جنگ کی یادداشتوں کا ایک ٹکڑا

آیت اللہ جمی
ترجمہ: صائب جعفری

2023-10-17


مجھے نہیں  معلوم شاید چار مہینہ گذر گئے ہیں کہ میں مورچہ پر نہیں جا سکا ہوں۔ آج موقع ملا ہے تو عازم سفر ہوا ہوں۔ صبح کے نو بجے کے قریب بھائی جوادی  اپنے سپاہ کے دو ساتھیوں کے ساتھ ایک جیپ میں آئے۔ میں اپنے بیٹے مہدی اور پاسداروں میں سے اپنے ایک محافظ، بھائی گلستانی، جوادی [1]برادران اور دو مزید افراد کو لے کر مورچہ کی جانب نکل پڑا۔ تقریبا ساڑھے گیارہ بجے ہم مورچہ کی صورت حال دیکھ کر واپس گھر آئے۔  میں نے جو کچھ وہاں دیکھا اس  کو تحریر کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ بلکہ مجھ میں صلاحیت ہی نہیں کہ آنکھوں دیکھے حال کو ترسیم کر سکوں۔ اگر آپ ان حالات کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مورچہ پر آکر دیکھنا ہوگا کہ کہ کیونکت صدام اپنی اس قدر تدابیر  کے بعد بھی ایک سال سے ان مورچوں کو فتح  نہیں  کر سکا ہے اور یہاں آپ کو  امریکہ کے مقابلہ میں ہمارےسپاہیوں کی قدرت اور طاقت کا اندازہ ہوگا۔

جی بالکل آپ جنگ کے خاتمہ  کے بعد اس افسانوی شہر آبادان  ضرور آئیے گا کیونکہ میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں یہاں کا منظر بیان کرنے کی تاب نہیں ہے۔ مجھ نہیں معلوم کہ میں  کیسے بیان کروں کہ میں نے بارہ کلو میٹر پر محیط ان بیابانوں، نخلستانوں میں، بارہویں اسٹاپ کے پل سے فیاضی مورچہ کی فرنٹ لائن میں کیا مشاہدہ کیا۔ میں کیسے بتاؤں کہ ان نخلستانوں اور بیابانوں میں انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ  اور وزات و حکومت کی مدد کے بغیر کس طرح سے پکے راستے بنائے گئے۔  اس کے بعد جب آپ ان نخلستانوں سے نکل جائیں تو عراقیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے آپ کی نظروں میں ایک بیابان ہوگا میزائلوں کی زد پر۔ اس مسافت کو کیسے طے کیا جائے جس کے دونوں اطراف ہمارے بھائیوں نے  پہاڑوں کے برابر کے مورچہ مٹی سے بوریاں بھر کر تعمیر کئے ہوئے ہیں۔ اب آپ سوچئے کہ یہ سب میدان جنگ میں دشمن کی فائرنگ اور گولہ بارود کے درمیان بنایا گیا ہے اس وقت بنایا ہے جب یہاں چاروں طرف موت ہی موت تھی۔ سوچئےپر  کہ ان کو اس کام  پر ابھارنے والی کیا چیز تھی۔  وہ کیا کسی  کے زور یا کسی زرکی لالچ میں یہ کام انجام دےرہےتھے؟  آپ یہاں آئیے اور دیکھئے کہ آخر کونسی طاقت ہے جس نے لوگوں کو ان کاموں پر ابھارا اور سماج میں ایک تحرک پیدا  کردیا۔

یہ کام صرف راستہ کی تعمیر اور مورچہ بندی پر ہی ختم نہیں  بلکہ اس کے ہمراہ بیابان کی خندقیں اور عارضی دیواریں کچھ اس طرح بنائی گئی ہیں کہ سپاہیوں اور مجاہدوں کو میزائلوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ بالکل ایسا ہی ہے جس وقت آپ اس مورچہ میں پہنچ جائیں تو آپ  کو گولیوں کا خوف نہیں رہے گا۔

یہاں سے دشمن کی فرنٹ لائن سے آپ کا فاصلہ ۴۰۰ میٹر بھی  نہیں مگر خاک کی چٹانوں اور خندقوں کے درمیان آپ با آسانی سفر کر سکتے ہیں۔ فرنٹ لائن پر دشمن کے سامنے اسلام سے عشق کا ایک اور ہی معجزہ ہے۔

دشمن کی جانب جانے والے زیر زمینی راستوں کو ٹیوب ویل کی صورت میں بنایا گیا ہے۔  یہ طرز عمل صدام پر آخری شبخون کے لئے ایک مقدمہ ہے جو ان شاء اللہ جلد ہی انجام پائے گا۔ قاری محترم آپ یقینا بعد میں یہاں تشریف لائیں گے اور اس جگہ دیکھیں گے تو تصدیق کر یں گے کہ واقعی قلم میں یہاں کے مناظر کی منظر کشی کی تاب و تواں نہیں ہے۔

اسٹاپ ۱۲ کے پل کو ہم نے عبور کیا اور نخلستانوں میں چند کلومیٹر سفر کیا۔ یہ نخلستان دریائے بھمشیر کے کنارے تھے۔ ہم نے ایک مٹی سے بنے بڑے پل کو دیکھا جو دریا کے دونوں کناروں کو متصل کر رہا تھا۔ وہیں ہمیں  یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ پل جنگ کے دوران ہی اصفہان کے برادران نے تعمیر کیا تھا۔ کیا خوب مضبوط پل بنایا تھا اتنا مضبوط کہ گاڑیاں بھی با آسانی اس پل کے پار اتر جاتی تھیں۔ آپ ان تمام مناظر کا مشاہدہ کریں گے تو بخوبی سمجھ جائیں گے نفس پر اعتماد اور حق پر تکیہ کرنا کیا ہوتا ہے۔ آپ سمجھ جائیں گے کہ  کس وجہ سے شیطان بزرگ یعنی امریکا اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اس ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانے کی کوششوں میں مصروف  تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ ان احوال کو دیکھتے ہوئے ایک ماہ کی جنگ کے نتیجہ میں ہی وہ کسی دوسرے محمد رضا یعنی شاہ کو لے آئے گا لیکن اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ ایک سال ہو چکا ہے اور اس کا نمک خوار نوکر  صدام  خود ہی سقوط کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج مورچہ پر آنے اور جانے کے دروان میں نے ان چیزوں کو مشاہدہ کیا ہے جن کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے ان مناظر کو جس طرح قلم بند کرنا چاہئے اس کی قدرت میرے قلم میں نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اسی شکستہ قلم اور ٹوٹےپھوٹے الفاظ کے ساتھ میں اپنے قارئین  کوپڑھنے کی زحمت دونگا۔  ان چھ سات کلو میٹر کے رقبہ میں ہر چند میٹر کے فاصلہ سے کچھ جنگی نعرے لکھے ہوئے تھے جیسے ’’ کامیابی تک جنگ‘‘ ، ’’نہ شرق نہ غرب، فقط جمہوی اسلامی‘‘۔ امام خمینیؒ اور آیت اللہ منتظری کی تصاویر لوگوں کے لئے جاذب نظر تھیں۔ اس مورچہ کا کمانڈر نجف آباد کا ایک رہائشی ہے۔ وہ ہمارے انتظار میں تھا اور اپنے مورچہ میں   اس نے کمال محبت سے ہماری پذیرائی کی۔  وہ اس بات پر ہمارا شکر گذار تھا کہ ہم مورچہ پر ان لوگوں کے پاس پہنچےہیں ، اس کے شکریہ پر ہم واقعی شرمندہ تھے۔ اس نے ہمیں ان مورچوں میں موجود زیر زمین چینلز دکھائےتو عام کام کے بجائےایک معجزہ کی شبیہ تھے۔ اس نے کہا کہ اگر صدام کو معلوم ہوجائےکہ اس کا پالا کن جنگجووں سےپڑا ہے تو اس بیابان میں وہ اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ میں کہا کہ بالکل اسےاپنے ہاتھں سےاپنی قبر کھود کر جہنم واصل ہوجانا چاہئے۔

المختصر مورچہ پر جو کچھ آج میں نے دیکھا ہے وہ جنگ کے باقی ایام سے بہت ہی مختلف تھا۔ آج کے دن کے مشاہدات کی یاد زندگی بھر میرے لئے ایک حسین اتفاق کی مانند رہے گی ااور میری روح کو شاد کرتی رہے گی۔

اس دن بھی معمول کے مطابق ہم شام ساڑھے چھ بجے شہداء کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئے۔  قبرستان میں سپاہ کے اراکین اپنے شہدا کے مزاروں پر نوحہ خوانی اور سینہ زنی میں مصروف تھے۔   شاید میں نے پچھلے صفحات میں اس کا ذکر نہیں کیا کہ یہ ان کا ہر  ہفتہ کا دستور تھا۔  آپ جب بھی اس قبرستان کا رخ کریں گے یہاں آپ کو تقریبا  ۲۰ قبریں کھدی ہوئی ملیں گی اور ہر روز آپ دیکھیں کہ اس قبرستان نے کچھ نئے شہدا کو اپنی آغوش میں جگہ دی ہے۔[2]

 

 

 

 

 

 


[1] انجئنئر رکن الدین جوادی ۱۹۵۷ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷۵ میں آبادان کی تیل اور صنعت کی یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ وہ اپنی جوانی کے ایام سے ہی  ایک فعال سیاسی طالب علم تھے اور ہمیشہ شاہ کے خلاف میدان عمل میں رہے۔ مزید برآں وہ اسی یونیورسٹی میں انجمن اسلامی کی بنیاد رکھنے والوں میں سے بھی ایک تھے۔ ان کی یہی سیاسی اور مذہبی سرگرمیاں تھیں جس کے سبب ان کی آشنائی ایت اللہ جمی سے ہوئی۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد جوادی صاحب کو ذمہ داری سونپی گئی اور انہوں نے انقلاب کے حامیوں کی مدد سے خرمشہر، بہبہان اور ماہشہر میں سپاہ تشکیل دی۔ اس کے بعد وہ خود آبادان میں سپاہ کی کمانڈ کے رکن بن گئے۔ اس سےقبل انقلاب اسلامی کیمٹی آبادان کی تشکیل میں بھی ان کا ہاتھ رہا۔

۱۹۸۰ میں انہوں نے انجئینرنگ مکمل کی اور جنگ شروع ہونے پر وہ آبادان میں ہی رہے اور سپاہ میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ثامن الائمہ آپریشن میں وہ سپاہ کے اسسٹنٹ کمانڈر رہے۔ حصر آبادان کی شکست کے بعد انہیں تہران طلب کیا گیا اور کربلا کیمپ کی انجئنیرنگ ان کے سپرد کر دی گئی۔ کچھ مدت کے لئے خاتم کیمپ کی انجئینیرنگ کی ذمہ داری بھی انہوں نے قبول کی۔

اس کے بعد جوادی صاحب پیٹرولیم ڈپارٹمنٹ واپس آگئے۔ ۱۹۹۳ میں اپنی تعلیم دوبارہ شروع کی اور ماسٹرز کی ڈگری ایڈمنسٹریشن کے شعبہ میں حاصل کی۔  وہ اب بھی پیٹرولیم اور تعمیرات کے شعبہ سے منسلک ہیں۔

رکن الدین جوادی سے ایک انٹرویو۔

[2] کاظمی محسن، نوشتم تا بماند ص ۴۱۷، ناشر سورہ مہر تہران، ۲۰۰۷



 
صارفین کی تعداد: 613


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔