بھوک ہڑتال کا نتیجہ - ۳

تحریر: محمدی قبادی
ترجمہ: محب رضا

2023-5-6


اس پٹیشن کو حکام بالا تک پہنچانے کے نتیجے میں مسئلہ بڑھ گیا اور اس کو لکھنے والوں کو جیل کے دفتر طلب کر لیا گیا۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ پٹیشن پر دستخط کرنے والوں کو ایک ایک کر کے بلا رہے ہیں، وہ جاتے ہیں لیکن  واپس نہیں آتے! ہم نے پوچھا: "ایسا کیوں ہے؟ یہ کیوں ہورہا ہے؟"، تو انہوں نے کہا: "کیا تم نے اس کاغذ پر دستخط نہیں کیےتھے؟! بس تو پھر آوَ اور افسران کو اس کے بارے میں توضیح دو۔"

میری باری آ گئی۔ انہوں نے لاوَڈ اسپیکر پر میرا نام پکارا۔ میں نیچے پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ  پٹیشن پر دستخط کرنے والے تمام افراد، ایک چھوٹے سے کمرے میں، جو ہمارے جیل کے سیل سے بھی چھوٹا تھا، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، اور بیٹھنے کی جگہ تک نہیں ہے۔ کچھ وقت گزرا تو ہماری کھسر پسر پسر کی آواز بلند ہونے لگی، ایک افسر نے کمرے کا دروازہ کھولا اور بلائے گئے لوگوں میں سے ایک کو چیخ کر کہا: "بکواس بند کرو! آواز نہ نکلے! ساکت!" اس رویے سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ مسئلہ کی نوعیت کیا ہے۔ ہم نے وہیں اپنا فیصلہ عملی کر دیا۔ ہم پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ اگر جیل افسران نے ہمارے خلاف کوئی کارروائی کی تو ہم ایک اور بھوک ہڑتال کر دیں گے اور یہی ہوا۔ ہم نے اپنی ہڑتال شروع کر دی۔ انہوں نے ہمیں ایک ایک کرکے باہر بلایا اور ہم میں سے ہر ایک کو، سزا کے طور پر کسی دوسری کوٹھری ، سیل یا وارڈ میں بھیج دیا۔ مثلاً، انہوں نے مجھے وارڈ نمبر 2 یا 3 میں، ایک خالی کمرے میں منتقل کر دیا۔ مختصر یہ کہ انہوں نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا. دوپہر کا وقت ہوا، اور وہ میرے لیے کھانا لے کر آئے۔ میں نے کہا: "میں نہیں کھاؤں گا!" کہنے لگے: "کیوں؟" میں نے کہا: کھانا نہیں کھاوَں گا۔ کیونکہ ہم سب ہڑتال پر ہیں اور کھانا نہیں کھائیں گے۔"

چونکہ کسی بھی مجموعے میں، چاہے سیاسی ہو یا غیر سیاسی، ایک سطح کی توانائیاں اور محرکات نہیں پائے جاتے اور یہ ایک فطری امر ہے، اس لیے اس ہڑتال میں بھی ہمارے درمیان  موجود غیر ھم آھنگی کی وجہ سے ایسا ہوا۔ بظاہر، صرف میں نے اور چند دوسرے قیدیوں نے اس ہڑتال کو جاری رکھا۔

میں ان لوگوں کے بارے میں نہیں جانتا جنہوں نے ہڑتال کی تھی، لیکن افسران مسلسل آتے جاتے رہے تاکہ وہ میری ہڑتال کو ختم کروا سکیں۔ یہاں تک کہ کیپٹن ہوشیار فرزین، ایک اور افسر کے ساتھ مجھ سے بات کرنے آیا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو میں بیٹھا ہوا تھا اور ان کے لئے اٹھ کر کھڑا نہیں ہوا۔ اس افسر نے گلہ کرتے ہوئے کہا: ’’جناب! بالآخر ہم، تم سے بات کرنے اور تمہاری درخواست سننے آئے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ تم ہماری اتنی بے عزتی کرو۔" یہ سن کر میں احتراماً اپنی جگہ سے بلند ہو گیا۔ اسی دوران کیپٹن فرزین کو غصہ آ گیا اور اس نے دھمکی آمیز اور سخت لہجے میں بولنا شروع کر دیا اور کہا: ’’اس قسم کی حرکتوں کا کوئی فائدہ نہیں، تمہارے تمام ساتھیوں نے ہڑتال ختم کر دی ہے اور صرف تم رہ گئے ہو"۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اسکے جانے کے بعد، میں نے اس کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی اور اپنی ہڑتال جاری رکھی۔

اس کے بعد مجھے پھر جیل کے دفتر بلایا گیا۔ وہاں، ذلیل کرنے اور تنبیہ کی خاطر، میری داڑھی مونڈ کر مجھے واپس اسی کمرے میں چھوڑ گئے۔ نماز کے وقت، میں نے وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کی خاطر ٹوائلٹ جانے کی درخواست کی، لیکن انہوں نے مجھے اجازت نہ دی اور کہا: ’’کیپٹن فرزین کا حکم ہے کہ اس مقصد کے لیے کمرے میں پڑی اس بالٹی کو استعمال کرو اور اگر پانی چاہیے تو وہ تمہیں لا دیں گہ تاکہ پی سکو یا وضو کرو۔ باہر نکلنے کا کوئی امکان نہیں اور تم کمرے سے باہر نہیں آ سکتے۔" سختی شروع ہو گئی تھی۔ میں نے بھی ٹوائلٹ جانے کو نظر انداز کیا اور کہا: "کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر تم نے مجھے پانی دے دیا تو پی لوں گا، نہیں دیا تو جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔" مختصر یہ کہ، یہ صورت حال تین دن تک جاری رہی۔ تیسرے دن میں نے ایک دوست کے ذریعے سنا، جو مختلف وارڈوں میں آتا جاتا تھا، کہ ان ہڑتالیوں میں سے ایک بڑی تعداد نے ہڑتال ختم کر دی ہے، باقی گنے چنے افراد کو جیل سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے۔ کہاں؟ میں نہیں جانتا!

کیونکہ خبر سنانے والا میرا قابل اعتماد ساتھی تھا، اس لیے یہ سننے کے بعد مجھ پر واضح ہو گیا کہ ہڑتال کا جاری رکھنا بے کار ہے اور جیسا کہ مشہور کہاوت ہے، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، میں نے چوتھے دن اپنی ہڑتال ختم کر دی۔ ہم نے سنا کہ کچھ افراد کو ساواک کے پاس لے جایا گیا تھا اور بہت اذیت دی گئی۔ ان میں بہروز صنعتی بھی شامل تھے، جو ساکا گروپ کے رکن تھے۔ بظاہر انہیں ساواک نے جو اذیت دی، اس کے نتیجے میں ان کے اعصاب جواب دے گئے اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو وہ اسی وکیل آباد جیل میں ہی وفات پا گئے۔ یہ دوسری ہڑتال میری رہائی سے کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے، میرے پچھلے سیل اور کمرے میں واپس نہیں بھیجا بلکہ میں اسی عمومی وارڈ میں رہا جو عام قیدیوں کے لیے تھا۔ اپنی رہائی تک میں یہیں رہا۔

منبع: قبادی، محمدی، یادستان دوران: خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدهادی خامنه‌ای، تهران، سوره مهر، 1399، ص 308 - 314.

 

کل  الفاظ:          933



 
صارفین کی تعداد: 765


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔