا ؟

ہمارے بڑے سیاسی افراد میں کئی قسمیں تھیں،  ایک وہ جن کا  سیاسی نظریہ  ڈاکٹر خنجی کے سوشلسٹ نظریات پر  مبنی تھا، بعض  وہ جو  تعامل اور بات چیت کے حامی تھی جیسے صالح صاحب ، ان میں سے بعض  شدت بھی رکھتے تھے جیسے ڈاکٹر صدیقی، اس طرح سے رہتے تھے۔ ڈاکٹر صدیقی بہت ناراض تھے، ہر حال میں پریشان رہتے تھے۔ وہ جو ڈاکٹر صدیقی کے یونٹ میں تھے وہ بہت ناراض رہتے تھے۔ صالح صاحب نے کہا بھی: ہم نے اقدام کیا لیکن نتیجہ نہیں نکلا۔ ہم نے اپنی ساری قوت زنجانی صاحب کے پیچھے لگا دی تھی  کہ کچھ کیا جاسکے، لیکن نہیں کرسکے  ۔ جبکہ شاہ خود سید رضا زنجانی  صاحب  وجہ سے انکی خاندان کا بہت احترام کرتا تھا، اسکی وجہ  ستمبر ۱۹۴۱ء  کے واقعات اور آزربائجان کی  تحریک تھی۔ اسکے بعد کہ آزربائجان کی تحریک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچی، اور ملک سے بھاگ گئے۔  شاہ نے علمی طبقات سے اپنے حامیوں کو دعوت دی۔ سب حاضر ہوئے، میرزا سید محمد بہبہانی صاحب، حاجی سید رضاصاحب کو بھی کہا کہ ضرور آئیں۔ مرحوم حاجی رضا نے خود یہ سنایا کہ : ہم سب وہاں گئے، بادشاہ نے دینی علماء کا شکریہ ادا کیا  کہ آزربائجان کے معاملے میں مدد کی، زنجانی صاحب وغیرہ سب گئے تھے، مسلح ہوکر،  منظم اور غیر منظم لشکر ترتیب دیے۔۔۔  بتایا کہ : ہم سے بیٹھے ہوئے تھے ، معمول کے مطابق جب شاہ آیا تو سب کھڑے ہوگئے ، شاہ آیا اور بیٹھ گیا، بعد میں باقی بھی بیٹھ گئے۔ کہنے لگےکہ :میں جب پہلے گیا تھا  سوچا میں کس لئے کھڑا ہوں، کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی، میں بیٹھ گیا، سب نے میری پیروی کی اور بیٹھ گئے۔سگریٹ  نکالی اور پینا شروع کردی۔ بادشاہ جب تشریف لائے  کمرے میں ، سب کھڑے ہوگئے، ہم بھی کھڑے ہوئے پھر بیٹھ گئے۔ پھر اس موقع کی یاد میں  سب کو سکے دیے، بہبہانی صاحب نے کہا کہ میں فلاں اور فلاں کے لئے بھی لے رہا ہوں۔ کہا اور ہنسنے لگے۔ کہنے لگا کہ : مولوی صاحبان  اس مملکت کی بہت خدمت کی ہے، جس میں سے ایک یہی مسئلہ ہے، اگر آپ کی کوئی گذارش ہو تو شاید ہم اسکو پورا کرسکیں۔ کہنے لگے: بہبہانی صاحب اور حاجی میرزا عبد اللہ چہل ستونی ، یہ دو افراد پلٹے اور کہا : بادشاہ سلامت، اگر ہوسکے تو یہ شراب فروشی کی دکانوں کی اجازت نہ دیں۔  ان دونوں نے کچھ اور نہیں کہا، شہا کہنے لگا: جی، ہم نے کوشش کی کہ شراب فروشوں کی کمائی کا راستہ روکا جاسکے۔ کہنے لگے کہ : میں پلٹا اور کہا کہ : آپ کے پاس یہ قدرت ہے، تو روکیں اسکام کو لیکن انکو کوئی دوسرا کام بھی دیں۔  کچھ تو کریں گے۔ کچھ یہ ٹوپیاں ہی دے دیں کہ  شراب کے بدلے انہیں بیچیں، لیکن یہ نہیں کے اگلے دن بند ہوجائے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہزاروں دکانیں ہیں جو بیکار پڑی ہیں۔  اگر بگھیوں کی جگہ ٹیکسی آگئیں تو  بھی بھگی والوں  کا کام چلتا رہے۔  یہ نہ ہو کہ ان سے کہا جائے کہ آپ کو اجازت ہے ٹیکسی کی، انکو قرضہ دیں،تاکہ ٹیکسی لے سکیں اور انکا کام چلے۔ یہ کہا اور چپ ہوگئے، شاہ نے بھی کہا کہ: جی حضرت نے بالکل صحیح فرمایا، انشاء اللہ سوچتے ہیں اس بارے میں۔ سب کھڑے ہوگئے کہ آجائیں۔ بہبہانی صاحب نے کہا کہ: ان زنجانی صاحب  اور انکے خاندان نے زنجان میں ہماری بہت مدد کی، خود یہ بھی جنگ کے محاز پر آگئے تھے۔ پھر زنجانی صاحب کا ہاتھ پکڑا اور کہا : آیت اللہ بہبہانی صاحب سے آپ کی کیا نسبت ہے ؟کہنے لگے: یہ علماء میں سے ہیں دیگر علماء کی طرح، ہم  ان کے شاگردوں میں سے ہیں، اب اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ یہ کہ انکو بیگن کا رائتہ پسند نہیں اور مجھے بہت پسند ہے، اسکے علاوہ کچھ نہیں۔ اسکے بعد بہبہانی چلے گئے۔ شاہ نے کہا: اگر ہمیں آپ سے کام ہوا تو کیا کریں؟ کہنے لگے: کچھ نہیں، گاڑی بھیج دیجیے ہم آجائیں گے۔  البتہ ایک دن پہلے بتادیے گا۔  کہنے لگے یہ میری شاہ سے بات ہوئی تھی۔ شاہ نے بھی امیر اسد اللہ علم کو آیت اللہ زنجانی کے پیچھے بھیجا تھا، کئی بار، کہ ایک دفعہ تو میں بھی موجود تھا۔ ایک مخبر بھی تھا جو آیا کرتا تھا، زنجانی صاحب کا ہمسایہ تھا اور انکی فعالیت کی رپورٹ شاہ تک پہنچایا کرتا تھا۔  ایک دفعہ زنجانی صاحب کو خط لکھا کہ : ایران کا قانون یہ کہتا ہے،  باقی اپ جیسا فرمائیں گے آپ کی ملکیت کے بارے میں وہی کریں گے۔ انہوں نےبھی لکھا: ہم امام زمانہ عج کی رعایا ہیں، امام عج  فرماچکے ہیں علماء کے بارے میں کہ جب بھی دیکھیں کہ حکومت کوئی کام شرعیت کے خلاف انجام دیتی ہے تواس میں رکاوٹ بنیں۔میں اسکام کے ہی مخالف ہوں۔ یعنی اپنا جواب دے دیا تھا وہ بھی ہم نے خود دیکھا تھا کہ شاہ نے ہی ان سے چاہا تھا۔ جس کے نتیجہ میں اسکا ایک خاص رویہ تھا۔ قومی محاز والے زنجانی صاحب کو لانا چاہتے تھے، لیکن وہ ایسا مولوی نہیں تھا جو انکے سامنے اپنا سر تسلیم خم  کردے ۔ وہ مذہب کی پابندی بھی چاہتا تھا اور سیاسی اور اداری  مسائل کی رعایت بھی۔ مثال کہ طور پر ، ڈاکٹر بختیار، زنجانی صاحب کا بہت احترام کرتا تھا۔ جب وزیر اعظم بنا  تو شریفی نامی اور ابو الفضل قاسمی نامی  کے ساتھ  زنجانی صاحب کے گھر پہنچ گیا، کہ ایک دن ڈاکٹر مصدق کی قبر پر ساتھ چلیں ، ہیلی کاپٹر کے ذریعے۔  کہنے لگے کہ : یہ کام آپ نہیں کریں گے۔ اصل میں آپ کو وزیر اعظم بننا ہی نہیں چاہئے تھا کہ آج مصدق کے مزار پر جانا پڑے، میں نہیں آسکتا آپ کا بہت شکریہ۔

یہ شریفی نے، جو بختیار صاحب کا قریبی بندہ تھا، مجھے خود بتا یا ہے، آج کل فرانس میں ہیں۔  لیکن اسکا  شجاعت اور صراحت کے ساتھ بات کرنا ، یہ صفات مصدق کے کسی دوست میں نہیں تھی۔ کسی سیاسی مسئلہ میں ٹال مٹول یا بات کا گھمانا نہیں تھا، بلکہ اگر کہدیا کہ نہیں،  تو نہیں، اگر ہاں ، تو ہاں۔ مگر یہ کہ اسکو کسی مسئلہ پر قانع کرلیا جائے۔  اور  دل سے بھی ایران میں  اس حکومتی نظام کے مخالف تھا۔

 

سوال: بغاوت کے  بعد، صرف فاطمی صاحب کو پھانسی دی گئی ؟

ہاں، کریم پور شیرازی کو جلا دیا تھا۔

 

سوال: وہ تو حکومتی بندہ نہیں تھا، حکومتی افراد میں صرف فاطمی تھا۔ کیا فاطمی کا جرم مصدق کے جرم سے بڑا تھا ؟

ہاں

 

سوال: صرف اسکے شاہ کے ساتھ سخت لہجہ کی بنا پر ؟

نہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ اسکی باتوں میں اتنا اثر تھا کہ وہ پورے معاشرے کو پلٹا سکتا تھا ۔ لیکن ڈاکٹر مصدق اس طرح کا نہیں تھا۔ ڈاکٹر مصدق نے اپنی پوری زندگی میں ایک بار بھی نہیں کہا "پہلوی کا بیٹا" بلکہ ہمیشہ "بادشاہ سلامت" کہا کرتے تھے۔ قومی محاز میں ۲ افراد ایسے تو جو اسطرح بات کیا کرتے، ایک ڈاکٹر مصدق اور دوسرے ڈاکٹر صدیقی۔ میں نے ایک دن ڈاکٹر صدیقی سے پوچھا تھا  تو بولے:" بزرگ شخصیت ہے، ایک عرصہ اس ملک پر حکومت کی ہے، اسکی بیوی ملکہ ہے، ماں بھی بادشاہ سلامت کی ماں ہے، ان افراد کے لئے کچھ نام چن لئے ہیں۔ تاریخ خود ہی بتادیگی کے یہ لوگ کیسے تھے، اچھے یا برے۔ میں ان لوگوں کا نام برے الفاظ میں نہیں لونگا۔

 

سوال: لیکن فاطمی کو "پہلوی کا بیٹا" کہتے تھے ؟

ہاں، خصوصا جب وہ واقعہ پیش آیا اسکے بعد۔ کیونکہ شاہ چاہتا تھا کہ فاطمی کو رام کرے ، اسکو مغلوب کرے۔ نہ کیا اور نہ ہی کرسکتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ : جو بات میں شاہ سے کہتا ہوں وہ مصدق سے بھی کہوں گا۔ مصدق بھی مجھ سے کہتا ہے کہ یہ  باتیں کرو، شاید  رہنمائی ہو۔

 

سوال: کہا جاتا ہے کہ شاہ  جب بغاوت کے بعد ایران لوٹا، تو اس سے پوچھا گیا :"ان افراد کے ساتھ کیا کروگے ؟ "تو کہا:"مصدق کو ۳ سال جیل اور فاطمی کو پھانسی دونگا۔" فاطمی کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ یعنی یہ حکم  جاری کرنا صرف دکھاوا تھا ؟

ہاں، چاہتے تو یہی تھے کہ جلد سے جلد حکم جاری ہوجائے۔ فاطمی کو بہت جلد کٹھیرے میں لے آیا گیا اور جلدی ہی پھانسی بھی دیدی۔ شاہ نے  محسوس کرلیا تھا کہ فاطمی کا معاشرے میں زندہ رہنا، اس وجہ سے کہ عوامی شخصیت بھی ہے ،  مصدق کی جگہ  لے سکتا ہے، اگر کسی دن  پارلیمنٹ تشکیل ہو اور لوگ عدم اعتماد کا ووٹ دیں   اور مصدق کو کنارے لگادیا  ۔  لہذا عوامی جوش و خروش کو دبانے کے لئے فاطمی کو ہٹانا ضروری ہے۔

 

سوال: فاطمی صاحب کی پھانسی کی خبر پر، عوامی رد عمل کیسا تھا ؟

عوام ، چوٹ کحا چکی تھی، بائیں بازو والوں نے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی تھی، تحریک تودہ والوں نے بھی کہا کہ : اسنے ہمارا ساتھ نہیں دیا کہ ہم اسکو جیل سے آزاد کراتے۔  اسکی روش حتی  قومی مزاحمتی تحریک سے بھی نہیں ملتی تھی، وہ تحریک جو چاہتی تھی کہ مزاحمت کو تسلسل بخشے اور وہ نظریات جو عبد اللہ خان معظمی، دیوان بیگی اسی طرح ابوالفضل لسانی اور  کچھ دیگر افراد جو ملے تھے، کسی کے نظریات سے مطابقت نہیں تھی۔  ہم ایک انقلابی تحریک کی حیثیت سے نہیں تھے، بلکہ ایک غیر انقلابی قانونی انجمن تھے۔ فاطمی کے بعض نعرے انقلاب سے بھی آگے کے تھے۔

 

سوال: دوبارہ  اس بات کی جانب آنا چاہوں گا کہ کیا ڈاکٹر فاطمی  اس وقت بھی تحریک تودہ سے رابطے میں تھے جو انہوں نے مرحوم سے کہا کہ ہم تمہیں آزاد کرادیں گے اور انہوں نے قبول نہیں کیا ؟

ہاں، جس طرح مصدق کو بھی کہا تھا۔

 

سوال: آپ نے کہا کہ از بات سے خوفزدہ تھے کہ کہیں لوگ فاطمی کی جانب نا آجائیں  لہذا اسے جلدی پھانسی دےدی۔ لیکن جب انکو پھانسی دی تو کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

یہ ایرانی قوم کی خصلت ہے۔ گلسرخی عدالت میں بیان دیتا تھا۔ روزانہ اخباروں میں لکھا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں گلسرخی کو پھانسی  دےدی گئی۔ جو کوئی دیکھتا تھا صرف یہی کہتا تھا کہ:"افسوس ہوا کہ مر گیا"کہتے تھے اس سال اسکی قبر پر جائیں، نہیں، اس سال اسکی برسی منائیں، نہیں۔ ایرانی خصوصیت یہی ہے۔

البتہ علماء کی خصوصیات یہ نہیں ہیں، ہمیشہ امام حسین علیہ السلام کی صفات کی بات کیا کرتے۔ لیکن سیاسی افراد ، ان میں یہ چیز نہیں۔  انکے پاس فاطمی ہے، کریم پور شیرازی ہے، لیکن اسی طرح گزرتے رہے، اب اگر ایک دن یہ حکومت میں پہنچیں تو کہیں کہ: جی، ان افراد نے یہ یہ کارنامہ انجام دیے ہیں۔ لیکن سیاسی افراد کے ساتھ یہی مسئلہ ہے، ہماری کمزوری یہی ہے۔

 

سوال: کیا فاطمی صاحب، شمس قنات آبادی   سے رابطہ میں تھے ؟

جی، کیونکہ مکی رابطے میں تھا، شمس صاحب بھی رابطے میں تھے۔ البتہ شمس صاحب نے فاطمی کی قدرت سے غلط فائدہ اٹھایا۔   کبھی فاطمی کی طرفداری نہیں کی۔  محسن بگدلی نے اپنے اخبار "شلاق" میں فاطمی کے خلاف لکھا۔ لکن مسلمان مجاہد انجمن نے جو شمس قنات آبادی کی طرفدار تحی، کچھ نہیں کہا۔ حتی خود فدائیان اسلام نے،  اسکے اخبار کے ایڈیٹر امیر عبد اللہ  کرباسچیان تھے، ایک  لفظ بھی فاطمی کے بارے میں نہیں لکھا۔

کاشانی صاحب فاطمی کا بہت احترام کرتے تھے کیونکہ واقعا ایک مسلمان تھا، حقیقت یہی ہے کہ مصدق کی کابینہ میں ، فاطمی اسلام کا پابند تھا۔  ایک عالم دین کا بیٹا تھا، جیسا میں نے کہا کہ تم اس کہ ایک ایک مقالہ کو دیکھو ایک آیت اس میں موجود ہے، ایک روایت سے استناد اس میں موجود ہے۔

فاطمی ایک بار نہیں مارا گیا بلکہ ۳ بار مارا گیا۔  ہمارے یہاں اہل قلم زیادہ ہیں، عشقی، فرخی یزدی یہ سب ایک ایک بار مارے گئے، لیکن یہ اللہ کا بندہ ۳ بار  قتل کیا گیا۔ ایک بار عبد خدائی صاحب آئے اور مارا، دوسری بار اسکو تھانے لےگئے اور چاقو اور ڈنڈوں سے مارا اور تیسری بار جب  اسکو تختہ دار  پر پھانسی کے لئے لے گئے۔  ہمارے روشن فکر افراد ، اپنی روشن فکری کی بنیاد پر جو تحلیل کرتے ہیں کہ : وہ دن گزر گیا، ابھی کی سوچو۔ وہ دن اسی وقت سے مربوط تھا۔ آپ جتنا کہیں کہ اس دن کا تجربہ آج تمہارے کام آئے گا ۔ کہیں گے: نہیں۔

 

آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا، اس بابت شکرگزار ہیں آپ کے۔

 

 

*حظیرۃ القدس، تہران میں بہائیوں کی عبادت گاہ، جہاں ساواک بھی  اپنے بعض کاموں کو انجام دیا کرتی تھی۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4059


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔