اسیری کے برسوں بعد۔۔۔

منیژہ لشکری کے واقعات

ترجمہ: صائب جعفری

2023-9-30


۱۹۹۴ کے محرم الحرام میں روز عاشورا جب میں  سو کر اٹھی تو دیکھا کہ علی موجود نہیں ہے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ مجلس میں جائے گا۔  میں بہت بے دلی سے اٹھی اور فریج سے ایک گلاس دودھ نکالا آدھا پی کر اس کو باورچی خانہ کی سلیب پر رکھ دیا۔ پھر جا کر میں نے کپڑے بدلے۔ میں جو کام میں انجام دینا چاہتی تھی اس پر مطمئن تھی۔ حسین واقعی عاشق حسین علیہ السلام تھا اسی وجہ سے اس نے  ہمارے بچے کا نام علی اکبر رکھا تھا اور میں نے بھی اس کی کوئی مخالفت نہ کی تھی۔ میں  نے جورابوں کے دو جوڑے پہنے اور بغیر جوتوں کے گھر سے باہر نکل  آئی۔ میں نے پہلی محرم کو ہی نذر کی تھی کہ عاشورہ کے دن ننگے پیر جلوس کے ہمراہ چلوں گی۔ میں بہت آرام آرام سے قدم اٹھاتی ہوئی کسی دستہ عزا کی تلاش میں تھی اس حال میں کہ میری آنکھوں سے  بے اختیار آنسو ٹپک رہے تھے۔ میں امام حسین علیہ السلام سے محو گفتگو تھی۔  میں کہہ رہی تھی: ’’میرے مولا ؑ میں آپ کو اپنے اور اپنے خدا کے درمیان واسطہ قرار دیتی ہوں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنی زندگی کا کیا کروں؟ میں تھک چکی ہوں ہار چکی ہوں، شکستہ دل ہوں آپ مجھے نجات دیجئے اب مجھ میں تاب و تواں باقی نہیں رہی ہے۔‘‘

ظہر کے وقت میں نے دوسرےعزاداروں  کے ہمراہ سڑک پر ہی نماز ادا کی اور اس کے بعد گھر واپس آگئی۔ اسی رات میں نے خواب میں ایک خوبصورت ادھیڑ عمر کی خاتون کو دیکھا مگر ان کے سر میں ایک بال بھی سیاہ رنگ کا نہیں تھا۔ میں خواب میں ہی ورطہ حیرت میں ڈوب گئی  کہ آخر ان خاتون کے سارے بال سفید کیوں ہیں؟ میں ان کے پہلو میں آرام سے بیٹھ گئی اور پھر میں ان کو  اول سے آخر تک اپنی زندگی کی کہانی سنانے لگی۔ انہوں نے بھی بہت اطمینان سے میری ساری کہانی سنی۔ میں نے ان سے کہا: ’’یہ ہے میری زندگی کی داستان ۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ  میں اپنی اس زندگی کے ساتھ کیا کروں؟‘‘ انہوں نے بہت سکون سے اپنے سر کو ہلایا  اور کہا: ’’ تم نے اپنی زندگی  بارےمیں جو کچھ کہا مجھے سب کی خبر ہے ۔۔۔ تمہارا وظیفہ صبر ہے۔۔۔‘‘ جس وقت انہوں نے  کہا ’’صبر کرو‘‘ میں  کہنا چاہتی تھی کہ اب  مجھ میں صبر کی طاقت ہی کہاں بچی ہے  لیکن حسین  نے مجھ سے کہا کہ یہ خاتون جناب زینب سلام اللہ علیہا ہیں۔

میں خواب سے جاگ گئی۔ پسینہ میں شرابور تھی۔ میرے آنسو بے اختیار بہہ رہے تھے۔ بستر کی چادر میری آنسووں سے تر تھی۔

اس واقعہ کو ایک ماہ سےبھی کم وقت ہوا تھا کہ ائیر فورس کی جانب سے مجھے فون آیا۔ اسیروں اور گم شدگان کے ادارہ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ریڈ کراس والوں نے حسین لشکری  سے ملاقات کی ہے اور اس کو خط لکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ مجھے یہی خوف تھا کہ ایک بار پھر امید بندھے گی اور اس کے بعد دوبارہ نا امیدی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن اس بار حسین نے واقعی خط لکھا تھا۔ جس وقت اس کا خط میرے ہاتھوں میں پہنچا میں کانپ رہی تھی۔ میں یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ یہ خط حسین نے لکھا ہے۔ میں خط کو لیا چوما  دیکھا مگر اس وقت میں مکمل سکتہ میں آگئی تھی میرے اطراف موجود لوگوں نے مجھے کرسی پر بٹھایا۔

 اس کا پہلا خط بہت ہی مختصر تھ لکھ تھا: ’’ میں زندہ ہوں۔۔۔ نہیں  معلوم  تم کہاں ہو۔۔۔ مجھے یہاں کسی چیز کی بھی اطلاع نہیں ہے۔ ۔۔ نہیں معلوم میں کس پتہ پر خط ارسال کروں۔۔۔ اسی لئے میں یہ خط ائیر فورس کےپتہ پر ارسال کر رہا ہوں۔۔۔ منیژہ جان۔۔۔ جہاں کہیں بھی اپنی اور میرے بچے کی خیریت سے مجھے آگاہ کرنا۔۔۔ اس وقت سے پہلے تک اس بات کا امکان نہیں تھا کہ میں خط لکھ سکوں اور یہ بات کہہ سکوں لیکن آج اس کا موقع میسر آگیا ہے  تو کہے دیتا ہوں  کہ میرا احوال کچھ واضح نہیں کیا ہوگا تمہیں اختیار ہے چاہو تو  کسی اور سے شادی کر لو۔‘‘

اس مختصر تحریر کو میں سے سو سے زیادہ بار پڑھا۔ خوشی کی ہیجانی کیفیت کے سبب میری حالت دوبارہ خراب ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا اس قدر خوشی اور ہیجانی کیفیت میری ٹوٹے ہوئے اعصاب کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ہر جانب سے مبارک بادیاں شروع ہو چکی تھیں۔ ٹیلی فون کی گھنٹی مسلسل بے جاتی تھی۔ میرے دوست احباب اور رشتہ دار اسی طرح  حسین کے دوست احباب اور رشتہ دار تھے جو مسلسل مبارک باد کے لئے فون کر رہے تھے۔ میری گھر کی خاموش اور یکسانیت کا شکار زندگی میں ایک دم ہی شور و غوغا مچ گیا تھا۔۔۔میری  آنکھ جب بھی کھلتی میں تکیہ کے نیچے سے خط نکال کر دوبارہ پڑھتی اس وقت میری حالت اسی ماں کی جیسی ہو گئی تھی جو اپنے نوزائیدہ بچے کو اٹھ اٹھ کر دیکھتی ہے اور اسے سوتا پا کر اس کو پیار کرتی ہے۔ حسین کا یہ خط میرے لئے اسی نوزائیدہ بچہ کی طرح تھا۔

سب یہ چاہتے تھے کہ میں بھی اس خط کا جواب تحریر کروں۔ میں بھی ایک مختصر خط لکھا’’۔ جاں سے عزیز حسین۔۔ سلام۔۔ ۱۶ سال کی حیرانی اور بے خبری کے بعد تمہارا خط مجھے ملا۔ تمہارا خط  بہت ہی تلخ تھا۔ جب مجھے تمہاری کوئی خبر نہ تھی تو میں نے صبر کیا  اور اب جبکہ تمہاری خبر آگئی ہے تو تم کہتے ہو کہ میں ازدواج کر لوں۔۔ شہیدوں کی انجمن نے کئی سال پہلے ہی یہ دلیل میرے لئے بیان کر دی تھی جو آج تم کہہ رہے۔۔ سختی کے ان تمام ایام میں ہر وقت علی کا چہرہ میرے سامنے رہا کرتا تھا۔ وہی میرے لئے زندگی کی امید تھا جس کے سبب میں نے ازدواج کا خیال ہی چھوڑ دیا تھا۔ ۔۔ زندگی گذارنا میرے لئے بہت مشکل ضرور  ہے مگر کیا کر سکتی ہوں۔۔۔ میری کوشش یہی ہے مضبوط رہوں اور  تم بھی میرے لئے دعا کرو۔۔۔۔ مجھے امید ہے کہ تم میری بات سے خفا نہیں ہوگے مگر میں بھی احساسات کی حامل ہوں۔‘‘

خط کے ہمراہ میں نےاپنی ک آدھ تصویر اور علی کی کچھ تصاویر بھی ارسال کر دیں۔ میں نے یہی سوچا کہ اب اسے اس سے کیا فرق پڑےگا کہ میں اس عمر میں کیسی دکھتی ہوں ہاں علی اس کے لئے اہمیت کا حامل ہوگا۔ تمام تصاویر کے پیچھے میں نے  ان کی تاریخ لکھ دی کہ مثلا یہ علی کی پہلی جماعت کی تصویر ہے، یہ دسویں سال کی تصویر ہے وغیرہ۔۔۔

حسین نے اگلے خط کے ہمراہ اپنی تصویر بھی بھیجی جس کو دیکھ کر میں واقعی حیران و پریشان ہوگئی۔ میرے گمان میں نہیں تھا کہ وہ اس قدر بوڑھا ہو گیا ہوگا۔ تصویر میں ایک آدمی تھا جو  انتہائی کمزور  اور ٹوٹا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس کے سفید بال بکھرےہوئے تھے داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور وہ جیل  کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ہی مظلومیت ٹپک رہی تھی۔ یہی میرا حسین تھا۔ وہی حسین کہ  جس کی میں عاشق تھی۔ ۲۸ سال کی عمر میں وہ مجھ سے جدا ہوا تھا سارے خاندان کا سب سے گبرو جوان تھا۔

اس نے اپنے خط میں لکھا تھا : میں ٹھیک ہوں۔ اچھی جگہ پر ہوں یہاں  میرے کمرےمیں ریڈیو بھی ہے اور میں ہر روز ورزش بھی کرتا ہوں اور  دھوپ بھی کھاتا ہوں۔‘‘ مگر اس کی تصویر کچھ اور ہی کہہ رہی تھی۔

تین سال تک ہم ایسے ہی خط و کتابت کرتے رہے اور اپنی تصاویر کا تبادلہ کرتے رہے۔ میں جب اس کی تصویریں دیکھتی تھی تو مجھے عجیب و غریب فکریں لاحق ہوجاتی تھیں۔ میں سوچتی تھی کہ اگر اتنے سالوں میں ہم نے غربت کی زندگی بھی گذاری ہوتی تو حسین کی ایسی  شکل صورت نہ ہوئی ہوتی جو اب ہے۔ یقینا وہ اس عرصہ میں بہت ہی  سخت مشکلات کا شکار رہا ہے۔ جس حسین کو میں نے دیکھا تھا وہ ایک تازہ دم موجود تھا  جو ایک دم ہی آسمان سے میری زندگی میں نازل ہوگیا تھا۔راتوں کو جب میں تنہا ہوتی تھی اور کوئی دوست، رشتہ دار میرے پاس نہ ہوتا تھا تو میں سوچا کرتی کہ کیا  ہم لوگ دوبارہ ایک ساتھ زندگی گذار سکیں گے؟ اے خدا کیا وہ مجھے  برداشت کر پائے گا؟ کیا میں اس کو اس کی اس نئی حالت کے ساتھ قبول کر پاؤں گی؟۔۔۔۔[1]

 

 

 

 

 

 

 


[1] جعفریان، گلستان، روز ہائی بی آئینہ، خاطرات منیژہ لشکری، ص ۹۲، ناشر سورہ مہر تہران۔ ۲۰۱۶



 
صارفین کی تعداد: 546


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔