علماء کی تاریخ کے مطالعے میں ایک مفید کتاب
زمانہ طالب علمی
ایران، عراق اور لبنان میں صدر خاندان کی علمی اور حوزوی روایت اور جوان سید موسی کے ابھر کر سامنے آنے تک اس کے تسلسل کے بارے میں تحقیق، اس کتاب کی ایک خوبی ہے. درحقیقت مؤلف، کتاب کی مرکزی شخصیت کو اپنے خاندان اور آباؤ اجداد کے علمی اور حوزوی ماضی سے جدا نہیں سمجھتے اور انہوں نے ایک معتبر بیانیے تک پہنچنے کے لیے اس کے بارے میں تحقیق کو ناگزیر سمجھا ہےکتاب "شرح درد اشتیاق" کا تعارف
"شرح درد اشتیاق" راحلہ صبوری صاحبہ کی پانچویں کتاب ہے جو زبانی تاریخ اور دفاع مقدس لٹریچر کے سلسلے میں تدوین کی گئی ہے. کتاب کے ابواب کے درمیان ہر باب سے متعلق تصویریں اور دستاویزات پیش کیے گئے ہیں تاکہ قاری کو واقعات کی تفصیلات کا مزید اطمینان حاصل ہو سکے.امام خمینی رح کی رہائش کے لئے علوی اسکول کا انتخاب
البتہ وہ لوگ مکمل منصوبہ بندی سے آئے تھے کہ کس وقت اور کس طرح وہاں پہنچنا ہے تاکہ شاہی رجیم کے اہلکاروں سے مدبھیڑ نہ ہو اور جہاں تک مجھے معلوم ہے ان لوگوں نے کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کے لئے پہلے سے ہماہنگی کررکھی تھی۔ حتیٰ کسی بھی غیر ممکنہ صورتحال اور اہلکاروں سے جھڑپ کی صورت میں بھی تیاری کی گئی تھی۔کتاب "ننہ علی" کا تعارف
امیر اور علی کی شہادت کے بعد ھمایونی صاحبہ کی زندگی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔ انکے شوہر بیٹوں کی شہادت کا قصوروار انہیں ٹہرانے لگے اور اس سلسلے میں ان کی سرزنش کرتے رہے جس نے انکے رنج و غم میں مزید اضافہ کردیاکتاب "زیتون کی شاخوں سے عروج" کا جائزہ
احمد متوسلیان کی بچپن سے اسیر ہونے تک کی زندگی
ملک کے مغربی حصوں میں ضد انقلاب قوتوں کی جانب سے بحران پیدا کئے جانے کے دوران احمد متوسلیان کا اس سے نمٹنا اور حسن نیت اور داریوش فر جیسے افراد سے رابطہ برقرار کرنے کے واقعات کی وجہ سے ان واقعات کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔کتاب ’’فرسان‘‘ کا اجمالی تعارف
جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی ایران کی فوج نے بھی ایک ایسا گروہ تشکیل دیا تھا جس کا کام یہ تھا کہ ان کا کوئی فرد بعض اوقات تنہا بیس بیس کلو میٹر تک دشمن کے علاقہ میں چلا جاتا تھا اور اس علاقہ میں بارودی سرنگ بچھاتا تھا یا عراقی فوج کے جنگی سازو سامان کو خراب کیا کرتا تھا۔ یہ لوگ کمال کے شجاع لوگ تھے اور اس کام کے دوران کئی ایک لوگ شہید بھی ہو جایا کرتے تھے۔کتاب ’’ما ھم جنگیدیم‘‘[1] کا تعارف
ان خواتین کی داستانوں کو چار فصول میں بیان کیا گیا ہے ۔اس کی پہلی فصل کا عنوان ’’ قبل از انقلاب (انقلاب سے پہلے)‘‘ ہے ۔ عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اس فصل میں انقلاب اسلامی ایران سے پہلے کے واقعات درج ہیں۔ اس فصل میں ۷ روایات یا داستانیں بیان ہوئی ہیں۔کتاب ’’مجاہد پارسا‘‘ پر ایک نظر
یہ کتاب محمد کاظم عاملی کے قلم سے رشتہ تحریر میں آئی ہے۔ اس میں چار فصول میں آیت اللہ سید حسن موسوی شالی کی زندگی کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ان کی تعلیمی سرگرمیاں، ان کی دینی ، فرہنگی اور سیاسی مصروفیات کو چار فصلوں میں بیان کیا گیا ہے۔تنقید: کتاب’’سیاست و حکمت‘‘
یہ بات واضح نہیں کہ وہ واقعات جو دوسری کتابوں میں بہت تفصیل کے ساتھ درج ہیں ان کے بارے میں مکرر گفتگو کیوں کی گئی ہے۔ اس کتاب میں ان واقعات کا مقام و محل کیا ہے اور ان سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کی تیسری اور چوتھی فصل کے مطالب تقریبا ۶۶ صفحات پر مشتمل ہیں ۔ان دو فصلوں میں درج واقعات میں سے بہت ہی کم واقعات ایسے ہیں جو راوی یعنی ڈاکٹر بہشتی کی زبان سے نقل کئے گئے ہوں۔کتاب ’’این مرد پایان ندارد (بے پایان مرد)‘‘ سے دو واقعات
معلوم ہے کیا کہہ رہے ہو؟تم چاہتے ہو کہ میں دشمن کے شدید حملوں کے دوران چھٹی پر چلا جاوں؟ مجھے پتہ ہے کہ تم یہ کیوں کہہ رہے ہو۔ میرے بچہ کی وجہ سے کہہ رہے ہو نا؟1
...
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
نوحہ خوانی کی آڑ میں اہلکاروں کو چکمہ
اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا. میں نے خود کو ایک جوان نوحہ خواں کے پاس پایا جو زنجیر زنی کرنے والوں کے لیے تھکی ہوئی آواز میں نوحہ پڑھ رہا تھا. میں نے جلدی سے کہا: مولا حسین ع تمہیں اس کی جزا دیں، تم بہت تھک گئے ہو، لاؤ میں تمہاری مدد کروں اور میں نے مائیک میں پڑھنا شروع کردیاحجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام