مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں!

ترجمہ: محب رضا

2023-10-23


4113-4213 کے سالوں میں جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی رحلت کے ایام سوگ کے دوران، وزیراعظم اسد اللہ عالم نے ایک انٹرویو میں کہا:" ملاؤں کا کہنا ہے کہ ہمیں پرانے دور میں پلٹ جانا چاہیے اور اونٹ کی سواری کرنا چاہیے" اور اس قسم کی اور باتیں بھی کیں۔

یہ مضمون اخبارات میں سرخیوں کی شکل میں چھپا۔ ان دنوں، میں دو جگہوں پر مجلس سے خطاب کر رہا تھا۔ ان مجلسوں میں، میں نے ان باتوں پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا: "یہ بیرجند کا رہنے والا (یعنی اسد اللہ عالم) خیال کرتا ہے کہ بیرجند کی عوام اس کے ساتھ ہے۔ ہم تم سے یہ پوچھتے ہیں کہ تمہارے پاس جہاز سازی اور کشتی سازی کی صنعت کیوں نہیں ہے؟ (یعنی تم نے اس کی صنعت کیوں نہیں لگائی، بلکہ تمہارا زور صرف چیزوں کو اسمبل کرنے پر ہے، تم نے صرف چیزوں کو اسمبل کرنے کی صنعت کو امپورٹ کیا ہے؟) ملک کے بادشاہ کا گلا خراب ہوتا ہے تو تم بیرون ملک سے ڈاکٹر کیوں بلاتے ہو؟"

رات کو جب میں گھر پہنچا، تو گھر کا فون بجا۔

میں نے پوچھا: "جی، فرمائیے کون بول رہا ہے؟"

اس نے کہا: "میں ایک ذمہ دار اہلکار بات کر رہا ہوں۔"

اس کی آواز سے میں نے پہچان لیا کہ کرنل بدیعی بات کر رہا ہے جو قم کی ساواک کا سربراہ ہے۔

اس نے کہا: "تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم کب تک تمہاری بکواس سنتے رہیں گے اور کچھ نہیں کہیں گے؟"

میں نے کہا: "میں نے صحیح بات کی ہے۔ کچھ بکواس نہیں کی۔"

اس نے کہا: "کیا تم جانتے ہو کہ اس ملک میں (آیت اللہ) کاشانی کے ساتھ کیا ہوا؟"

میں نے کہا: "جانتا ہوں۔ رات کو ان کے گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر گئے، ان کو اتنی لاتیں ماریں کہ وہ خون میں لت پت ہوگئے۔"

اس نے کہا: "پس، تو تم یہ سب کچھ جانتے ہو اور...؟ جان لو کہ اگر ہزاروں لوگ بھی مارے جائیں، مگر بادشاہ کے حکم پر عمل ہوگا۔"

میں نے کہا: "پرانی کہاوت ہے: مشکلیں اتنا پڑیں کہ آساں ہو گئیں۔"

پھر کرنل بدیع نے کہا: "جناب آل طہ؟ براہ مہربانی خاموش رہ کر میری بات سنیں۔"

پھر اس نے اپنا مطمع نظر بیان کیا جو ذیادہ تر بین الاقوامی ذمہ داریوں کے بارے میں تھا۔

میں نے پوچھا :" کیا آپ اب جواب سننے کے لیے تیار ہیں؟" مگر اس نے فون بند کر دیا اور رابطہ منقطع ہو گیا۔

اگلے دن میں آیت اللہ خمینی کی خدمت میں پہنچا، جو اپنے گھر کے تہہ خانے میں اکیلے بیٹھے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے کل رات ایسی فون کال آئی تھی، میں نے کسی کو نہیں بتایا اور نہ بتانے کا ارادہ ہے، کیونکہ اس سے ہمیں نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ لیکن میں نے آپ کو مطلع کرنا ضروری سمجھا۔

اسی وقت امام خمینی نے جناب شیخ حسن صانعی کو بلایا اور فرمایا: جناب آیت اللہ بہبہانی کو فون کریں اور انہیں بتائیں کہ اب وہ دھمکیاں دے کر ہماری زبانیں بند کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا کچھ ہے تو ہماری ذمہ داری کو حسب حال تبدیل کر دیں۔

 

منبع: آل طه: سرگذشت و خاطرات، تدوین غلامرضا شریعتی‌مهر «کرباسچی»، تهران، چاپ و نشر عروج، 1397، ص 39 - 41.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 613


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔