خواتین کی زبانی تاریخ اور اسکی ضرورتیں

ڈاکٹر ابو الفضل حسن آبادی

۲۴ / فروری ، ۲۰۱۶
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-7-17


انیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے ، "اورل ہسٹری" یا زبانی تاریخ ایک پشت ونسل، گروہ و طبقے کے تمام تجربوں کو ان کی تمام جزئیات کے ساتھ اور تحریک نسواں کے ابتدائی عناصر کو منتقل کرنے والے کے عنوان سے خواتین کی تاریخ نگاری میں مشغول لوگوں کے لیئے مورد توجہ قرار پائی۔ زبانی تاریخ کا اقلیتی گروہوں سے (چاہے اقلیتی گروہ مختلف قومیں ہوں یا مختلف مذہبوں مٰں سے ہوں) رابطہ برقرار کرنے میں مفید ہونے کی وجہ سے، اس سے خواتین کی زندگی کے مختلف پہلوؤں مثلاً سیاست، اجتماعیات، ثقافتی اور روزمرہ کی عادی زندگی کی تبیین و تشریح کیلئے مدد لی گئی۔

خواتین کے بارے میں تاریخ نگاری درحقیقت یورپی و مغربی ممالک میں تیسری تحریک نسواں کا نتیجہ تھی اور اسی وجہ سے اس میں وسعت پیدا ہو رہی تھی۔ خواتین کے بارے میں تاریخ نگاری کی بنیاد یورپ اور امریکا میں دوسری تحریک نسواں میں پڑی۔ تاریخ  میں خواتین کے مقام و کردار کے بارے میں جدید تاریخ نگاری میں وہی  فکر حاکم ہے جو قدیمی تاریخ نگاری میں تھی۔

خواتین کے بارے میں اورل ہسٹری کی ابتدائی سرگرمیاں، انیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں شروع ہوئی اور تاریک کے مختلف واقعات کے درمیان روز بروز بڑھتی رہیں۔ یہ اقدامات در واقع خواتین کی سرگرمیوں کودستاویزی شکل دینے کی غرض سے انجام دیئے گئے تھے۔  جس کا زمانہ چھٹی اور ساتویں دہائی تھی۔ خواتین کی تاریخ شفاہی کے ابتدائی اہم ترین اقدامات میں سے ان خواتین کی طرف  اشارہ کیا جاسکتا ہے جن کے ماں باپ میں سے کوئی ایک افریقی اور دوسرا امریکی تھا یا وہ خواتین جو سیاہ فام تھیں۔ خواتین کی اورل ہسٹری میں دستاویزات بنانے کے اس سفر میں بعض لوگوں کا ماننا تھا کہ اس بارے میں موضوعات کا ملنا بہت مشکل ہے اور ناممکن۔  کیونکہ جب مَردوں  کے بارے میں لکھا جاتا ہے تو غالباً ان کی اجتماعی سرگرمیوں، عظیم کارناموں اور مختلف کامیابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے  لیکن خواتین کے بارے میں کیا لکھا جاسکتا ہے؟ خواتین کو  کس میدان میں کامیابیاں ملی ہیں؟ ایک ایسی خاتون جو کہ گھر میں رہتے ہوئے صرف خانہ داری میں مصروف ہے، اس سے کونسی اجتماعی یا سیاسی کامیابیوں کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس طرح کی خواتین کے بارے میں کون سی خاص بات لکھی جاسکتی ہے۔ اگر ابھی   تک قدیمی تاریخ نگاری میں خواتین کی طرف توجہ کی بھی گئی ہے تو صرف اور صرف اس وجہ سے کہ اسے بہن، بیوی، ماں یا بڑے بڑے سیاستدانوں کی معشوقہ کے روپ  میں دیکھا گیا ہے یا دوسرے الفاظ میں کہ جو حقیقت سے زیادہ نزدیک ہیں، ان خواتین نے مَردوں کا کردار ادا کیا ہو تو مورد توجہ قرار پائی ہیں۔

اورل ہسٹری نے مردوں کی حاکمیت کے نظام سے آزادی اور اس فضا کو توڑنے کے امکان کے ساتھ  تاریخ میں خواتین کے برے پہلوؤں کہ جنہیں تاریخ میں بڑا چڑھا  کر پیش کیا گیا ہے، کی وضاحت کی اور موجودہ زمانے کی تاریخ میں خواتین کے ذکر کیلئے مناسب ماحول فراہم کیا۔ خواتین کی اورل ہسٹری  ذاتی کہانیوں کے علاوہ خواتین کے معاشرے میں مقام و منزلت کو پرکھنے کا مناسب ذریعہ بن سکتی ہے اور خواتین کو معاشرے میں  سرگرم کرنے کیلئے کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔  خواتین کے بارے میں تاریخ نگاری کا مقصد، تاریخ میں ان کی محرومیت دکھانا نہیں ہے بلکہ اس واقعیت کو ظاہر کرنا ہے کہ خواتین  تاریخ میں غیر منصفانہ حالات کے باوجود اپنی زندگی اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور اورل ہسٹری اس مقصد کو حاصل کرسکتی ہے  اور ا س قسم کی تاریخ نگاری میں اورل ہسٹری ایک سرچشمے کا کردار ادا کرسکتی ہے۔

خواتین کے بارے میں ایران میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں کی موجودہ جانچ پڑتال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی تک انقلاب اور جنگ کی سطح پر خواتین کے بارے میں اورل ہسٹری  کے میدان میں اِکّا دُکّا ہی مثالیں ایسی ہیں، جن پر کام ہوا ہے۔ خواتین کی اورل ہسٹری پر ہونے والے کاموں میں سے "مسلمان خواتین کی اورل ہسٹری" کے عنوان سے شائع ہونے والا موضوع، "انقلاب اسلامی میں خواتین کی اورل ہسٹری" جو کہ موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رہ) اور محترمہ توکلی صاحبہ کے زیر نظارت NGO کی صورت میں چل رہا ہے اور آٹھ سالہ جنگ کے واقعات نقل کرنے والی خواتین کی انجمن جو کہ جنگ کی تاریخ کے بارے میں دستاویزات بناتی ہے، کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ جناب ابطحی، جنہوں نے اس گروہ کو تشکیل دیا ہے، ا س کے اہداف ومقاصد کے بارے میں بعض اہم نکات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جنگ میں خواتین کےکردار کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، جنگ میں خواتین کے کردار میں ان پہلوؤں کی طرف توجہ کی گئی جو کہ مردوں کی مانند تھے اور جنگ م یں خواتین کی طرف سے مختلف میدانوں میں کئے جانے والے کاموں  کے بارے میں دقیق دستاویزات تشکیل نہیں دی گئیں۔

واقعیت یہ ہے کہ ان نکات کے علاوہ کہ جن کا مندرجہ بالا میں مختصر ذکرہوا، خوتین کے بارے میں تاریخ شفاہی کے موضوع پر اور کوئی کام ہوا ہی نہیں ہے۔ بہت  سارےایسے موضوعات ہیں کہ جن پر خواتین کی اورل ہسٹری کے عنوان سے کام کیا  جاسکتا ہے۔ خواتین کا سیاست اور سیاسی حادثات، کام کی جگہوں میں ، کام کی پیداوار میں، اقتصادی اداروں ، بازار، دستکاری، چھوٹے پیمانے کے اداروں اور صنعتوں میں کردار، اسی طرح خواتین اور رفاہی کام، معاشرے اور ثقافت میں خواتین کا کردار، مختلف فرقوں اور مذہبوں میں خواتین کا کردار، ایسے موضوعات ہیں جن پر اورل ہسٹری کے اعتبار سے اور دیگر مختلف لحاظ سے کام کیا جاسکتا ہے۔

تاریخ شفاہی کے اعتبار سے خواتین کی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل میں لانے کے علاوہ دیگر دقیق مسائل مثلاً خواتین کی ضروریات اور فکر میں تبدیلی، پر بھی کام کیا جاسکتا ہے، خواتین کی اورل ہسٹری  کی رپورٹس کی طرف توجہ شعور میں ا ضافے کا باعث بننے کے علاوہ، اجتماعی شرکت میں اضافے کیل۴ے مقدمات بھی فراہم کرے گی۔ اسی طرح سے خواتین کی معاشرے میں شخصیت اور وقار کو ہر زمانے میں اجاگر کرسکتی ہے جو کہ آج کے دور میں ہر اجتماع اور معاشرے میں ضروری ہے۔ اور اس کے علاوہ  ایسے گراں بہا مطالب کی تولید کرسکے کہ جس سے مستقبل کے محققین تاریخ نسواں کے بارے میں استفادہ کرسکیں گے اور انہیں اس موضوع کے بارے میں مَردوں کی تاریخ کا سہارا نہیں لینا پڑے گا اور اس کے علاوہ صنف نازک کے بارے میں دیگر موضوعات پر بھی ان کے پاس مطالب موجود ہوں گے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 6774


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔