محمد علی پر دل کے واقعات

اسیروں کا آزار

انتخاب: فائزہ ساسانی  خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-10-7


القرنہ کے راستے میں  بعض سپاہی کالی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے۔  شاید وہ جیش الشعبی کے کارندے تھے۔ وہ ہم سے محبت کا اظہار کررہے تھے۔ جس وقت ان سپاہیوں نے میں لال ٹوپی والوں کی تحویل میں دیا تو جیش الشعبی کے ایک رکن نے اپنے سر کو ہلا کر ہم سے کہا :  ’’ھم کلب الجیش۔‘‘[1]

یہ لال ٹوپیوں والے بعض اوقات اسیروں کے ٹرکوں کے پاس آتے تھے اور گندی گندی گالیاں دیا کرتے تھے۔ راستہ میں ایک موٹر سائیکل سوار ہمارے ٹرک کے نزدیک آیا تو ایک سپاہی نے جلدی سے کھڑکی کھول کر اور کو ایک گندی سی گالی دی اور کہا کہ ٹرک سے دور رہو۔ یہ جس وقت گالیاں دیتی تھے اس وقت زیادہ تر ’’کتے‘‘ کے لفظ کو استعمال کیا کرتے تھے۔

آدھی رات کے وقت ہم بصرہ کی ایک چھاؤنی میں پہنچے۔ ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ کمرہ میں چار سو لوگوں کی گنجائش بالکل بھی نہ تھی۔ سب ایک دوسرے میں گھتے ہوئے تھے۔ اگر کوئی اپنی جگہ سے اٹھ جاتا تو اس کے لئے بیٹھنے کی جگہ باقی نہ بچتی۔  نماز کے وقت ہر ایک نمازی  اپنے سامنے والے کے کندھے پر ہاتھ  مار کر اس کے لباس میں موجود خاک سے تیمم کر لیا کرتا تھا۔ نماز کے لئے قبلہ کی سمت ہم عراقی فوجیوں سے پوچھ لیتے تھے ان کو ہمارے نماز پڑھنے سے کوئی تکلیف نہیں تھی۔ سوتے وقت ہر ایک دوسرے پر سر رکھ کر سوجایا کرتا تھا۔

ہمیں  کچھ دن تک بصرہ    میں رکھا گیا۔ جس وقت ہم باہر نکلتےتھے  ایک سپاہی سیڑھیوں پر تار لے کر کھڑا ہوجایا کرتا اور ہر جانے والےکو کچھ کوڑےضرور مارا کرتا تھا۔

اس کے بعد وہ ہمیں میدان میں ایک دوسرےسے  کچھ فاصلہ پر قطار میں کھڑا کر دیتےتھے اس طرح کہ ہر قیدی کا  اپنے سامنے والےسے تقریبا ۳ میٹر اور اپنے دائیں بائیں والےسے دو دو میٹر کا فاصلہ ہوتا تھا۔ پہلے ہم سمجھےتھےکہ یہ چاہتےہیں ہم سے پوچھ گچھ  کریں  اور دوسرا اس کو سن نہ سکے۔ مگر بعد میں پتا چلا ہ یہ چاہتےہیں کہ ہماری ویڈیو بنائیں تو اس میں قیدیوں  تعداد زیادہ نظر آئے۔

کچھ دیر  ہم سے اٹھک بیٹھک کرواتے اس کے بعد کچھ عراقی اور کچھ غیر عراقی کیمرہ مینز آجاتے اور ہماری ویڈیو بناتے۔ جب تک ویڈیو بنتی عراقی سپاہی خاموش رہتے مگر ویڈیو کے تمام ہوتے ہی وہ ہمیں مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ۔

ناشتہ  کے وقت سپاہی ایک تھیلے میں کچھ بن  (برگر کی روٹی) لے کر آتا اور ایک ایک کر کے اسے قیدیوں کی جانب اچھالتا تاکہ اس طرح وہ ایرانی قیدیوں کی تحقیر کر سکے۔  یہ کام کوئی ایک گھنٹہ تک چلتا تھا۔ وہ کم روٹیاں لاتا تھا اس لئے ہر کو نہیں مل پاتی تھیں۔ ہم قیدی میسر آنے والے بنوں کو ایک دوسرے میں خود ہی تقسیم کر لیا کرتے تھے تاکہ سب کو  کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جائے۔

روزانہ ظہر کے وقت ایک وقت کا کھانا ہمیں دیا جاتا تھا۔ بہر حال غذا ہمارے لئے کوئی اہم مسئلہ تھی بھی نہیں۔ اس سے زیادہ اہم مسئلہ پاخانہ کا نہ ہونا تھا۔ دو سپاہی باری باری  ایک ایک قیدی کو بازؤں سے اٹھا کر پاخانےلے جاتےتھے۔ یہ لوگ جان بوجھ کر دیر لگایا کرتےتھےتاکہ قیدیوں  کی تکلیف میں اضافہ ہو۔ان کا یہ کام چارسو قیدیوں کے لئے کفایت نہیں کرتا تھا اس لئے لڑکوں نے قید خانہ کی کھڑکی کا شیشہ توڑ دیا تھا اور جس کسی کو پیشاب آتا وہ اس کھڑکی سے باہر پیشاب کر دیا کرتا تھا۔  کسی کو پاخانہ کی حاجت ہوتی تو لڑکے اس کی جانب پشت کر کے کھڑے ہوجاتے تاکہ اس کی شرمگاہ پر کسی کی نظر نہ پڑے اور وہ پاخانہ کر سکے۔

میرے پاس ایک مہنگی سیکو گھڑی تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ عراقیوں کے ہاتھ لگے سو میں نے اس کو پتھر سے توڑنے کی کوشش کی مگر وہ بہت مضبوط گھڑی تھی بڑی مشکل سے اس کا صرف شیشہ ہی ٹوٹا۔ شیشہ ٹوٹنے کے بعد بھی اس کی سوئیاں مسلسل حرکت میں تھیں میں نے ایک ایک کر کے سوئیاں باہر نکالیں اور اس کے بعد گھڑی کو باہر پھینک دیا تاکہ قابل استعمال نہ رہے۔

ایک دن ظہر کے وقت قیدیوں کے لئے تھوڑےسےچاول اور کرفس کا سالن لایا گیا۔ سالن کیا تھا خالی کرفس کا پانی تھا۔  یہ کھانا ہمیں گہرے تسلوں میں دیا گیا تھا جس کے دو دستہ بھی تھے۔

ہمیں کافی وقت سے پاخانہ نہ لےجایا گیا تھا اس لئے ہم سب نے فیصلہ کیا تھا اب کوئی کھانا نہیں کھائےگا۔ ہم نے اعلان کر دیا تھا: ’’کوئی کھانا نہ کھائے۔ عراقی پوچھیں کہ کھانا کیوں نہیں کھایا تو ہم کہیں گے کہ جب ہمیں پاخانے نہیں لےکر جاتے تو کھانا کھا کر ہم کہاں جائیں گےپاخانہ کر نے۔‘‘

ایک  فوجی نے  ٹوٹی پھوٹی فارسی میں ہم سے سوال کیا: ’’میں نے کھانا کیوں نہیں کھایاَ‘‘

چونکہ اس کو فارسی نہیں آتی تھی سو یہ نہیں کہا کہ تم لوگ کھانا کیوں نہیں کھا رہے  ؟ بلکہ کہا کہ میں نے کھانا کیون نہیں کھایا؟ ہم سب نے کہا : ٹوائلٹ جو نہیں ہے۔

اس نے کہا:   میں راضی نہیں۔

ہم نے کہا: پس ہم کھانا بھی نہیں کھائیں گے۔

ایک دم ہی  چالیس پچاس فوجی ہاتھوں میں بجلی کے تار لئے آئے اور قیدیوں پر برس پڑے۔ انہوں نے  ہمیں اس وقت تک مارا جب تک وہ خود تھک کر چور نہ ہوگئے۔ دو دو فو جی مل کر ایک قیدی پر ایسے پل پڑے جیسے روئی دھنک رہے ہوں۔ جب فوجی اس کام سے تھک گئے تو افسر دوبارہ آیا اور پھر ٹوٹی پھوٹی فارسی میں کہا:  اب کھا نا کھا لیا؟

ہم نے دیکھا کہ کوئی اور چارہ نہیں ہے  اب یا کھانا کھائیں یا مار۔۔۔ ناچار ہم نے کھانا کھانا شروع کر دیا۔ کھانا کیا تھا کرفس کے پانی میں چاول کے دانے تیر رہے تھے اور بس۔ اس پر مستزاد یہ کہ کسی کو بھی چمچہ نہیں دیا گیا مجبورا ہم ہاتھ سے ہی کھا رہے تھے۔ اس کھانے کو ہاتھ سے کھانا بھی ممکن نہیں تھا نوالہ بنا کر منہ تک لے جاتے تو آدھے سے زیادہ بہہ کر گر جاتا تھا۔

کسی طرح ہم نے یہ کھانا کھا لیا تو افسر نے خالی برتنوں کو دیکھ کر حکم دیا کہ ان کو دوبارہ بھر کر لاؤ اور ان سب کو کھلاؤ۔ برتن دوبارہ پھر دئیے گئے اور ہمیں حکم ہوا کہ پھر سے کھانا کھائیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ اس کھانے کو کھا سکے کچھ نہ کھا سکے۔[2]


 

 

 


[1] یہ لشکرکے کتے ہیں

[2] رنگویی مجید۔ خاطرات محمد علی پر دل، اوستا علی۔ ص ۲۷۹۔ ناشر سورہ مہر۔ ۲۰۲۰



 
صارفین کی تعداد: 580


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔