لایین کے کردیوں کی، شادی کی رسومات

غلامرضا آذری خاکستر
مترجم: سیدہ افشین زہرا

2015-9-9


ماضی میں مختلف علاقوں کی آداب و رسومات اور  زبانی ثقافت، معین تھیں اور شاذ و نادر ہی تبدیل ہوا کرتیں تھیں، جس کی بنیادی وجہ ان رسومات کا اس قوم کی تاریخ سے وہ رشتہ اور تعلق تھا جو ان کے ثقافتی تشخص اور مختلف مسائل میں ان کے رویوں اور ان کے نظریات کا آئینہ دار تھا ایک خطے کی عوام کے عقائد اورثقافتی مشترکات، ان کے رویے، فطرت اور روحانی معیار کی بنیاد پراستوار ہوتے ہیں۔ لیکن سماج کی بتدریج تبدیلی بالخصوص، معاشرے کی جدتیں سبب بنیں کہ مختلف علاقوں کے آداب و رسوم میں بہتر اور خوش آیند تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں ان تبدیلیوں کی اصل وجہ، ٹیکنالوجی کا استعمال، اور ذرائع ابلاغ ہیں کہ جنکی بدولت ان تبدیلیوں نے بہت تیزی سے تمام خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

اس مقالے میں ہم، شمال مشرقی ایران کے، پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع شمالی ہزار مسجد(1) کی شادی کی رسومات پر تحقیق کریں گے۔ وہ چیز جو باعث بنی کہ اس تحقیق کے لئے کردیوں کے اسی علاقے کی شادی کی رسومات کو چنا جائے دراصل وہ تبدیلیاں ہیں کہ جن  پرآجکل تیزی سے عملدرآمد ہورہا ہے یا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ  ان کی تیزی سے بدلتی ہوئی رسومات باعث بنیں کہ اس علاقے کی رسومات  پر ہی بات کی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ۔۔۔۔ کیا زبانی تاریخ کا محقق، ان مراسم اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرکے، تاریخ اور عمرانیات  کے محققین کی مدد کرسکتا ہے؟  

کلات نادر اور درگز شہروں کے درمیان جوشیلے لوگوں کا ایک سر سبز علاقہ  ہے، ماضی میں ان لوگوں کا پیشہ مویشی پالنا اور کھیتی باڑی تھی۔ سر سبز  وادی لایین (2) کہ جس میں کئی آبادیاں شامل ہیں، ہزار مسجد آسمان کو چھوتے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر، سرحدی علاقے سنگ دیوار پر ختم ہوتی ہے۔ مقامی اور شفاہی تاریخ کی بہت دلچسپ اور غور طلب حکایتیں ان سرحدی باشندوں کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ اگر ہم ہزار مسجد کے شمال کے ساتھ ساتھ ایک فرضی لکیر کھینچیں، تو دو سر سبز وادیاں نظر آئیں گی کہ ان میں سب سے اہم  آبادیاں چہار راہ اور خاکستر ہیں(3) جو کہ پہاڑوں کے درمیان چھپی ہوئی ہیں۔ ماضی میں دونوں بستیاں، خطے میں نقل و حمل کے حوالے سے اہم کردار کی حامل رہی ہیں، رانے لایین اور بابا رمضان نام کے دو دیہات بھی انہی میں واقع ہیں۔ پرانا لایین آثار قدیمی، حمام ، مسجد، تاریخی قبریں، سید مظلوم کا چولہا، اور نقشین پتھروں کی وجہ سے مشہور اورتحقیقی اعتبار سے  اہمیت کا حامل ہے اس خطے کا ایک پتھر آغا بیگ لوئر کا فرمان( شعر) ہے کہ مقدسات کے احترام کے تذکر کیلئے مقامی لوگوں کیلئے رسومات میں اسکا استعمال ممنو‌ع ہے، یہ کندہ پتھر تقریبا ایک سو دس سال پرانا ہے۔

 

 

یہ وادی سیاحت کا مرکز مانی جاتی ہے بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو  ہفتے کے آخر میں ہونے والی چھٹیوں کو فطرت کے نزدیک رہ کر گزارنا چاہتے ہیں یہ وادی مسافروں کے لئے خوش گوار آب و ہوا والا، پر فضا  مقام ہے بالخصوص با با رمضان نامی گاؤں، مزار ہونے کی وجہ سے لوگوں کے لئے مقدس اور مرادیں بر آنے والا مقام ہے۔ ان دونوں دیہاتوں کے سنگم پر ایک رباط نامی گاؤں ہے جسکے بعد کے سب دیہات جھیل کے راستے میں ایک خط پر واقع (4) ہیں جبکہ قدیم لوگوں کی  آبادکاریوں کی نشانیاں صحراء میں پہاڑوں کے درمیاں دکھائی دیتی ہیں عزیز  آباد کے غار اور پہاڑوں پر سنگتراشی اور نقش و نگار، گذشتہ تاریخ کا پتہ دیتے ہیں اس کے بعد احمد آباد اور پھر نئے لایین کی گنجان آبادی موجود ہے تر کمانیوں کے حملے کے بعد چونکہ سرحدیں مختصر اور چھوٹی ہو گئیں تو لوگوں کا ذہن میدانوں میں زراعت کی طرف گیا اور وہ اس طرف مائل ہوئے  کیونکہ میدان، گندم ۔ جو، کپاس اور دیگر زرعی مصنوعات کے لئے زرخیز  مانے جاتے ہے۔

حاجی آباد، کریم آباد، رجب آباد اور ان آبادیوں کی پتھریلی دیوار کے آخر میں وادی لایین کی آبادیاں شروع ہوجاتی ہے، لایین کی جھیل کا پانی، پینے میں استعمال ہونے کے بعد، کھیتوں سے ہوتا ہوا کہ جن میں زیادہ تر چاول کاشت  کئے جاتے ہیں، ترکمانستان کے صحراء میں داخل ہو جاتا ہے۔

ایران کی قدیم ترین دستاویزات میں سے ایک سند اس جھیل کے پانی کی تقسیم کی ہے جو کہ ایران اور روس کے نمائندے کے درمیان ماہ شعبان  1321 ہجری میں قلات کے پانی کے پروٹوکول کے نام سے دستخط ہوئی ہے، اس دستاویز میں پانی کی تقسیم اور زراعت کے محصولات کے بارے میں  نکات تحریر(5) ہیں۔

وہ لوگ جو جھیل کے راستے میں آباد ہیں، کرمانج کے کردی ہیں، کرمانجی زبان بولتے ہیں اور شیعہ ہیں۔ کردیوں کے اہم قبائل صوفیانلو، باج، خوانلو، شیخوانلو، ویدانلو۔۔۔۔۔ و دیگر ہیں اسکے علاوہ ترکی اور فارسی زبان کے لوگ بھی اس علاقے کا حصہ ہیں۔

 

 

علاقے کے باشندے کھیتی باڑی کی وجہ سے، ماہ اردیبہشت کے درمیان میں ہی سر سبز و شاداب علاقے ہزار مسجد کی طرف کوچ کر جاتے ہیں تاکہ موسم بہار کی تازہ ہوا میں بہتر طور پر زراعت کر سکیں،کوچ کی غرض سے  لوگوں کیلۓ مناسب اور اہم علاقے، کژ درہ، عربچاہ، آوہ، دریژ، اور ہزار  مسجد وغیرہ ہیں۔ فطرت کا خوب صورت نظارہ، ارس، گری دار میووں،  پستے، جڑی بوٹیوں اور جنگلی جانوروں جیسے چیتوں، سوروں، ہرنوں کے غولوں کی موجودگی اس جگہ کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتی ہے۔

 

شادی کی رسومات

شمالی پہاڑوں میں واقع، ہزار مسجد کے باشندوں کے لئے شادی،ایک اہم اور خوشحال زندگی گذارنے کا ذریعہ ہے، ماضی میں، جوان جیسے ہی اپنے پا‎ؤوں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوتے، ماں باپ کو انکی شادی کی فکر لگ جاتی اور وہ ان کے لئے شریک حیات ڈھونڈنے لگتے، علاقے کے کچھ  بزرگ جنہیں یہاں کے لوگ "ایلچہ" کہتے ہیں علاقے کے جوان لڑکے اور  لڑکیوں کے لئے ان کے رشتہ داروں اور شناسا لوگوں میں رشۃ تلاش کرتے اور مناسب رشتہ ملنے باقاعدہ طور پر رشتہ لے کر، لڑکے اور لڑکی والوں  کے گھر جاتے ہیں۔

 

 

شادی کی رسومات زیادہ تر رات میں ہوتی ہیں اور انہی رسومات میں سے ایک رسم مٹھائی کھلانا ہے ،جو کہ طرفین کی شادی پر رضامندی کے بعد انجام پاتی ہے اور اگر لڑکا شادی کی رسومات ادا کرنے سے قاصر ہوتا تو ایک رسم جو ماضی میں رائج تھی، لڑکی کو لڑکے کے ساتھ روانہ کرنا تھا کہ یہاں کی علاقائی ثقافت میں اس رسم کو" بھجوانا یا روانہ کرنا " کہتے ہیں۔ یہ رسم کچھ اس طرح سے ہے کہ دولہا کچھ انتظامات اور دلہن کے کسی رشتہ دار سے گفت و شنید کے بعد، طے شدہ گھر میں دلہن کا انتظار کرتا ہے اور دلہن کے پہنچنے پر یہ دونوں اس گاؤں سے، گھوڑے پر یا پیدل فرار ہو جاتے ہیں اور دوسرے گاؤں میں ( اپنے ہی خاندان ) کے لوگوں کے گھر میں رہنے لگتے ہیں اور شادی کے شرعی تقاضوں کو پورا کردیا جاتا ہے اسکے بعد جب بھی دونوں کے گھر والوں کی رضامندی حاصل ہوجاتی ہے شادی کی  ایک مختصر سی رسم انجام دے دی جاتی ہے۔

مگر دوسری صورت میں کہ جب یہ شادی، باقاعدہ طور پر انجام پاتی ہے تو اس میں جہیز، حق مہر، شیر بہا، اور دوسرے لین دین بھی زیر بحث آتے ہیں اور یہ معاملات معمولا اس زمانے کے روپوں کے مطابق، یا چند عدد گائے، بھیڑوں یا کبھی کبھی زمین کے کچھ ٹکروں پر بھی طے پاتے ہیں۔ " مٹھائی کھانا" ایک اہم رسم ہے کہ جس میں لڑکا اور لڑکی قانونی اور شرعی طور پر شادی کرتے ہیں اس رسم سے ایک رات پہلے، قند شکن( شکر کو توڑنا) کی رسم ہوتی ہے کہ جس میں علاقے کے بزرگوں میں سے کوئی ایک بزرگ، اس شادی کو مبارک بنانے اور جوڑے کے شاد و آباد رہنے کیلئے شکر کے دو بڑے ڈھیلوں کو آپس میں رگڑتا ہے اور شکر کے ٹوٹ جانے پر حاضرین محفل دولہا کو مبارک باد دیتے ہیں، یعنی اس طرح سے شکر کو توڑنا کردیوں کی شادی کی ایک رسم ہے کہ اس رسم کے بارے میں کہے گئے شعر ان یادوں کو تازہ کرتے ہیں  ایشو چنده ایشو چنده وره بشکن کله قنده۔۔۔۔۔۔(شعر)

 

 

پہلے زمانے میں شادی کی رسومات تین دن اور رات تک جاری رہتیں کہ جن میں دو دن علاقے کے لوگوں اور مہمانوں کو مدعو کیا جاتا اور مختلف رسومات ادا کی جاتیں، شادی کی دعوت کچھ اس طرح سے دی جاتی کہ شادی سے ایک ہفتے قبل، ایک شخص گھوڑے پر سوار ہوکر مٹھائی سے بھرا تھیلا ساتھ لیتا اور گاؤں کے پہلے گھر سے لے کر آخری گھر تک، گھر گھر جاکر شادی کی دعوت دیتا اور مٹھائی تقسیم کرتا ہے۔ عام طور پر وہ لوگ جو مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں ارد گرد کے گاؤں والوں کو بھی شادی میں مدعو کرتے ہیں۔ وہ زمانہ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب شادیاں خزاں کے موسم سے شرع ہو جایا کرتی تھیں جسکے بعد کچھ لوگ تیز دھار کلہاڑیاں لیکر، آگ جلانے کیلئے لکڑیوں کی کٹائی کے لئے نکل جاتے اور لکڑیاں جمع کر کے لاتے اور دوسری طرف، دلہن کے گھر کی عورتیں شادی سے ایک دن پہلے ہی علاقائی روٹیوں کی پکائی میں مصروف ہو جاتیں۔ شادی سے ایک رات قبل ہی وہ لوگ جو شادی کے انتظامات کرنے کے قابل ہوتے بلائے جاتے اور ان سب کو ان کے کام اور ذمہ داریاں سونپ دی جاتیں۔

عورتیں شادی میں ایک خاص قسم کا لباس پہنتی ہیں اس کام کو قولغ کاری کہتے ہیں، اسلامی نکتہ نگاہ سے یہ لباس ایک مسلمان عورت کے لئے بالکل مناسب اور ڈھکا ہوا ہوتا ہے ، یہ لباس کئی حصوں پر مشتمل ہوتا ہے ایک حصہ پاچہ یا شلوار کہلاتا ہے جو کہ ایک بڑا اسکرٹ ہوتا ہے جسکے کناروں پر بڑی مہارت سے علاقائی کڑھائی کی جاتی ہے۔ اوپر کے حصے کیلئے قمیض ہوتی ہے جو کہ لمبائی میں گھٹنوں پر آکر ختم  ہوتی ہے۔ اس لباس کا اگلا حصہ، علاقے کی ہنر مند عورتوں کی نفیس اور خوب صورت کڑہائی کی وجہ سے دیدہ زیب نظر آتا ہے۔اسکے ساتھ ایک شال ہوتی ہے جو کہ سر پر دوپٹہ کی طرح اوڑہنے کے کام آتی ہے "چنگہ " ایک  قدیمی سکہ ہے جو ایک پٹی پر دو قطاروں میں لگایا جاتا ہے اور پھر یہ پٹی سرپر رکھی جاتی ہے، اسکے علاوہ پیست ایک ایسا لباس ہے کہ جس کا آگے کا پورا حصہ انہی قدیمی سکوں سے بھرا ہوتا ہے، علاقائی جوتے اور موزے  بھی اسی لباس کا ایک جز ہوتے ہیں جو یہاں کی خواتین شادیوں میں پہنتی ہیں۔

 

 

شادی کے پہلے دن ظہر کے قریب سب مہمان آنا شروع ہو جاتے ہیں، سب کام میں اور مہمانوں کی پذیرائی میں مصروف نظر آرہے ہوتے ہیں، آنے والے مہمان خصوصا خواتین اپنے ساتھ، تیل شکر، چاول، روپے اور تحائف، سلامی کے طور پر لیکر آتے ہیں اور اہل خانہ کو مبارک باد دیتے ہیں۔ شادی کا باقاعدہ آغاز دوپہر کے کھانے کے بعد ہوتا ہے جس میں سب سے پہلے،گھر اور علاقے کے بزرگ دولہا کی طرف سے دلہن کے لئے خریدا ہوا سامان اور کپڑے لے کر دلہن کے گھر جاتے ہیں تاکہ دوسرے دن دلہن اس سامان کس ساتھ دولہا کے گھر آئے۔ عاشق، ڈھول، سورنا، قوشمہ، مقامی آلات مو سیقی ہیں جو شادی کے جشن کا حصہ ہیں اس کے علاوہ دو تار اور کمانچہ بھی مو سیقی کے لئے استعمال ہوتے۔ یہاں پر ایک بہت دلفریب اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ، شادی کے تمام گانے اور موسیقی ،قومی اور ملی دھنوں پر مشتمل ہوتی ہیں یہ موسیقی ان کی علاقائی تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے اور بنیادی طور پر، موسیقی کے یہ نت نئے ساز اور دھنیں علاقے کے کچھ سرداروں کی جنگوں میں شرکت اور ملک کی حفاظت میں ان کی جدوجہد کو تازہ رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ مختلف اوقات میں مختلف دھنیں بجائی جاتی ہیں جبکہ ڈھول چی، ڈھول اور طبل بجا کر لوگوں کو شادی کی دعوت دیتا ہے۔

شادی کی پہلی رسم دولہا کو نہلانے لے کر جانا ہے، ماضی میں عمومی حمام  ہوا کرتے تھے مگر شادی کے روز یہ عمومی حمام صرف دولہا کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ نوجوان لڑکے، شہ بالے ( دولہا کا دوست) کے ہمراہ، سروں پر دولہا کا سوٹ، شہ بالے کا سوٹ اور مٹھائی کے ٹوکرے لئے، رقص کرتے ہوئے دولہا کو حمام تک چھوڑ کر آتے ہیں، نہانے کے بعد دولہا کو شہ بالے(دوست)  کے گھر لے کر آتے ہیں۔ (شہ بالے یا دولہا کے دوست کا انتخاب کچھ اس طرح سے ہوتا کہ بچے کے والدین، بچپن ہی میں اپنے بچے کے ہم عمر دوست کو منتخب کرتے اور دونوں خاندانوں کی باہمی رضامندی سے دونوں بچے ایک دوسرے کی شادی کے دوست بن جاتے)۔ دولہا کے پہنچنےپر اس دوست کے گھر میں علاقائی رقص ہوتا ہے اور دولہا کو شادی کا لباس پہنایا جاتا ہے، اس دن دولہا اوراسکا دوست نیا لباس اور جوتے پہنتے اور دولہا کے کاندھے پر ایک لال کپڑا جسے دون کہتے ہیں ڈالا جاتا اس کے بعد سب دولہا کو پیار کرتے اور گلے لکاتے اور دولہا کے ساتھ اس کے دوست کے گھروالوں کی طرف سے دیئے گئے تحائف لے کے، دولہا کے  گھر کی جانب روانہ ہوتے، یہ تحائف عموما کھانے پینے کی اشیاء جیسے  چاول، گوشت، تیل، پتی ہوتے اور بعض اوقات کشن وغیرہ بھی اسکا حصہ ہوتے۔

 

دلہن کے گھر پر بھی سب یہی رسومات ہوتیں ،عورتیں اور لڑکیاں، دلہن کے  اردگرد جمع ہوتیں اور اسی طرح نہلانے کی رسم اور دلہن کی دوست والی رسوم انجام پاتیں۔ ان شادی کی رسومات میں رقص جو کہ سادہ حرکات پر مبنی ہوتا، گروہ کی شکل میں اور مردوں اور عورتوں میں الگ الگ انجام دیا جاتا، رقص کی اس قسم کو گووند کہتے ہیں، جس میں وہ ساز جو عورتوں کے لئے بجائے جاتے عموما تیز ہوتے، عورتیں دو گھیرے بنا کر تالیاں بجاتے ہوئے اس ساز پر گول دائرے میں گھومتی ہیں جبکہ مرد، تیز رقص کے ساتھ، ڈنڈیاں ہاتھ میں لے کر مختلف مہارتی مشقیں انجام دیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ رات ہونے لگتی ہے۔ اس زمانے میں کہ جب بجلی نہیں ہوا کرتی تھی مہمان ماحول سے اندھیرے کو دور کرنے اور رات کے وقت بھی رسومات سے لطف اندوز ہونے کے  لئے اپنے ساتھ جالی والے چراغ اور لالٹین لے کر آتے اور اسی طرح جس  صحن مین رقص ہوتا وہاں آگ جلاتے اور اس کے گرد رقص کرتے، رات کے آٹھ یا نو بجے اہل خانہ لوگوں کو کھانے کی دعوت دیتے کھانے میں اگر ایک رات قبل آب گوشت تھا تو آج رات کوئی دوسرا کھانا مہمانوں کا منتظر ہوتا، دوسری طرف عورتیں مہندی کی رسم بھی ادا کرتیں، مردوں میں سے ایک شخص کچھ یوں گانا گاتا کہ "محترم مہندی لگ رہی ہے ۔۔۔ دلہن مہندی لگا رہی ہے،،، جبکے ساتھ ہی حاضرین کی تالیاں اور خوشی سے لبریز جملے اس محفل کو مزید گرما دیتے۔۔۔

رات کا کھانا کھانے کے بعد دوبارہ رقص شروع ہوجاتا ہے، عورتیں اور مرد مہندی کے تھال اٹھا کر دلہن کے گھر جاتے ہیں، لوگوں کی بھرپور شرکت اس رسم کا مزہ دوبالا کر دیتی ہے مگر اس سے پہلے کے مہندی کی رسم شروع ہو دولہا سیب انار اور مٹھائی اچھالتا ہے یہ رسم دلہن کے والد کے گھر ہوتی ہے اور دولہا کو اسکا دوست اور دلہن کو اسکی دوست مہندی لکاتی ہے۔ یہ رسم ختم ہوتے ہی آج کے دن کی رسومات ختم ہو جاتی ہیں البتہ کچھ باریک نکات بھی اس رسم میں موجود ہیں کہ جنکا بعد میں ذکر کیا جائے گا ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ چھوٹے بچے کو جو چار یاپانچ سال کا ہو، دلہن کے ہاتھ کی مہندی لے کر اس کے سر پر لگائی جاتی ہے اور یہ عمل اس لیے کیا جاتا ہے کہ پہلی اولاد لڑکا ہو۔

سورج کے نکلتے ہی شادی کا دوسرا دن شروع ہوجاتا ہے اور مہمان ناشتے سے فارغ ہو کر کشتی کے میدان کی طرف جاتے ہیں، کشتی چوغہ، شمالی خراسان کے کردیوۂ کا مقبول و معروف کھیل ہے، خوغہ ایک چھوٹا لباس ہوتا ہے جو جوان پہنتے ہیں، جس میں ایک چھوٹی شرٹ ایک نیکر اور کمر پر مضبوطی سے باندھنے والا ایک کپڑا ہوتا ہے۔ یہ رسم دوسرے دن کی صبح سے شروع ہوکر دوپہر تک جاری رہتی ہے اسکی ابتدا میں جو کوئی دعوے دار ہوتا ہے مخالف کے ساتھ میدان میں آتا ہے اس کھیل کی مقبولیت اس حد تک ہے کہ بعض اوقات عمر رسیدہ و بوڑھے اور درمیانی عمر کے لوگ بھی کشتی کا لباس پہن کر میدان میں اتر جاتے ہیں آخری میں قند جو کہ کشتی کے انعامات کا اعلان ہے، کیا جاتا ہے، جو کہ دولہا کے گھر والوں کی جانب سے ہوتا ہے اور پہلا انعام عموما نر بھیڑ ہوتی ہے۔۔۔۔ وہ چیز جو اس کھیل میں اہمیت کی حامل ہے مردانگی اور پہلوانی کے جذبے کو بیدار کرنا ہے، جیسا کہ اس کشتی کا آغاز، مولا علی ع سے مدد مانگ کر اور صلوات سے ہوتا ہے تماشائی محتلف اوازوں اور نغموں سے ملک کی محبت اور لڑنے کے جذبے کو اجاگر کرتے ہیں اور اس طرح سے سماں باندھتے  کہ جنگ اور ملکی فتح کا نقشہ لوگوں کی نظروں میں گھوم جاتا۔ یہ کشتی مختلف تکنیک کی حامل ہے اس کی سب سے عام تکنیک لنگ ہے جس میں مختلف پہلوان شہرت رکھتے ہیں یہ کردار ہمیشہ سے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں جب دوپہر میں کشتی ختم ہوتی ہے تو دلہن کے گھر رخصتی کے لئے جاتے ہیں، دلہن گھوڑے پر سوار ہوتی ہے جبکہ دولہا پیدل اسے اپنے گھر لاتا ہے دلہن کے گھوڑے کے ارد گرد جوان رقص کرتے ہیں اورسب خوشی کا آظہار کرتے ہیں۔جیسے ہی دلہن ، دولہا کے کھر پہنچتی ہے ایک بھیڑ ذبح کیا جاتا ہے اس کے بعد دولہا تھوڑی اونچائی سے دلہن کے سر پر سیب اور انار ڈالتاہے عموما ایک انڈے کا صدقہ بھی بلاؤں کو رد کرنے کے لئے دیا جاتا ہے ان رسومات کے بعد دلہن کوگھر کی طرف لے کر جایا جاتا ہے اور گھر میں داخل ہونے سے پہلے اسے قرآن  پانی اور آئینہ دکھایا جاتا ہے اور دلہن کے پاؤوں کے پاس ایک انڈہ یا شیشے کا گلاس توڑا جاتا ہے اور دلہن قرآن کو چوم کرگھر میں داخل ہو جاتی ہے۔ دلہن کو تحائف اور سلامی دینے کی باری آتی ہے جو کہ زیادہ تر پیسے سونا یا سونے کے سکوں کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ماصی میں یہ رسم ایسے بھی ہوتی تھی کہ علاقے کے بزرگوں میں سے ایک جسکی آواز تیز ہوتی اور مورد اعتماد ہوتا، سب اسی کو تحائف دے دیا کرتے تھے اور وہ دینے والے کا نام اور تحفے کی نوعیت کا اعلان کرتا رہتا اور ساتھ ساتھ ایک رجسٹر میں اس کو لکھتا بھی رہتا، تحائف کی وصولی کے بعد کھانا کھلایا جاتا اور اس طرح یہ شادی اختتام کو پہنچتی۔ وہ نکتہ جو یہاں قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ماضی میں یہ شادیاں اور رسومات دکھاوے سے عاری تھیں، اور ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ شادی بخیر و خوبی انجام پائے ہر رسم سے سادگی جھلکتی تھی مگر ابھی کچھ سالوں پہلے ، ٹیکنالوجی اور اقتصادی مسائل نے ان رسومات کو ہلا کر رکھ دیا ہے اب ان رسومات میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں پیدا کردی گئیں ہیں:

1: آجکل شادی صرف ایک رات میں ختم ہوجاتی ہے جبکہ پہلے کم سے کم بھی چوبیس گھنٹے لگتے تھے۔

2۔ جدید آلات موسیقی کا استعمال

3۔ مجموعی طور پر ،شادی کیلئے مخصوص جگہوں کے استعمال سے شادی کا انداز یکسر بدل گیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ لوگوں نے اقتصادی مسائل کی وجہ سے ان تبدیلیوں کا استقبال  کیا ہے، اب وہ آداب و رسومات جو صدیوں سے بغیر کسی تبدیلی کے لوگوں کے درمیان رائج تھے آج تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں گرچہ محققین ان تبدیلیوں سے خوش نہیں اور ان رسومات کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے کوشاں ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اج کا تیز ترین دور اس بات کا متقاضی ہے کہ علاقائی رسومات کو مختصر کیا جائے اور وہ آج کے  دور سے ہم آہنگ ہوں۔

اس آرٹیکل میں تاریخ شفاہی کے محقق نے باریک بینی سے ایک ایک رسم کی طرف اشارہ کیا ہے اور گذشتہ لوگوں کی ثقافت پر بخوبی روشنی ڈالی ہے  جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ یہ تبدیلیاں لوگوں کے گھریلو اور ذاتی آرکائیو کا حصہ بن چکی ہیں اور ریکارڈ کرکے محفوظ کر لی گئیں ہیں کیونکہ اس زمانے میں کہ جب یہ تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئییں تھیں تصویریں کھینچنے اور ویڈیوز بنانے کا رواج پیدا ہوگیا تھا اس وجہ سے دو صدیوں کے درمیان تدریجی تبدیلیوں پر تحقیق کرتے وقت ان تصاویر کو سند کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے:

1۔ ہزار مسجد کا پہاڑی سلسلہ شمال مغرب سے لے کر جنوب مشرق تک بڑھ گیا ہے۔ ان سر سبز پہاڑوں کا سلسلہ، کلات نادری، ترکمانیوں کے شمالی دشت قرہ، شمال مغرب میں شہر درگز اور جنوب مشرق میں مشہد کے دشت سے جاکر ملتا ہے، درگز کے سلسلے قوچان مین پہاڑوں کا سلسلہ اللہ اکبر کے نام سے جانا جاتا ہے اس وادی ہزار مسجد کا ارتفاع 3140 میٹر ہے۔

2۔ نیا لایین جغرافیائی اعتبار سے طول میں 59 و45 اور عرض میں 37،08 اور ارتفاع میں دریا کی سطح سے 820 میٹر بلندی پرواقع ہے۔

3۔خاکستر جو کہ مرکزی شہر کلات کا ایک حصہ ہے ایران کے صوبے خراسان رضوی کے اطراف میں واقع ہے یہ گاؤں ہزار مسجد کے دیہی ضلع میں واقع ہے۔

4۔ یہ دریاچہ ہوار مسجد کے پہاڑوں سے نکلتا ہے، دروں کو طے کرتا ہوا، پیچ و خم کھاتا، دیہاتون کو سیراب کرتا ہوا ترکمانستان میں گرتا ہے،(خراسان ایران کی جغرافیائی ثقافت، ترجمہ کاظم خادمیان، مشہد، اسلامی تحقیق کامرکز، 1380، ص 916)۔

5۔مزید معلومات کے لئے مقالے" کلات کے پانی کا پروٹوکول" ملاحظہ فرمائیں،رسالہ، پیام بہارستان2، س2، ش6، سال1388 ،صفحات 619- 626



 
صارفین کی تعداد: 8612


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔