یہ ہوٹل نہیں ہے

سوء تفاہم دور کرنے کے لئے ثقافتی ہم آہنگی کرنی چاہئے

تدوین: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2022-2-7


مہر  ۱۳۹۸ کی  ۲۳ویں تاریخ ظہر کے بعد، امام علی علیہ السلام کے حرم سے وداع ہونے کے بعد ہم نے کربلا کی سمت سفر شروع کیا۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ہم ۲ بجے سے پیادہ روی شروع کریں گے۔ مرد حضرات  حرم سے دیر سے لوٹے سو ہمارا سفر کچھ دیر سے شروع ہوا۔ کوئی ایک گھنٹہ بعد ہم شہر سے باہر نکلے اور شہر کے  بیرونی دروازے کے پاس عمود نمبر ۱ پر پہنچے اور یہاں سے ہم نے پیادہ روی شروع کی۔

راستے بھر موکب ہی موکب تھے۔ بچے عطر ہاتھوں میں لئے کھڑے تھے۔ سارے راستے انواع اقسام کے کھانے تھے۔ موکب  کے خادمین جگہ جگہ چائےاور کھانے وغیرہ کے لئے اصرار کرتے تھے۔ انواع و اقسام کے نوحوں اور مرثیوں نے سارے راستے کی فضا کو پر کیا ہوا تھا۔ ہم آٹھ لوگ تھے ایک ساتھ ہی سفر کرتے اور ایک ساتھ ہی آرام کرتے۔

ہم عمود نمبر ۴۰ پر آ کر رکے۔ کچھ  میں فضا پر اندھیرا چھانے کو تھا سو ہمارے  کچھ ساتھیوں نے اصرار کیا  کہ آگے جاکر کوئی مناسب جگہ ڈھونڈنا مشکل ہوجائے گا سو یہیں کہیں کوئی گھر یا موکب ڈھونڈ کر رات بسر کی جائے۔ مگرکچھ ساتھی ایسے بھی تھے جو اس رائے سے متفق نہ تھے۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ ابھی ہم بہت پیچھے ہیں کچھ اور سفر کرنا چاہئے اور آگے جاکر آرام کرنا چاہئے۔

یہاں رکنے کا خیال یوں آیا تھا کہ مغرب کے بعد تمام ہی موکب پر ہوجاتے ہیں اور جگہ ملنا مشکل ہوتی ہے۔ ہم سڑک کے کنارے کھڑے ابھی یہ  سوچ رہے تھے کہ آگے جائیں یا یہیں رک  اسی اثنا میں ایک خاتون جن کی عمر پچیس چھبیس سال ہوگی میرے نزدیک آئیں اور کہا : ’’خانہ موجود حمامات موجود‘‘

میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ خاتون کہتی ہیں  کہ ان کے گھر مہمان ہوا جائے۔ خاتون  نے پوچھا آپ کتنے افراد ہیں میں نے کہا چھ افراد۔ ہم نے باہم مشورہ کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ ان خاتون کے گھر مہمان ہوا جائے۔ میں  خوش تھا  کہ پیادہ روی میں پہلی رات ہی ہم کسی عراقی کے مہمان ہوگئے ہیں۔ ہر چند میرے دیگر دوست چاہتے تھے کہ کسی ایرانی موکب میں ٹھہریں مگر میرا دل تھا کہ کسی عراقی کا مہمان بنا جائے۔ عراقی، ایرانی زواروں  بلکہ تمام ہی زائرین کے ساتھ اس قدر محبت سے پیش آتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ ہم کسی اجنبی کے گھر مہمان ہوئے ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا اپنا کوئی قریب کا رشتہ دار ہے، جس سے کسی قسم کا کوئی تکلف نہیں ہے۔  صرف میں ہی نہیں بلکہ جو لوگ بھی اس پیادہ روی پر آچکے ہیں اب ان کا دل یہی چاہتا ہے کہ کسی عراقی کے مہمان بن جائیں اور ان کی مہمان نوازی کا لطف اُٹھائیں۔ بالخصوص چھوٹے گھر اور کم مہمانوں والی جگہ پر کہ وہاں میزبان کے ساتھ میل جول زیادہ رہتا ہے۔

ہم اصل سڑک سے پگڈنڈی پر آگئے وہاں ایک گاڑی کھڑی تھی میں نے گمان کیا کہ یہاں سے ان کے گھر کا فاصلہ زیادہ ہوگا میرے دوستوں نے بھی کچھ اعتراض نہ کیا اور ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ عراقی دور دور آتے ہیں اور زائرین کو اپنے گھر لے جاتے ہیں تاکہ ان کی خدمت کر سکیں۔ ہم سے پہلے ایک جوان جوڑا اور ایک ادھیڑ عمر خاتون گاڑی میں موجود تھیں۔ ان کےکہےکے مطابق وہ صوبہ البرز کے رہائشی تھے۔ جوان لڑکا سگریٹ پی رہا تھا۔ میری نظریں  جوان خاتون کے ناخنوں پر  پڑی اس نے ان کو نیل پالش لگائی ہوئی تھی لال رنگ کی اور اس پر گلگاریاں کی ہوئیں تھیں۔ یہ جواب جوڑا  نجف میں سکون و عیش کے ایام کی باتوں میں مصروف تھا۔

ڈرائیور کے گاڑی اسٹارٹ کی اور ان  گھروں کی جانب  چل پڑا جو اصل راستے سے کافی دور تھے۔ گلیوں کی دیواروں اور چھتوں پر سیاہ پرچم نصب تھے۔ گلیوں کوچوں سے گذرتے وقت ہمیں احساس ہوا کہ یہاں پر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور وہاں کے گھروں کی حالت سے بھی ظاہر تھا کہ یہ عراق کا کوئی غریب علاقہ ہے۔ جوان جوڑے نے جب اس علاقہ کو دیکھا تو زیریں تہران کا ذکر کرکے اس کا مذاق اڑانے لگے اور کہنے لگے ایسا لگتا ہے کہ ہم زیریں تہران کی جانب محو سفر ہیں۔ ان کی حرکتیں میری برداشت سے باہر تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ عراق زیارت کے لئے نہیں  بلکہ سیر سپاٹے پر آئیں ہیں جس کی وجہ سے خوبصورت گھروں اور اعلیٰ انواع کے کھانوں کی تلاش میں ہیں۔  لگتا تھا کہ وہ اربعین کے ایام میں عراقیوں کی ان دعوتوں کے فلسفہ سے بالکل بھی آگاہ نہیں  اور انہوں نے صرف عراق میں اربعین کی دعوتوں کا صرف سناہی سنا ہے۔

کوئی پانچ سات منٹ بعد ڈرائیور نے گاڑی  ایک پرانے سے محلے میں روکی جس کی سڑک بھی کچی تھی۔ ہم ایک ایک کر کے گاڑی سے اترے اور جس گھر میں ہمیں داخلے کا عندیہ ملا وہ بھی قدیم ساخت کا تھا۔ گھر کی حالت سے ہی معلوم ہورہا تھا کہ یہ ان غریبوں کا گھر ہے جو پورا سال اپنا پیٹ کاٹ کر پیسہ جمع کرتے ہیں تاکہ اربعین پر زائروں کی خدمت کر سکیں۔گھر چھت پر سرمئی ٹنکی رکھی صاف نظر آرہی تھی۔ گھر کی دیوار پر کالا کپڑا لگا ہوا تھا جس پر امام حسین علیہ السلام اور حضرت علی اکبر کی تصویر بنی ہوئی تھی اور ’’السلام علیک یا ابا عبداللہ اور سلاما یا علی اکبر‘‘  لکھا ہوا تھا۔  اس کے سامنے دو کالے علم لگے ہوئے تھے۔  وہ جوان جوڑا یہاں رکنے پر تیار نہ ہوا  اور وہ بزرگ خاتون جو گاڑی میں ہمارے ساتھ تھیں وہ دراصل اس لڑکے کی والدہ تھیں۔ نا چار وہ بھی اس جوڑے کے ساتھ واپس جانے پر مجبور تھیں۔

ہم گھر میں  داخل ہوئے چھوٹا سا صحن تھا کوئی ۲۰میٹر کا ہوگا۔ میزبانوں نے ہمیں داخلہ دروازہ کے قریب والے کمرے میں ٹھہرایا اور مردوں کو گھر کے آخر میں موجود کمرے کی جانب روانہ کر دیا۔ کمرہ بہت صاف ستھرا تھا شاید تازہ رنگ روغن کیا تھا یا شاید پورا سال اس کمرے کو استعمال ہی نہیں کیا گیا تھا اور اربعین پر آنے والے  مہمانوں کے لئے مخصوص تھا۔   دیوار پر کچھ کالے کتبہ لگے تھے۔ کمرے کے ایک کونے میں گدے اور کمبل تہہ شدہ ترتیب سے لگے ہوئے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک نے ایک ایک کمبل بچھایا اور اس پر بیٹھ گیا۔

اس کمرے میں ہم گیارہ افراد تھے۔ ہمارے ساتھ کچھ عراقی بزرگ خواتین بھی تھیں جو لمبے لمبے سادہ لباس زیب تن کئے تھیں۔ ان کا تمام سامان صرف ایک ہینڈ بیگ تھا اور بس۔ ان بیچاریوں کے پیر سوجھے ہوئے تھے اور وہ کافی تکلیف میں تھیں۔ میری ساتھیوں نے  مجھ سے کہا کہ میں ان سے پوچھوں کہ یہ کہاں سے آرہی ہیں؟ اربعین کی پیادہ روی  پرہی مجھے احساس ہوا تھا کہ عربی سیکھنا ضروری ہے اور میں نے پورے سال یہ کوشش کی تھی کہ اس بارے میں اہم نکات ضرور سیکھوں۔

میرے پوچھنے پر ان خواتین نے بتایا کہ ہم ناصریہ سے آرہے ہیں۔ میری ہمراہیوں نے کہا یہ پوچھو کتنے دن سے سفر میں ہیں ؟ میں نے پوچھا تو جواب ملا: چھ دن سے سفر میں تھے ابھی یہاں پہنچے ہیں۔ سب ان کو حیرت سے دیکھنے لگے کہ اس عمر میں اتنا پیدل سفر کر کے آئی ہیں۔ بالخصوص زہرا جو ہم سب میں سب سے چھوٹی بھی تھی اور پہلی بار اربعین کے پیدل سفر آئی تھی اس کے لئے یہ چیزیں نئی اور حیرت انگیز تھیں۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ بہت سے عراقی اربعین پر ایسے ہی اپنے اپنے شہروں سے پیدل سفر کرکے نجف پہنچتے ہیں ۔ صر ف یہی زائر نہیں جو اس رستے میں ہمیں نظر آئے بلکہ بہت سے ایسے بھی ہیں  جو اس رستے سے نہیں آتے بلکہ دوسرے راستوں سے  نہروں کی صورت میں آتے ہیں اور کربلا کے اوقیانوس میں خود کو ملا دیتے ہیں۔

میں اپنے بیگ سے مرہم نکالا اور ان عراقی خواتین کو دیا تاکہ ان کا درد کچھ کم ہوجائے۔

میں کمرے سے باہر  صحن میں آگئی۔ وہاں ہماری میزبان خاتون جو ادھیڑ عمر کی خاتون تھیں پچاس سے کچھ اوپر ہونگی،دو جوان خواتین کے ہمراہ  صحن میں کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔ میں نے گمان کیا کہ یہ دونوں جوان خواتین ان صاحبہ کی بہویں ہیں۔ تینوں خواتین لمبے سیاہ  عربی لباس پہنے تھیں  اور سروں پر اسکارف باندھے تھیں۔ پچھلے چند سالوں سے میں نے نہیں دیکھا  کہ ان ایام میں عربی خواتین رنگین یا چھوٹے لباس پہنتی ہوں۔ یہ لوگ ایرانیوں کے رنگین لباس ، میک اپ اور مہندی لگانے  بالخصوص ان ایام میں ایسا کرنے کو اہل بیت کی  بے حرمتی سمجھتے ہیں۔ بعض ایرانی زائر پیروں  کو سفر کے زخموں اور چھالوں سے بچانے کے لئے مہندی کا استعمال کرتے ہیں  جب کہ عراقی مہندی لگانے کو خوشی کی علامت سمجھتے ہیں ۔ یہ کام کئی ایک بد گمانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ان امور کا خیال نہ کرنا اور ان سے بے اعتنائی برتنا  ٹھیک نہیں ہے۔ ان باتوں کو بے اہمیت سمجھا جاتا ہے جب کہ  ہمیں اربعین کی پیادہ روی اور تبلیغ میں ثقافتی ہم آہنگی کا خیال رکھنا چاہئے اور اپنے میزبانوں کی ثقافتی اقدار کا لحاظ کرنا چاہئے۔

خواتین  مجھے دیکھ کر مسکرانے لگیں۔ میں بھی انہیں دیکھ کر مسکرا دی۔ مجھے لگا کہ وہ میرے بارے میں اور میری عراقی چادر کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔ میں آگے بڑھی اور ان کی گفتگو میں شامل ہو گئی۔ انہوں نے مجھ پوچھا کہ میں نے عبا کیوں پہن رکھی ہے اور یہ کہ یہ عبا  کس نے سی ہے۔میں نے انہیں بتایا کہ چادر کا کپڑا تو میری ایک عراقی دوست نے مجھے دیا  تھا جو ایران میں ہی رہتی ہے اور ایران میں ہی ایک درزی سے اس کی عبا سلوائی ہیں۔ ان کے کہ یہ بات بہت دلچسپ تھی کہ میں سر پر عبا رکھتی ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ پیدل چلنے میں عبا سنبھالنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔

کچھ بچے بار بار گھر میں آتے اور پھر دوبارہ باہر چلے جاتے تھے۔ عراقیوں کے بارے میں یہ نکتہ مجھے بہت اچھا لگا کہ میں پچھلے چند سالوں میں جس بھی امام بارگاہ یا عراقی گھر میں گئی اسے چاق و چوبند بچوں سے پر پایا۔ واضح ہے کہ عراقی اپنے مستقبل کو جوان رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ  گھر والا غریب ہے یا  امیر۔

نماز کا وقت ہو چلا تھا۔ ہم تجدید وضو کے لئے دوبارہ صحن میں آگئے۔ حمام اور بیت الخلاء ایک ساتھ ہی تھے۔ پائپ سے ہلکی دھار میں پانی آرہا تھا ۔  بیت الخلا کے لئے  یقینا ٹنکی کا پانی استعمال کیا جاتا ہوگا۔

ان خاتون کی ایک بہو مسکرا کر کہنے لگی: ’’ عراق کی حالت بہت خراب ہے اور ہماری مشکلات زیادہ ہیں۔‘‘

ہماری میزبان  نے چند سجدہ  گاہیں اور  جا نمازیں  پہلے ہی ہمارے کمرے کے پاس رکھ دیں تھیں۔ وہ خاتون جو ہمیں یہاں لائیں تھیں ان کا نام فاطمہ تھا۔ وہ اپنی دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ ہمارے کمرے میں آگئیں اور ہمارے ساتھ ہی نماز پڑھی۔

نماز کے بعد ہم باتوں میں مصروف ہوگئے۔ تقریباً ۸ بجے رات کے کھانے کا دسترخوان چنا گیا ۔ کھانا لایا گیا جو روٹی، کباب، ٹماٹر، لیموں اور تازہ سبزی پر مشتمل تھا۔ ہم نے کھانا کھایا۔ عراقی مہمانوں نے تو اپنا کھانا  تمام کیا مگر ہماری پلیٹوں میں کھانا بچ گیا۔ ہماری میزبان خاتون نے جب دیکھا کہ ہمارا کھانا بچ گیا تو کہا ’’چاول نہ ہونے کی وجہ سے کم کھایا ہے کیا؟‘‘ میں شرمندہ ہوگئی اور کہا: ’’ہم نے دوپہر کا کھانا کافی دیر سے کھایا تھا  اور پھر راستے میں فلافل بھی کھا لئے تھے۔‘‘

رات کے کھانے سے نمٹے تو فاطمہ صاحبہ ہمارے لئے چائے لے آئیں۔ عراقی مہمانوں کے لئے عراقی چائے اور ہم ایرانی مہمانوں کے لئے ایرانی چائے۔ میں نے فاطمہ سے کہا: ’’ میں تو عراقی چائے پیوں گی۔‘‘ وہ ہنسنے لگی اور کہا : تمہاری عبا بھی عراقی ہے تم ہماری ثقافت سے کافی نزدیک ہو۔‘‘

عراقی بہت تیز رنگ کی کڑک چائے استعمال کرتے ہیں چینی بھی تیز ہوتی ہے۔ یہ رنگ اور ذائقہ ایرانی چائے کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ ہمارے بعض ہم وطن اتنی کڑک چائے پینے سے کتراتے ہیں اور عراقیوں سے اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ اسی لئے عراقیوں نے اس مشکل کا یہ حل نکالا ہے کہ اپنے طریقہ سے چائے بنانے کے ساتھ ساتھ ایرانی چائے بھی دم کر لیتے ہیں  اور چائے پیش کرنے سے پہلے پوچھ لیتے ہیں کہ عراقی چائے چلے گی یا ایرانی۔

عراق میں جب کبھی مجھ سے پوچھتے تھے کہ ایرانی چائے یا عراقی تو میں یہ سوچتی تھی کہ یہ عراقی اپنے مہمانوں کے ذائقہ کا خیال رکھنے کے لئے ، اپنے مہمان کو عزت دینے اور عراقی ایرانی کے فاصلے کو ختم کرنے کے لئے کتنی کوششیں کر رہے ہیں حتی کہ شای  کہنے کے بجائے چائے کا لفظ استعمال کر رہے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ میں بھی خود انکی فرہنگ سے ہم آہنگ کر لوں سو میں جواب دیتی:’’فقط شای عربی۔‘‘ میں جب یہ کہتی تو وہ عراقی خواتین خوش ہو جاتی تھیں اور ان کے چہروں پر رضا مندی کی مسکراہٹ آجاتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارے درمیان کی سرحدیں ختم ہوگئی ہیں اور ہم ایک ہی ہیں۔ ان  ایام میں کوئی چیز بھی معمول کے مطابق نہیں ہوتی۔ عراقی چونکہ میزبان ہوتے ہیں وہ اپنے مہمانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے مہمان جو مفت میں ان کی تمام چیزیں استعمال کر رہے ہیں، وہ عراقیوں جیسا ہی برتاو کریں۔ سو ہمیں خود کو عراقیوں کی ثقافت اور رہن سہن کے قریب کر لینا چاہئے۔  مگر حقیقت یہی ہے کہ عراقی  امام کے زائروں کی منزلت کو پہچانتے ہیں سو یہ میزبان خود کو مہمانوں کی ثقافت اور ان کے رہن سہن کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے  ہیں۔ میں نے سفر میں کئی بار یہ منظر دیکھا کہ عراقی بلند آواز میں چائے چائے پکار رہے ہوتے ہیں اور ایرانیوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ : ’’بفرما عزیزم بفرما۔‘‘

چائے پینے کے کچھ دیر بعد مہمانوں کے آرام اور سونے کی خاطر چراغ بجھا دئیے گئے۔ ہمیں آدھی رات کے بعد اپنے سفر پر دوبارہ نکل جانا تھا سو میں سے سونے سے پہلے کچھ چھوٹے چھوٹے تحفہ جیسے مشہد کا تبرک مصری، جانماز، گل سرو اورچاکلیٹ اپنے بیگ سے نکالی اور اپنی میزبان کو شکریہ کے طور پر پیش کر دی۔ میں نے اپنی میزبان خاتون سے کہا کہ آپ لوگ بہت شریف النفس اور کریم الصفت لوگ ہیں۔ امام حسین آْپ کو اجر عنایت کریں۔ ان شاءاللہ خدا آپ کے دسترخوان کو پر برکت رکھے اور ہمیں آپ کی محبتوں کو قرض اتارنے کی توفیق دے۔ میری ایک اور ہم سفر محترمہ محمدی نے بھی کچھ تحفہ میزبان کو دئیے۔

ہم نے کچھ دیر آرام کیا اور اپنے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت تقریبا ڈیڑھ بجے وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔  وہ صاحب جو ہمیں اس گھر تک لائے تھے ہمیں دوبارہ سڑک تک لائے اور وہ بزرگ خاتون جو ہماری میزبان تھیں وہ بھی ہمیں رخصت کرنے اصل سڑک تک آئیں۔ ہم پیادہ روی  کے مقام پر پہنچ کر گاڑی سے  اترے اور میں نے ڈرائیور اور اپنی میزبان خاتون کا پھر سے شکریہ ادا کیا۔ انہیں خدا حافظ کہہ کر ہم نے سڑک عبور کی اور رات کی تاریکی میں طریق الحسین کے راہیوں کے ہمراہ ہو لئے۔

 



 
صارفین کی تعداد: 1401


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔