پہلی خاتون ٹرک ڈرائیورکی یادیں

مشہدی خاتون سڑکوں پر پیش پیش

غلام رضا آذری خاکستر
مترجم: سید محمد جون عابدی

2015-9-30


پری محمد زادہ دوسرے ڈرائیوروں کے ہمراہ

کسی موضوع یا مسئلہ کے تجزیہ لے لئے زبانی تاریخ کو ایک علمی طرزعمل کےطورپر مختلف طریقوں سے استعمال کیاجاسکتاہے۔

کبھی لوگوں کی زندگی اوریادداشت کے تجزیہ کے ذریعہ ان کی زندگی کےقابل غور پہلو سامنے آتے ہیں کہ جنہیں برملا کرکے سماج میں ان کی موجودگی اور کردار کو بیان کیاجاسکتاہےاور انہیں ایک محلہ یاشہر کی  سربلندی کا سبب جانا جاسکتاہے۔سماج کے مختلف طبقوں کے ساتھ دستاویزات کی بنا پر ان کے کام اور زندگی سے متعلق انٹرویو کرنےوالے زبانی تاریخ کے محققین کوسماجی  تاریخ کے پہلوؤں پربھی روشنی ڈالنی چاہئے کیوںکہ اب تک اس پہلو پر کام نہیں ہوا ہے۔خود لکھی ہوئی یادداشتیں،ایلبم میں چھپی تصویریں،دستاویزات اورکسی جریدے یا اخبار میں چھپی ہوئی رپورٹ اوردیگر کتابوں میں مکتوب ماخذکے ساتھ انٹرویو کرنا مذکورہ مسئلہ کے سلسلہ میں تحقیق میں مددگار  ثابت ہوسکتی ہیں۔

سماج میں ایرانی خواتین کی موجودگی کے مختلف پہلوؤں کا تجزئیہ کیا جاسکتاہے ۔اگرچہ ایرانی خواتین مختلف میدانوں مین کام کی صلاحیت رکھتی ہیں اور کام اور معاشرے میں  مردوں کے شانہ بہ شانہ ہوکرآگے بڑح رہی  ہیں لیکن اس کے  باوجود بعض  مقامات پر خود موانع کو برطرف کرکے  خاص میدانوں میں ان کے  کام قابل غور ہیں۔کیوں کہ  بعض  ایسے کام ہیں جنمیں خاص صلاحیتوں اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرانی باتوں کو چھوڑتے ہوئے نئی باتوں کا تذکرہ کیاجائے جو معاشرے کے  مختلف پہلوؤں میں ان خواتین کی صلاحیتوں  کی نشاندہی کرتی ہیں ،اورانہیں دستوری انقلاب کے بعد واضح  طور پر بیان کیا گیا۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ علم ودانش اور سماجی خدمات کے میدان میں خواتین کی موجودگی  اس بات کا سبب بنی کہ سماج  میں  فعالیت کا ایک بڑاحصہ خواتین ہی کے توسط سےانجام پارہاہے۔

تقریبا ۸۰ سالوں سے زیادہ ہورہا  ہےکہ دنیا میں خواتین  بھاری گاڑیوں سے کام کررہی ہیں ۔اس  سلسلہ میں نشر ہونے والی اطلاعات اور علمی تحقیقوں میں متحدہ امریکہ میں خواتین کی  مشکلات کو بیان کیا گیا ہے۔

تقریبا ۴۰ سال پہلے تک جوخواتین ٹرک چلانا جانتی تھی انہوں یہ ڈرائیونگ اپنے باپ ،بھائی یا شوہر سے سیکھی تھی۔لیکن موجودہ دور میں خواتین ڈرائیونگ کلاسوں میں جاکر اپنا نام لکھواسکتی ہیں۔ٹگزاس کے ہائیوے پر ایک اٹھارہ ٹائیروں والا ٹرک چلانے والی خاتون کیٹٰ لین اپنےاس کام کےسلسلہ میں  مردوں کی رائے کے سلسلہ میں  کہتی ہیں :’’بعض مرد  مجھے اس کام میں دیکھنے کے بعد تعجب کرتے ہیں لیکن یہ بات میرے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ہے۔اس کے مقابلہ میں  بعض لوگوں نے مجھے یہ سمجھانےکی کوشش کی تھی کہ میرا کام گھر میں ہے اور یہ کام مردوں کا ہے۔اس کے باوجود اس وقت نقل وحمل کی کمپنیوں میں بہت سی خواتین کو ٹرک ڈرائیور کے عنوان سے نوکری مل رہی ہے۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں :’’۱۹۲۹ میں  جب  امریکہ کی پہلی ٹرک درائیور خاتون لیل الیزابتھ نے ڈرائیونگ لائیسنس حاصل کیاتھا اس وقت سے اب تک دسیوں  سال گذر گئے ہیں اوراب بعض  نقل وحمل کی کمپنیاں خواتین ڈرائیوروں کو زیادہ امتیازات دئے جانے کی قائل ہیں ۔‘‘

اب بھی  بعض لوگوں کویقین نہیں ہوتا کہ ایک عورت بھی ٹرک ڈرائیونگ جیسے مشکل کام کو انجام دے سکتی ہے۔چالیس سال پہلے ہائیوے پر ڈرائیونگ کی سختی اورحادثات کی وجہ سے خواتین اس کام میں  نہیں آتی تھیں ۔کیوں کہ بڑے ٹرک اور بھاری گاڑیاں چلانا شجاعت اور ہمت کا کام ہے ۔  بہت سے لوگوں کویقین ہی نہیں ہوتا کہ ایک خاتون بھی ٹرک ڈرائیونگ جیسے مشکل کام کو انجام دے سکتی ہے۔

در واقع وہ خواتین  جنہوں نے پرانی رسموں کو توڑااور سختیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے نئے کاموں میں قدم رکھا اورسماجی میدان میں  اپنی صنف کے لئے کام کے نئے باب کھولے،کے سلسلہ میں مختلف جہات سے تحقیق کرنی چاہئے۔اور وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے یہ خواتین اس سنگین کام کو  کرنے پر  مجبور ہیں،ان کا بھی تجزئیہ ہونا چاہئے۔مشہد کی پہلے خاتون جنہوں بڑے ٹرک چلانے کاکام انجام دیا،کی زندگی اوران کے افکاربہت دلچسپ اور قابل  مطالعہ ہیں۔

بہت تلاش اورکوشش کے بعد ۱۳۹۰کی سردیوں کے ایک دن مجھے ایران  کی پہلی ٹرک ڈرائیور کے شوہر کا نمبر مل گیا۔ ٹیلفون کےاس طرف ایک بزرگ مشفقانہ آواز آئی:’’فرمائیے بیٹا،میں ناصر خان ہوں۔۔۔‘‘ناصر خوشدل ایک بزرگ شخص ہیں جو کبھی بڑھاپے کا احساس نہیں کرتےاور ہمیشہ خوش اور بشاش رہتے ہیں ۔ہر چیز کو اچھی طرح سے دیکھتے ہیں اوران کا جذبہ ناقابل توصیف ہے۔ان  کا اپارٹمنٹ اپنی اس ہمسفر کی یادوں سے پر ہےجس کو قضاوقدرنے ان سے لے لیا اور وہ تنہا ہوگئے۔میرے خیال سے وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ ماضی کی خوشگوار یادیں ہیں ۔دوستی اور محبت ان کی باتوں میں نہفتہ ہے۔ ناصر خوشدل نے  متعدد بار بتایاکہ میں پری کے عشق میں زندہ ہوں۔۔۔۔۔‘‘

پری محمد زادہ امید ۱۵مرداد ۱۳۱۸کو مشہد میں  پیدا ہوئیں۔انکے والد حسن الیکٹریشین اور والدہ فاطمہ ایک خاتون  خانہ تھیں۔انہوں  نے اپنی ابتدائی تعلیم مشہدکے پرتوئی ہائی اسکول سے تیر ۱۳۳۳ میں ۶۰ فی صد رزلٹ کے ساتھ مکمل کی۔ اگرچہ ایک  انٹرویو میں  انہوں نےاپنی تعلیم ہائیرسکنڈری تک  بتائی تھی۔

انہوں نے  تعلیم ترک کرنےکے کچھ مہینوں کے بعد ۱۷ آبان ۱۳۳۳ کو جناب ناصرخوشدل نظامیان کے ساتھ شادی کرلی جو ۱۳۱۱کو مشہد کے محلہ سناباد مین  پیدا ہوئے تھے۔ناصر کے والد (رضا)مشہد کی جیل میں کام کرتےتھے۔ناصر نے ابتدایئ چار کلاسوں کی پڑھائی  بدر اور علمیہ اسکول میں کی اور اس کے بعد مدرسہ سے بھاگ گئے اور الکٹرک اور ڈرائیونگ کے کاموں مین مشغول ہوگئے۔وہ اپنی زوجہ سےآشنائی کی  کیفیت کے سلسلہ میں یوں  بیان کرتے ہیں:’’اس وقت میں سرباز(حکومت کی طرف سے فوجی ٹریننگ اور خدمت کرنے والا) تھا اور باشگاہ افسران مشہد میں  تارکھینچ رہا تھا۔پری اپنے  دوستوں کے ساتھ وہاں آئی تھیں اور وہیں ہماری آشنائی کا سلسلہ شروع ہوا۔‘‘

خوشدل صاحب اور پری محمد زادہ کے یہاں  تین بیٹے پرویز،پیروز اور پیمان اورتین بیٹیاں پروین ،پروانہ اورپوران پیدا ہوئے۔

پری محمد زادہ نےانقلاب سے پہلے ایران  کی پہلی ٹرک ڈرائیور کے عنوان سےڈراوئیونگ لائیسنس حاصل کیا اور قسط  پر ایک اٹھارہ ٹائیروں والا ٹرک لیکر کام شروع کیا اور اس سے پہلے ایران کی تاریخ میں ایسا  نہیں ہوا تھا۔’’چھ بچوں کی ماں اورایک پوتے کی دادی ٹرک ڈرائیور بن گئی‘‘۔’ایک عورت اٹھارہ ٹائیروں کے بڑے ٹرک کی ڈرائیورر‘‘عورت ٹرک کی ڈرائیونگ سیٹ پر ،ہائیوے اورمحاذوں  پر‘‘وغیرہ یہ ایسی ہیڈنگیں  ہیں جو پری محمد زادہ کےساتھ انٹرویو اور انکی زندگی نامہ اور یادداشتوں کے بارے میں بات کرنے کے بعد سامنے آئی تھیں۔

  پری محمدزادہ جوبائیس سال کی عمر سے ایران کی ہائیوے پر گاڑیاں چلارہی تھیں۔اپنے ڈرائیور ہونے کے سلسلہ میں  یوں  کہتی ہیں:’’ڈرائیور بننے سے پہلے میں خاتون خانہ تھی اورمیرے شوہرعمارتوں میں الیکٹریک کا کام کرتےتھے۔میں صرف ایک  خاتون خانہ بن کر رہ جاؤں اس بات سےراضی نہیں تھی اور میں گھر اور بچوں کے کام کے ساتھ گھرکے باہر بھی کچھ کام کرنا چاہتی تھی اور میں ایسا کرسکتی تھی۔تاکہ اس طرح اپنی انسانی صلاحیت کے ذریعہ معاشرے کو اوراقتصادی طورپر اپنے گھر کوکچھ فایدہ پہونچا سکوں ۔میرے خیال میں عورت کا خاتون خانہ بن کر گھر میں محصورہوجاناایک جبری رسم ہے جس کا درد عورت سو سالوں سے برداشت کررہی ہے۔آج یا آنے والے کل کے معاشرے میں گویا خانہ نشین خاتون نے سماجی لحاظ سے کوئی کردارادانہیں کیا ۔‘‘

میرے شوہر نے مجھ سے بتایا:’’بڑے ٹرکوں کے ڈرائیور کی کمی ہونےکی وجہ سے ترکی،کوریا،فلیپین اور دیگر ممالک سےڈرائیوروں کو بلایا گیا ہے۔ان کی یہ بات مجھ پر اثر کرگئی۔میں نے سوچا کیوں نہ میں اور میرے جیسے لوگ معاشرے کی خدمت کے لئے اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔میں اپنی دلچسپی کی وجہ سے اس کام میں آئی  تھی اورمیرا مقصد معاشرےکی خدمت تھی نہ کہ دکھاوا اورلوگوں کی توجہات جلب کرنا۔‘‘

جب میں اپنےشوہر کےساتھ پہلے درجہ کا ڈرائیونگ لائیسنس حاصل کرنے کےلئے نام لکھوانے گئی تو مجھے تھوڑاتھوڑا یقین آنے لگا۔میں  مسلسل مشق کرتی تھی اوردر حقیقت میرے شوہر ہی میرے استاد تھے اور ڈرائیونگ کی ساری باریکیاں انہیں  نے مجھے سکھائی تھیں۔امتحان کے دن ہم دونوں ساتھ گئےتھے۔پہلے میں نے امتحان دیا توافسر کو یقین نہیں ہوا اور اس نے امتحان لیا اور میں  پاس ہوگئی۔مجھے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ ایک عورت بھی بیابان میں  ٹرک چلاسکتی ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ دنیا میں کوئی ایسا کام ہوگا جوعورت نہ کرسکتی ہو۔اس کے بعد میرے شوہرکے امتحان کی  نوبت آئی ۔انہیں میرے پاس ہونےکی اتنی خوشی تھی کہ جلد بازی میں انہوں نےایک جگہ بریک لگانے میں  غلطی کردی اورفیل کردئے گئےاورمجبورا ایک مہینہ بعد دوبارہ امتحان دیااورپاس ہوکرلائیسنس حاصل کیا۔درواقع میں ان سے ایک مہینہ سینئیر ہوں ۔‘‘

’’جب میں نے پہلے درجہ کا لائیسنس حاصل کرلیا تومیں نے اس کو ہر صورت میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔کچھ مہینوں کے بعد ہی میں نے اپنی کچھ جمع پونجی اور دوستوں  سے قرض لیکر اٹھارہ ٹائیروں والاایک بڑا ٹرک لیا جس کی قیمت اس وقت پانچ لاکھ پچاس ہزار تومان تھی۔اور ہرمہنیہ بارہ ہزار تومان قسط کے ساتھ  میں نے کام شروع کیا۔میں اور میرے شوہردونوں ساتھ مین کام کرنےوالوں اوردو دوستوں اور شریک کی طرح رہے۔آخر ہم شریک زندگی تو تھے ہی اب شریک ٹرک بھی ہوگئے۔‘‘

’’میری خواہش تھی کے پڑھ لکھ کر پائیلٹ بنوں ۔لیکن میری جلدی شادی کردی گئی اور میں مزید تعلیم حاصل نہ کرسکی۔اب جب بھی آسمان میں جہاز اڑتا ہوا دیکھتی ہوں تودل سے آہ نکلتی ہے کہ اے کاش میں  بھی اس کے پائیلٹ کی کرسی پر بیٹھی ہوتی۔‘‘

سلفچگان قم کے راستہ میں  خطرناک ایکسیڈنٹ

رات کا وقت تھا اور ہم ٹرک پر لوہا لاد کر قم سے آرہے تھےناصر صاحب آگے جارہے تھے میں نےایک موڑ پر ٹرک موڑااورمیرے ٹرک کی رفتارتیزتھی شاید ۱۰۰ یا ۹۰ کی رفتار سے آرہی تھی۔اچانک دیکھا کہ ایک سیاہ سایہ سڑک کے درمیان میں ہے۔میں نے اس پر لائیٹ ماری دیکھا ایک ٹرک تھا جس پرپلاسٹک پڑی ہوئی تھی اوراس کا  ڈرائیوربغیر نشانی لگائےہوئےاسے چھوڑکرچلا گیا تھا۔میں نے اسٹیرنگ بائیں طرف گھمائی سامنے سے ایک منی بس بہت تیز رفتار سے آرہی تھی اس کو انڈیکیٹر دیا لیکن  اس نےکوئی توجہ نہ دی اور آتا گیا۔میں نے سڑک سے ہٹنےکےلئے داہنی طرف اسٹیرنگ گھمائی لیکن وہاں ایک گڈھا تھا۔مجھے یقین  تھا کہ لوہے کی نوک آکر میرے گردن میں لگے گی ۔لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔سامنے سے منی بس آرہی تھی ٹکراتے تو دس بیس لوگوں کی جان جاتی۔ میں  نے آنکھیں  بند کی اور ’’یاعلی‘‘ کہکر اس کھڑےہوئے ٹرک میں  ٹکر ماردی اور بیہوش ہوگئی۔گاڑی بہت بری طرح خراب ہوگئی تھی۔۔۔‘‘

’’پری ایران  کی اکیلی اٹھارہ ٹائیروں والا ٹرک چلانے والی خاتون ہیں۔جن کا کام خلیج فارس کی بندرگاہوں سے یر بار ۲۴ ٹن سامان اٹھاکر منزل تک پہونچانا تھا۔انہوں نےاپنے کام اور رہنے کی جگہ کے بارے میں یوں لکھا ہے:’’میری جائے سکونت خرمشہر ہے لیکن کام کی وجہ سے مجھے ملک گوشوں گوشوں میں  جانا پڑتاہے اور اس  طرح میں ملک کے تمام شہروں ،وہاں کی آب وہوا ،لوگوں اورانکےرہن سہن کے طریقوں سے مکمل طور پر واقف ہوں۔بعض لوگوں کے خیال کے  برعکس ،میں ایک عورت ہوں اور اپنی نسوانی فطرت کےساتھ سچ سچ بیان کرتی ہوں کہ مرد نما بدمزاج عورتوں سےمیں کوئی رابطہ نہیں  رکھتی اور ٹرک ڈرائیور ہونے کے باوجود میری نسوانی خصوصیتوں میں  کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔بہت سی خواتین ہیں جو لباس سلتی ہیں اور بوٹے ٹاکتی ہیں لیکن  انکےکام میں باریکیاں نہیں ہیں۔پس کوئی خاص کام انسان کی فطرت کو تبدیل نہیں کرسکتاہے ۔‘‘

’’ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہر جگہ ساتھ ساتھ رہیں اور اس طرح ہمیں آسانی رہتی ہے۔ لیکن بعض موارد پرایسا ممکن نہیں ہوپاتا۔میں  ابتک خود دوبار اکیلے سامان لیکر تہران سے مشہد گئی ہوں۔مجھے ڈر نہیں لگا اور اب تک کوئی مسئلہ پیش نہیں  آیا ہرجگہ لوگ ہم کو پہچانتےہیں اور ہرجگہ امن وامان ہے۔دوسری طرف یہ کہ سالوں سے ہم رات میں  گاڑی نہیں چلاتے ہیں:صبح نماز کے بعد سفرشرع کرتے ہیں اور ظہرتک جاری رکھتے ہیں ایک گھنٹہ کھان وغیرہ اور آرام اوراس کے بعد غروب تک دوبارہ صرف جاری رکھتے ہیں ۔اور اس کے بعد کسی پولس چوکی یا محفوظ جگہ  پر قیام کرتے ہیں۔میں  کھانا پکاتی ہوں ناصر صاحب گاڑیوں کو چک کرتے ہیں اوراس کے بعد ہم سوجاتے ہیں۔

محمد زادہ  ، لائیسنس ملنے کے بعد اپنے شوہر کےساتھ خرمشہر چلی گئی تھیں۔

 خواتین کےبھاری گاڑیوں کےچلانے کے سلسلہ میں  اخبار وطن امروز نے بھی یوں  رپورٹ پیش کی ہے:’’ایران کی پہلی ٹرک ڈرائیور جنہوں نے ڈرائیونگ لائیسنس حاصل کیا ،پری محمد زادہ ہیں جو ۱۳۱۸ کو مشہد میں پیدا ہوئی تھیں۔ان کے شوہر ناصر خوشدل بھی ٹرک ڈرائیور تھے جو انکی زندگی اور ہائیوےدونوں زندگی کے سفر کے ہمسفر تھے۔محترمہ پری کے بقول ان کے شوہر ہی اصل میں  ان کےاستاد تھے لیکن شاگرد استاد سے آگے نکل گئی تھی۔وہ اپنے ٹرک چالنےکے سلسلہ میں  لوگوں  کی رائے  کے بارے مین کہتی ہیں :’’میں نے متعدد باردیکھا ہے کہ جب میں ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتی ہوں تو لوگ میری تعریف وتشویق کرتے ہیں ۔اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ سماج محنتی اور فعال خواتین کو احترام کی نگاہ سے دیکھتاہے۔‘‘

انہوں  نے جریدے زن روز کودئے  ہوئے انٹرویومیں  اپنے کام کے ابتدائی ایام کی ایک یادداشت مین  یوں کہا ہے:’’مجھے یاد ہے کہ میرے کام کےشروعاتی دن تھے میں شہر کے نزدیک ایک  پٹرول پمپ پر پٹرول لینےکی غرض سےاتری۔وہاں دومرد کھڑے تھے انہوں مجھے دیکھا ان میں سے ایک نے دوسرےسے کہا:’’نہیں یاروہ ایرانی نہیں ہے  ایرانی عورتوں میں ٹرک چلانے کی ہمت نہیں ہے ۔نہیں  معلوم کس ملک کی ہےشاید جرمن ہے۔‘‘ان کی باتوں کو سننے کے  بعد میں  بہت ناراض ہوئی اوران سے کہا’’میں ایک ایرانی عورت ہوں اور کیا تم سوچتے ہوکہ ایرانی عورت کی ہمت ،شجاعت اور صلاحیت یورپی عورتوں سے کم ہوتی ہے؟اپنی بہنوں کو کم  مت سمجھو۔‘‘

تحمیلی جنگ کے دوران  وہ محاذ پر موجود رہنےکی ایک یادداشت میں کہتی ہیں :’’ہم اب تک دس بار ساتھ ساتھ محاذ پرجاچکے ہیں ۔کئی مہینوں تک بموں ،راکٹوں اور گولیوں کے سائے میں  ہویزہ،خرمشہر،اوردیگر محاذوں پر ساتھ ساتھ رہے ہیں۔بہت مرتبہ فوج کے لئے سامان لاد کر پہونچایا ہے۔دھماکہ خیز اور آگ لگجانے والے مواد۔میں محاذ پر اپنے ساتھیوں کے شانہ باشانہ تھی ایک بار نہیں بلکہ کئی بار۔جنگی ساز وسامان لیجانے میں وہاں مردوعورت کا کائی مسئلہ ہی نہیں تھا۔‘‘

انہوں  ملک سے باہر بھی سامان لیجانے کے لئے کوشش کی لیکن پاسپورٹ آفس نے قبول نہین کیا ۔اس درخواست کو ۶ بہمن ۱۳۶۴ ایران کی بین الاقوامی نقل وحمل کمپنی  ایران کنٹینر نے انہیں دیا تھا جس کا جواب نہیں مل سکاتھا۔انہوں نے مسئلہ کو یوں بیان کیا ہے :’’پارسال سے میرے کچھ ساتھیوں نے  ملک کے باہر سے سامان لانا اورلیجانا شروع کیا ور ترکی سے سامان لائے اورلے گئے  تومیں  نے بھی یہ کام کرنےکا ارادہ کیا۔ہم نے اگریمنٹ کرلیا اور پاسپورٹ کے لئےدرخواست دی۔ میرے شوہر کو تو پاسپورٹ مل گیا لیکن مجھے نہیں ملا ۔پاسپورٹ آفیسر نے کہا:’’جمہوری اسلامی ایک خاتون ڈرائیور کے لئے بڑے افسران سے اجازت لینی چاہئے۔اور آخر میں کہا ’’یہ عمل جمہوری اسلامی کی شان کےمطابق نہیں ہے لھذا پاسپورٹ نہیں دیا‘‘

آذر ۱۳۷۵ کو محترمہ محمدزادہ نے کینسر کی بیماری کے سبب اس دنیائے فانی کو الوداع کہا اور مشہد کے خواجہ ربیع کے مقبرہ میں اپنی ابدی آراماگاہ میں  دفن کی گئیں ۔

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 6630


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔