انقلاب کا نظریہ

انقلاب سے پہلے یونیورسٹی کے طلباء کی کارکردگی کے بارے میں نقی لطفی کی داستان


2015-8-29


ڈاکٹر شریعتی  نے اپنی گفتگو میں ایک بحث یہ چھیڑی ہے کہ فرانس میں کیسے انقلاب آیا؟ اور اگر ہم بھی معاشرہ میں تحول کے در پے ہیں تو اسی طرح عمل کرنا چاہئیے اور ڈاکٹر  شریعتی کی نظر میں وہ زمانہ انقلاب رنسانس سے پہلے کا ہے۔مصدّق کی شکست کے بعد انہوں نے ایک مدت تک اخبار میں مضامین لکھے جن کا سلسلہ بعد میں ختم ہو گیا۔جن میں سے ایک مضمون میں وہ آئینی حکومت کے بارے میں،ایک میں فرانس کے انقلاب  کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہیں ۔بعنوان مثال وہ کہتے ہیں کہ  ولٹائر اور روسو تھے جن کی وجہ سے انقلاب آیا لہذا ہمیں بھی یہی کام کرنا چاہئیے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شریعتی جوانی سے انقلاب کے معتقد اور اس کے در پے تھے اور یہ مسئلہ ان کے فرانس جانے سےمتعلق نہیں ہے۔اخبارات کے مطالب پر بھی اگر ہم نظر ڈالیں تو انقلاب کی بحث موجود ہے اور ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ فرانس میں کیسے انقلاب آیا اور ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟

ڈاکٹر  آخر میں اسی نکتہ پر پہونچتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟ جب وہ ثقافتی بحث میں وارد ہوتے تھے تو اسلامی رنسانس کا نظریہ بھی چھیڑتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ اگر ہم انقلاب کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فکر پیدا کرنی ہوگی  یعنی تفکر  یا   فکری انقلاب پیدا کرنا ہوگا۔پچھلے نظام کو رد کریں  اور ایک نیا نظام پیش کریں جس کا عنوان  خاص حدود کے ساتھ اسلامی حکومت ہو  اس کے بعد ان حدود کی وضاحت کریں اور تشخیص دیں کہ یہ حکومت کیسے وجود میں آئے گی؟  نظریات میں اس کی کیفیت کیا ہوگی اور میدان عمل میں کیسی ہونی چاہئیے؟ ان باتوں کو تھیوری کہتے ہیں  وہی کام جو تھیوریشین انجام دیتے ہیں ۔

ڈاکٹر  شریعتی ایران آتے ہیں تاکہ اس موضوع کو  تعلیمی یعنی فکری لحاظ سے مزید واضح کریں۔ اسلامی حکومت کو تعلیمی چینل سے پیش کریں  اس کے بعد حکومت اسلامی ایسا تفکر ہوگا جس کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔موصوف  اپنی بحث کا آغاز صفوی تشیع سے کرتے ہیں  اورا سلامی حکومت کے نظریہ پر گفتگو کرتے ہیں  اور اس کے حدود اور سنت و اجماع جیسے مباحث کی وضاحت کرتے ہیں ۔

اسی روش سے نظریاتی بحث کرتے ہوئے آخرکار مذہب و قوم کےدرمیان ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔  خود ہی کہتے ہیں کہ ہم اس مقام پر ہیں کہ ان ساسانیوں کے موافق نہیں رہ سکتے۔یا ایک مقام پر کہتے ہیں کہ ہمارا درد ، رستم فرخزاد کا درد  ہے۔ رستم کہتا تھا کہ مجھے نہیں معلوم میں کس چیز کا دفاع کروں؟ ہمارا وسیلہ جنگ ہے  لیکن آپس میں ایک دوسرے کے آمنے سامنےحالانکہ عمل میں مردّد تھا۔ شریعتی بھی ایسے ہی تھے ان کا کام ، آئیڈیالوجی کا مواد فراہم  کرنا تھا۔جیسے روسو اور ولٹائر کہتے تھے کہ سیاسی مخالفت بغیر فکری تحول کے ممکن نہیں ہے؛ سب سے پہلے لوگوں کی فکر کو بدلنا ہوگا اور ایک  ایسی فکر پیش کریں جس پر سب متفق ہوں اس کے بعد اقدام کریں۔

ڈاکٹر شریعتی کا ماننا تھا کہ ہمیں سیاسی مخالفت  کو صحیح جہت میں  استعمال کرنا چاہئیے ۔یقینا ان کی پوری کوشش یہی تھی کہ اس نظریہ کو قوت سے فعلیت کے مرحلہ تک پہونچائیں (یعنی نظریہ سے عمل کی  منزل میں لائیں)۔ وہ ایسے انسان تھے جنہوں نے یونیورسٹی کے طلباء کو مذہبی بنیاد پرستی کی طرف ہدایت دی  اور  اس کا رد عمل حسینیہ ارشاد اور یونیورسٹیز کے ذریعہ تھا  لیکن  ان کی تقریریں زیادہ اثر انداز تھیں۔بیرونی اعتبار سے بھی ظاہر تھا کہ شریعتی کوئی مذہبی رہنما نہیں ہیں  بلکہ ایک نظریاتی رہنما ہیں  اور انقلاب کی فکر کو ایک کارساز فکر کے عنوان سے جانتے تھے۔ بہت سے افراد قلم،اقتصاد یا سماجیات کے معاملہ میں شریعتی سے زیادہ اہلیت رکھتے تھے  لیکن ان میں سے کسی کے اندر ایک نطام کو ایجاد کرنے کی فکر موجود نہ تھی۔

ان کی فکر گزشتہ نطام کا خاتمہ کرنا تھا۔ بجا ہے  کہ اس کے حدود معین نہیں ہیں لیکن اس کی ذات و ماہیت کا علم ہے۔جیسے ہی یہ  نظریہ عملی ہوتا ، تشیع اوج اقتدار پر پہونچ جاتا۔ اس وقت تک شیعی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی ، ممکن ہے کچھ سیاسی رہنماؤں نے کچھ تحولات ایجاد کئے ہوں لیکن اب تک ایران میں موجودہ کیفیت کی شیعی حکومت تشکیل نہیں پائی تھی۔یہ وہ مقام ہے کہ جب دین ، حاکم  ہو جاتا ہے۔   وہ ایسے افراد میں سے ہیں جو دین کے حاکم ہونے کی راہ پر گامزن تھے  اور اسلامی افکار کی بنیاد پر اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش میں تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ حکومت کو دینی رہبروں  اور لوگوں کے ہاتھ میں ہونا چاہئیے۔وہ کہتے تھے کہ لوگوں کو آگے بڑھنا چاہئیے  اور جیسے ہی وہ آگے بڑھیں گے اپنے خاص رہبروں کو تلاش کر لیں گے۔

ڈاکٹر شریعتی اور تحریکیں

ڈاکٹر ۱۳۴۵ ھ ش سے یونیورسٹی میں مشغول تدریس تھے۔فرانس سے واپسی کے بعد تاریخ کے شعبہ میں داخل ہوئے اور اسی میں تدریس کرتے تھے۔اسی وجہ سے یہ ایک مختصر دور تھا جس میں شریعتی، دانشکدہ ادبیات میں  حکومت اسلامی سے متعلق اپنے افکار، اپنا فہم و ادراک،کلاسوں اور دروس و بحث میں پیش کرتے تھے۔وہ دور خود ایک مشکل دور تھا۔نشریات اور سیاسی فضا کے مسدود ہونے اور خفقانی ماحول کی وجہ سے ، ڈاکٹر شریعتی کے لئے حکومت اسلامی جیسے افکار کو پیش کرنے کے لئے کلاسوں میں فضا ہموار تھی۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ انقلاب میں مشہد کا وہی کردار ہے جو آئینی  حکومت کے انقلاب میں تبریز کا تھا۔یعنی مکتب انقلاب مشہد سے نکلا ہے جو دوسرے شہروں میں اتنا نظر نہیں آتاحالانکہ قم مرجعیت دینی اور مذہبی لحا ظ سے ایک سابقہ رکھتا ہے  لیکن حکومت کو تبدیل کرنے اور جدید حکومت کو ایجاد کرنے کی فکر ،مشہدی لوگوں  کے ذریعہ ظاہر ہوئی۔اور اتنا تو مسلم ہے کہ  یہ فکرمشہد میں ہی بعض چریکی  جنگوں (چھٹ پٹ ) کی تنظیمات کے ارکان کے ذریعہ ظاہرہوئی۔

آپ جب مشہد کے بارے میں تحقیق کریں گے تو حقائق اسلامی کو نشر کرنے کا واحد مرکز ڈاکٹر شریعتی کے والد نہیں ہیں ، جو کام ڈاکٹر شریعتی کو ورثہ میں ملا ہو لہذا وہ اسے اپنے دوش پر لئے اپنے والد کی نیابت کر رہے ہوں بلکہ مشہد میں انقلابی اور بنیاد پرست  تنظیمیں ظاہر ہوئی۔ وہی مجاہدین اور چریکی گروہوں کی تنظیمیں تھیں۔لہذا سیاسی تحول  اور انقلابی تغیر کی فکر استاد کے دروس کے ذریعہ جن میں وہ تشیع ، صفوی حکومت اور اسلامی حکومت کے افکار پیش کرتے تھے؛ مشہد سے پیدا ہوئی اور ان کو اس بات کا ایک بڑا موقع ملا کہ حکومت  کی فکرایسے مباحث کے ساتھ پیش کریں جس سے راستہ صاف اور فضا ہموار ہو۔یقینا اسی زمانہ میں اس تفکر کے علاوہ دوسرے افکار بھی موجود تھے لیکن ڈاکٹر شریعتی ایک  مفکر کی حیثیت سے  پوری دنیا میں فکری تحریکوں سے اپنی آشنائی کی وجہ سے خاص طور پر جمہوریت کے گہوارہ فرانس میں رہنے اور استعمار  و سرمایہ داری مخالف تحریکوں  سے   متاثر تھے۔وہ جب ایران آئے  تو  سیاسی تحولات کے عنوان سے انہوں نے  جو باتیں کیں  اس سے فکری طور پر انقلاب کے لئے فضا ہموار کی جس طرح روسو اور ولٹائر نے کیا۔

انہیں معلوم تھا کہ پہلے فکر میں انقلاب لانا ہوگا  اور انقلاب لانے کے لئے آئڈیالوجیکیل مواد فراہم کرنا ہوگا۔اسی وجہ سے حکومت اسلامی کے تفکر کو احیاء کرنے میں مصروف ہو گئے اور ان کی فکر یہ تھی کہ موجودہ شرائط میں تحول ایجا د کیا جا سکتا ہے  ۔ چنانچہ تعلیمی مراکز میں اسلامی حکومت کی فکر کا آغاز مشہد سے ہوا اور انہوں نے اسی طرح دوسرے شہروں کو بھی اس فکر سے جڑنے کی دعوت دی  یہاں تک کہ یہ فکر دوسرے شہروں مثلا تہران، تبریز وغیرہ تک بھی پہونچ گئی ۔ وہ اپنی رفت وآمد میں حسینیہ ارشاد جاتے تھے تاکہ یہ موضوع اور زیادہ عام سطح پر پیش کیا جا سکے اور وہاں تقریر کرتے تھے۔میرا گمان ہے کہ یہی وہ موقع ہے جب اسلامی حکومت کے مقابلہ میں مارکسیزم  اوربائیں بازو کے افکار بھی زیر بحث تھے۔

یونیورسٹی کے طلباء جمہوریت کی تحریک کی جانب مائل ہو گئے تھے۔ڈاکٹر شریعتی نے ایک طر ف ان سنتی تحریکوں کے مقابلہ میں  اور دوسری طرف بنیاد پرست تحریکوں کے مد مقابل ، تفکر حکومت اسلامی کی تحریک کو غیر معمولی طور پر آگے بڑھانے کی کو شش  کی اور مارکسیزم کے نظریہ کو رد کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی طاقتوں کے لئے واضح کر دیا  کہ اسلامی حکومت ، آئیڈیالوجیکل مواد کی فراہمی کے ذریعہ ، موجودہ حالات سے پوری طرح ہماہنگ ہے  اور وہ زمانہ وحالات سے پیچھے نہیں ہے بلکہ دین ، خود کو زمانہ کے ساتھ ہماہنگ کر کے معاشرہ کی تمام ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے۔

ان کی دلیل یہ تھی کہ ایرانی معاشرہ مذہبی ہے۔یہاں سارے لوگ  دین پر عمل کرتےہیں لہذا اسی دین کے ذریعہ لوگوں کے درمیان نفوذ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کی نگاہ میں شیعیت ایک اعتراضی طاقت تھی جس سے  استفادہ کرکے ، طلباء کے لئے اسلامی تفکر کو جذاب بنایا جا سکتا تھا اور یہی نکتہ سبب بنا کہ اسلامی تفکر تعلیمی فضا میں ایجاد ہو گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے اساتذہ تعلیمی فضا میں اس طرح سے اسلام کے در پے نہیں تھے البتہ کچھ افراد تھے لیکن ان کے پاس جوانوں جیسی طاقت نہیں تھی لیکن ڈاکٹر شریعتی نے جوانوں کو جمع کیا اور ان کی فکر کو اپنی طرف مائل کرنے کو اپنا مقصد قرار دیا۔جوانوں کے درمیان خاص طور پر مشہد اور تہران کے طلباء میں اپنی جگہ بنا لی۔حسینیہ ارشاد میں یہی مسئلہ عام سطح پر جوانوں کے لئے پیش کیا گیا۔پوری جرات کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ڈاکٹر شریعتی تھے جنہوں نے جوانوں کو اسلام ، اسلامی افکار اور اسکے صحیح مفہوم کی طرف دعوت دی اور وہ خود کو سید جمال الدین اسد آبادی اور علامہ اقبال لاہوری کے مسلک کا مروج سمجھتے تھے۔

ان کا ماننا تھا کہ ایک قسم کی بازگشت ان ہستیوں میں پیدا ہوئی خاص طور پر جمال سے جلال  کی طرف ہوئی اور شریعتی میں یہ بازگشت اپنے کمال پر پہونچ گئی  اور یہ راہ ، اسلامی بازگشت کو بطریق احسن انجام دیتی ہے۔

شریعتی کے آنے سے مصدّق کی تحریک ختم ہونے لگی اور اس کی وجہ سے ڈاکٹر شریعتی کی شخصیت نمایاں ہونے کے لئے راستہ کھل گیا اور اس کے بعد آقا بھی اپنی گفتگو کے درمیان فرما رہے تھے اور واضح بھی ہے کہ شریعتی اس حکومت کے مخالف ہیں۔انہوں نے ۱۳۵۰ ھ ش تک مشھد میں درس دیا اور اسکے بعد ۲۵۰۰ سالہ جشن میں شرکت کے لئے تہران گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔

جو لوگ واپس آئے ان کے پاس سیاسی دلائل تھے لیکن شریعتی کے پاس فکری دلیل تھی۔البتہ کچھ دوسرے افراد بھی شریعتی کے مخالف تھے،آخر کے کچھ برسوں میں ڈاکٹر شریعتی کے درس کم ہو گئے اور اسکی وجہ بھی ایسے اساتیذ کا وجود تھا جو حکومت کے حامی تھے لہذا آخر میں صرف تاریخ تمدن کا درس دیتے تھے۔ان کی تدریس کا وقت ۱۲ گھنٹہ سے ۳ گھنٹہ تک پہونچ گیا اور دھیرے دھیرے انہیں رٹائر کر دیا اور یونیورسٹی میں ان کا کام ختم ہو گیا اگرچہ حسینیہ ارشاد میں ان کی کارکردگی جاری تھی۔ انہوں نے صرف ۵ سال مشہد میں تدریس کی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دارالحکومت تہران تھا اور ملک کی اکثر آبادی وہیں ساکن تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔تھران آئینی حکومت کے دور میں آمادہ تھا اور لوگ تہران کی طرف جاتے تھے۔اکثر عام لوگ اپنے کام کاج میں ترقی کے لئے تہران جاتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ انقلاب کا مرکز مشہد میں تھا مثال کے طور پر اب ہمیں معلوم ہے کہ رہبر انقلاب مشہد میں ہی تھے اور شریعتی کو پہچانتے بھی تھے مثلا کوئی کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر شریعتی نے صدر سے کہا کہ میرے کمرے میں رہے کیونکہ ایک شخصیت بنام  علی خامنہ ای آئیں گے۔چنانچہ مشہد میں ایسے افراد تھے جو جوان اور بنیاد پرست تھے اور ڈاکٹر کی بحثوں کی طرف مائل تھے۔

مشہد کے مرکز کو دیکتھے ہیں تو بازرگان کے خانوادہ سے روبرو ہوتے ہیں اور۔۔۔ لیکن تہران میں چونکہ وسیع تر تحریکیں تھیں لہذا ان افکار کو تہران میں منتقل ہونا چاہئیے تھا۔حسینیہ ارشاد ان افکار کو منتشر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔اخبار صرف تہران میں آمادہ ہوتا تھا۔آج بھی لوگ دار الحکومت کی طرف دیکھتے ہیں اور رد عمل کو تہران سے حاصل کرتے ہیں۔امام خمینی (رہ) بھی قم سے تہران تشریف لائے۔ اسی طرح سیاسی شخصیتیں بھی تہران سے  تعلق رکھتی ہیں۔

۳۲ ھ ش کے بعد سے ثقافتی مسائل میں ، اجتماعی طبقات میں ، علمائے دین کے سلسلہ میں، یونیورسٹی کے طلباء کی تنظیموں ، کاریگر طبقہ اور روشنفکر طبقہ کے سلسلہ میں تحلیل ہونی چاہئیے۔وہ کام جو آئینی حکومت کے انقلاب  کے سلسلہ میں انجام پائے ان کا حجم زیادہ ہے ۔ ہمارے پاس منبع  شناسی  زیادہ ہے لیکن ہماری دسترس میں چند اخبارات  وغیرہ ہی ہیں لہذا بنیادی اورعمیق کام یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایک انقلاب کو اپنا ریشہ مانتا ہے لیکن کن نظریات کے ذریعہ اس انقلاب کا تجزیہ کیا جائے  اور شاید وہ اسے نہ قبول کرے لیکن جو نظریات  انقلاب کی تحلیل و تعریف کرتے ہیں اس سے  متفق نہیں ہیں۔

اگر انقلاب کو ایک اجتماعی ، انسانی، مادی اور اقتصادی مسئلہ  کے عنوان سے تصور کریں تو تجزیہ کا راستہ کھل جائے گا۔مشہد بھی اسی طرح ہے ، محققین جزئی موارد پر کام نہیں کرتے ہیں مثلا ہم دیکھتے ہیں کہ  مشہد بہت روشن ہے اور میں مشہد کے مکتب کو بہت اہمیت دیتا ہوں۔اصفہان میں خاص طور پر کوئی خاص کارکردگی نہیں تھی  البتہ میری مرادا اجتماعی اور مادی تحول نہیں ہے  بلکہ فکری تحول ہے۔شریعتی نے مشہد سے شروع کیا اور تہران گئے  اور پھر پورے ملک میں اس کا اثر ظاہر ہونے لگا اور شریعتی انقلاب کے تھئیوریشین بن گئےکہ اب ہم کہتے ہیں یہ فکر انقلاب مشہد سے شروع ہوئی اور مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ خراسان ماضی میں بنیادی کردار کا مالک تھا۔

 

 

سیاسی مسائل کی نسبت طلباء کا رد عمل

۱۳۵۰ ھ ش میں ایران کا ماحول بہت خفقانی تھا۔اخبارات کو بند کر دیا گیا تھا ، ساواک (شاہ پہلوی کی  جاسوسی تنظیم)  کی کارکردگی وسیع پیمانہ پر تھی  اور یونیورسٹی کے مجاہدانہ اقدامات بھی اوج پر تھے۔ مختلف پہلؤوں میں بنیاد پرستی کے  تناسب سے  حکومت نے ملک کو امنیتی رخ دے دیا تھا۔جشن اگر منعقد ہونا ہوتے تھے  تو شیراز میں مہمانوں کے آنے کے لئے امنیتی ماحول ایجاد کیا جاتا تھا۔ایک دن ڈاکٹر شریعتی نے کہا کہ میں جوانوں سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ایک دن ، دوپہر کے ۲۔۳ بجے سے رات ۱۰ بجے تک گفتگو کی۔انہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ ایران کی سب سے اصلی اور فوری ضرورت کیا ہے؟کسی نے بھی مطالب کو نوٹ نہیں کیا کیونکہ ان کا ارادہ خدا حافظی کا تھا  اور اس کے بعد پھر ہم نے انہیں نہیں دیکھا۔میں اس کے بعد شیراز گیا  ، اس کے بعد افسری کا دور شروع ہو گیا اور اس سال میں مشہد میں نہیں تھا۔لیکن ۵۳ ھ ش میں مجھے یقین ہے کہ ایک بہت سنگین اعتصاب مشہد میں ایجا د ہوا۔میں ملک سے باہر تھا۔ ۵۳ ھ ش کے آخر میں واپس آیا اور یہ واقعہ ۵۳ ھ ش کے دی  مہینہ رونما ہوا۔دانشکدہ کےرئیس سالم نہیں بچے تھے اور اطراف کی روڈ یں بند کر دی گئی تھیں۔اساتذہ اور رؤسا بڑی مشکل سے پیچھے کے دروازہ سے فرار ہوئے تھے۔ڈاکٹر شریعتی اس کے بعد ہم سے نیچے درجہ کے طلباء کو درس نہیں دیتے تھے۔ڈاکٹر اب مشہد کی سطح سے بہت اوپر جا چکے تھے۔

جوان نسل زیادہ تر یونیورسٹی کے طلباء میں سے ہے۔دانشگاہ کا ورودی امتحان، با استعداد و ذہین طلباء کے انتخاب کا ایک ذریعہ ہے، جو علمی لحاظ سے منتخب کئے جاتے ہیں وہ زیادہ ذہن و فراست کے مالک ہوتے ہیں۔لہذا ایسے جوانوں میں سیاسی فکر موجود ہوتی تھی۔انجینئرنگ اور ٹکنولوجی کے طلباء ، ریاضی کے سخت مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں لہذا وہ ایک نظام سیاسی کے تجزیہ کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں نتیجہ میں انہوں نے فکر کی اور سمجھ گئے کہ ایک ملک جس میں اتنے زیادہ وسائل موجود ہیں  وہاں فقیری کیوں اتنی زیادہ ہے اور حکومت فوجی اسلحے خریتی ہے؟  یہاں اجانب اور غیر ملکی افراد کیا کر رہے ہیں؟ اتنی زیادہ  پلیس کی سختی کس لئے ہے؟ کیوں لوگوں کو آزادی اور اظہار نظر کا حق حاصل نہیں ہے؟ کیوں عوام کا حکومت میں کوئی کردار نہیں ہے  اور صرف شاہ یا اس کی طرف سے منصوب عہدے دار ہی  اپنی بات کہہ سکتے ہیں؟  تنظیموں اور احزاب کو افراد کی ضرورت ہے۔دیہاتوں میں افراد با صلاحیت نہیں ہیں اسی وجہ سے احزاب فورا  یونیورسٹیز سے نزدیک ہو جاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ طلباء چونکہ اہل فکر ہیں لہذا وہ فکر ایجاد بھی کر سکتے ہیں۔

 ملی فرنٹ کی شکست سے ظاہر ہو گیا کہ ان کے پاس کوئی خاص راستہ نہیں تھا  اور رہبری بھی نہیں تھی لیکن اس میں ایک و سیع  سیاسی رہبری کو اپنے کاندھوں پر لینے کی صلاحیت موجود ہے ۔لہذا جوان، مجاہدین ، چریک اور فدائی جیسی تنظیموں کے بنانے میں لگ گئے۔۴۲ ھ ش میں یہ تنظیمیں وجود میں آئیں۔اسی کے ساتھ ساتھ موجودہ ماحول سے لڑنے کے لئے فکری مراکز جیسے اسلامی انجمنیں بھی اسی مسئلہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔ یا یوں کہا جائے کہ دانشگاہ کے باہر دو مسئلہ ہیں۔ایک یہ کہ ماحول سیاسی ہوتا جا رہا تھا اور طلباء کی تحریک پوشیدہ طور پر ہوتی جا رہی تھی چونکہ سیاسی  فضا آزاد نہیں تھی۔دو حزب ایران نوین آئے تھے تاکہ انتخاب کئے جائیں اور پارلیمنٹ کا نظام فرمائشی تھا۔یہاں تک کہ اس قسم کی کارکردگی بھی پوشیدہ اور مخفی ہوگئی لیکن دوسرے طرف اس پر مذہبی پردہ پڑا ہوا تھا۔بذات خود ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ حکومت کو تبدیل کیا جائے اور استبداد و استعمار و سامراجی طاقتو‌ ں کے خلاف جنگ کی جائے۔

یونیورسٹی کے طلباء اس کام کو کسی صورت انجام دیتے تھے جو عالمی سطح پر تھا جیسے ویتنام کی جنگ۔

چنانچہ بنیاد پرست تنظیموں پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی اور حکومت ان سے سختی سے مقابلہ کرتی تھی۔حالانکہ جو تنظیمیں اس تفکر کی نہیں تھیں وہ پس پردہ اپنی کارکردگی کو انجام دے سکتی تھیں  اور اجتماع بھی منعقد کر سکتی تھیں۔لہذا انقلاب کے زمانہ میں اس طرح لگتا ہے کہ اس قسم کی طاقتیں موجود تھیں اور انقلاب کے بعد وسیع گروہ یا مختلف طبقوں کے ساتھ شرکت کرتی ہیں لیکن  ایک موضوع میں ان کاسب سے اتحاد ہے اور وہ ہے سلطنت کو رد کرنا۔اس موقع پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ آیا انقلاب بیرونی ہے یا اندورنی؟

استبداد و  سامراجیت کے خلاف ایران کا تحرک، عالمی سامراجیت سے اس کی آگاہی سے متعلق ہے۔

 

اصول کارٹر

ایران کے لئے  اصول کارٹراس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ شاہ نے ایران میں ظالمانہ حکومت  ایجاد کی ہے  اور یہ امریکا کے لئے ایک خطرہ ہے  اور ایران ایک پکا ہوا پھل ہے جسے ماسکو کی آغوش میں نہیں گرنا چاہئیے۔چین کا انقلاب و۔۔۔بھی اثر انداز تھا اور ممکن ہے  کہ سوشلزم علاقہ میں رائج ہو جائے۔

یہ اس بات کا سبب ہوتا کہ بنیاد پرست طاقتیں بائیں بازو کی طرف چلی جائیں۔حالانکہ یہ تجزیہ اِس زمانہ میں شدید ہو گیا جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔

یہاں تک کہ سر د جنگ بھی  کم ہو گئی  اور یہ فکر ذہن میں آئی کہ ایران میں انوریشن ایجاد کریں تاکہ دوستانہ پیدا ہو اور پارلیمنٹ کو ایک کھلی سیاسی فضا کی ضرورت تھی۔بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ آمریت رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہم زمانی ہر جگہ ہے۔ایران میں یہ کھلی ہوئی سیاسی فضا اورپرسے تھی اور کچھ شاہ کی طرف سے شروع ہوئی۔نتیجہ میں لبرل  فرنٹ کے لئے کھلی فضا ایجا دہو گئی۔

اس کے بعد پہلی تبدیلی سن ۵۶ ھ ش  یہی سیاسی فضا کی آزادی سازی ہے۔ ابھی اسلامی تفکر خود کو ظاہر نہیں کر تا ہے۔سن ۵۷ ھ ش میں  یہ اہم ہے کہ علمی و تعلیمی مراکز۔۔۔تھوڑے عرصہ بعد یہ دونوں بدل گئے چونکہ مہر و آبان مہینہ تک تحریک کا کوئی خاص رہبر نہیں تھا ۔سیاسی اعتراضات اوج پر پہونچ چکے تھے لیکن جیسے ہی انہیں رہبری ملی حالانکہ جو ایک خاص  منصوبہ بندی کے تحت تھی۔یعنی اگر ڈاکٹر شریعتی نے وہ بیج نہ بویا ہوتا تو  آقا (امام خمینیؒ) حاضر نہ ہو پاتے تاکہ اس  ہموار  فضا میں وہ دینی افکار کو  روشن کر سکیں۔مغربی تنظیموں اور  اداروں کے لئے ممکن ہے کہ ایک مدت تک یہ واضح نہیں تھا لیکن اس زمانہ میں تحریک کے رہبر کے عنوان سے انہوں نے حتی قومی رہبروں وغیرہ کو بھی متاثر کر دیا۔اور نتیجہ میں یہ سب سے غالب تحریک بن گئی  اور یہ بات مسلم ہو گئی کہ ماحول بدل گیا ہے۔میں سمجھتاہوں کہ ابتدا میں علمائے دین کے اندر سیاسی کارکردگی کے لئے اتنی آمادگی نہیں تھی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  کچھ افراد پشت پردہ آمادہ تھے۔بازرگان حکومت میں ہیں۔جب آئین نامہ لکھا جانے لگا اس وقت  جمہوریت اور ولایت کا مسئلہ پیش کیا جاتا ہےجو کہ اس سے پہلے نہیں تھا۔اور رفتہ رفتہ ولایت و فقاہت نے  ملک کے آئین نامہ کو اپنے زیر اثر لے لیا اور ایک نیا نظریہ سامنے آیا۔اور اس طرح جمہوری نظام وجود میں آیا البتہ جمہوری الحادی بھی ہو سکتا تھا لیکن ان لوگوں نے اسے جمہوری اسلامی بنایا۔حالانکہ مسئلہ یہ تھا کہ جمہوریت ، ولایت کے ساتھ کیسے مطابقت کرے گی؟یعنی جمہوریت وہ نطام ہے جس کی قدرت کا سر چشمہ  نیچے سے(عوام) معین ہوتا ہے لیکن ولایت وہ نظام ہے جس کی طاقت کا سرچشمہ اوپر یعنی خداو ائمہ ؑ سے پیدا ہوتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو اس زمانہ میں پیدا ہوئی یعنی اداری نظام پہلے لبرل شکل میں تھا۔افراد اس خصوصیت کے حامل تھے لیکن جب حکومت کی نوعیت میں تبدیلی  کرنا ہوئی  اور جمہوری اسلامی  ہونا طے پایا تو پھر ظاہر کو بھی تبدیل کیا گیا۔بازرگان کی حکومت میں مکتبی لوگ  نہیں تھے اور ان کے اندر سیاسی  احساس تو تھا لیکن دینی درد نہیں تھا لیکن اب ایسے افراد ہوں جو مکتب (حکومت دینی) والے ہوں  اور دینی احساس رکھتے ہوں  اور ان تبدیلیوں کا اثر بہت تیزی سے ظاہر ہوا۔بازرگان ان افراد کے ساتھ شریک کار تھے جن کے اندر سیاسی شناخت پائی جاتی تھی  اور انہیں معلوم تھا کہ مختلف شہروں میں جو افراد ہیں وہ کس کام کے لائق ہیں لیکن جب ولایت کا نظریہ اور اس کی خصوصیات پیش  کی گئیں تو اب ایسے افراد لائق کار نہیں تھے شاید انقلاب نے بنیاد پرستی کی جہت اختیار کر لی ۔ بعض افراد جو افراطی اور سلطنت طلب  وغیرہ تھے وہ ایک طرف اور جو صرف منصب پرست تھے انہیں دوسری طرف معزول کر دیا گیا۔جو لوگ حاکمیت کے مخالف تھے انہیں بھی الگ کر دیا گیا اور ان کا صفایا ہو گیا۔یہ امورثقافتی انقلاب کے ذریعہ انجام پائے۔   حاکمیت صرف اسی فرد کو قبول کرتی تھی جو منتخب ہو۔

طلباء کی اسکالر شپ

 کسی بھی  موضوع کےاول درجہ  کے طلباء کی اسکالرشب وزارت علوم کے ذمہ تھی۔یہ یونیورسٹیز کے لئے  ٹیم تیار کرنےکا ایک طریقہ ٔ کار تھا۔جو لوگ یونیورسٹی میں داخل ہوتے تھے وہ با صلاحیت ہوتے تھے۔ سب کے پاس اتنے مادی امکانات نہیں تھے صرف ثروتمند طلباء ہی خود  سےاعلی تعلیم کے لئے یوروپ  جا سکتے تھے لیکن جواُن سے نیچے طبقہ کے افراد تھے وہ نہیں جا سکتے تھے۔جنہیں اسکالرشب دی جاتی تھی انہیں ذاتی صلاحیت کی بنا ء پر یہ سہولت ملتی تھی۔سن ۳۰ اور ۴۰ ھ ش کے درمیان  کےممتاز طلباء، فرانس اس کے بعد برطانیہ اور پھر امریکا جاتے تھے۔فرینکلوفل اور انگلوفل  یہ وہ افراد تھے جو فرانس اور برطانیہ سے تعلیم یافتہ اور ان کے چاہنے والے تھے ۔

 طلباء جس ملک کی فضا میں تعلیم حاصل کرتے تھے وہاں سے متاثر ہو  جاتے تھے۔فرانس میں زیادہ تر آزادی اور برطانیہ میں نظم و انضباط اور اداری امور کو اہمیت حاصل تھی۔لہذا وہ افراد جو امریکا سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے وہ وہاں کے زیر اثر پارلیمنٹ اور جمہوریت کے خواہاں تھے اب اگر یہ کہا جائے کہ یہ افراد چونکہ امریکا میں تھے اس لئے جمہوریت کے طالب ہو گئے تو صحیح ہے۔

مثال کے طور پر فرانس جہاں بھی ہو جمہوریت ایجاد کرتا ہے لیکن برطانیہ جہاں بھی رہے سرمایہ داری کا نظام ایجاد کرتا ہے۔یقینا ۳۲ ھ ش تک ایران میں جمہوریت کی فکر بہت زیادہ نہیں تھی۔مثال کے طور پر جمہوریت کے بارے میں  مصدّق بھی نہیں سوچتا تھا لیکن کہتا تھا کہ پارلیمنٹ کا نظام ہو اور شاہ حاکم رہے۔وہ آئینی سلطنت کا طرفدار تھایہاں تک کہ      سن ۴۲ ھ ش تک ہمیں جمہوریت کی صدا سنائی نہیں دیتی لہذا  یہ رجحان سن ۴۲ ھ ش سے سن ۵۷ ھ ش کے درمیان پیدا ہوا۔اب یہ رجحان جابجائی کی بنیاد پر تھا یہ اس وجہ سے کہ دوسرے ممالک  چونکہ جمہوریت کے طالب ہوگئےتھے لہذا ایران بھی ایسا ہو گیا۔لیکن یہ رجحان شریعتی جیسے اساتذہ کے ذریعہ پیدا ہو ا ہو جو اسکالر شپ کے ذریعہ باہر تعلیم حاصل کرنے گئے  لیکن  ان کی کارکردگی ، طبقاتی بنیادوں پر منحصر تھی۔اکثر اساتذہ  حکومت پر تکیہ کئے تھے اور حکومتی شغل حاصل کرتے تھے لیکن ڈاکٹر شریعتی کے اندر اقتدار حاصل کرنے کا تمائل نہیں تھا۔

سن ۵۶ ھ ش میں دن میں بھی درس ہو تا تھا اور شب میں بھی اور میں سب میں شریک ہوتا تھا۔طلباء کی فکر کو پہچاننا میرے لئے دشوار تھا اور یہ تحریکیں جو پیش آئیں تھیں ایسا لگتا تھا کہ چریکی گروہوں کی شکست  و خفقان کے بعد طلباء میں ایک انفعالی حالت پیدا ہو گئی تھی  اور  ماحول ٹھندا ہو گیا تھا  اور میں دوری کی وجہ سے طلباء کے نظریات سے آشنا نہیں تھا۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ آیا  کوئی گروہ یا  تنظیم وغیرہ ہیں یا نہیں  لیکن اس کے بعد سن ۵۷ ھ ش میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آگ ، راکھ کے نیچے دب گئی تھی۔۔۔

 


حوالہ: سائٹ تاریخ شفاہی ایران


 
صارفین کی تعداد: 4377


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔