گھٹن اور تناوَ کی فضا میں تدفین

شہید سعیدی کے تشیع جنازے کا واقعہ

ترجمہ: محب رضا

2023-10-27


مجھے 1349 کا سال یاد آتا ہے جب مرحوم سعیدی رحمۃ اللہ علیہ ابھی ابھی شہید ہوئے تھے۔ بالکل انہی ایام میں ہم حالت سفر میں تھے کہ ہمیں آیت اللہ سعیدی کی شہادت کی خبر پہنچی، ان کی میت کو قم لایا گیا اور ہم نے ان کے جنازے اور  دفن کا انتظام کیا۔ اللہ تعالیٰ، مرحوم آیت اللہ آغا مرتضی حائری یزدی کی مغفرت فرمائے، انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مدرسہ فیضیہ میں خاصی تعداد میں افراد جمع تھے۔ ہم نے وادی السلام تک تشیع جنازہ کی۔ وادی السلام کے نزدیک، ان کی تدفین کے بعد حکومتی اہلکاروں نے حملہ کر دیا، کیونکہ بہت سے طلباء نے نعرے لگائے تھے۔ اس اجتماع میں علماء کرام اور آیت اللہ حضرات بھی موجود تھے۔ طلباء کے ساتھ ساتھ کئی اساتید بھی موجود تھے، جو بہت سوگوار اور اشکبار تھے۔ آیت اللہ مرتضی حائری، حوزہ علمیہ قم کے بانی مرحوم شیخ عبدالکریم حائری کے فرزند، جن کو طلباء عزت سے آقا شیخ کہتے تھے، بھی بہت سوگوار اور عجیب کیفیت میں تھے۔ وہ بہت گریہ کر رہے تھے، اور بار بار اپنے رومال سے اپنے آنسو پونچھ رہے تھے۔ آیت اللہ فاضل لنکرانی بھی موجود تھے۔ اساتذہ میں، جناب ربانی شیرازی، جناب صلواتی اور جناب ستودہ جیسے بزرگ بھی اجتماع میں موجود تھے۔ یہ بتانا رہ نہ جائے کہ جناب ربانی شیرازی کو اس واقعے کے فوراً بعد جلاوطن کر دیا گیا تھا۔

آقا مسیح مسجد جامعی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم ایک ساتھ وادی السلام گئے۔ جب پولیس کا حملہ شروع ہوا تو راستہ بند ہو گیا اور ہم نہر پار کر کے گھر کی جانب بھاگے۔ کیونکہ میں بہت تیز دوڑ رہا تھا، اس لیے میرے پاوَں سے جوتے اتر گئے۔ میں نہر کے ساتھ ساتھ، صفائیہ  تک ننگے پاؤں آیا۔ ان دنوں جناب مسجد جامعی کا گھر، صفائیہ میں ممتاز حمام کی سامنے والی گلی میں تھا۔ ہم معرکے سے فرار کرکے وہاں پہنچے، جب حاج خانم نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو پوچھا: "یہ کیا ہوا؟" میں نے کہا: "اسی طرح ہی ہو رہا ہے"۔ انہوں نے پانی لا کر شربت بنایا اور میں تھک کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ البتہ اہلکاروں نے پیچھا کرکے بہت سے طلاب کو گرفتار کر لیا۔ میں یہ واقعہ کبھی نہیں بھولوں گا۔ اس جنازے پر حملہ ایک طرح سے مدرسہ فیضیہ پر حملے جیسا تھا کیونکہ طلاب ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے اور ادھر ادھر عمامے گرے ہوئے تھے۔ اس قدر گھٹن اور تناؤ  تھا کہ طلباء کئی دنوں تک گھروں سے نہیں نکل سکے۔ ایک دو پولیس افسران ایسے بھی تھے جو خاصے ضدی اور متعصب تھے۔ پہلے ہی کہتے تھے کہ ہم فلاں کے پیچھے ہیں اور اس کو نہیں چھوڑیں گے۔ دراصل حکومت، پولیس افسر نہیں بلکہ قاتل چاہتی تھی۔ اس لیے وہ خود کو حکام کے سامنے ویسا ہی دکھانے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ عجیب طرح کی افراط و تفریط کا مظاہرہ کرتے تھے۔

اسی روز، مدرسہ فیضیہ میں مرحوم آیت اللہ سعیدی کی تدفین کے بعد طلباء قرآن خوانی کر رہے تھے کہ اہلکاروں نے مدرسہ پر دھاوا بول دیا اور اجازت نہیں دی کہ مجلس ترحیم ہو سکے۔ چند روز تک طلباء خشمگین رہے لیکن انہوں نے اس کا اظہار چھپ کر کیا۔ دباؤ بہت زیادہ تھا۔ خاص طور پر 1350 کی دہائی میں یہ تناوَ شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔

 

منبع: مرید روح‌الله، یادها 44، خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدمحمدجواد پیشوایی، تهران، عروج، 1399، ص 90 - 91.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 2103


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔