عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: ۱۵

مرتضی سرہنگی

2023-2-12


20 مارچ 1981 کو شوش میں عراقی افواج کے ناکام حملے کے ایک دن بعد صدام حسین کے صدارتی محل سے منسلک ایک فلمی عملہ انفنٹری (لشکر پیاده) ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر میں آیا۔ کل کے حملے کی نام نہاد پیش رفت کے بارے میں فلم بنانے کے لیے، جسے عراقی ریڈیو نے متنازعہ نشر کیا، اس صورت میں کہ ہمیں اس حملے میں اسلامی جنگجوؤں کی طرف سے زبردست دھچکا لگا اور شکست ہوئی تھی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کیمرہ مینوں (ویڈیو گرافر) نے کیا تلاش کیا، انہیں مسلح افواج کے جنرل کمانڈر کی طرف سے اعلان کردہ خبر کے ثبوت نہیں ملے. آپکو ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں کہ ہمارے کتنے ہی کمانڈر نیوز ٹیم کی کمان بھی لینا چاہتے تھے۔  انہیں حکم دیا گیا کہ ہماری بکتر بند گاڑیوں کی ویڈیو بنائیں جنہیں آپ کے جنگجوؤں نے آگ لگا کر تباہ کر دیا تھا، کہ کچھ فاصلے سے ایسے ویڈیو بنائیں کہ تصویر میں یہ واضح نہ ہو کہ جنگی مشینیں عراق کی ہی ہیں۔ کیمرہ مینوں نے کام کرنا شروع کر دیا اور کمانڈروں نے مسلسل تنبیہ کی کہ مکمل طور پر جلے ہوئے اور تباہ شدہ آلات کی فلم بندی کریں تاکہ یہ واضح نہ ہو کہ فلم جعلی ہے۔

نمائش سے یہ واضح تھا کہ فلم بندی قبلی پلان پر مبنی تھی۔ انہوں نے صرف اتنی فلم بنانے پر اکتفا نہیں کیا-  کمانڈروں نے جزوی کمانڈروں کو جارحانہ انداز کا منصوبہ فراہم کیا۔

اس منصوبے کے مطابق اچھی قد وقامت کے سپاہیوں کا ایک گروپ تمام ساز و سامان کے ساتھ تیار کیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ جارحانہ اور جنگی انداز میں حرکت کریں۔ انہوں نے حکم پر عمل کیا۔ یہ مناظر بعض اوقات اتنے مضحکہ خیز ہوتے کہ سپاہی خود بھی ہنس پڑتے۔ کیمرہ-مین وہ منظر لے کر چلے گئے۔

جب میں نے یہ مناظر دیکھے تو سب سے پہلے جو چیز میرے ذہن میں آئی وہ عراقی مسلم قوم کی لاچاری اور مظلومی تھی اور پھر صدام کی پستی اور گستاخی تھی۔  ان جھوٹے پروپیگنڈوں سے صدام حسین لوگوں کو یہ یقین کرانے میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ اس کی فوج اور قادسیہ کی جنگ جیت کے نزدیک ہے۔ وہ خطے کے ممالک سے تاوان  لیتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ وہ ان کی طرف سے اس جنگ میں شامل ہوا ہے۔ وہ سب صدام حسین کی نظامی فوج اور غیر نظامی قادسیہ فوج کی ضروریات کو بلا روک ٹوک فراہم کرتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ نام نہاد مسلم ممالک کے حکمران عالمی استکبار اور اس کی ناجائز جنم لینے والی صیہونیت کے آلہ کار پر ناچ رہے ہیں اور صدام حسین کے ساتھ جرم میں شریک ہیں۔  میرے پاس صدام حسین کی قادسیه‌ کی صورت حال اور مقصد کا تجزیہ ہے اور میں نے جو کچھ کہا ہے اس کا بیشتر حصہ اسی تجزیہ کا حصہ ہے۔ میں آپ کو ایک اور مختصر پیغام دینا چاہوں گا۔

آپ دیکھیں کہ صیہونیت دنیا میں خوفناک حد تک پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا کے اکثر حکمران اور سلاطین صیہونیت کے قبضے میں ہیں اور حتیٰ وہ صیہونیت کی اجازت کے بغیر پانی بھی نہیں پیتے۔

صیہونیت کا پہلا ہدف اسلام کو مٹانا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی جرم یا خیانت سے نہیں ہچکچاتا یعنی فوجی جنگ سے لے کر نفسیاتی جنگ تک۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا مکمل طور پر صیہونیت کے قابو میں رہے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی فوجی قوتوں کو براہ راست بھی استعمال کرتا ہے اور کبھی فرعی قوتوں سے بھی استفادہ کرتا ہے، جن کی طاقت بعض اوقات اصل صیہونی فوجی قوت سے زیادہ ہوتی ہے- عراق ان فرعی(ذیلی) قوتوں میں سے ایک ہے جو اپنے دوستوں و مددگاروں کے ساتھ جنگ   کی طرف کھینچی گئی ہے اور اس کی مأموریت خطے میں اسلام کے پھیلاؤ کو سنجیدگی سے روکنا ہے۔ صیہونیت کا اصل دشمن اسلام اور اسلامی ایران ہے۔ اس بات کا امکان ضعیف نہیں ہے کہ صدام کے بعد امریکہ اور صیہونیت کے نوکروں میں سے کوئی نوکر آپ کے ملک پر فوجی حملہ کرے۔ آپ جانتے ہیں کیوں؟ میرے پاس دلیل ہے۔ جب دنیا کے نیوز چینلز آپ کے جنگجوؤں کی ایک بھی فتح کا اعلان نہیں کرتے لیکن عراقی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی جھوٹی خبریں بڑے دھوم دھام سے دنیا میں پھیلاتے ہیں تو یہ ایک طرح کی نفسیاتی جنگ ہے جو وہ آپکے ساتھ، یعنی اسلام کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ میری رائے میں نفسیاتی جنگ فوجی جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ اس طرح کے پروگراموں کے لیے گولہ بارود کی بڑی فیکٹریوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ میں بالکل واضح طور پر کہہ دوں: دنیا کے افکار اور ان کے سوچنے کا طریقہ اور فیصلہ سازی سب صہیونیت اور سامراجیت کے پریس اور ذرائع ابلاغ کے قابو میں ہے۔



 
صارفین کی تعداد: 1807


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات

ان شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ ہمیں اس بات کی خبر پیرس پہنچانی ہوگی. ہمارے ساتھی اصرار کر رہے تھے کہ جو افراد اس ملاقات میں شرکت کرنے والے ہیں ان میں مجھے بھی شامل ہونا چاہیے.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔