پہلا حصہ

 ولایت فقیہ پر امام خمینی کے لکھے ہوٸے نوٹس رکھنے کی پاداش-1

ترجمہ: ابو زہرا

2021-8-4


جناب  باقر طلوعی ھنرستان  کے فارغ التحصیل اور خمین کے رہنے والے تھے (وہ ہمیشہ بیان کرتے تھے کہ وہ امام خمینی کے رشتہ دار تھے) اور ملٹری انڈسٹریز آرگنائزیشن کی انتظامیہ میں میرے ایک ساتھی تھے۔  وہ قلم کار تھے انھوں نے مجھے اپنی کتابوں کی کئی جلد دیں، وہ اپنے فارغ وقت میں مجھ سے ملنے اور گفتگو کرنے آتےتھے۔ انکی گفتگو کا پہلا حصہ پیش خدمت ہے۔

 وہ ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد تقریبا سات یا آٹھ سال تک میرے ساتھیوں میں سے ایک تھے۔  پس اگرچہ وہ بہت مذہبی نہیں تھے ، لیکن قابل  بھروسہ تھے ، اسی وجہ میں نے انھیں آیت اللہ خمینی کے تمام اعلانات کے ساتھ ساتھ نئے پمفلٹ اور خبریں بھی دیں ، انھوں نے انہیں پڑھا۔  اس کے برعکس ، اگر انھیں باہر سے کوئی نئی خبر ملتی ہے تو وہ اسے میرے پاس لے آتےتھے۔

ایک دن میں نے اتفاقی طور پر ان سے کہا: "اگر میں ولایت فقیہ کے ساتھ اسلامی حکومت کے نام سے آیت اللہ خمینی کا نیا نظریہ اور خیالات دینا چاہوں تو ان کو پڑھیں گے؟۔" 


جناب طلوعی نے کہاکہ اگر آپ کی اجازت ہوتو میں جناب نیازی کار کہ جو کیمونسٹ نظریات کہ حامی اورپرچار کنندہ ہیں اور ایک تنقید نگار ہیں ان آپ کوآپکے گھر لے آتاہوں ان کے سامنے آیت اللہ خمینی کے نظریات کو بیان کرتے ہیں شاید وہ کیمونزم سے باز آجاٸیں اور دینی حلقے میں شامل ہوجاٸیں۔

ایک دن میں نے مسٹر طلوعی اور مسٹر نیازی کو لنچ پر اپنے ہاں مدعو کیا۔  ہم نے بیٹھ کر بات کی اور دوپہر کا کھانا کھایا۔  پھر میں نے ان کو اسلامی حکومت کے پمفلٹ سے نکات پڑھاٸے جو آیت اللہ خمینی نے نجف میں پڑھاٸے تھے جنھیں ایک پمفلٹ کی شکل میں شائع کیاگیاتھا جن سے وہ بہت متاثر ہوئے۔  میں نے آیت اللہ خمینی کی توضیح المساٸل نکالی ان میں موجود جدید مساٸل کی طرف نشاندہی کی  جن میں پارلیمنٹ سے متعلق نئے مسائل، سینیٹ کے انتخابات، اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا اور دیگر مسائل شامل تھے، ولایت فقیہ کے جدید نکات سے آگاہ کیا۔  مسٹر طلوعی اور مسٹر نیازی کار اسے پڑھنے کے بعد بہت متاثر ہوئے۔  ہم نے بہت ہی سیر حاصل گفتگو  کی، طے یہ پایاکہ ان  ملاقاتوں کو جاری رہناچاہیے۔  بلاشبہ ، میں نے پمفلٹ کبھی کسی اجنبی  کو نہیں دیے ، صرف آیت اللہ خمینی کے بارے میں تحریریں تھیں جو اسی پرانے گروپ کے درمیان تھیں ۔  میں نے مسٹر اقدسی کو بھی مشورہ دیا کہ یہ کتابچہ لیں اور اسے پڑھیں ، لیکن ہوشیار رہیں کہ یہ کسی کو نہ دیں۔

اس ملاقات کے بعد، میں مسٹر طلوعی کے ساتھ مسٹر کیوان مہشید کو دیکھنے گیا ، جنہیں اسلامک نیشن پارٹی کے دوستوں کے ساتھ گرفتار ہونے کے بعد رہا کیا گیاتھا ۔  میں اس سے ملنے گیا کیونکہ وہ پرانے محلے کا دوست تھا ، نیشنل فرنٹ کمیٹی کا ممبر تھے۔  انسداد انٹیلی جنس کو شک ہوگیا، اس کے ایجنٹ مسٹر طلوعی کے گھر گئے وہاں انھیں کچھ ناملا کچھ  کاغذات تھے جو انکے ہتے چڑھے  کیس کی ظاہری شکل یہ بناٸی گٸی کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ افیون استعمال کر رہے تھے اور مسٹر طلوعی کی گرفتاری کی بنیادی وجہ افیون کی دریافت بنی تھی۔  


میں اس خبر سے بے خبر تھا ، میں صبح اپنی گاڑی کے ساتھ دفتر میں داخل ہوا (میں ان میں سے تھا جنہیں دفتر میں  گاڑی لے جانے  کی اجازت تھی)۔ جناب نیازی کار نے مجھے معائنہ کھڑکی کے پیچھے سے کہاکہ آپ گاڑی کھڑی کر کے مجھ سے ملیں۔ میں نے پوچھا کیوں، "کیا ہوا؟" انہوں نے کہا کہ ایجنسی نےطلوعی کو  دھرلیا ہے۔آپ زرا ہوشیار رہیں ۔  میں نے کہا کیوں؟  انہوں نے کہا ہم مزید بات نہیں کر سکتے۔  میں نے فورااپنے بڑے بھائی کے گھر گیاجو کہ زاکر اہل بیت اور ملٹری انڈسٹریز آرگنائزیشن کے ایک ملازم تھے۔انکو سارا ماجرا کہہ سنایا ، اور بتایا کہ "اگر ایجنٹ ہمارے گھرچھاپا مارتے ہیں تو کتابوں کے درمیان سو کے قریب ایسی کتابیں ہیں کہ جن  کے بارے میں انہیں  نہیں جاننا چاہیے۔ "  میرا بھائی میرے ساتھی کارکن کے ساتھ میرے گھر گیا جس کے پاس گاڑی تھی ہم نے کتابیں نکالیں اور اسکی گاڑی میں رکھ دیں۔  میں نے اپنی بیوی کوان  کارٹن کی وضاحت کی جن میں پمفلٹ  ڈالنے تھے۔


  وہ کتابیں اور پمفلٹ گھر سے باہر لے گئے ، لیکن ہم نہیں جانتے تھے کہ انہیں محفوظ طریقے سے کہاں لے جانا ہے اس وقت تک وہ انہیں انڈسٹریل آرگنائزیشن میں ہمارے کزن کے گھر لے گئے اور چھپادیا
اورکزن سے کہا ، "یہ کارٹن مسٹر عرب کے ہیں۔ وہ بعد میں خودآکر لے جاٸیں گے۔"   


ہمارے کزن تھوڑے سے بزدل تھے ، لیکن چونکہ وہ اس کے بارے میں نہیں جانتے تھے ،لہذا وہ سامان رکھنے پر راضی ہوگٸے۔

آیت اللہ خمینی کا ایک اسکیچ کہ جو جناب میرمہدی نے بنایا تھا وہ تصویر میری قید کے دوران یہ پینٹنگ خانہ بہ خانہ گھومتی رہی تاکہ اسے محفوظ کیاجاسکے۔ میری توقعات کے برعکس اس دن مجھے گرفتار نہیں کیا گیا۔  لیکن  48 گھنٹوں کے بعد جناب نیازی کار کو گرفتار کر لیا گیا۔

اگلی صبح ، جب میں اپنے کام کی جگہ پر پہنچا ، مجھے تفتیش کے لیے طلب کیا گیا ، اور میں ، جو اس معاملے میں تجربہ کار اور تیار تھا ، وہاں گیا۔


 ولایت فقیہ کی کتب ہمیں مدرسے سے تعلق کی وجہ سے نقل میں دی گئی۔  جبکہ ساواک ان امور پر گہری نظر رکھے ہوئے تھی۔  1351 میں ، ہمیں ان موضوعات پر ایک مکمل پمفلٹ ملا ، اس کاغذکو رکھنے کا جرم طویل قید تھی ، اور کئی دوست جن کے ہاتھوں میں یہ پرچے تھے ، دوسروں کو بے نقاب کرا کے  جیل جاچکے تھے۔  ایسی ہی چیزیں مجھ سے تفتیش کا حصہ تھیں۔

اگرچہ نیازی کار میری سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے، لیکن طلوعی اور نیازی کار کی میرے ساتھ میرے گھر میں ملاقتوں کے بارے میں معلوم تھا اور انھوں اس کی معلومات دی کہ جس میں ولایت فقیہ کے بارے میں گفتگو اور بحٹ ومباحثہ ہوا تھا، انہوں نے تفتیشی افسران کواسی ملاقات اور  امام خمینی کی  جدوجہد کے بارے میں معلومات دی تھیں۔ 


طلوعی نے خود مجھے بعد میں بتایا: "کیونکہ ، ہم ان تمام معاملات میں تربیت یافتہ نہیں تھے لھذا انکا شکنجہ ہم پر اثر انداز ہوا جن میں تھوڑے سے تماچے اور شبداریاں اور بس۔ میں ملٹری انڈسٹریز آرگنائزیشن فار ایمونیشن کے اسی کمرے میں 24 گھنٹے رکھا۔ ہمیشہ کی طرح ایک جیپ آئی اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر میرا سر ایک کرسی کے نیچے رکھ دیا تاکہ میں راستے پر توجہ نہ دیے سکوں۔
 

 ماخذ: شیخ المعارفین ما کجاہست (محمد عرب کی یادداشتیں) ، ترمیم حسین روحانی صدر ، تہران ، اسلامی انقلابی دستاویزی مرکز ، 2011 ، صفحہ 130-137۔



 
صارفین کی تعداد: 2120


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔