شہید مصطفیٰ نمازی فرد کی والدہ سے ملاقات

ایک گھر جتنی یونیورسٹی

سمیرا نفر

مترجم: ضمیر علی رضوی

2025-1-16


خزاں کے ایک روز ہم، شہید مصطفیٰ نمازی فرد کی والدہ کے گھر مہمان ہوئے؛ وہ گھر کہ جس کے ہر گوشے میں محبت، ایثار اور استقامت کی ایک کہانی پوشیدہ تھی۔ اس گھر میں ہماری ملاقات اس ماں سے ہوئی جس کا دل، صبر و تحمل کا دریا تھا۔ ان کا کلام، صبر و استقامت کی آیتیں تھا۔ وہ دھیمی لیکن احساسات سے بھرپور آواز میں پہلوی حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد اور مقابلے کے کٹھن دنوں کے بارے میں بتا رہی تھیں؛ ان دنوں کے بارے میں کہ جب ان کے چھوٹے بیٹے علی رضا کو ان کی آغوش سے چھین لیا گیا اور انہوں نے پھر کبھی اسے نہیں دیکھا، ان کا بڑا بیٹا اپنے مقدس مقاصد کی راہ میں زخمی ہوگیا اور مصطفیٰ نے خندہ پیشانی سے شہادت کا استقبال کیا۔ ان کا ہر لفظ اور ہر جملہ، انقلاب اور مسلط کردہ جنگ کے جوش و ولولے کے ساتھ ایران کی ایک الگ تصویر پیش کر رہا تھا۔ وہ، مصطفیٰ کے بارے میں بتا رہی تھیں؛ اس نوجوان کے بارے میں کہ جو امام خمینی(رہ) کے دیدار کے لیے تڑپتا رہتا تھا، اس کے یونیورسٹی سے محاذ پر جانے کے بارے میں، اس وعدے کے بارے میں جو اس نے اپنی ماں سے کیا تھا کہ اگر میں 25 دن تک واپس نہ آیا تو پھر مزید میرا انتظار نہ کیجیے گا، اس آخری الوداع کے بارے میں کہ جب ماں، اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ اپنے بیٹے کے چہرے پر پھیر رہی تھی اور اسے دیکھنے کے ہر پل کو غنیمت جان رہی تھی، اسے دولہا بنانے کے ارمان کے بارے میں اور ان آنکھوں کے بارے میں جو آنسوؤں کا سمندر بن چکی تھیں، اس المناک دن کے بارے میں کہ جب برسوں کی جدائی کے بعد انہوں نے مصطفیٰ کے پاکیزہ جسد خاکی کو اپنی آغوش میں لیا، جسد خاکی نہیں بلکہ کچھ ہڈیوں کی ایک گٹھڑی۔ ان جملوں کو اس ماں کی زبان سے سننا کہ جس کے اپنے بیٹے کے لیے ہزاروں ارمان تھے، بہت سخت تھا؛ لیکن شہید مصطفیٰ نمازی فرد کی والدہ ایک مثالی صبر کے ساتھ اور اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے، اپنے بیٹے کے نہ ہونے پر صبر کر رہی تھیں۔ گویا انہوں نے ایک چھوٹے سے گھر میں ایک بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی؛ استقامت کی یونیورسٹی، ایثار کی یونیورسٹی اور عشق کی یونیورسٹی۔

وہ یونیورسٹی کہ جس میں انہوں نے ہمیں عظیم درس دیے: اس صبر کا درس جو مشکلات اور مصیبتوں کے سامنے مسکراتا ہے؛ اس ایثار کا درس جو وطن پر جان نثار کردیتا ہے؛ اور اس عشق کا درس جو انقلاب اور اپنے امام زمان(عج) کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ شہید مصطفیٰ نمازی فرد کی والدہ سے ہماری ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لیا اور ان سے ہمارے لیے دعا کرنے کو کہا۔ پھر ملیں گے، اے عظیم خاتون!

 

 

 

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 190


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
شہید محمد جواد تندگویان کی اہلیہ

بتول برہان اشکوری کی یادیں قسط 1

محمد جواد جو ان حالات سے تھک چکے تھے، انہوں نے کسی دوسری جگہ جانے کا فیصلہ کیا لیکن جن حالات میں وہ پھنسے ہوئے تھے، ان کے لیے صرف ایک ہی جگہ باقی بچی تھی اور وہ تھی انجینیئر بوشہری صاحب کے کام کی جگہ؛ شہر رشت میں ’’پارس توشیبا‘‘[1] نامی کمپنی۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔