حجت الاسلام شیخ اسماعیل دیانی کی یادداشتیں
آل سعود کا ایرانی زائرین پر حملہ
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید رومیلہ حیدر
2024-6-19
میری زندگی کا سب سے زیادہ یادگار سفر سن ۱۹۸۷ کا سفر تھا جس میں اتفاق سے میں کاروان کا سالار بھی تھا۔ اس سفر میں ایرانی حجاج کا سعودی آلہ کاروں کے ہاتھوں بے رحمانہ قتل عام بھی ہوا تھا۔ یہ ہولناک واقعہ جمعہ کے دن پیش آیا تھا اور اسی وجہ سے "جمعہ سیاہ" کے نام سے مشہور بھی ہوا۔ یوم "اعلان از برائت از مشرکین" کو سب ہی مظاہرے میں جانے کی تیاری کررہے تھے۔ ہمارے کاروان میں تقریبا چالیس خواتین اور ستر کے قریب مرد حضرات تھے۔ ہمارا کاروان ان پہلے کاروانوں میں سے ایک تھا جو مظاہرہ کرنے کے لئے مقام مقررہ پر پہنچ چکا تھا۔ حتی آیت اللہ عارفی کہ جو سن رسیدہ تھے اور تقریبا پچاسی سال انکی عمر تھی۔ حالانکہ کو تازہ ہی حرم سے واپس آئے تھے لیکن وہ برائت از مشرکین کے عمل کو واجبات میں سے قرار دیتے تھے اور ہمارے ساتھ شریک ہوگئے تھے۔ جو بات ابتدا ہی سے قابل توجہ تھی وہ مسلح سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد میں وہاں موجودگی تھی جو شاہراہ مسجد الحرام کے دونوں طرف قطار بنا کر الرٹ کھڑے تھے اور جن کی وجہ سے ماحول میں کافی رعب اور وحشت پیدا ہوچکی تھی۔ مسجد جن کے اطراف میں سڑک سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی اور اسکے اندر بھی اہلکار الرٹ بیٹھے ہوئے تھے، میں نے اس طرح کا ماحول اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
ہر چند شرائط غیر معمولی نظر آرہی تھیں لیکن حجت الاسلام سید محمد حسن صالحی کی تجویز پر ہم تھوڑا آگے بڑھے اور "پل حضور" سے عبور کرتے ہوئے ہم "بعثہ امام" کے میدان میں داخل ہوگئے جہاں یہ مظاہرے ہونے تھے۔ سب سے پہلے جناب کروبی صاحب نے عربی زبان میں تقریر کی اسکے بعد مظاہرے کے منتظمین نے اعلان کیا کہ " برادران نماز پڑھنے کے لئے مسجد الحرام تشریف لے جائیں!" جب لوگ مسجد الحرام پہنچ گئے تو میں اور صالحی صاحب تھوڑا آرام آرام سے آگے بڑھنے لگے تاکہ تھوڑا رش کم ہوجائے۔ میں نے اس اژدہام میں دیکھا کہ ایک شخص عربی، اردو اور انگلش میں لٹریچر بانٹ رہا ہے، اسکے تھوڑی ہی دیر بعد دیکھا کہ ایک پولیس والا آگے بڑھا اور اس نے ان میں سے ایک لٹریچر اٹھا لیا۔ بلا فاصلہ ایک شخص جو ان میں سے تھا جنہیں لال شال والے کہا جاتا ہے، اس نے پولیس والے کو غصے میں کہا کہ تم نے یہ لٹریچر کیوں اٹھایا؟ صالحی صاحب یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے تھے انہوں نے اس لال رومال والے سے پوچھا: " تم کیوں اسے روک رہے ہو؟" اس نے کہا: " تم یہ سمجھو کہ میں کمیونسٹ ہوں اور مسلمان نہیں ہوں!" اور پھر کچھ بڑبڑانے لگ گیا۔ ہم ابھی اسی تکرار میں پھنسے ہوئے تھے اچانک میں نے دیکھا ٹیلی فون ایکسچینج کے اوپر لگے جھنڈے میں آگ بھڑک اٹھی ہے، میں یہ جیسے ہی یہ دیکھا صالحی صاحب کو کہا کہ جلدی کریں جلد از جلد یہاں سے نکل چلیں۔ اب یہاں رکنا مصلحت نہیں ہے شاید کچھ اور ہوجائے۔ ہم ابھی نکل ہی رہے تھے کہ میں نے دیکھا ہمارے کاروان کے ایک رکن اس بھیڑ میں زخمی ہوچکا ہے، پہلے تو ہم یہ گمان کررہے تھے بس یہی زخمی ہوا ہوا ہوگا لیکن بعد میں ہمیں اطلاع دی گئی کہ کافی زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور سانحہ جو انسان کے دل کو منقلب کرنے اور غیرت کو بیدار کرنے کے لئے کافی تھا، سعودی فورسز کی جانب سے جھڑپ کے مقام پر ایرانی حاجیوں پر کوڑوں اور ڈنڈوں سے وحشیانہ تشدد کا غربت اور مظلومیت سے بھرا ہوا سانحہ تھا۔ لہذا ایسے عالم میں کہ اندر سے جذبات بھڑک رہے تھے اور حیرت اور غصے میں مبتلا تھا، ایک غصے میں بھرے ہوئے سعودی فوجی کو جب اپنی جانب آتے دیکھا تو اسکی جانب متوجہ ہوتے ہیں تلافی کرنے کے ارادہ سے میرا وجود لبریز ہوگیا۔ میں نے ناچاہتے ہوئے بھی ہوا میں اچھل کر اسکے سینے پر ایک محکم لات ماری، پھر پیچھے پلٹ کر فرار کرگیا۔ اس اہلکار نے بھی میرے کندھے پر ڈنڈا مارا لیکن میں اس کے چنگل سے بھاگ نکلا۔
بہت زیادہ زحمتوں کے بعد ہم مسجد معاودہ پہنچے۔ لوگ چاروں طرف سے ممسجد میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے اور سعودی سیکیورٹی اہلکار وحشیانہ طور پر مسجد کے دروازوں اور کھڑکیوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے۔ وہ مسجد اور خانہ خدا کے زائرین کا زرہ برابر بھی لحاظ نہیں کررہے تھے۔ کچھ دیر بعد مسجد میں نماز مغرب پڑھی گئی اور ایک شخص نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا کہ ایرانی فی الحال مسجد سے باہر نہ نکلیں کیونکہ صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے تھوڑا صبر کیا لیکن جب مسجد سے باہر نکلا تو ایک غم انگیز اور دلخراش منظر میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ ایک طرف سیکورٹی اہلکاروں اور افسروں کی ایک بڑی تعداد قطار اندر قطار کھڑی ہوئی تھی اور دوسری طرف سڑک پر بے شمار جنازے پڑے ہوئے تھے۔ من جملہ دو خواتین کے جنازے میں نے دیکھے جن کے سر کے بال فٹ پاتھ سے آویزاں تھے اور انکے جنازوں پر سفید کپڑا ڈالا ہوا تھا۔
وہ بدترین رات میری ذہن میں ایک انتہائی بری یاد کے طور پر ثبت ہوگئی ہے۔ ایسے عالم میں کہ میں سراسیمہ اور تیزی سے بعثہ امام کی جانب بڑھ رہا تھا میں اپنے کاروان کے افراد کے جنازے بھی مارے جانے والوں میں ڈھونڈتا چلا جارہا تھا۔ مسجد الحلام پہنچنے کے لئے مجھے حجون پل سے گذرنا تھا لیکن وہاں سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی اور فوج حجاج کی جانب فائرنگ کررہی تھی۔ بنا بر ایں ناچار ہو کر "محلہ شیشہ" کا راستہ اپنایا تاکہ مقصد تک پہنچ سکوں۔ یہ راستہ منیٰ سے ہوتا ہوا مسجد الحرام پہنچتا ہے لیکن بہت لمبا راستہ ہے۔ تقریبا چار پانچ کلومیٹر کی تو ایک ٹنل تھی اور منیٰ کے پورے راستے کو عبور کرکے مجھے مسجد الحرام پہنچنا تھا۔ اسکے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا اور مجھے جتنا جلدی ممکن تھا اپنے مقصد تک پہنچنا چاہئے تھا تاکہ اپنے کاروان کے حالات سے آگاہ ہوسکوں۔
اسی لئے اس طویل راستے کو اپنا کر چلنا شروع کیا۔ لیکن غلطی سے دوبارہ مسجد شارع پہنچ گیا۔ اس غلطی کو حکمت سے تعبیر کرتے ہوئے بلافاصلہ وضو کیا اور نماز ادا کی۔ اس کے بعد دوبارہ چلنا شروع کیا اور ساڑھے چار بجے اپنے کاروان کے مہمان سرا پہنچ گیا۔ جس مہمان سرا میں ہمارا کاروان ٹہرا تھا وہ دومنزلہ عمارت تھی جس کے مغربی حاشیے میں اس مکان کا مالک اپنے اہل خانہ کے ہمراہ رہائش پذیر تھا۔
عجیب رات تھی حالانکہ جسم بے رمق ہوچکا تھا اور بات کرنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ لیکن عمارت میں داخل ہوتے ہی کاروان کے اراکین کو ڈھونڈنا شروع کیا اور ایک ایک سے احوال پرسی کرنے لگا۔ خوش قسمتی سے کوئی بھی مارا نہیں گیا تھا لیکن کچھ افراد زخمی ضرور ہوئے تھے۔ ایک حاجی صاحب جو پیشہ کے اعتبار سے معلم تھے انکے سر پر چوٹ لگی تھی اور اسپتال میں انکی مرہم پٹی کی گئی تھی۔ تقی اکبر پور اور محسن کنی کو پولیس نے گرفتار کرکے سعودی فوجی اڈے منتقل کردیا تھا اور دوستوں کی اطلاع کے مطابق اکبر پور فوجیوں کے چنگل سے فرار کرگئے تھے۔ لیکن محسن کنی ابھی تک جیل میں تھے اور لوگ مجھ سے انکی رہائی کے لئے کوششوں کا تقاضہ کررہے تھے۔
میں نے سب سے پہلے اس عمارت کے مالک کو اس صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس نیت سے کہ وہ ایک اصیل عرب ہیں شاید اس صورتحال سے آشنائی کے بعد وہ میری کچھ مدد کرسکیں اور کچھ دلاسہ اور تسلی دیں تاکہ ہمیں کچھ سکون حاصل ہو لیکن اچانک میں نے دیکھا کہ انکا چہرہ متغیر ہوگیا حالانکہ وہ ایک پرسکون انسان دکھائی دیتے تھے لیکن میری باتیں سنتے ہی غصے میں آکر کہنے لگے: " ایرانی تخریب کار ہیں، ایرانیوں نے چاقو سے پیٹ پھاڑے ہیں، ایرانی تخریب کار ہیں!" پہلے تو ان کا جواب سن کر مجھے بہت حیرت ہوئی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ انکے بھائی اسپتال میں کام کرتے ہیں جنہوں نے انکو عربوں کے قتل اور زخمی ہونے کی خبریں دی ہیں۔ اس وقت تک تو مجھے مکان مالک کی کافی شناخت تھی اسی وہ سے ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے رہنمائی مانگی تھی لیکن بعد میں جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک اعلی پائے کے سعودی فوجی افسر ہیں!
یہ قضیہ دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا، چونکہ اس وقت تک وہ ایک میل جول کرنے والے، کشادہ رو اور مہمان نواز شخصیت کے حامل تھے۔ وہ عام طور پر مہمان سرا کے صحن کے بیچ میں قالین ڈال کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے مہمانوں کے لئے چائے نکال کر پیش کرتے، حتیٰ انکے گھر کی خواتین بھی چہرے پر نقاب لگائے کاروان کی خواتین سے بغیر کسی تعارف کے ملتی جلتی رہتیں اور گھل مل جاتی تھیں لیکن اس غیر انسانی واقعے نے انکی باطنی خباثت کو آشکار کردیا تھا۔
اسکے بعد مسلسل کوششوں کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارے کاروان کے بھی تین افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اسکے تین دن بعد نو ذی الحج کو اس سے زیادہ بدتر سانحہ پیش آیا۔ جھڑپیں ہوئیں اور شہداء کی تعداد کافی زیادہ ہوگئی۔ عجیب بات یہ ہے کہ مہمان سرا کا مالک اس واقعے سے دو دن پہلے اپنے گھر والوں کے ساتھ وہاں سے اچانک چلا گیا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسے سعودی حکومت کے اس شوم منصوبے کا پہلے سے علم تھا۔ جو خبریں ہم تک پہنچیں ان سے معلوم ہوا کہ پہلے جھڑپیں عربوں کے ساتھ شروع ہوئیں۔ اس طرح کہ ان لوگوں نے چھ ذی الحج کو اپنی چھتوں سے ایک بڑی تعداد میں ٹیوب لائٹیں حاجیوں پر پھینکیں جس پر ایرانی حاجیوں نے اپنا ردعمل دکھایا۔ علی الظاہر اس جھڑپ میں اصفہان کے حاجیوں کی ایک بڑی سعودی سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہوئی۔ جب زائرین نے یہ حالت زار دیکھی تو چاقو، چھریوں اور بغدوں سے پولیس پر حملہ کردیا اور ایک گاڑی کو آگ لگا دی۔
اسکے بعد آل سعود کے ہاتھوں زائرین خانہ خدا کے بے رحمانہ قتل عام کی خبریں پھیلنا شروع ہوئیں اور باقی زائرین بھی بے قرار ہوگئے۔
صارفین کی تعداد: 528