میگزین کی اشاعت

ترجمہ: ابو زہرا

2021-8-7


 "جس رات ہمیں جانا تھا اور اگلی صبح دھرنے میں بیٹھنا تھا یہ دن وہ  تھا جب امام خمینی نے آنا تھا اور وہ نہیں آئے۔  ہم بہشت ‌ زہرا (س) کے پاس گئے اور شہید بہشتی نے تقریر کی ، پھر میں نے جو قرارداد تیار کی تھی اسے پیش کی اور واپس آگیا۔  جب ہم واپس آئے تو ہم نے بات کی کہ اگلا مرحلہ کیا ہونا چاہیے؟ 


 اور تہران میں دھرنے کا خیال مشہد میں دھرنے کے تجربے سے جیسا نہیں تھا۔  دوسرے الفاظ میں ، مشہد ہسپتال دھرنے کے کامیاب تجربے نے تہران میں ہونے والے دھرنے کی حوصلہ افزائی کی۔  اور تھوڑی دیر کے لیے بحث ہوئی کہ دھرنا کہاں ہونا چاہیے؟ 


 کچھ نے کہا: بازار کی مسجد امام  میں ، جسے اس وقت مسجدشاہ  کہا جاتا تھا ، اور کچھ نے دوسری جگہوں کا مشورہ دیا۔  تمام پیشکشوں کے علاوہ یونیورسٹی کی پیشکش بھی کی گئی جو کہ ہر لحاظ سے بہت دلچسپ اور اچھی تھی ، چنانچہ لوگ صبح سویرے یونیورسٹی پہنچ جاٸیں ، لیکن انہیں ڈر تھا کہ وہ یونیورسٹی بند کردیں گے۔  اس سے پہلے ، ہم نے یونیورسٹی کے ایک عہدیدار کے ساتھ ایک عہدنامہ بھیجا - جو کہ میرے خیال سے بعد میں یونیورسٹی کا صدر بن گٸے - اور انہوں نے ہمارے لیے بہت زیادہ مسائل پیدا کیے ، لیکن خوش قسمتی سے یونیورسٹی کی مسجد کھلی تھی اور ہم فورا مسجد کے اندر چلے گئے۔ اور مسجد کے اوپر والے کمرے کو ہم نے ہیڈکوارٹر بنا دیا۔ ، اور ہم نے اس پالیسی کو آخر تک جاری رکھا ، اور یہی اثر تھا۔  کیونکہ اگر یہ تقریریں اور اعلانات نہ ہوتے تو یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیاکچھ کیاگیا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے  لوگوں کو مطلع نہیں کیا گیا تھا لہذا کے اشتہارات ذریعے لوگوں کو مطلع کیاگیا ۔  چنانچہ یونیورسٹی میں ہمارے مختلف پروگرام تھے: ایک یونیورسٹی مسجد میں مسلسل لیکچر تھا اور ہم میں سے ہر ایک کا لیکچرکا پروگرام تھا ، دوسرا پروگرام اعلانات شائع کرنا تھا اور تیسرا روزانہ بلیٹن شائع کر ناتھا ،  میرے خیال میں ہم نے دو بلیٹن شائع کیے۔ 


 یونیورسٹی میں ایک تھا جسے "دھرنا" کہا گیا ، ایک امام کی آمد کے وقت اور رفاہ سکول میں امام کی آمد کے بعد ، جن میں سے میرے پاس اسکی ایک یا دو کاپیاں  ہیں ، جو اسپرٹ اور خیالات کے انداز کو ظاہر کرتے ہیں۔ جذبات اور  اور بہت بنیادی خیالات "ان دنوں کے بے مثال ہیں  اوراس زمانے میں تیزی سے رونماہونے والے  واقعات یہ ہیں کہ جب کوئی دیکھتا ہے تو سمجھ جاتاہے کہ ہم اس وقت کس طرح مسائل سے نمٹ رہے تھے۔"

 

 ماخذ: یادداشتیں اور قصے ، خاص طور پرمقام معظم رھبری آیت اللہ خامنہ ای  کی سیرت ، تہران ، قدر ولایت ، 1999 ، صفحہ 85 اور 86۔



 
صارفین کی تعداد: 1964


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔