خاور تقی زادہ کے واقعات

انسان سازی کا کارخانہ

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-9-19


پندرہ سال کی عمر میں میری شادی میرے چچا زاد محمد سے ہوگئی۔ وہ میونسپلٹی میں مزدور تھا۔ ہماری زندگی سادگی کے ساتھ گذر رہی تھی۔ ہماری کوشش یہ تھی کہ ہمارے بچے تعلیم یافتہ مومن بنیں۔ ہمارے پانچ چھ بچےاور بہو بھی تھی کہ جنگ شروع ہوگئی۔ ہم اس عالم میں یعنی دشمن کے گولہ بارود میں بھی اپنے شہر میں ہی رہے اور شہر چھوڑ کر نہیں گئے۔ ہم خوفزدہ ضرور تھے مگر اپنے کام انجام دئیے جا رہے تھے۔ انقلاب سے پہلے سےہی ہمارا دستور تھا کہ ہفتہ میں ایک دن ظہر کے بعد خانم اسلامی پور کے گھر  قرآن کے جلسوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ایک روز قرآن خوانی کے بعد  خانم عبدالکریم نے مجھ سے کہا: ’’ ہم کچھ خواتین کے ہمراہ شہید کلانتری اسپتال جارہے ہیں تاکہ زخمیوں اور ڈاکٹروں کے لباس دھو سکیں۔ اگر تمہارے پاس وقت ہے تو ہمارے ساتھ چلو۔‘‘

میں خوش ہوگئی۔ انہوں نے مزید کہا: ’’تمہارے محلےکی خواتین امام بارگاہ امام خمینی کے سامنے جمع ہوں گی۔ کل صبح سات بجے وہاں آجانا ورنہ گاڑی نکل جائے گی۔ ‘‘

میں جوان بھی تھی اور پرجوش بھی۔ انقلاب اسلامی کا جذبہ میری رگ و پے میں  سمایا ہوا تھا۔ میں نے صبح پانچ بجے ہی اپنے سارے کام نمٹائے، چند نوالےناشتہ کے کھائے اور بس آنے سےکوئی آدھا گھنٹہ قبلی ہی امام بارگاہ پہنچ گئی۔ میرےبعد اور خواتین بھی آئیں۔ مجھے قرار ہی نہ تھا بس کے انتظار میں میں بیٹھی نہ تھی بلکہ مسلسل ٹہل رہی تھی۔

ہم اسپتال  کے حمام میں پہنچے جہاں کپڑےدھوئےجارہے تھے۔ ایک  خاتون نے مجھے دستانے اور ربڑ کے جوتےدئیے۔ میں نے دستانےپہنے جوتےپہنے اور بغیر اس کے کہ کوئی مجھے کام بتاتا میں  خود ہی حوض کے کنارے جا پہنچی۔ وہاں کچھ خواتین کپڑوں  کو پیروں سے نچوڑ رہی تھیں۔ خون آلود  پانی کو دیکھ کر ماتم کا سماں تھا۔ ہر ایک اپنے کام میں مشغول تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کپڑوں کو ایک حوض سے نکال کر میں نے پانی  دوسرے حوض میں ڈالا تو اس حوض کا پانی بھی خونیں ہوگیا۔ میں نے اپنے سینہ پر ہاتھ مار کر یاحسین  کی صدا لگائی اور رونے لگی۔

مجھے دیکھ کر کچھ خواتین میرے پاس آئیں اور مجھے صبر کی تلقین کی اور بتایا کہ شہیدوں کی بیویاں بیٹیاں اور مائیں بھی ہمارے ساتھ کام میں مشغول ہیں اور صبر سے کام کر رہی ہیں پس میں بھی صبر کروں۔

اس بات سے کچھ دیر کے لئے مجھے آرام ملا مگر دوبارہ جب میں ایک گولیوں سے چھلنی لباس کو دیکھا اور شہدا کے گھر والوں پر نظر پڑی تو دوبارہ رو پڑی۔ دو تین سال کی اس جنگ کا جو خوف میرے دل میں تھا  وہ اس اضطراب کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ تھا جو اس وقت میرے دل میں تھا۔ اس دن میں اتنا روئی کہ میری آنکھیں خون کے پیالوں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔

گھر میں بھی میرا گلا رندھا رہا۔ میں نے بڑی بے دلی سے رات کا کھانا تیار کیا مگر ایک لقمہ بھی نہ کھا سکی۔ مجھے اپنے بچوں کی بھی دیکھ بھال کرنا تھی اور خود کو ان کے سامنے بالکل پر سکون رکھنا تھا۔ اگلے دن میں دوبارہ اسپتال آگئی لیکن آج بھی کیفیت کل سے کم نہ تھی۔ بہت سی خواتین  رو رہی تھیں مگر کوئی بھی مجھ جیسا گریہ کناں نہ تھا۔ دو تین دن تک میرا کام یہی تھا یعنی اسپتال جانا اور رونا۔ ایک دن ایک خاتون نے مجھ سے سنجیدگی سے کہا : ’’ہم سب روتے ہیں مگر اس قدر نہیں اور اس طرح نہیں۔ تم اپنی اس حرکت سے دوسروں کے کاموں میں بھی خلل ڈال رہی ہو۔ اگر ایسےہی رونا ہے تو کل سےمت آنا۔‘‘

’’کل سے مت آنا‘‘ یہ جملہ میرےسر پر پہاڑ بن کر ٹوٹا اور میرےدل میں ٹیس سی اٹھی مگر  میں نے اپنے آنسو صاف کئے اور  کپڑےدھونے لگی۔ اس کے بعد میں نے خود پر قابو پایا  اور کپڑےدھوتے وقت آواز سے رونا بند کر دیا۔

میری مشکل صرف رونا ہی نہیں تھا بلکہ وائٹیکس کی بو سے مجھے متلی شروع ہوجاتی تھی اور سر میں شدید درد ہونے لگتا تھا۔ اٹھتے بیٹھتےوقت اکثر  میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجایا کرتا تھا۔ سہ پہر جب اسی شدید کمزوری اور متلی کی حالت میں گھر جایا کرتی تھی تو بستر بیہوش ہوکر گر جاتی تھی۔ میرے شوہر اس بات پر راضی تھے کہ میں  مجاہدین کے لباس دھو رہی ہوں۔ بچے بھی اپنے کاموں میں لگےہوتے تھے اور ضد نہ کیا کرتے تھے۔ وائیٹیکس کی بو کی وجہ سے میری بھوک مٹ گئی تھی۔  ایک دن میں گھر سے اپنے ساتھ سادہ سا کھانا لے گئی تھی۔ دوپہر کے وقت خواتین دسترخوان بچھا کر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتی تھیں جو بھی جو کچھ لایا ہوتا دسترخوان پر دوسروں کے ساتھ مل بانٹ کر کھا لیتا تھا۔ میں نے ایک لقمہ اٹھا کر منہ میں رکھا تو ایسا لگا کہ سارے کھانے میں وائیٹیکس ملا ہوا ہے۔  مجھے شرم آئی کہ کھانے کی برائی کر کے دسترخوان سے اٹھ جاؤں بڑی مشکل سے ایک لقمہ حلق سے نیچے اتارا اور  دوسرے لقمہ کے لئے ایسے اظہار کرنے لگی کہ جیسے کھا رہی ہوں تاکہ باقی خواتین متوجہ نہ ہوں۔ المختصر روز کا یہی قصہ تھا میں بمشکل تمام دو تین لقمہ ہی کھا پاتی تھی۔  لیکن خدا کا شکر کہ آہستہ آہستہ میں اپنی متلی اور غسل خانہ کی بو پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی۔ اب میں ہرشب گھر کے سارے کام پورے ہمت سے انجام دیتی تھی اور  صبح کو رات کا بچا ہوا کھانا لے کر اسپتال چلی جاتی تھی۔

ہر چند میرے شوہر کی تنخواہ نہ ہونے کے برابر تھی مگر میں اس کے باوجود  بھی مسلسل صرف اور وائیٹیکس ، جوتے اور دستانے خرید کر اسپتال لے جایا کرتی تھی۔  مجھ اس بات کی تاب و تواں نہیں تھی کہ ایک بھی اسپتال سے چھٹی کر سکوں۔  جنگ کے دوران ہی  ۱۹۸۵ میں ہمارے محلہ پر ایک میزائل داغا گیا جس سے ہمارا گھر بھی  مسمار ہوا مگر خدا کا شکر ہے بچہ سلامت رہے۔ گھر خراب ہوجانے کی وجہ سے ہمیں مجبوراً بازار کے پیچھے ایک گھر کرایہ پر لینا پڑا۔ میں نے ان دنوں میں بھی یہ گھر کی شفٹنگ اور گھر میں سامان لگانے کا کام اپنی بیٹیوں کو سونپا اور  خود اپنی پڑوسن خورشید قلاوند کے ہمراہ کپڑے دھونے پہنچ گئی۔

آج بھی جب ان ایام کے بارے میں سوچتی ہوں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ کپڑے دھونے کا ہی  فیض ہے میں ایک مضبوط خاتون بن گئی اور اپنے اعتقادات میں شامل بے جا حساسیت کو  خود سے الگ کیا ۔ ہم سب کپڑے دھونے والی خواتین سے مل کر اسپتال کے اس غسل خانہ کا نام رکھا تھا: ’’انسان سازی کا خارخانہ۔‘‘[1]

 

 

 

 

 


[1] میر عالی، فاطمہ، سادات۔ حوض خون۔اندیمشک کی خواتین کی داستانیں دفاع مقد میں مجاہدین کے لباس دھونےکے بارے میں۔ ص ۱۵۵۔ ناشر راہ باز۔ تہران۔ ۲۰۲۰

 



 
صارفین کی تعداد: 2351


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔