حجۃ الاسلام غلام علی مہربان جہرمی کے واقعات

اگلے مورچوں  پر پہلے اسکول کا افتتاح

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-9-26


جب میں لشکر فجر کے کمانڈر کو اس بات پر راضی  کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ  مورچہ پر ایک اسکول قائم کیا جائے تو میں نے فوراً ہی مورچہ کے لاجسٹک والوں سے بات کی اور کہا:  ’’ ہمیں یہاں اسکول بنانے کے لئے کچھ خیموں کی ضرورت ہے۔ ‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’ہم سپاہیوں اور مجاہدوں کے علاوہ کسی ایک خیمہ بھی نہیں دے سکتے۔‘‘  میں چونکہ اس سے قبل بھی قبائل کی آموزش کا ہیڈ رہ چکا تھا اور قبائلی اموال کے بارے میں اچھی خاصی معلومات رکھتا تھا سو میں شیراز آیا اور یہاں سے اپنے لئے تیرہ  عدد خیمے ایک ٹویوٹا جیپ اور ڈرائیور کو لے کر مورچہ پر پہنچ گیا۔ ڈرائیور نے یہ سامان اور گاڑی میری تحویل میں دی اور خود شیراز پلٹ گیا۔ [1]

اس طرح ہم نے مورچہ پر تعلیمی سرگرمی شروع کر دی۔ اسکول کا نام ہم نے ’’دبیرستان جبہہ شمارہ یک‘‘ رکھا تھا۔ اس کا آغاز  ۱۹۸۲ـ۸۳ میں ہوا تھا۔ ابتدا میں یہ کام بہت مشکل تھا۔ اسی وجہ سے ہم سال ۸۲ـ۸۳ میں امتحان بھی نہ لے سکے تھے۔ جن لڑکوں کی تیاری مکمل تھی ان کے لئے ہم نے  مورچہ سے چھٹی حاصل کی تھی اور ان کو شہر امتحان دینے بھیج دیا تھا۔ سید جواد یحییٰ پور  اس مدرسہ کے پرنسپل تھے اور تمام استاتید ان کے زیر نظر کام کر رہے تھے۔ میں خود کئی بار اطراف کے سفر پر اس غرض سے گیا تھا کہ اساتید کی کمی کو پورا کرنے کا انتظام کیا جاسکے۔  ہر مضمون  لئےاستاد مہیا ہو گیا تھا صرف فزکس کے لئے استاد نہیں مل پا رہا تھا۔ میں نےاپنی سے پوری کوشش کر لی تھی مگر کوئی استاد نہ مل سکا تھا۔ اگر کوئی ملا بھی تو وہ مورچہ پر آکر پڑھانے کے لئےراضی  نہ تھا۔

میں در حقیقت، المہدی بریگیڈ کی اشتہاری مہم کا سرغنہ تھا۔ میں نے  یہیں بٹالین میں کچھ کلاسسز بھی رکھی تھیں۔ ایک دن کلاس کے بعد حاجی ذوالقدر سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ بٹالین کے موٹر ڈیپارٹمنٹ  انچارج تھے۔ میں ان کو اپنا درد دل بیان کر رہا تھا کہ ہزار کوششوں کے باوجود بھی فزکس کا استاد نہیں مل پایا۔ انہوں نے کہا: ’’میں تمہیں  ایک پتہ بتاتا ہوں وہاں جاؤ مگر میرا نام نہیں لینا  کیونکہ وہ اس پر راضی نہیں ہے۔ خود اس کو ڈھونڈو اور خود ہی اس سے بات چیت کرو۔ وہ شیراز کی یونیورسٹی سے آیا تھا تو گمنام رہ کر کام کرتا تھا اب اس کے پاس پانی کا ایک ٹینکر ہے اور وہ مورچوں پر پانی پہنچانے کا کام کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کو کوئی نہ پہچانے۔ مگر تم جاو اور اس کو ڈھونڈو۔ اس نے فزیکس میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ اگر تم اس کو راضی کر پائے تو وہ تمہارے لئے بہت اچھا مدد گار ثابت ہوگا۔‘‘

میں اس کی تلاش میں نکل پڑا اور اسے ڈھونڈ ہی لیا۔ وہ اس وقت ٹینکر میں پانی بھر رہا تھا۔ میں نے اس سے بات کی تو اس نے پہلا سوال  ہی یہ کیا : پہلےیہ بتاؤ تم نے مجھے ڈھونڈا کیسے؟‘‘

میں نے کہا: ’’تمہیں اس  سے کیا مطلب؟ اہم یہ ہے کہ ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔‘‘

اس نے کہا: ’’ میں مورچوں پر پانی پہچانے کا کام کسی اور کے سپرد نہیں کر سکتا۔‘‘

میں نے کہا:’’ تم نے سے کس نے کہا کہ اپنا کام کسی اور کو سونپ دو؟ جس وقت بھی مورچہ پر پانی پہچانے  جاؤ راستے میں ایک دو گھنٹہ ہمارے یہاں آکر طالب علموں کو فزکس کا سبق پڑھا دیا کرو۔ ہم اپنے نظام الاوقات کو تمہارے نظام الاوقات کے حساب سے منظم کر لیں گے۔ تم آؤ، ٹینکر کو وہیں پارک کرو، سبق پڑھاؤ اور اس کے بعد اپنے کام پر نکل جاؤ۔‘‘

اس نے کہا: ’’میں اس شرط پر راضی  ہوں  کہ ذوالقدر مجھ سے یہ ٹینکر  نہ قبضہ لے۔‘‘

میں نے کہا: ’’ تم اس کی فکر نہ کرو میں اس سے بات کر لوں گا۔

قصہ مختصر اس تگ و دو اور مغز ماری  کے بعد ہمیں فزکس کا استاد بھی مل گیا۔ عموما شہروں میں جو درس چھ سات ماہ میں بھی مکمل نہیں ہو پاتا اس بندہ خدا نے  وہ درس بچوں کو  دو ماہ میں اس طرح سے پڑھایا کہ جیسے بچوں کو ساری فزکس حفظ ہوگئی ہو۔ دیگر اساتید بھی اسی طرح کے مشاق تھے انہوں نے بھی بچوں کو درس وقت سے پہلے ہی حفظ کروا دئیے تھے۔[2]

 

 

 

 


[1]  اس گاڑی کا میری تحویل میں آنا لکھت پڑھت کے ساتھ تھا اور وہ بھی آج تک میرے پاس ہے کہ یہ گاڑی اس کے تمام قطعات اور  اس میں موجود ساز و سامان کے ہمراہ مجھے سونپی گئی ہے۔۔ (راوی)

[2] آقای مہربان، خاطرات غلام علی مہربان جہرمی، تدوین: وحید کارگر جہرمی،  صفحہ ۲۹۹، ناشر آسمان ہشتم، شیراز۔ ۲۰۱۳



 
صارفین کی تعداد: 589


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔